چائے

ان دنوں میں انڑ کی پیپرز کی تیاری کر رہا تھا، ہمارا مکان دو منزلہ ہے، اوپر والی منزل میں کرایہ دار رہتے ہیں اور نیچے میں امی ابو علی بھائی بھابھی اور انکے دو عدد شرارتی بچے۔

میں آپ کو اپنی کہانی صرف اس لئے سُنا رہا ہوں تاکہ آپ بھی جنات سے محتاط رہیں اور میری جیسی بےوقوفی ہرگز نا کریں۔

فزکس کا پرچہ مجھے بہت مشکل لگتا تھا ، میں فزکس کی جم کر تیاری کرنے کے منصوبے بنا رہا تھا اس بار مجھے اے ون گریڈ لینا تھا تاکہ اچھی یونیورسٹی میں داخلہ ہو سکے۔
میں نے ایک دن امی سے کہا:

" امی میں آج رات فزکس کی تیاری کروں گا ساری رات جاگ کر، پلیز پلیز مجھے تنگ نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہاں میں اوپر جاکر پڑھائی کروں گا، نیچے تو یہ چھوٹے حمزہ اور اسد مجھے ٹھیک سے پڑھنے نہیں دیتے، ہر وقت بک بک کرتے رہتے ہیں۔"

امی نے مجھے کھا جانے والی نظر سے دیکھا اور کہا:

" شہیر، تمھارا دماغ خراب ہوگیا ہے جو تم رات کو اکیلے اوپر جاکر پڑھو گے، تم کو معلوم ہے کہ تین چار کرایہ دار گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں صرف اور صرف جنات کی وجہ سے".

میں جنات پر بلکل یقین رکھتا تھا بلکہ ڈراؤنی فلمیں ڈرامے بھی شوق سے دیکھتا تھا مگر میں جنات سے ڈرتا نہیں تھا، بھلا اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے۔

" امی۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کیا بچہ ہوں جو جن سے ڈر جاؤں گا، اور ویسے بھی جہاں آبادی ہوتی ہے وہاں کوئی جن بھوت نہیں آتے۔
میں آپ کو آج رات اوپر پڑھ کر دیکھاؤ گا ، جن جنات کو اتنا سر پر مت سوار کیا کریں۔"
میں نے اپنا حتمی فیصلہ سنایا۔

" جاؤ۔۔۔۔ جاؤ شوق سے اوپر پڑھو اور اگر جن نظر آئے تو پھر دیکھنا کیسے ڈر کر نیچے آؤ گے کہ ساری فزکس نکل جائے گی"
امی نے ہار مانتے ہوئے کہا۔

---++++----+++-----+++------+

رات کو کھانا کھانے کے بعد میں اپنی کتابیں لے کر اوپر چلا گیا، ساتھ میں بھر کپ چائے تاکہ صحیح سے جاگ کر پڑھ سکوں۔ میں نے کمرے کا جائزہ لیا، مجھے یہ درمیانی ساز کا کمرا اپنی پڑھائی کےلئے صحیح لگا۔ میز پر سے گرد صاف کرکے اپنی کتابیں رکھیں، آخری کرایہ دار کو گئے چھ مہینے ہوگئے تھے، مطلب اوپری منزل چھ مہینے سے خالی تھی۔ میں نے چائے کا کپ میز پر رکھا، فزکس کی موٹی کتاب رکھی اور دروازہ بند کرکے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔

میں نے پڑھائی کے دوران چائے کا کپ اٹھایا اور تھوڑی سی چائے پی کر رکھا اور اپنی کتاب کی طرف دیکھنے لگا، مگر مجھے اچانک ایسا لگا کہ میرا چائے کا کپ ابھی ہلا ہو میں نے غور سے کپ کو دیکھا تو میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ میری چائے تھوڑی سے کم ہوئی تھی، پھر مجھے سیڑھی پر کسی کے چلنے کی چاپ سنائی دی ، میں نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے پیچھے مڑ کر بند دروازے کی طرف دیکھا۔ پھر اپنا وہم سمجھ کر پڑھنے لگا۔

مجھے نیند آرہی تھی، میں نے جلدی سے چائے کا کپ اٹھایا تاکہ اپنی نیند بھگا سکوں، جوں ہی میں نے اپنا کپ اٹھایا تو میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ چائے آدھی کپ ختم ہوچکی تھی۔

