گرگٹ اور سیاستدان

کاش قیام پاکستان کے بعد بابائے قوم ؒ کی زندگی دس بارہ برس تک ان سے بیوفائی نہ کرتی توآج ہمارے ملک کانقشہ کچھ اورہوتا ۔ پاکستان بنانےوالے سچے لیڈرانتقال کرگئے مگراقتدارکیلئے اپنے ضمیر کاسوداکرنیوالے ڈیلرز آج پاکستان کو نوچ اوراس کے قومی اثاثوں کواونے پونے دام پربیچ رہے ہیں۔اتحادبناتے اورتوڑتے توڑتے نااہل سیاستدانوں نے ہمارا پاکستان توڑدیا۔اللہ تعالیٰ کوئی ثانی محمدعلیٰ جناح ؒ پیدافرمائے جومشرقی اورمغربی پاکستان کوپھر سے متحدکردے ۔آج پھر پاکستان اوراس کے عوام چندسرمایہ داراورجاگیردارسیاسی خاندانوں کے رحم وکرم پرہیں۔دوہری شہریت کے حامل یہ خاندان سیاست پاکستان کے اندراورتجارت پاکستان سے باہرعرب اوریورپی ملکوں میں کرتے ہیں۔ان سیاستدان کو گرگٹ سے زیادہ اور تیزرفتارسے رنگ بدلناآتا ہے ۔ان کی کسی کے ساتھ دوستی اوردشمنی مستقل نہیں ہوتی،یہ اپنے اپنے مفادکیلئے پل بھرمیں ایک دوسرے کے دوست سے دشمن اوردشمن سے دوست بن جاتے ہیں۔لیکن بیچارے عام لوگ سیاسی وابستگی کے سبب ایک دوسرے کے بیاہ اورجنازے میں بھی نہیں جاتے۔آج تک کسی جماعت نے کسی دوسری جماعت سے اتحادبنانے یاتوڑنے کیلئے اپنے ورکرزیا ووٹرز کواعتماد میں نہیں لیا۔اتحاد کسی گلی محلے میں نہیں بلکہ کسی عالیشان ڈرائنگ روم میں بنتے ہیں اوربعدازاں مقاصد کی کامیابی یاناکامی کے بعدوہیں دفن ہوجاتے ہیں۔آج تک پاکستان میں جوبھی قابل ذکراتحاد معرض وجود میں آئے وہ نظام نہیں صرف حکومت کی تبدیلی کیلئے بنے ،ان میں سے بیشتر اتحاد غیر فطری تھے جومحض نظریہ ضرورت کے تحت بنے۔فوجی آمرہویاسول ڈکٹیٹر ایوب خان سے ذوالفقارعلی بھٹو،ضیاءالحق ،میاں نوازشریف اوربینظیر بھٹوسے پرویزمشرف تک ہرکسی کیخلاف اتحاد بنائے گئے۔عوام ہرآنیوالے حکمران کونجات دہندہ سمجھ کراس کااستقبال کرتے ہیں اورپھراس سے نجات کیلئے طویل جدوجہد کی جاتی ہے ۔ان اتحادوں کے دباﺅاوران کی جدوجہد سے پاکستان میں ایک دوبار حکومت ضرور بدلی لیکن نظام کی تبدیلی کاخواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔پاکستان کاسیاسی نظام کب اورکس طرح بدلے گا،لوگ کئی دہائیوں سے اس تبدیلی کے منتظرہیں۔پاکستان میں تبدیلی کیلئے ووٹرزاوربالخصوص خاموش اکثریت کواپنا مزاج بدلنا ہوگا۔اگر ووٹرزپرچی پرمہرلگاتے وقت امیدوار کی پارٹی وابستگی کی بجائے اس کا کرداردیکھناشروع کردیں توانہیں اپنے حقوق کیلئے بار بار ان چوروں اورڈاکوﺅں کے دربارمیں جانااورگڑگڑانانہیں پڑے گا۔

اقتدار کی ہوس کے مارے سیاستدان ایک بار پھر سے نیااتحاد بنانے اور حکومت کی تبدیلی کیلئے میدان سجانے کےلئے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ بھی ملک کی تقدیر یاملک میں رائج نظام کی تبدیلی کیلئے متحد نہیں ہورہے ہیں بلکہ ان کاایجنڈا بھی کچھ اورہے۔مسلم لیگ (ن) کوتنہائی دورکرنے کیلئے متحدہ قومی موومنٹ اورمتحدہ قومی موومنٹ کووفاقی حکومت کے انتقامی ہتھکنڈوں سے بچاﺅکیلئے مسلم لیگ (ن) کی ضرورت ہے۔متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت نے نوشتہ دیوارپڑھ کرفیصلہ کیا،اب پیپلزپارٹی کے ساتھ مزید اتحاد برقراررکھنا ان کی جماعت کے سیاسی مستقبل کیلئے خطرہ بن سکتا تھا ۔تاہم عوام کوبیوقوف بنانے کیلئے ''انجمن بقائے باہمی ''کوگرینڈ الائنس کانام دےاجارہا ہے۔ کیا اس اتحاد سے مسائل کے کوہ گراں سے عام پاکستانیوں کونجات ملے گی یاابھی مزید ان کااستحصال ہوتار ہے گا۔میں ایسے کئی سیاستدانوں کوبہت قریب سے جانتا ہوں جوپہلے توپارٹی کارکنوں کواستعمال اورپھران بیچاروں کااستحصال کرتے ہیں۔ ملکی تاریخ میں بننے والے تقریباً تمام سیاسی اتحاد چاہے وہ ملک میں اسلام کے نفاذ یا پھر بدعنوان حکومت سے نجات کیلئے بنائے گئے ان کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا۔ حدیث مبارک ہے ''بے شک اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے''۔ آنکھوں میں تاج و تخت کے خواب سجانے والوں کو عوام اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

