سرکاری لوٹ کھسوٹ کا مہذب طریقہ

پٹرول ڈیزل کی قیمت عوام کے لیے سوہان جان بن چکی ہے مگر حالیہ تخفیف سے قبل تک مرکزی حکومت اس مسئلہ کے وجود سے انکار کرتی رہی ۔ پچھلے دنوں ٹیلی ویژن پر ہونے والی ایک بحث کے دوران اس کھلے عام مظاہرہ بی جے پی کے ترجمان گوپال جی اگروال نے کیا۔ سمبت پاترا کی مانند گوپال جی نوٹنکی ترجمان نہیں ہیں بلکہ معیشت کے مسائل پر حکومت کی سنجیدہ ترجمانی کے لیے انہیں بھیجا جاتا ہے۔ مباحثے کے دوران جب ان سے اس بابت پوچھا گیا تو انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ایندھن کی قیمت بڑھانا سرکار کا ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے۔ اس جواب نے اسی پینل میں موجود آر ایس ایس کے ترجمان کو ناراض کردیا اور انہوں نے کہا کہ یہ بات آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ اس کے جواب میں گوپال جی نے جواز پیش کیا کہ حکومت کے منصوبوں کو بروئے کار لانے کے لیے یہی ایک حکمت عملی ہے اوراوپر سے یہ سوال ٹھونک دیا کہ اگر ہم ایسا نہ کریں تو آپ بتائیں کہ کیا کریں ؟ اس پر آر ایس ایس کا ترجمان لاجواب ہوگیا اور سمجھانے لگا کہ کم ازکم یہ بات اس طرح کھلے عام نہیں کہی جانی چاہیے۔

گوپال جی کا سوال نامعقول تھا کیونکہ حکومت کا کام سوال کرنا نہیں بلکہ جواب دینا ہے لیکن سنگھ اور بی جے پی کی اس نوک جھونک کے اندر اصل مسئلہ پوشیدہ ہے۔ سرکاری خزانے کی آمدنی بڑھانا حکومت کی ایک ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کا آسان ترین ذریعہ ایندھن پر لگایا جانے والا ٹیکس ہے۔ ایک زمانے میں سعودی عرب کے بادشاہ ملک عبداللہ کے سامنے یہ سوال تھا تو انہوں نے اپنے ماہرین کو اس وقت عالمی بنک کے سابق گورنر منموہن سنگھ سے رجوع کروایا ۔ منموہن سنگھ نے حالات کا جائزہ لے کر مشورہ دیا کہ ایندھن پر سبسڈی کم کردی جائے تو یہ مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہوجائے گا ۔ ملک عبداللہ نے اسے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ اس سے عام آدمی متاثر ہوگا ۔ یعنی ملوکیت تک میں عوام کی ناراضی کا خیال کرکے ایندھن پر سبسیڈی جاری رکھی گئی لیکن جمہوریت میں اوپر سے ٹیکس لگا کر عوام کا استحصال کیا جارہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکار دیگر ذرائع سے خزانے کی آمدنی بڑھانے میں ناکام ہے ۔ خود سنگھ پریوار بھی کوئی حکمت عملی وضع کرنے سے قاصر ہے اس لیے ناکامی کے برملا اعتراف سے روک رہا ہے ۔

پٹرول ڈیزل کے کھیل سمجھنے کے لیے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کی قیمت کیسے طے ہوتی ہے ؟ ریفائنری میں (۴ نومبر کے بمطابق) قابلِ استعمال پٹرول کی قیمت 47.28 اورڈیزل کی 48.36 بنتی ہےاس پر تقریباً 30پیسے رسد و حمل کا خرچ ہوتاہے۔مرکزی حکومت پٹرول پر فی لیٹر 32 روپئے 90پیسے اور ڈیزل پر 31روپئے80 پیسے ایکسائز ڈیوٹی وصول کرتی ہے ۔ اس میں بالترتیب 5اور 10 روپیہ کی راحت دی گئی ہے ۔ ڈیلرکو پٹرول کے ایک لیٹر پر 3روپیہ 90 پیسہ اور ڈیزل پر 2 روپیہ 61 پیسہ کمیشن ملتا ہے۔اب اس پر ریاستی سرکار ویٹ لگاتی ہے جو دہلی میں بالترتیب 35 روپیہ 31 پیسہ اور 14روپیہ 37پیسہ ہے ۔ اس طرح ایندھن کی قیمت دوگنا سے زیادہ ہوجاتی ہے۔ مرکزی حکومت نے جب اپنا حصہ کم کیا تو صوبائی حکومتوں نے بھی ویٹ میں کمی شروع کردی اور تیل کا بھاو کم ہونے لگا ۔ اس طرح قومی دارالحکومت میں جمعرات 4 نومبر کو پٹرول 6.07 روپے فی لیٹر اور ڈیزل 11.75 روپے سستا ہو گیا ۔ اس دن دہلی میں پٹرول کی قیمت 103.97 روپے فی لیٹر اور ڈیزل 86.67 روپے فی لیٹر پر آ گئی تھی ۔

