ایندھن‌ ‌کی‌ ‌بھڑکتی‌ ‌آگ‌ ‌پرانتخابی‌ ‌ناکامی‌ ‌کا‌ ‌پانی‌

مثل مشہور ہے ’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘۔پچھلے ساڑھے سات سالوں میں ہندوستان کے بھولے بھالے عوام مودی جی کو اپنے سر پر اٹھا کر گھومتے رہے ۔اس کے برعکس وزیر اعظم نے انہیں پہلے تو قوم پرستی کی شراب پلاکر مدہوش کردیا اور جب وہ نشے میں ٹُن ہوگئے تو ان پر مہنگائی کے کوڑے برسانے لگے۔ اس کا اثر یہ تھا کہ جب کیمرے کے سامنے بھکتوں سے پوچھا جاتا کہ پٹرول کی قیمت سو روپئے ہوگئی ہے۔ اس پر وہ کیا سوچتے ہیں تو جواب ملتا یہ قیمت ۵۰۰ روپئے ہوجائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن مودی ضروری ہے ۔ مودی اور یوگی کو اپنے او پر لازم کرلیا گیا تھا کیونکہ وہ مسلمانوں کو ٹھیک کررہے ہیں۔ اس لیے انہیں اقتدار میں رکھنے کے لیے ہر قربانی پیش کی جارہی تھی ۔ یہ انسان نہیں نفرت کی شراب بول رہی تھی لیکن نشہ دائمی نہیں ہوتا ، جلد یا بہ دیر اتر جاتا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو پیٹھ کے زخموں سے بہنے والا لہو پکارتا ہے اور درد کی ٹیس محسوس ہوتی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخاب کے نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ نشہ ہرن ہونے لگا ہے۔

بی جے پی کے آئی ٹی سیل میں اسپن ڈاکٹرس کی ایک فوج براجمان ہے۔ وہ اپنی شکست کو فتح اور دشمنوں کی کامیابی کو ناکامی بناکر پیش کرنے میں ماہر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انتخاب کے بعد پہلے تو بی جے پی ہائی کمان کی تری مورتی یعنی مودی ، شاہ اور نڈا اپنے مقامی رہنماوں کو مبارکباد دیتی ہے اور پھر سارے لوکل لیڈرس مرکزی قیادت کے آگے لوٹنے لگتے ہیں۔ اس طرح جشن کا ایک جعلی ماحول بن جاتا ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوسکا۔ نہ تو اوپر سے مبارکباد کا ایک لفظ پھوٹا اور نیچے سے تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسائے گئے۔ چہار جانب قبرستان کی خاموشی تھی جسے گودی میڈیا نے ایک بھیانک خواب کی مانند بھلا دیا۔ آسام کی کامیابی کو چہار جانب سے میگھالیہ، میزورم اور مغربی بنگال کی ناکامی نے گرہن لگا دیا ۔ تلنگانہ کی کامیابی پر آندھرا پردیش کی ناکامی بھاری پڑ گئی ۔ کرناٹک کی جزوی کامیابی پر مہاراشٹر اور دادرہ نگر حویلی کی دوہری شکست نے پانی پھیر دیا۔ مدھیہ پر دیش کی جزوی فتح کو راجستھان کے مکمل صفایہ نے بے معنیٰ کردیا اور ہماچل پر دیش نے مودی اور شاہ کے ہوش اڑا دیئے۔ اس پر جب ہماچلی وزیر اعلیٰ جئے رام ٹھاکرنے بی جے پی کی انتخابی شکست کے لیے مہنگائی کو ذمہ دار ٹھہرایا تب جاکر پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں راحت دینے کا خیال آیا ۔

