اونٹوں کی ریس

صحرائے عرب سے شروع ہونے والا روایتی کھیل، آج پاک و ہند ، امریکا و یورپی ممالک سمیت دنیا کے 20ممالک میں مقبول ہے


اونٹوں کی دوڑ عربوں کا مقبول کھیل ہے، جو ایک دلچسپ مشغلہ ہونے کے علاوہ ان کے قومی ورثے اور لوک ثقافت کا حصہ بھی ہے ۔ دنیا میں ہونے والی گھڑ دورڑ، سائیکل ریس، کار ریس، بیل اور بھینسوں کی دوڑ جب کہ کراچی کے بعض علاقوں کی مقامی ثقافت کی علامت گدھا گاڑی ریس کے بارے میں تو لوگ جانتے ہوں گے لیکن اونٹوں کی ریس کے متعلق بہت کم افراد واقف ہوں گے۔ چند صدی قبل تک جب نقل و حمل اور باربرداری کے مشینی ذرائع ایجاد نہیں ہوئے تھے، لوگ سفری ذریعے کے طور پر گھوڑوں، خچروں ،گدھوں اور اونٹوں کا استعمال کرتے تھے۔ دور دراز کے میدانی اور پہاڑی راستوں پر سفر کے لیے گھوڑے اور خچر سودمند ہوتے تھے جب کہ صحرائی اور ریتیلے میدانوں میں اونٹ سےزیادہ سبک رفتار کوئی اورسواری نہیں تھی، اسی لیے اسے ’’ریگستانی جہاز‘‘ کا نام دیا گیا۔ عربوں کی زندگی کا دارومدار ہی اس صحرائی جانور پر ہے، اس کا دودھ اور گوشت ان کی خوراک کا حصہ ہے جب کہ ریگزاروں میں سفر کے لیے ہزاروں سال سے انہوں نے اونٹ کو ہی ذریعہ سفر بنایا ہوا ہے۔ ماضی میں جب عرب بدو قافلوں کی صورت میں سفر کرتے تھے توتپتے ہوئے ریگستانی علاقوں میں سفری صعوبتوں کو ذہن سے محو کرنے کے لیے ایک دوسرے سے ریس لگاتے ہوئے چلتے تھے۔ ساتویں صدی عیسوی میں ان کا دل بہلانے والا مشغلہ رفتہ رفتہ کھیل کی صورت اختیار کرگیا اور بعد میں عرب بدؤں کی تہذیب و ثقافت کا حصہ بن گیا۔ یہ کھیل ریگستانوں کے قریب واقع قصبات میں خاصا مقبول ہوگیا۔