اس تبدیلی سے سرمایہ داروں کی آمدنی میں کوئی کمی نہیں ہوئی لیکن گوپال جی جس سرکاری خزانے کے لیے فکرمند تھے اس پر اس کا اثر ضرور ہوا ۔ باقی ماندہ معاشی سال میں اب مرکزی سرکارکے خزانے کے اندر اس سے 43 لاکھ کروڈ روپئے کی کمی واقع ہوگی ۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لینا دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ ’بہت ہوئی مہنگائی کی مار، اب کی بار مودی سرکار‘ کا نعرہ لگانے والی مرکزی حکومت نے پچھلے 6 سالوں میں عوام کا کس طرح خون چوسا ہے۔ 2014 میں جب مودی جی نے اقتدار سنبھالا تو پٹرول پر ایکسائز ڈیوٹی صرف 9.48 روپیہ فی لیٹر تھی ایک سال بعد وہ دوگنا یعنی 19.36 روپیہ ہوگئی یعنی پہلے ہی سال مودی جی کے بلے ّبلےّ ہوگئے ۔ اس کے بعد 2020 تک یہ تین گنا یعنی 32.90 روپیہ فی لیٹر پر جاپہنچی۔ اب یہ 27.90 روپیہ پر ہے ۔ پٹرول کی قیمت کو سرکاری اختیار سے باہر کرنے کا فیصلہ کیا منموہن سرکار نے کیا تھا ۔ اس کی مخالفت میں بی جے پی نے عوام سے بغاوت کرکے ٹیکس کی ادائیگی نہیں کرنے کی دعوت دی تھی ۔ اس طرح کا نگریس کی مخالفت کرنے والوں نے جب خود اقتدار سنبھالا تو پیچھے جاکر فیصلہ بدلنے کے بجائے جو ڈیزل سرکاری اختیار کا تابع تھا اسے بھی آزاد کردیا ۔

ڈیزل کی ایکسائز ڈیوٹی 2014میں صرف 3.56 روپیہ فی لیٹر تھی لیکن مودی جی نے ایک سال بعد اسے تقریباً ڈھائی گنا بڑھا کر 11.83 روپیہ کردیا۔ یہ تھا ’سب کا ساتھ اور سب کا وکاس‘ کے نعرے کا مطلب ۔ 2020 تک اسے تین گنا بڑھا کر اسے 31.80کردیا گیا اور اب گھٹا کر 21.80 پر لایا گیا ہے۔ یعنی اس کٹوتی سے قبل اس ظالم سرکار نے ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی دس گنا سے بھی زیادہ بڑھا دی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا یکم نومبر 2017سے یکم نومبر 2021 کے درمیان دہلی کے اندر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں چالس رویہ سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔ افسوس کی بات یہ ہے کورونا کی وباء کے دوران جبکہ عوام کا روزی روزگار ختم ہوگیا تھا اور وہ نانِ جوئیں کے محتاج ہوگئے تھے تب بھی یہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔

