|
|
ہم آئے روز سنتے ہیں کہ اسمبلیوں میں بیٹھے اراکین کی
مراعات اور تنخواہ میں اضافے کیے جارہے ہیں تاہم یہ بھاری بھرکم تنخواہیں
اور اضافے کتنے جائز ہیں یہ ہم آپ کو ایسے اسلامی واقعے کا حوالہ دے کر
سمجھاتے ہیں جو ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لیے ایک روشن مثال ہے- |
|
جب خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اقتدار سنھبالتے ہی پہلے
دن کاروبار کے لیے جانے لگے تو انہیں حضرت عمر فاروق رضی ﷲ تعالیٰ نے انہیں
روک دیا- |
|
حضرت عمر فاروق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا کہنا تھا کہ آپ خلیفہ وقت ہیں اور اگر
آپ کاروبار میں لگ جائیں گے تو ریاست کے امور کون دیکھے گا- یہ سن کر حضرت
ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی بات
کو تسلیم کیا اور رُک گئے- |
|
|
|
لیکن اب یہاں سوال یہ پیدا ہوا کہ خلیفہ وقت کے گھر کا
گزر بسر کیسے ہو؟ اس مسئلے کے حل کے لیے اس وقت کی شوریٰ کا اجلاس بیٹھا جس
میں طے یہ پایا کہ خلیفہ وقت کی تنخواہ بیت المال سے مختص کردی جائے تاکہ
خلیفہ وقت صرف ریاست کے معاملات پر توجہ دے سکیں- |
|
لیکن پھر ایک سوال اور پیدا ہوا کہ خلیفہ وقت کی تنخواہ
آخر ہو کتنی؟ جس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے خود فرمایا کہ
مدینہ میں ایک مزدور کو جتنی یومیہ اجرت ادا کی جاتی ہے اتنی ہی تنخواہ
میرے لیے بھی مقرر کی جائے- |
|
اس پر ایک صحابی نے خلیفہ اول سے دریافت کیا کہ آپ کا اس
اجرت میں گزارا کیسے ہوگا؟ جس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ نے جواب
دیا کہ میرا گزارا ویسے ہی ہوگا جیسے ایک مزدور کا ہوتا ہے اور اگر میرا
گزارا اس اجرت میں نہ ہوسکا تو پھر میں مزدور کی اجرت بڑھا دوں گا- |
|
|
|
یہ ایک روشن مثال ہے ہمارے ہر دور کے حکمرانوں کے لیے جو
اپنی تنخواہوں میں تو آئے روز بھاری بھرکم اضافے کرتے ہیں اور تنخواہوں اور
مراعات کی مد میں لاکھوں روپے وصولتے ہیں- لیکن اس کے بعد بھی انہیں یہ کم
لگتے ہیں جبکہ انہی حکمرانوں نے مزدور کی تنخواہ صرف چند ہزار روپے مقرر کر
رکھی ہے- |
|
اسلامی ریاست یا ریاستِ مدینہ جیسی ریاست قائم کرنے کے
دعوے کرنے والے حکمرانوں کے علاوہ اقتدار کے خواہشمند دیگر سیاستدانوں کو
بھی چاہیے کہ وہ ایسا ہی کوئی عزم لے کر آئیں کہ یا تو وہ مزدور کی تنخواہ
اتنی کردیں گے کہ اس میں مزدور کا گزارا بھی آسانی سے ہوجائے یا پھر اپنی
اتنی تنخواہ مزدور جتنی کر کے خود اس میں گزارا کر کے مثال قائم کریں گے- |