یہ لاٹھی مہنگی پڑے گی

وطن عزیز میں سارا سال کسی نہ کسی انتخاب کا ہنگامہ برپا رہتا ہے۔ قومی انتخاب سے لوگ فارغ ہوتے ہیں تو صوبائی الیکشن کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ پہلے ریاستی انتخاب علاقائی ہوا کرتا تھا لیکن اب چونکہ قومی رہنماوں کے پاس کوئی اور کام نہیں ہے اس لیے وہ تال ٹھونک کر اس میں کود پڑتے ہیں اور اپنا عزت و وقارتک دواں پر لگا دیتے ہیں ۔ ان کی اس حماقت کو عام طور پر کامیابی کی چادر سے ڈھانک دیا جاتا ہے لیکن اگر وہ میسر نہ آئے تو ان کی حالت ’ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘ کی ہوجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بنگال کی شکست کے بعد سنگھ نے وزیر اعظم کو یہ مشورہ دیا کہ اپنی توانائی کو قومی انتخاب کے لیے محفوظ رکھیں اور علاقائی انتخابات میں ضائع نہ کریں لیکن مودی جی کا ’دل ہے کہ مانتا نہیں‘۔ عوام کو ریاستی انتخاب سے چھٹی ملتی ہے تو بڑے شہروں کی میونسپل الیکشن وارد ہوجاتےہیں ۔ حیدر آباد میں اسے بھی قومی مسئلہ بنا دیا گیا ۔ اس کے بعد گاوں دیہات میں گرام پنچایت کی باری آتی ہے ۔ اس طرح یہ انتخابی بخار سال بھر اترتا ہی نہیں ہے۔

ہریانہ میں بہت جلد گرام پنچایت کے انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہے۔ کرنال کے ہوٹل پریم پلازہ میں اس کی انتخابی حکمت عملی وضع کے لیے ایک نشست کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر اور بی جے پی کے ریاستی صدر اوم پرکاش دھنکر کو ریاست بھرکے بی جے پی رہنما وں جمع ہونا تھا ۔ کسانوں کو اس کا پتہ تو انہوں نے ہوٹل کے باہر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ۔ عصر حاضر میں یہ ایک معمولی بات ہے۔ ایسے میں عام طور پر حفاظتی انتظام تھوڑا سا سخت کردیا جاتا ہے۔ ہوٹل کے احاطے میں یا قریب کے کسی چوراہے پر مظاہرین کو روک دیا جاتا ہے۔ وہ نعرے لگاتے ہیں تقریریں کرتے ہیں اور لوٹ جاتے ہیں۔ پہلے زمانے میں ایسے مظاہروں کی خبریں ٹیلی ویژن اور اخباروں میں چھا جاتی تھیں لیکن آج کل چونکہ خبر شائع کرنے کے علاوہ اس کو دبانے کے لیے بھی پیسے ملتے ہیں اس لیے انہیں دفنا دیا جاتا ہے۔

سوجھ بوجھ والے سیاستداں مظاہرین کے رہنماوں سے ملاقات کرکے ان سے محضرنامہ لیتے ہوئے تصویر چھپوا دیتے ہیں اور جھوٹے منہ سہی ان کے مطالبات پر غور کرنے کی یقین دہانی کرکے اپنی سیاست چمکاتے ہیں لیکن ایسا کرنا فی الحال رعونت زدہ بی جے پی کے بس کی بات نہیں ہے۔ کرنال کے کسان مظاہرین کو ہوٹل سے 15 کلومیٹر دور روک دیا گیا ۔ کسان پچھلے نو ماہ سے ہریانہ اور دہلی کی سرحد پر مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس تحریک کو تشدد پر اکسانے کی ساری سرکاری اور غیر سرکاری کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ یوم جمہوریہ کسانوں بدنام کرنے کی خاطرسازش کے تحت نہ صرف تشدد کیا گیا بلکہ لال قلعہ پر سکھ پرچم نشان صاحب لہرا دیا گیا اس کے باوجود کسانوں نے اس کی مذمت کرکے اس فتنہ سے خود کومحفوظ رکھا ۔ اس عدم تشدد کی حامل اس تحریک سے اس قدر خوف زدہ ہوکر اسے اتنی دور روک دینا حیرت انگیز تھا لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ ان پر ایسا لاٹھی چارج کروانا کہ جنرل ڈائر بھی شرما جائے قابلِ مذمت تھا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ایک طرف جو لوگ جلیانوالا باغ پر رنگ و روغن پوت کر اپنے آپ کو قوم پرست ثابت کرنے کی کوشش کررہے دوسری جانب ان کا کریہہ استعماری چہرہ سامنے آرہا تھا اور عالمِ انسانیت ان کی منافقت پر آنسو بہا رہی تھی ۔