میں نے کچھ ڈر محسوس کیا مگر اب نیچے جاتا تو امی طنے دیتی ، اس لئے صبر سے بیٹھ گیا۔ پھر مجھے اوپر کی طرف قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا مگر وہاں کچھ نا تھا۔

اپنی گھڑی میں نظر ڈالی تو رات کے تین بج رہے تھے، میں نے چائے کا کپ اٹھایا اور چائے پی کر میز پر رکھا، میں اب فزکس کے سوالات حل کرنے میں لگ گیا، لکھتے لکھتے میں نے جوں ہی کپ اٹھایا تو میری ڈر کر مارے بری حالت ہوگئ اور فزکس کی کتاب میرے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئ ، میں نے گھبرا کر اپنے دائیں بائیں دیکھا مگر وہاں کچھ نہیں تھا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری چائے ختم ہوچکی تھی۔
آخر یہ کون ہے جو میری چائے پی رہا ہے، یہ سوچ کر میں اندر ہی اندر ڈرنے لگا پھر مجھے اچانک دروازے پر قدموں کی آواز سنائی دی میں نے مڑ کر دیکھا ، دروازے کے نیچے سے کسی کا سایہ نظر آیا، میں سنبھل گیا۔

دروازے پر دستک ہوئی، میں نے وہی کھڑے کھڑے کہا:

"دروازہ کھلا ہے، آجائیں".

دروازہ آہستہ آہستہ کھلنے لگا، سامنے امی کھڑیں تھیں، میری جان میں جان آئی، میں بھاگ کر آمی کے پاس گیا اور انکو اپنے ساتھ ہونے والے کھیل کے بارے میں بتانے والا تھا مگر یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ کہیں امی ڈر نا جائیں اور مجھے نیچے بلا لیں۔

" امی آپ کو کچھ کام ہے؟"
میں نے بات بنائی۔

" نہیں، مجھے کوئی کام نہیں، چائے پی لی ہے تو کپ دے دو"
امی نے کہا

میں نے سوچا کہ وہ چائے تو میں نے ڈھنک سے پی نہیں، دوبارہ چائے بنوالیتا ہوں مگر پھر یہ سوچ کر چپ ہوگیا کہ اب امی کو کیا تنگ کروں ،بس میز پر سے کپ لا کر امی کو دے دیا۔

واپس میز پر آیا، فزکس کی گری ہوئی کتاب اٹھائی تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کوئی میز کے نیچے ہے، پھر میز کے نیچے دیکھا مگر وہاں کچھ نہیں تھا۔ خیر۔۔۔۔۔۔۔ساری رات پڑھتا رہا، تھوڑی دیر میز پر بیٹھے بیٹھے سو گیا۔
فجر کی اذان کی آواز پر آنکھ کھولی ، نماز کےلئے نیچے آیا، اپنا سب سامان اٹھایا۔ نماز پڑھ کر ناشتہ کیا ، امی ناشتے کا سامان رکھتے ہوئے بولیں:

" شہیر ، کیا رات کوئی جن وین نظر آیا، یہ جن تم سے ڈر کر نہیں آیا".

میں نے کہا:
" اور آپ رات میں مجھے دیکھنے ائیں تھیں کہ میں کہیں ڈر تو نہیں رہا"۔

" میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں میں تو رات میں اوپر نہیں گئ، میں تو دن میں اوپر نہیں جاتی، رات میں کیوں جاؤں گی".
امی کی بات سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

" تو امی۔۔۔۔۔۔۔رات میں آپ ہی تو میری چائے کا کپ لے کر گئیں تھیں".
میں نے امی کو دیا دلایا۔

" تمھارا دماغ خراب ہوگیا ہے، میں رات کو اوپر نہیں آئی ہوں، اپنے ابو سے پوچھ لوں، میں دن کو اوپر نہیں جاتی جب سے میں نے سنا ہے اوپر جن ہیں، مجھے تو بہت ڈر لگتا ہے، ضرور تم نے کسی جن کو دیکھا ہوگا".
امی نے گویا دھماکا کیا۔

میں نے ساری چائے ختم ہونے کی ساری کہانی امی کو سنائی۔
امی اور میں سناٹے میں آگئے۔

وہ دن ہے اور آج کا دن ، اب میں کبھی اکیلے اوپر نہیں جاتا، امی کی ساری بات پر عمل کرتا ہوں اور ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چائے ایک بار ہی پی کر رکھتا ہوں۔ سمجھ تو گئے ہونگے آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد۔
 

Palvisha Neelam
About the Author: Palvisha Neelam Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.