20ویں صدی کے اوائل میں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی متعارف ہوا اورمتحدہ عرب امارات، مشرق وسطی، کینیا، سوڈان، چین، مصر اور منگولیا میں اس کے مقابلوں کا انعقاد ہونے لگا، بعد ازاں یہ پاکستان اور بھارت میں بھی روایتی کھیلوں کا حصہ بن گیا۔ 20ویں صدی کے وسط میں اسے آسٹریلیا ، یورپ اور امریکا میں بھی سنجیدہ نوعیت کے کھیلوں میں شامل کرلیا گیا اور وہاں اس کے مقابلے منعقد ہونے لگے۔ دنیا کے بیس ممالک میں ’’کیمل ریس ایسوسی ایشنز کا‘‘ کا قیام عمل میں آیا ، کھیل کے قواعد و قوانین اور اصول و ضوابط طے کیے گئے جن میںریس میں حصہ لینے والے اونٹوں کی عمرکی حد کم سے کم دو سے تین سال، ریسنگ ٹریک کی لمبائی 3سے چھ کلومیٹر طے کی گئی لیکن کم عمر جانوروں کے لیے اس کی طوالت 10کلومیٹر کردی گئی۔مذکورہ ممالک میں دوڑ میں حصہ لینے والے اونٹوں کو خصوصی خوراک کھلائی جاتی ہے، انہیں سائنٹیفک اصولوں کے تحت تربیت دی جاتی ہے، ان کی ریسوں کا اہتمام گھڑ دور اور موٹروں کی ریس کی طرح کیا جاتا ہے، شائقین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے انہیں زیادہ سے زیادہ پرکشش بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، خطیر رقوم کی بازیاں لگائی جاتی ہیں، بھاری انعامات رکھے جاتے ہیں جب کہ سیاحوں کی دل چسپی کے لیے ان میں مختلف النوع تفریحات بھی رکھی جاتی ہیں۔ ریس میں دوڑنے والے اونٹوں کی رفتار 40سے 65کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ ایک عشرہ قبل تک اونٹوں کو دوڑانے کے لیے ان پر کم سن جوکی بٹھائے جاتے تھے جو توازن بگڑنے کی وجہ سے اکثر اوقات حادثات سے دوچار ہوجاتے تھے، جس کے بعد ساری دنیا میں اس اقدام کو ظالمانہ تصور کیا جانے لگا، جس کے بعد اونٹ ریس میں ننھے جوکیوں کی خدمات لینے پر پابندی عائد کردی گئی۔ 2005ء میں عرب ممالک میں اونٹ ریس کے لیے مشینی جوکی یعنی روبوٹ کا استعمال شروع ہوا۔ یہ روبوٹ بھی دو سے تین سال کے بچوں کی طرح انتہائی ہلکے پھلکے ہوتے ہیں، انہیں اونٹ کی پشت پر تسموں سے کسا جاتا ہے اور اس کی مہار ان کے ہاتھوں میں دے دی جاتی ہے۔ اونٹ، ریس کے مخصو ص ٹریک پر دوڑتے ہیں، دوسرے ٹریک پر اونٹوں کےمالکان جیپوں اور کاروں میں ساتھ ساتھ چلتے ہیں جن کے ہاتھ میں اپنے مشینی جوکیز کو کنٹرول کرنے کے لیے ریموٹ ہوتے ہیں، جن کا استعمال کرتے ہوئے وہ اونٹوں کو انسانوں کی طرح کنٹرول کرکے دوڑاتے ہیں۔فروری 2012ء میں روبوٹ کا بہ طور جوکی ’’کیبڈ‘‘ میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی دوڑ میں بھی استعمال کیا گیاتھا۔

دوبئی میں اونٹوں کی ریس کا انعقاد ایک قومی کھیل کے طور پر کیا جاتا ہے، ان کے لیے صحرا میں ٹریکس بنائے جاتے ہیں، جانوروں کو عمدہ قسم کی خوراک دی جاتی ہے، جن میں اعلیٰ قسم کی کھجوریں، شہد، تازہ دودھ اور مکھن شامل ہیں۔ ریاست کے مختلف علاقوں سے ان کے لیے اچھی قسم کی گھاس لائی جاتی ہے، ان کی رہائش کے لیے صحت افزا مقامات کا انتخاب کیا جاتا ہے اور انہیں بہتر سے بہتر ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گرمیوں میںاونٹوں کو مخصوص قسم کے درختوں کے پتے کھلائے جاتے ہیں۔ انہیں جب تربیت دینے کے لیے اصطبل سے باہر نکالا جاتا ہے تو اس سے قبل ان کے منہ پر حفاظتی ماسک چڑھا دیا جاتا ہے تا کہ صحرا میں دوڑتے ہوئے یہ کوئی ضرر رساں قسم کی جڑی بوٹی نہ کھالیں۔ ان کے اصطبلوں کے ساتھ ہمہ وقت معالجین کی ڈیوٹی رہتی ہے۔ چھ سے دس کلومیٹر کی دوڑ میں جیتنے والے اونٹ کے مالک کو 10ملین درہم کا انعام دیا جاتا ہے۔