ایم آرڈی کے نام سے بھٹو مخالف اتحاد بنا جس میں سیاستدانوں سمیت مولوی حضرات بھی پیش پیش تھے۔ ان حضرات کے مطابق ذوالفقارعلی بھٹو کااقتدار پاکستان کے اسلامی تشخص کیلئے بڑا خطرہ تھا ۔ اس احتجاجی تحریک کی آڑ میں جنرل ضیاءالحق نے ناتواںجمہوریت پرشب خون مارا اور ذوالفقارعلی بھٹو کو تختہ دارپرلٹکا دیا ۔ایم آر ڈی کے اہم رہنماﺅں کو ان کی ''خدمات'' کے عوض فوجی آمر جنرل ضیا الحق کی شوریٰ کاممبربنادیا گیا ۔ ضیاءالحق کے اقتدارمیں آنے سے پاکستان کانظام تبدیل ہوااورنہ عوام کی تقدیربدلی ۔ ضیائی آمریت نے پاکستان کو کلاشنکوف، ہیروئن، افغان مہاجرین اور جہادی تنظیموں کے کلچر کاتحفہ دیا۔ روس کوتوڑ کر ہم سمجھ رہے تھے کہ ہم نے دنیا کی کایاپلٹ دی ہے لیکن روس کی شکست وریخت کے بعد معلوم ہوا ہم نے انجانے میں دنیا کی نمبرداری امریکہ کے سپرد کر دی ہے۔

ضیاءالحق کی موت کے بعد بینظیربھٹواقتدارمیں آئیں اور میاں نواز شریف دوسری بارپنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔صدرغلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کردی ۔پیپلزپارٹی کی آندھی کامقابلہ کرنے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے ایک سیاسی اتحاد معرض وجودمیں آیا ۔ برگیڈئیر(ر)امتیاز کے مطابق خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے مہران بنک کا روپیہ اس اتحاد کے اہم رہنماﺅںمیں تقسیم کیا گیا تھا ۔ لیکن اسلامی جمہوری ا تحاد(آئی جے آئی) میں سینئر سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے میاں نوازشریف وزیراعظم منتخب ہونے میں کامیاب رہے اوریوں ان کے اتحادی ان کے حاسداور دشمن بن گئے۔ اس اتحاد کے سارے ثمرات میاں نوازشریف کی جھولی میں گرے اورباقی اتحادیوں کے حصے میں حسداور محرومیوں کے سوا کچھ نہیں آیا۔

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کے بغیرپاکستان میںسیاسی اتحادوں اورجوڑتوڑ کاتذکرہ ادھوراہے۔ انہوں نے پرویز مشرف کےخلاف اے آر ڈی کے نام سے ایک موثراتحاد بنایا اورفوجی آمر کوکافی پریشان کیا۔مرحوم نے اپنی سیاسی بصیرت کامظاہرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کوایک ساتھ بٹھا دیا ۔ بابائے جمہوریت کی وفات کے بعدمخدوم جاویدہاشمی اے آرڈی کے مرکزی صدرمنتخب ہوئے لیکن قدم قدم پر بابائے جمہوریت کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔اے آرڈی کے مسلسل سیاسی حملوں کے باوجود پرویزمشرف کی اقتدارپرگرفت کمزورنہیں ہوئی لیکن بعد میں انہوں نے ایک ڈیل اورڈھیل کے تحت وردی بھی اتاردی اورصدارت بھی چھوڑدی ۔ میثاق جمہوریت کے سوا اے آرڈی کے کریڈٹ میں کچھ نہیں ہے لیکن بعدمیں میثاق جمہوریت کے حامیوں نے اسے مذاق جمہوریت بنادیا ۔میثاق جمہوریت کی عدم پاسداری سے اے آرڈی کے غیرموثرہوگیا اورپھر(اے پی ڈی ایم ) کے نام سے ایک نیاسیاسی اتحاد بنایا گیا۔مسلم لیگ (ن) ،تحریک انصاف اورجماعت اسلامی والے اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ایک دوسرے کے اتحادی بنے ۔اس پلیٹ فارم سے انتخابات کے بائیکاٹ کافیصلہ کیا گیا ،میاں نوازشریف اس فیصلے کے حق میں بینظیر بھٹو کومنانے ان کے پاس گئے لیکن انہو ں نے بینظیر بھٹو کے انکاراوراستدلال پر تحریک انصاف اورجماعت اسلامی کواعتمادمیں لئے بغیر خود انتخابات میں شریک ہونے کافیصلہ کرلیا ۔تحریک انصاف اورجماعت اسلامی نے بائیکاٹ کافیصلہ برقراررکھااور میاں نوازشریف کے اس اقدام پرآج بھی انہیں تنقید کانشانہ بنایا جاتا ہے ۔

