سیاسی جماعتوں کے جمہوری ڈھانچے کے لوازمات

آج کل پورے ملک میں حکومت کی بلڈوزنگ کا چرچا ہے سب نے دیکھ لیا کہ مشترکہ اجلاس بلاکر چند لمحوں میں 33 قوانین کیسے منظور کروالیے گئے۔ ذرا سوچئے کہ جو قوانین کسی بحث مباحثے کے بغیر منظور ہوئے؟

ان میں کتنی جان ہوگی؟ عدالتیں بعد میں کہتی بھی ہیں کہ قوانین کو سمجھنے اور پس منظر جاننے کے لیے پارلیمنٹ میں ان سے متعلقہ بحثوں سے مدد ملتی ہے۔

پارلیمنٹ میں ووٹنگ ان لاکھوں کروڑوں ووٹوں کی ہی عزت ہے جن کے ذریعے ارکانِ اسمبلی اس بڑے مسند تک پہنچے ہیں۔

ان منظور کرائے جانیوالے 33 قوانین میں سے ایک قانون نے مجھے نہال کردیا ہے۔ اس کا متن تو نہیں مل رہا۔ کچھ نکات بیان کیے گئے ہیں کہ اب سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کے لیے 10 ہزار کارکن ہونا لازمی ہوں گے اور ان میں خواتین کا 20 فیصد ہونا بھی ضروری ہوگا۔

ملک کی سیاسی جماعتوں پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ ہر سال مختلف شہروں میں پارٹی کے کنونشن منعقد کرکے ملک کو درپیش 10 مسائل کی نشاندہی کرکے ان کے حل کے لیے کنونشن میں سفارشات تیار کریں گی اور ان سفارشات کو الیکشن کمیشن ارسال کرنا لازمی ہوگا۔

ایک ادنیٰ سیاسی لکھاری ھونے کے ناطے سے میرا کہنا بھی یہی ھے کہ ہر قومی سیاسی پارٹی کو ہر سال پہلے اپنے ضلعی کنونشن بلاکر اپنے ضلعی عہدیداران منتخب کرنے چاہئیں۔ پھر منتخب ضلعی عہدیداران صوبائی کنونشن منعقد کرکے نئے صوبائی عہدیدار منتخب کریں۔

یہ نئے صوبائی عہدیدار قومی کنونشن منعقد کرکے قومی عہدیدار منتخب کریں۔ اس طرح ہر پارٹی کا ڈھانچہ جمہوری ہوجائے گا۔ ان کنونشنوں میں سارے مسائل پر بات ہوسکتی ہے۔ سفارشات مرتب کی جاسکتی ہیں۔ اس طرح کارکنوں کو اپنی اہمیت اور طاقت کا احساس بھی ہوگا۔

یہ پابندی بھی ہونی چاہئے کہ جس پارٹی کی ملک کے ہر صوبے میں شاخیں نہیں ہوں گی۔ اس کے منتخب عہدیدار نہیں ہوں گے۔ اسے نہ تو الیکشن میں حصّہ لینے کی اجازت ہو گی نہ کسی سیاسی سرگرمی کی۔

پارلیمانی جمہوریت میں حکومت کی طرح اپوزیشن کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے۔

اپوزیشن کے باقاعدہ سیکرٹریٹ ہوتے ہیں۔ ایک متبادل حکومت کے طور پر اس کی اپنی ایک کابینہ ہوتی ہے۔ مختلف شعبوں کے لیے مختلف سربراہ۔ وہ روزانہ اپنے شعبوں کی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ ہر وقت حکومت سنبھالنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

موجودہ اپوزیشن کو تو اتنے مواقع ملے کہ وہ اس دو تین ارکان کی اکثریت والی حکومت کو بہت زیادہ بحرانی حالت میں مبتلا کرسکتی تھی۔ان کے پاس عددی طاقت بھی ہے۔

سینیٹ میں تو اکثریت بھی ہے۔ یہ اگر ملکی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہوں۔

ان کے متبادل سیکرٹریٹ ہوں۔ معیشت، زراعت اور دوسرے شعبوں پر عبور ہو تو یہ ہر روز حکومت کو عوام کے کٹہرے میں کھڑے ہونے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

یہ اپوزیشن صرف تنکوں کا سہارا ڈھونڈتی ہے۔ کبھی ایک سابق چیف جج کے حلفی بیان سے امید لگا بیٹھتی ہے۔

کبھی آئی ایس آئی کے ڈی جی کی تقرری میں تاخیر پر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھادیتی ہے۔ اتنے تجربہ کار، سیاستدان ہیں، اپنے اپنے علاقوں میں مقبول جاگیردار، صنعت کار، وکلاء ان کے ساتھ ہیں۔

ملک کے معاشی حالات انتہائی ابتر ہیں۔ حکومت اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ(ن)۔ پی پی پی، جمعیت علمائے اسلام سب ہی حکومت میں رہ چکے ہیں۔ ان کی اپنی حکومتیں کیسے دریا پار کرتی رہی ہیں۔ کون سے ادارے حکومت بچانے کے لیے سرگرم ہوتے ہیں۔ کون سے ادارے حکومت گرانے کے لیے؟ انہیں یہ بھی خبر ہے کہ وہ چند Electable کونسے ہیں جو کسی کے نہیں، صرف سرکار کے ہیں؟

میں با خبر ہوں کہ آج کی اپوزیشن گزری کل کی سرکاریں، یہ عوام کا درد نہیں رکھتیں۔ پھر بھی یہ کہتا ہوں کہ روایتی جلسے جلوس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

تاریخ گواہ ہے کہ کسی حکومت کے خلاف تحریک اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر نتیجہ خیز نہیں رہی۔

اب یہ آپریشن فیئر پلے، جیکال نائٹس بہت ہوچکے۔ اپوزیشن موجودہ بحرانوں کے تناظر میں آئندہ کم از کم 10 سال کے لیے لائحہ عمل طے کرے۔

بتائیے کہ آئی ایم ایف سے کیسے نکلیں گے۔ ملکی وسائل کا استعمال کیسے کریں گے۔ ضروری اشیا کی قیمتیں غریبوں کی آمدنی کے مطابق کیسے رکھیں گے۔ 60 فی صد آبادی یعنی نوجوانوں کو مصروف کیسے رکھیں گے۔ ان کی مذہبی پالیسی کیا ہوگی۔ تعلیمی حکمت کیا ہوگی۔ علاج معالجے کے لیے کیا انتظامات ہوں گے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے کیا منصوبے ہیں؟

اسکے بعد پھر دیکھئے کہ ملک میں کیسے استحکام آتا ہے۔ آپ کی مقبولیت کیسے بڑھتی ہے۔

آخر میں میرا کہنا یہی ھے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کی نقّالی جتنی جلد چھوڑ دیں۔ ملک و قوم کے مفاد میں اتنا ہی بہتر ہوگا۔
 

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 299913 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More