مسقط میں بھی اونٹوں کی دوڑ کا خصوصی انعقاد کیا جاتا ہے۔ اومان کے سلطان قابوس بن السعیدآل سعید نے جدید اور قدیم ٹیکنالوجی کے امتزاج سے ’’ولایتس‘‘ کے قصبے میں اونٹوں کے لیے شاہی نگراں مرکز قائم کیا ہے، جہاں شاہی اونٹوں کے علاوہ نجی ملکیت میں رہنے والے عام اونٹوں کی بھی نگہداشت کی جاتی ہے۔ ریس میں دوڑنے والے اونٹوں کو مخصوص قسم کی تربیت دی جاتی ہے جس کے لیے کوالیفائیڈ ٹرینر رکھے جاتے ہیں جو انہیں جدید اندازسے مشقیں کراتے ہیں۔ اس قصبے میں اونٹوں کی ریس کے دو روزہ مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اونٹوں کی عمر کے لحاظ سے پہلے دن ریس کے بارہ راؤنڈز منعقد ہوتے ہیں جب کہ دوسرے دن کی ریس کے پانچ راؤنڈز ہوتے ہیں۔ ’’ولایتس ریس ‘‘ میں شاہی مرکز کی جانب سے وضع کیے گئے اصول و ضوابط پر سختی سے عمل کرایا جاتا ہے۔ ان میں سے پہلی شرط اونٹ کا صحیح النسل اومانی نسل ہونے کی ہے جب کہ اس کے مالک کا بھی اومانی شہریت کا حامل ہونا ضروری ہے۔ صحرا میںدوڑ کے لیے خصوصی ٹریکس بنائے جاتے ہیں، اونٹوں کی حد رفتار 65کلومیٹر فی گھنٹہ مقرر کی جاتی ہے۔ ہرولایتس ریس میں اول، دوئم اور سوئم نمبر پر آنے والے اونٹ مالکان کو خطیر رقوم کے نقد انعامات سے لے کر بیش قیمت کاریں تک انعام میں دی جاتی ہیں۔ یہ ریسیں عموماً عام تعطیل یا سالانہ تہواروں و قومی دنوں کے موقع پرہونے والی تقریبات کے دوران منعقد کی جاتی ہیں۔ ولایتس کے علاوہ ’’سیب‘‘، ’’سلالہ‘‘ اور بطینی کے علاقوں میں بھی اونٹ ریس کا انعقاد ہوتا ہے۔ جیتنے والے اونٹ کو بھاری رقم کے عوض فروخت کردیا جاتا ہے۔

بھار ت میں راجستھان کے صوبے میں پشکار کا قصبہ اونٹ ریس کے لیے معروف ہے۔ یہاں ہر سال اکتوبر ، نومبر میں ’’پشکار میلے‘‘ کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس پانچ روزہ میلے میں دنیا بھر سے شائقین، اس قصبے کا رخ کرتے ہیں۔ اونٹوں کی دوڑ اس میلے کی تقریبات کا خصوصی حصہ ہے جس میں بھاری شرطیں لگائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں صوبہ پنجاب میںچولستان کا صحرا بھی اس روایتی دوڑ کے لیے مشہور ہے۔ وہاں بھی اونٹ دوڑ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ریگستانی علاقے میں بین الاقوامی معیار کے مطابق ریس ٹریکس بنائے جاتے ہیں۔ مقابلے میں جیتنے والے شرکاء کو نقد انعامات و تحائف سے نوازا جاتا ہے۔