یہ غالباً دنیا کی سب سے بڑی لوٹ مار تھی جو ایک قوم پرست حکومت کے ذریعہ عمل میں آئی اس کے باوجود میڈیا کی مہربانی سے ملک کے لوگ مودی جی کو اپنا سب سے بڑا خیر خواہ سمجھتے رہے اور ’آئے گا تو مودی ہی‘ کا نعرہ لگاتے رہے ۔ اس کو کہتے ہیں جمہوریت کا فریب جس میں آج ساری دنیا مبتلا ہے ۔ اس بھیانک نظام میں عوام کی مرضی سے منتخب ہونے والے رہنما بڑی خوش اسلوبی سے اس کو ذبح کرکے اوپر سے اپنا احسان جتاتے ہیں ۔ اس استحصال میں بی جے پی اور غیر بی جے پی ریاستی سرکاریں بھی پوری طرح شریک تھیں اور خوب ویٹ وصول کرتی رہیں لیکن اب انہیں بھی ہوش آیا ہے اور ان لوگوں نے بھی اس میں کمی کرنی شروع کی ہے ۔ اس کمی کے اندر بھی سیاسی عنصر صاف دکھائی دیتا ہے یعنی جس کا انتخاب جتنا قریب ہے اس نے اتنی زیادہ کمی کی ہے اور جو جتنا دور ہے اس کی کٹوتی اتنی ہی کم ہے۔

مقبولیت بڑھانے کی اس دوڑ میں سب سے پہلےاوڈیشہ حکومت نے پٹرول اور ڈیزل دونوں پر 3 روپے فی لیٹر ویٹ کی کمی کا اعلان کیا۔ اسے آگے بڑھاتے ہوئے ہریانہ حکومت نے ریاست میں پٹرول اور ڈیزل پر ویٹ کی شرح میں کمی کر دی ۔ اس طرح ہریانہ کے اندر پٹرول اور ڈیزل دونوں 12 فی لیٹر سستا ہو گیا۔ اس اعلان کے چند گھنٹے بعد آسام، گوا، تریپورہ، کرناٹک، اتراکھنڈ، منی پور، گجرات، یوپی اور بہار کی حکومتوں نے بھی ایندھن پر ویٹ کم کرنے کا اعلان کیا۔ اس میں گوا کے وزیر اعلیٰ پرمود ساونت نے سب پر سبقت لیتے ہوئے پٹرول اور ڈیزل پر 7 روپے کم کرنے کا اعلان کردیا جس سےڈیزل کی قیمت میں 17 روپے فی لیٹر اور پٹرول کی قیمت میں 12 روپے فی لیٹر کی کمی ہو گئی۔ یہ اگلے سال ہونے والے انتخاب کی برکت ہے۔

اتر پردیش کی حکومت جہاں 6؍ ماہ کے اندر انتخاب ہونے والے ہیں بھی حرکت میں آگئی اور ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں 12 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کردیاجبکہ گجرات اور آسام جہاں الیکشن دور ہے صرف 7 روپے کی تخفیف کا اعلان کیا گیا اور بہار میں یہ کٹوتی سب سے کم ہے ۔یہ بوکھلاہٹ کے اقدامات ہیں جو عوام کو بہلانے پھسلانے کے لیے کیے جارہے ہیں تاکہ انتخاب تک انہیں خوش کرنے بعد بلی کا بکرا بنایا جاسکے۔ سچ تو یہ ہے کہ مئی 2014 میں پٹرول کی قیمت 71.41 روپے اور ڈیزل کی قیمت 55.49 روپے فی لیٹر تھی ۔ اس وقت خام تیل کے دام 105.71 ڈالر فی بیرل تھے۔ اب چونکہ عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت 82 ڈالر فی بیرل ہے، تو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 2014 کے برابر یا اس سے کم ہونی چاہئیں لیکن کیا یہ اس حریص و سفاک سرکار سے ہوسکے گا؟ اوراگر اس نے ایسا کردیا تو اس کا فضول خرچی پر مبنی سینٹرل وسٹا پروجکٹ کا خواب کیسے شرمندۂ تعبیر ہوگا ۔ وزیر اعظم 8 ہزار کروڈ کے جہاز میں کیسے عیش فرمائیں گے؟ غریب عوام کا خون چوس کرکے عیش و مستی کا جو چسکہ بی جے پی لگ چکا ہے وہی اس کا سب سے بڑادھرم سنکٹ ہے اور بعید نہیں اس کو لے ڈوبے۔ یہ لوگ ٹیلی ویژن کے پردے عوام کے لیے مگر مچھ کی مانند آنسوبہاتے ہیں مگر کیمرا بندکرکے ملائی کھاتے ہیں ۔ اس صورتحال کو اکبر الہ بادی نے کیا خوب بیان کیا تھا ؎
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ

 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228704 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.