بی جے پی والوں نے مغربی بنگال کے لیے جتنے جواز پیش کیے ان سب کا توڑ ہماچل پر دیش میں ہوگیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نزدیک بنگال میں انتخابی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ وہاں پر موجود ممتا بنرجی کی ریاستی سرکار ہے جو پولس اور انتظامیہ کے ساتھ مل کرپولنگ بوتھ پر قبضہ کر لیتی ہے اور زعفرانی رائے دہندگان کو ڈرا دھمکا کر ووٹ دینے سے روک دیتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ بنگلہ دیش سے ملک میں در اندازی کرکے داخل ہونے والے غیر قانونی مسلمانوں کی کثیر تعداد ہے جن کی خوشنودی کی خاطر ریاستی سرکار ہندو سماج پر ظلم کرتی ہے اور اس کے عوض مسلمان یکمشت بی جے پی کے خلاف ووٹ دے کر اسے ہرا دیتے ہیں۔ ویسے ان الزامات کی کوئی حقیقت نہیں مگر ذرائع ابلاغ میں یہ گردش کرتے رہتے ہیں ۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی30 فیصد تو ہے مگر ان کی بڑی تعداد مالدہ ، مرشد آباد اور شمالی دیناج پور رہتی ہے۔ ابھی حال میں جہاں ضمنی انتخاب ہوا ان میں سے ایک بھی مذکورہ ضلعوں میں نہیں تھا اس کے باوجود ٹی ایم سی کو اوسط ۷۵ فیصد سے زیادہ ووٹ ملے۔ اس سے یہ سارے الزامات ازخود غلط ثابت ہوگئے مگر اندھے بھکتوں کو بھلا یہ بات کیونکر سمجھ میں آسکتی ہے؟
مغربی بنگال کے برعکس ہماچل پردیش میں ڈبل انجن سرکار ہے اس لیے صوبائی حکومت کی دھاندلی تو نہیں ہاں اس کی نااہلی ضرور موردِ الزام ٹھہرتی ہے مگر وزیر اعلیٰ پھر بھی مہنگائی کا بہانہ بناکر گرفت سے نکل جاتے ہیں ۔ ایک سوال یہ ہے کہ بی جے پی کے بقول جو کچھ ممتا بنرجی نے مغربی بنگال میں کردیا وہی کام جئے رام ٹھاکر ہماچل پردیش میں کیوں نہیں کرسکے؟ کیا ان کے ہاتھ پیر میں مہندی لگی ہوئی تھی ۔ ممتا بنرجی نے عورت ہونے کے باوجود ہندو ووٹرس کو روک دیاتو ہماچل پردیش میں کانگریسی رائے دہندگان کو کیوں نہیں روکا جاسکا؟ وہ خود اپنے حلقہ انتخاب منڈی میں ایک کارگل جنگ کے بریگیڈیر کو کیوں کامیاب نہیں کرسکے؟ کیا اس کی وجہ آپسی مہابھارت تھی جو پورے سنگھ پریوار کو گھنُ کی طرح کھارہی ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے سابق وزیر اعلیٰ دھومل اور قومی صدر نڈا کی سرد جنگ نے پارٹی کی جڑوں کو اس قدر کمزور کردیا ہے کہ ویر بھدر سنگھ کی غیر موجودگی کے باوجود بی جے پی چاروں خانے چت ہوگئی ۔

ہماچل پردیش میں مسلمانوں کو بھی موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ وہاں ان کی آبادی صرف 2.18 فیصد ہے اور وہ بھی جن ضلعوں میں ہے وہاں انتخاب نہیں ہوئے۔ ہماچل پردیش کے اندر کورونا کی بدانتظامی نے بھی نقصان نہیں پہنچایا اس لیے کہ وہاں کبھی بھی لاشیں تیرتی نظر نہیں آئیں اور چتاوں کے جلنے کا منظردکھائی نہیں دیا۔ ویکسین لگانے کے معاملے میں بھی یہ صوبہ دوسروں سے آگے ہے ایسے میں سوال پیدا ہوتا کہ اس ریاست کے ہندو عوام نے بی جے پی کے پیٹ پر اس قدر زور سے لات کیوں ماری؟ اس کا جواب اس قدر تلخ ہے کہ اگر جئے رام ٹھاکر اسے بیان کردیتے تو اب تک ان کو انڈمان نکوبار کی جیل میں کالا پانی پر بھیج دیا جاتا۔ ہماچل پر دیش سیب کے باغوں کی خاطر مشہور ہے۔ اس بار اڈانی جی وہاں پر سیب خریدنے کی خاطر پہنچے اور اس قدر خراب بھاو دیا کہ عوام کا غصہ آسمان کو چھونے لگا ۔ وہ جانتے ہیں کہ اس ’ہم دو ہمارے دو‘کی سرکارمیں ترازو کے ایک پلڑے پر مودی اور شاہ تو دوسرے پرامبانی اور اڈانی براجمان ہیں۔ اس لیے اڈانی سے چوٹ کھانے والے باغبانوں نے مودی کے ارمانوں کا چمن خاکستر کردیا ۔