اس موقع پر کسانوں کے احتجاج کو کچلنے کی خا طر ایس ڈی ایم آیوش سنہا نے جو احکامات دیئے وہ نہایت شرمناک ہیں ۔ اس شخص نے 2017میں آئی اے ایس کے امتحان میں ساتواں مقام حاصل کیا ۔ ایک یتیم بچے کے افسر بننے سے سبھی لوگ خوش تھے ۔ اس وقت ا اس کے ارادے پوچھے جانے پر ٓیوش نے ملک بنیادی مسائل مثلاً غربت اور بیروزگاری و غیر کو ختم کرنے کا عزم کیا تھا لیکن تین سال کے اندر اس نظام نے اس کو پوری طرح درندہ بنادیا ۔ اس نے پولس والوں سے کہا میں ایس ڈی ایم ہوں ، میں تم لوگوں کو تحریراً حکم دے رہا ہوں کہ کوئی اس (حد) کے آگے نہ آنے پائے۔ اگر کوئی آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو اس کو لاٹھی اٹھا اٹھا کر مارو ۔ خبردار اگر کوئی آگے نکل کر مجھ تک پہنچے تو اس کا سرپھوٹا ہوا ہونا چاہیے۔ یہ ایک آئی اے ایس افسر کے ذریعہ کھلے عام پر امن مظاہرین کا سر پھوڑنے کی ترغیب تھی ۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ پولس فورس خونخوار درندوں کی مانند کسانوں پر ٹوٹ پڑی اور انہیں لہو لہان کردیا ۔ اس کے باوجود اس افسر پر ہنوز کوئی اقدام نہیں کیا گیا ۔ اس کو کہتے ہیں ظلم کا تحفظ بلکہ سر پرستی ۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ کسانوں پر لاٹھیاں برسانے کے بعد الٹا انہیں کو گرفتار بھی کرلیا گیا ۔ اس کے جواب میں جیالے دہقانوں نے ہریانہ کے طول و عرض میں 47 ٹول پلازہ کی گھیرا بندی کرکےتمام ہائی ویز جام کردئیے۔ کسانوں کی اس طاقت کے مظاہرے ارباب ِ اقتدار کے ہوش اڑا دئیے۔ سورج کے ڈھلتے ڈھلتے سارے کسان رہا کردیئے گئے اور اس کے بعد ہی ٹول پلازہ کی گھیرا بندی ختم کی گئی ۔ سرکار کی اس ذلت و رسوائی کے لیے منوہر لال کھٹر، آیو ش سنہا اور بی جے پی کی قیادت ذمہ دار ہے لیکن یہ تو پہلی قسط ہے۔ اس سے قبل ہریانہ کے کئی شہروں میں میونسپل الیکشن ہوئے تھے جن میں بی جے پی نےدہقانی ناراضی کی قیمت چکائی لیکن اقتدار کے نشے میں چور یہ لوگ کوئی سبق نہیں سیکھ سکے۔ شہروں کے مقابلے دیہات میں کسانوں کا غلبہ ہوتا ہے۔ اس لیے آئندہ گرام پنچایت کے چناو میں بی جے پی کی ساری حکمت عملی ناکام ہوجائے گی اور کسان ایسا سبق سکھائیں گے کہ اسے دن میں تارے نظر آنے لگیں گے۔ کسانوں پر یہ لاٹھی چارج کمل والوں کو بہت مہنگا پڑے گا ۔