مصر کے صحرائے سینائی میں اکتوبر سے اپریل تک اونٹ ریس کے متعدد مقابلے ہوتے ہیں۔ اگرچہ اونٹوں کی دوڑ میں کم سن جوکیوں کو سوار کرانے پر عالمی سطح پر پابندی عائد کردی گئی ہے، لیکن صحرائے سیناکی ریس میں حصہ لینے والے اونٹوں پر گیارہ سال کی عمر کے بچے جوکی کی صورت میں بٹھائے جاتے ہیں۔ انہیں اونٹوں کی سواری کا تجربہ وراثت میں ملا ہوتا ہے اور یہ انتہائی مشاقی سے اونٹوں کو دوڑاتے ہیں۔ سینکڑوں اونٹ صحرا کی گرد اُڑاتے ہوئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دھن میں مگن نظر آتے ہیں۔ اکتوبر سے مارچ تک یہاں چھوٹی چھوٹی ریسوں کا انعقاد ہوتا ہے لیکن اپریل کے مہینے میں بڑے مقابلوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، جنہیں بین الاقوامی ٹورنامنٹس کا درجہ حاصل ہے۔ ان میں دنیا بھرسے مختلف ممالک کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔اس کے علاوہ ’’صحرا ال اریش‘‘ اور دیگر ریگستانی علاقوں میں بھی اونٹوں کی دوڑیں منعقد ہوتی ہیں۔

شمالی کینیا میں بھی اونٹوں کی دوڑ کا شمار مقبول کھیلوں میں کیا جاتا ہے۔ کینیا میں ’’سمبورو کاؤنٹی‘‘ میں ’’مارالل‘‘ کا پہاڑی قصبہ واقع ہے، جہاں ’’ ہارے کیمل کلب‘‘ اور سیاحتی کیمپس بنائے گئے ہیں۔ اس کلب کے زیر اہتمام ہر سال اگست کے مہینے میں ’’مارالل ریس‘‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں کینیا کے مختلف صحرائی علاقوں سے اونٹ اس دوڑ میں حصہ لینے کے لیے لائے جاتے ہیں۔ان ریسوں کو دیکھنے کے لیےدنیا بھر سے شائقین کینیا آتے ہیں اور ’’مارالل‘‘ کے علاقے میں واقع سیاحتی کیمپس میں قیام کرتے ہیں۔ریس میں حصہ لینے کے لیے مشرق وسطیٰ، متحدہ عرب امارات سے لوگ اپنے اونٹوں کے ساتھ یہاں آتے ہیں اور انعامات و اعزازات جیت کر اپنے ممالک واپس لوٹتے ہیں۔ ریس کا اہتمام قصبے کے مرکزی حصے میں کیا جاتا ہے۔ اگست کے آخر میںیہاں ’’مارالل کیمل ڈربی ریس ‘‘ کا انعقاد ہوتا ہے ۔ عالمی سطح کی اس ریس کا ااہتمام 1990سے کیا جارہا ہے جیسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔

کویت میں بھی اس کا انعقاد ہر سال نومبر سے اپریل کے دوران روایتی انداز میں کیاجاتا ہے۔ ’’الطرف کیمل ریسنگ کلب ‘‘ کے زیر اہتمام ان مہینوں میں ’’ال جھارا‘‘ کے مقام پر جمعہ اور ہفتے کو اونٹ دوڑ کا انعقاد ہوتا ہے جس کے لیے سات کلومیٹر طویل ٹریک بنایا گیا ہے۔ کویت میں اس کھیل کی فیڈریشن موجود ہے جب کہ اس کے سربراہ حسن بن منیا دوّاس ، جوعرب کیمل ریسنگ فیڈریشن کے بھی چیئرمین ہیں۔ انہوں نے اس سال جون میںدنیا کے بیس ممالک کی ایسوسی ایشنز پر مشتمل، انٹرنیشنل کیمل فیڈریشن کے قیام کا اعلان کیاہے۔