حکومت کی طرف سے دیوالی کے موقع پر سنٹرل ایکسائز ڈیوٹی میں قدرے تخفیف کواسی تناظر میں دیکھاجانا چاہیے۔ اس سے پہلے ایندھن کی قیمتوں کو انتخاب سے قبل بڑھنے سے روکا جاتا تھا ۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں ۔ امسال ابتدا میں26 فروری کو الیکشن کمیشن نے پانچ صوبوں میں انتخابات کا اعلان کیا تھا۔ اس کے ایک دن بعد سرکاری تیل کمپنیوں نے ڈیزل کی قیمت میں 17 پیسے کا اضافہ کیا مگر پھر دو ماہ تک ایندھن کے بھاو بڑھنا بند ہوگئے۔ پچھلے سال یعنی 2020میں جب دہلی کے ریاستی انتخابات کا انعقاد 12 تا 23 جنوری کے درمیان ہوا تو اس وقت بھی پٹرول کی قیمت میں بڑھوتری رک گئی تھی۔ مئی 2018 میں جب کرناٹک کے اسمبلی الیکشن ہورہے تھے اس وقت بھی 19 دنوں تک پٹرول کا دام نہیں بڑھا حالانکہ عالمی بازار کے اندر خام تیل قیمتوں میں 5ڈالر فی بیرل کا خاطر خواہ اضافہ ہوا تھا ۔
یہ بی جے پی کا پرانا حربہ ہے۔ 2017 میں جنوری تا اپریل کے درمیان پانچ اہم صوبوں پنجاب، گوا، اتراکھنڈ ، اترپردیش اور منی پور میں انتخاب ہونے والے تھے اس لیے اچانک تیل کمپنیوں کو لگام لگا دی گئی اور انہوں نے پٹرول ڈیزل کا بھاو بڑھانا بند کردیاحالانکہ اس زمانے میں ہر دوہفتے بعد یہ قیمت بڑھ جاتی تھی۔ دسمبر 2017 میں بھی جب گجرات میں الیکشن ہونے والے تھے تو 14 دنوں تک تیل کے بھاو بڑھنا رک گئے ۔ اس تفصیل کو پیش کرنے کا مقصد اس بہانے کی قلعی اتارنا ہے کہ تیل کی قیمتوں پر سرکار کا اختیار ختم ہوچکا ہے ۔ یہ بھاو عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں کے لحاظ سے تیل کمپنیاں آزادانہ طور پر طےکرتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ بات سچ ہے تو اچانک انتخاب کے زمانے میں اختیار کہاں غائب ہو جاتا ہے؟ اور تیل کے بھاو میں اضافہ کیسے رک جاتا ہے؟ مگر اس بار سرکار ایسے خمار میں تھی کہ اس نے یہ ضرورت محسوس ہی نہیں کی لیکن نتائج کے بعد جب ہوش ٹھکانے آئے تو دل پر پتھر رکھ کر ایسا کرنے پر مجبور ہوگئی۔

مذکورہ بالا تناظر میں مرکزی حکومت کا باشندگانِ وطن کو دیوالی کا تحفہ ایک ڈھکوسلہ نظر آتا ہے ۔ اس موقع پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں سرکار نے بالترتیب 5 اور 10 روپے ایکسائز ڈیوٹی (مصنوعات ٹیکس) کم کرکےتخفیف شدہ قیمتیں فوراً نافذ العمل کردی ۔ انتخابی نتائج کے بعد حکومت کے اس فیصلے پر پرینکا گاندھی کا یہ طنز بجا معلوم ہوتا ہےکہ حکومت نے یہ دام ڈر کی وجہ سے کم کئے ہیں۔ پرینکا گاندھی نے ٹوئٹ کیا کہ، ’’یہ دل سے نہیں ڈر سے نکلا فیصلہ ہے۔ وصولی حکومت کو لوٹ کا آئندہ انتخابات میں جواب دینا ہے۔‘‘ ۔ اس بابت کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے مودی جی کی آندولن جیوی والی اصطلاح کا حوالہ دے کر کہا کہ ، ’’ٹیکس پرجینے والی مودی حکومت کو سچائی کا آئینہ دکھانے پرعوام کو مبارک باد! لیکن یاد رکھیں بی جے پی نے ضمنی انتخابات میں 14؍ اسمبلی اور 2 لوک سبھا سیٹیں ہارنے کے بعد پٹرول اور ڈیزل کی قیمت 5 روپے اور 10 روپے کم کی ہے۔‘‘ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ اگر بی جے پی کھنڈوا کی پارلیمانی سیٹ اور کرناٹک ، مدھیہ پردیش و آسام میں بھی ہار جاتی تو یہ راحت اور بھی زیادہ ہوسکتی تھی ۔ اس لیے ملک کا سوچنے سمجھنے والا طبقہ دعا کرتا ہے کہ کاش ایسا ہوتا؟
(۰۰۰۰۰۰جاری)
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1229050 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.