انسان سے اگر بھول چوک ہوجائے تو اس کو اصلاح کا موقع بھی ملتا ہے لیکن بی جے پی کی موجودہ قیادت اوران کے ساتھی دشینت چوٹالا اس جانب مائل نظر نہیں آتے۔ منوہر لال کھٹر نے معافی مانگ کر کسانوں کو سمجھانے منانے کے بجائے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ پر انہیں اکسانے کا مضحکہ خیز الزام لگا دیا۔ اس کے جواب میں امریندر نے کسانوں کی حالت زار کے لیے بی جے پی کی مرکزی اورہریانہ کی صوبائی سرکار کو ذمہ دار قرار دے دیا۔ ان دونوں بیانات کی حقیقت ایک عام آدمی بھی بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور کسان تو اس کو خوب جانتا ہے اور انتخاب کا انتظار کررہا ہے۔ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں دشینت چوٹالہ نے یہ منطق ایجاد کی ہے کہ پنجاب اور اترپردیش کے کسان ہریانہ کے اندر انارکی پھیلا رہے ہیں۔ کسان جن قوانین کے خلاف احتجاج کررہے ہیں وہ سارے ملک کے دہقانوں کو متاثر کرنے والے ہیں اس لیے ان کو اس طرح انہیں صوبوں میں تقسیم نہیں کیاجاسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ دہلی جانے والے کسانوں کو ہریانہ کی سرحد پر کانٹے دار رکاوٹ بناکر روکنے کا کام بی جے پی کی مرکزی حکومت نے کیا ہے ۔ دشینت اپنی حلیف بی جے پی کی مرکزی حکومت سے کہہ کر اسے ہٹوائیں تو مسئلہ ازخود حل ہوجائے گا ۔

بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ کسی معاملے میں بری طرح پھنس جاتے ہیں تو اسے مسلمانوں کی یاد آتی ہے اور وہ ان کے ذریعہ اپنے رائے دہندگان کو ڈرانے میں جٹ جاتی ہے ۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کی فی الحال یہی کیفیت ہے اس لیے کسانوں کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر انہوں نے جبراً مذہب کی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے قانون کی ضرورت کا راگ الاپنا شروع کردیا ہے اور بہت جلد ایک مسودہ پیش کرنے کا وعدہ کررہے ہیں۔ منوہر لال کھٹر کے مطابق ریاست میں مذہب کی تبدیلی کے کئی معاملے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے ایک قانون کی ضرورت ہے۔ اس تعلق سے وہ جلد ہی قانون کا مسودہ تیار کرکے یا تو آرڈیننس کی شکل میں پیش کریں گے یا اسمبلی میں لائیں گے۔ یہ دراصل کسانوں کے مسائل کی جانب سے توجہ ہٹانے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ اس طرح نہ تو کسانوں کو بیوقوف بنایا جاسکے گا اور نہ مذہب کی تبدیلی رکے گی اس لیے کہ یہ کام برضا و رغبت ہی ہوتا ہے ۔ اس معاملے میں زور زبردستی ممکن نہیں ہے۔ بی جے پی ہمیشہ فرقہ واریت کی سیاست کرتی ہے لیکن یہ کاغذ کی ناو بہت دنوں تک نہیں چل پاتی اور وہ اپنےناخدا سمیت ڈوب جاتی ہے۔

انسان اگر اس حقیقت کو فراموش کردے کہ ’اقتدار کا اصل مالک اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ والا صفات ہے‘ اور اس کے پاس حکومت آجائے تو وہ شیطان بن جاتا ہے۔ ایسے میں آیوش سنہا جیسے نوجوان آئی اے ایس افسر اور منوہر لال کھٹر جیسے گھاگ سیاستداں کے درمیان کا فرق مٹ جاتا ہے ۔ کرنال میں ہونے والا کسانوں پر حملہ اس حقیقت کا کھلا ثبوت ہے۔ عام طور پر پولس محکمہ کو بدعنوان اور فرقہ پرستی کا شکار سمجھا جاتا ہے ۔ یہ ایک جزوی حقیقت بھی ہے لیکن ان کے ظلم و ستم کے پیچھے کار فرما بھیڑئیے نظر نہیں آتے ۔ کرنال میں اتفاق سے ایک چہرے کو کیمرے کی آنکھ نے قید کرکے ساری دنیا میں پھیلا دیا پھر بھی اس کا بال بیکا نہیں ہوا۔ نائب وزیر اعلیٰ نے اپنے رائے دہندگان کی ناراضی سے بچنے کی خاطر یہ تو کہا کہ خاطی افسر کو سزا ملے گی لیکن وزیر اعلیٰ اور ان کے حواریوں نے یہ زحمت بھی نہیں کی اور سارا معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا ۔ کسانوں پر لاٹھیوں کے برسائے جانے کی ویڈیوز ذرائع ابلاغ میں پھیلتی رہیں لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔موجودہ نظام میں اس طرح کی فرعونیت کو خوشنما نعروں میں چھپا دیا جاتا ہے لیکن کسی نہ کسی بہانے آستیں کا لہو پکار پکار کر خنجر کی خونریزی کا اظہار کرہی دیتا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی چنگیزیت کا ذکر اپنے مشہور شعر میں کیا ہے؎
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی



 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228707 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.