روس میں بھی چند سالوں کے دوران اونٹوں کی دوڑ نے مقبولیت حاصل کرلی ہے۔ جنوبی روس میں قازقستان کی سرحد کے ساتھ استراخان کے صوبے میں اونٹوں کے فارم بنے ہوئے ہیں جن میں باختری نسل کے اونٹوں کی افزائش کی جاتی ہے۔2009سے صوبے کے ضلع پرائیوولشکی کے قصبے ’’ٹرائی پوتوکا‘‘ میں اونٹوں کی پہلی ریس کا انعقاد کیا گیا، جس کے بعد سے ہر سال اس علاقے میں اونٹ دوڑ کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ دو درجن کے قریب اونٹ دو کلومیٹر طویل ٹریک پر دوڑتے ہیں، جیتنے والے مالکان کو100,000روبل یعنی 2500امریکی ڈالر انعام میں دیئے جاتے ہیں۔

جرمنی میں اونٹ ریس کا انعقاد سب سے پہلے کولون شہر کے ریس کورس گراؤنڈ میں 1969ء میں کیا گیا۔اس کے 39سال بعدمئی 2008میں جرمنی کے شہر برلن میں ’’اورینٹ ریس‘‘ کے نام سے اونٹوں کی ریس کا انعقاد ہوا جس میں 30اونٹوں نے حصہ لیا جن پر جوان العمر جوکی سوار تھے۔ یہ اونٹ خصوصی طور پر تیار کیے گئے ٹریک پر دوڑے جسے ہزاروں ٹن ریت ڈال کر بنایا گیا تھا۔ جیتنے والے سواروں کو 4000یورو بہ طور انعام دیئے گئے۔ خلیج کے چھ ممالک کی مشترکہ تعاون کونسل کے تعاون سے میونخ میں ہر سال اونٹوں کی پانچ روزہ دوڑ کا انعقاد ، اکتوبر فسٹ‘‘ کے میلے کے دوران کیا جاتا ہے۔ اس ریس کو’’ 1001نائٹس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ تقریباً دو کلومیٹر طویل ٹریک پر اونٹ 40کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑتے ہیں، جن پر نہایت ہلکی قسم کے مشینی جوکی سوار ہوتے ہیں۔2015میں اس ریس کے انعقاد کے لیے 9ہزار ٹن ریت بچھا کر خصوصی ٹریک بنایا گیا تھا

برطانیہ میں بھی 2009میں ستمبر کے مہینے میں پہلی اونٹ دوڑ کا انعقاد کیا گیا، جس کا اہتمام ’’ساراسینز رگبی کلب‘‘ کےتحت کیا گیا تھا۔ یہ ریس ٹاور برج کے نزدیک ’’پوٹرز فیلڈ‘‘ سے شروع ہوکر 75میٹر کے فاصلے پر اختتام پذیر ہوئی۔ دوکوہان والے ’’سارا‘‘ نامی اونٹ نے یہ مقابلہ 17سیکنڈکے مختصر ترین وقت میں فنشنگ پوائنٹ پر پہنچ کرجیتا۔

متحدہ عرب امارات میںاونٹوں کی دوڑ کا انعقاد اکتوبر سے اپریل کے دوران کیا جاتا ہے ۔ ان مہینوں میں عرب کے خطے میں موسم خنک اور اس کھیل کے لیے سازگار ہوتا ہے ۔ ریس والے دن اونٹوں کے ٹرینر اور مالکان جمع ہوتے ہیں، اور باہمی مشاورت سے ریس کے فاصلے اور انعامات کا تعین کیا جاتا ہے۔ ان ریسوں میں 25سے 30اونٹ حصہ لیتے ہیں۔