فروری2008ءکے عام انتخابات ہوئے تومسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی نے وفاقی اورپنجاب حکومت کیلئے آپس میں اتحاد کرلیا ۔ماسوائے جاویدہاشمی کے مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزراءنے اپنے بازوﺅں پرسیاہ پٹیاں باندھ کر پرویزمشرف سے حلف لیا لیکن آصف زرداری کے صدارتی امیدواربننے سے یہ غیرفطری اتحاد بھی اپنے انجام کوپہنچ گیا ۔سیاسی پنڈتوں نے مسلم لیگ (ن) کوفرینڈلی اپوزیشن قراردیا،مسلم لیگ (ن)کی پیپلزپارٹی کے ساتھ میڈیا وار میں کبھی کبھار کچھ چنگاریاں متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت کے دامن پربھی جاگرتیں اورپھران کی توپوں کارخ مسلم لیگ (ن) کی طرف مڑجاتا۔مسلم لیگ (ق)کی طرح متحدہ قومی موومنٹ بھی پرویزمشرف کی اتحادی تھی۔12مئی کاسانحہ کراچی پاکستان کے وجودپر وہ گہرا زخم ہے جوکبھی مندمل نہیں ہوسکتا ۔اس قتل عام کیخلاف مسلم لیگ (ن) نے ایوانوں اورمیدانوں میں خوب احتجاج کیا لیکن آج ایک دم وہ سبھی تلخیاں فراموش کردیں۔ اس کامطلب مسلم لیگ (ن) والے 12مئی کے شہیدوں کی نعشوں پرسیاست چمکاتے رہے اورضرورت پڑنے پرمتحدہ قومی موومنٹ کی بیگناہی پرمہرتصدیق ثبت کردی جس طرح صدرزرداری نے مسلم لیگ (ق)کومسلسل قاتل لیگ کہنے کے بعدمحض اپنااقتداربچانے کیلئے ان کے ساتھ اتحاد کرلیااوراب وہ مولوی میاں نوازشریف کی سوچ کوبینظیر بھٹو کاقاتل قراردے رہے ہیں۔اگر یہ قومی مفاہمت ہے توپھرمنافقت کس شے کانام ہے۔

سیاسی اتحادوں سے آج تک ملک وقوم کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں پہنچا کیونکہ ان اتحادوں سے پاکستان کمزورہوااورعوام متحدہونے کی بجائے منتشرہوئے ۔ صرف چہروں کی تبدیلی سے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ عمران خان اورفضل الرحمن سمیت پاکستان کاہردوسراسیاستدان وزیراعظم بنناچاہتا ہے ،چاہے اس کاراستہ واشنگٹن سے ہوکرکیوں نہ آتا ہو۔ یہ سب لوگ اقتدار کے پجاری ہیں ان سب کی سوچ اور منزل ایک ہے۔
ہم کو اپنے بے وفاﺅں نے اکٹھا کر دیا
ورنہ تو میرا نہ تھا اور میں کبھی تیرا نہ تھا

پیپلز پارٹی والے ہربرس پانچ جولائی اورمسلم لیگ (ن)والے 12اکتوبر کو یوم سیاہ مناتے ہیں۔ اس طرح تومسلم لیگ (ن) کے نزدیک 5جولائی کااقدام درست تھااورپیپلزپارٹی نے 12اکتوبرکے واقعہ کو جائز مان لیا ہے ۔پیپلزپارٹی والے مسلسل کئی برسوں سے ذوالفقارعلی بھٹو کے یوم ولادت کی خوشی اورمرحوم کی پھانسی والے دن سوگ مناتے ہیںلیکن اس حکمران جماعت نے آج تک 25دسمبر کے دن بابائے قوم ؒ کایوم ولادت اور16دسمبر کوسقوط ڈھاکہ کاسوگ نہیں منایا ۔اپنے قائدین کی یادیںتازہ اورانہیں گلہائے عقیدت پیش کرنے کیلئے ان کایوم ولادت اوریوم سوگ منانااچھی بات ہے مگرجوبیگناہ لوگ ڈرون حملوں ،خودکش دھماکوں اورفاقوں سے مارے جاتے ہیں ان کاسوگ کون منائے گا۔نہ جانے ان میں سے کون کون آگے چل کرڈاکٹرعبدالقدیرخان،ذوالفقارعلی بھٹواورمیجر عزیزبھٹی بنتا۔ پاکستان کی بربادی میں سیاستدانوں اورحکمرانوں کے ساتھ ان کے ووٹرزبرابر کے شریک ہیں جواپنے ووٹ سے انہیں پاکستان کے سیاہ وسفیدکامالک بنادیتے ہیں۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126836 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.