امریکا میں ورجینیا سٹی میں اونٹوں کی ریس کا انعقاد تقریباً 59 سال پہلے شروع ہوا۔ 1959ء میں ورجینیا کے ایک مقامی اخبار کے ایڈیٹرباب رچرڈز نے ریاست کے ایک دیہی قصبے میںمنعقد ہونے والی، اونٹوں کی ریس کی ایک فرضی کہانی اس انداز میں شائع کی کہ لوگ اسے حقیقت سمجھ بیٹھے۔ سان فرانسسکو کے ایک اخبار کے ایڈیٹر نے اسے دوبارہ اپنے اخبار میں شائع کیالیکن جب اسے یہ معلوم ہوا کہ یہ ایک من گھڑت کہانی تھی تو وہ اس پر بہت برانگیختہ ہوا ۔ باب رچرڈز نے اسی سال اپنی خفت مٹانے کے لیےاپنے قصبے میں اونٹوں کی دوڑ کے انعقاد کا اعلان کیا۔ اس ابتدائی اونٹ دوڑ میں اونٹ ایک گیٹ سے نکلتے اور نیم دائرے کی صورت میں بنے ہوئے ٹریک پر دوڑتےہوئے واپس گیٹ پر آجاتے۔ اس ریس کے بعد یہ مقابلے ورجینیا میں مقبولیت اختیار کرگئے، اور آج ان کے بین الاقوامی سطح کےورنامنٹس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ہر سال مئی میں لیبر ڈے کے بعد پہلے سنیچر کو ان کا انعقاد ’’رینو‘‘ کے قصبے سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پرایک وسیع و عریض اسٹیڈیم میں بنے ریسنگ ٹریک پر کیا جاتا ہے، جہاں داخلے کے لیے ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے امریکا کی مختلف ریاستوں اور یورپی ممالک سے بڑی تعداد میں تماشائی ذاتی طور سے یا آئن لائن ٹکٹ خرید کر ریس دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
چین میں اونٹوں کی ریس کا انعقاد 20ویں صدی کےاوائل سے ہوا،1985میں اسے سرکاری طور سے صحرائے گوبی کے قرب وجوار کے میں واقع قصبات کے روایتی کھیلوں کے مقابلوں، جن کا انعقاد ’’نیدامو‘‘ کے نام سے کیا جاتا ہے، شامل کیا گیااور وہاں باقاعدہ اونٹوں کی ریس کا انعقاد ہونے لگا۔ 2011میں دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ریس دیکھنے میں آئی، جس میں555اونٹوں نے دوڑ کر ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا لیکن 2015منگولیا میں ہونے والی ریس میں 1108اونٹوں نے حصہ لے کر نہ صرف یہ ریکارڈ توڑ دیا بلکہ اس ریس کا اندراج گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دنیا میں اونٹوں کی سب سے بڑی ریس کے طور پر کیا گیا۔ منگولیا میںصحرائے گوبی سے ملحقہ علاقے ’’ڈالانزاڈگان‘‘میں ’’تیمینی بیئر‘‘ کے نام سے اونٹوں کا ایک تہوار منعقد ہوتا ہے، جس میں دنیا کی سب سے بڑی اونٹ ریس کا انعقاد کیا جاتا ہے جسے دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں تماشائی اس ریگستانی علاقے میں آتے ہیں۔
آسٹریلیا میں اونٹوں کی دوڑ کے مقابلوں کا آغاز ابتدا میں مقامی کھیل کے طور پرہوا، مقبولیت بڑھنے کے بعد اس کے مختلف ناموں ٹورنامنٹ منعقد ہونے لگے۔ 1970میں ملکی سطح پر پہلی مرتبہ ’’ایلس اسپرنگزکپ‘‘ اونٹ ریس کاانعقاد کیا گیا جس کا انعقاد ہر سال کیا جاتا ہے۔ جیتنے والے کو گولڈن کیمل کپ کے علاوہ 1700آسٹریلین ڈالر کا انعام بھی دیا جاتا ہے۔ اس میں۔ 1988میں دنیا کی سب سے طویل فاصلے کی اونٹ ریس آسٹریلیا کے صحرا میں منعقد ہوئی، جس کا آغاز مشرقی ساحلی شہر ’’ایئرزراک‘‘ سے ہوا اور 3,236کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکےگولڈ کوسٹ پر اختتام ہوا۔

 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 192435 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.