قائدین معاشرت کی پہلی اینٹ یاد کریں!

جس قوم نے آئین اور قانون کی اہمیت کو سمجھا،اس نے عظمت اور ترقی کو پا لیا،لیکن ہم اس اصول کو یکسر فراموش کر چکے ہیں ،یہی وجہ ہے کہآج تنزلی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔پاکستان کا آئین اس بات پر واضح ہے کہ اس ریاست میں بسنے والا ہر مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق گزارے گا،ہر شہری کو اظہارے رائے کی آزادی ہو گی، لیکن اسی کے ساتھ قانون میں ضابطہ اخلاق اورتہذیب کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔اسی آئین پاکستان کے تحت اراکین اسمبلی بنتے ہیں ،وہ اس آئین کا حلف بھی اٹھاتے ہیں ،لیکن افسوس یہی اراکین اسمبلی آئین اور حلف کی پاسداری کرتے نظر نہیں آتے۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا،’’ہمارے لئے بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی قوم کو منظّم کریں ۔یہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب ہم طاقت ور ہوں اور اپنی قوم کی مدد کریں ۔نہ صرف استقلال و آزادی کے لئے ،بلکہ اس کو برقرار رکھنے اور اسلامی تصورات اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لئے بھی ۔ پاکستان کا مقصد صرف آزادی و خود مختاری ہی نہیں ، اسلامی نظریہ ہے،جو ایک بیش قیمت عطیے اور خزانے کی حیثیت میں ہم تک پہنچا ہے ۔‘‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس میں مضمر ہے کہ ہم ان بیش بہا اصولوں کی پیروی کریں ، جو ہمارے عظیم المرتبت قانون دہندہ،پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ نے ہمارے لئے واضح کر دیئے ہیں ۔آئیے ،ہم اپنی مملکت کی اساس سچے اسلامی تصورات اور اصلوں پر قائم کریں ۔‘‘

افسوس ہمارے قائدین نے قائد اعظمؒ کی سوچ کو فراموش کیا، نظریہ اور آئین پاکستان کو بھلا کر صرف ہوس اقتدار کو اپنا محور بنا رکھا ہے،جس کا نتیجہ پاکستان کو سیاست میں زوال کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج سیاست دان اختلافات کو دلائل سے بیان کرنے کی بجائے ،غیر اخلاقی اور غیر مہذب بیانات کے ذریعہ سے اجاگر کرتے ہیں،الزام تراشی اورغداری کا فتوا عام ہو چکا ہے،یہ سلسلہ کسی صورت تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ان اخلاق سوز اور غیر انسانی بیانات کے مستقبل میں منفی اثرات کا کسی جانب سے کوئی فکر نہیں ہے۔موجودہ تہذیب و ثقافت سے بے بہرہ قیادت ملک و قوم کے زوال کا سبب بن رہی ہے،اسے روکنا بہت ضروری ہے،90 کی دہائی میں بھی ایسا ماحول تھا،اس کا نقصان قوم نے مارشل لاء اور ڈکٹیٹر شپ کی صورت میں بھگتا،جمہوریت کو نا قابل تلافی نقصان کے ساتھ ساتھ آئین اور اداروں کی بربادی کھلی آنکھوں سے سب نے دیکھی،مگر محب وطن لوگ اپنے ملک اور قوم کے لئے کچھ نہیں کر سکے۔ایک بار دوبارہ ہم سب اسی راستے کو اپنا رہے ہیں ،جو کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔

ایک طرف بیرونی کشیدہ حالات اور دوسری جانب اندرونی افراتفری بڑے خطرات کی نشاندہی کر رہی ہے،اس پیچیدہ صورت حال کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے قوم کو یک جا ہو کر کام کرنا ہو گا،قائدین کو معاشرے کی سوچ کو بہتر بنانے کے لئے اپنی اورانسان سازی پر بھر پور توجہ دینا ہو گی اور معاشرتی و اجتماعی زندگی کو بنانے اور سنوارنے پر کام کی ضرورت ہے ۔معاشرت کی پہلی اینٹ اخلاقِ حسنہ ہی ہے،انسان حسن اخلاق کے بغیر نہ صرف انسان نہیں رہتا بلکہ درندگی و بہیمیت پر اتر آتا ہے،انسانیت کا زیور حسنِ اخلاق ہے۔آج ہم اخلاقی اعتبار سے کنگال اور دیوالیہ ہو چکے ہیں،انسانیت و شرافت کی بنیادیں ہل چکی ہیں،تہذیب و اخلاق کے ستون اپنی جگہ چھوڑ چکے ہیں،بے شرمی و بے حیائی،رہزنی معمولی بات ہو چکی ہے،سفاکی ،بے جا انتقام اور تعصب خصوصیات میں شمار ہونے لگا ہے،اس ماحول میں قائدین کو ایسے اخلاقی نمونے پیدا کرنے ہوں گے جن کی نظیر نہ ملتی ہو،ان کے یہی نمونے معیار کا کام کریں گے،ان کی عوام کے لئے اخلاقی تعلیمات عام زندگی اور نظامِ حکومت کے لئے میزان کا درجہ بنے گی،تبھی عدل و انصاف، صدق و سادگی،خلوص و وفا اور محبت و الفت کی خوش گوار ہوائیں چلیں گی۔قائدین کو یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ بد اخلاقی ایک ایسی آفت ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے نیکیوں کی کثرت بھی فائدہ مند نہیں ہوتی ۔

قائدین کے لئے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ انسان کی شناخت کی اصل بنیاد اس کا عہدہ یا علم و فن نہیں بلکہ اس کا اخلاق و کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے،انسان کی حقیقی عظمت کا تعین اس کے معاملات،زندگی کے طور طریقے اور اس کے عمل سے ہی ممکن ہوتا ہے ۔انہیں سوچنا ہے کہ آج کا دور ترقی کی انتہائی منزل پر ہے اور دنیا مزید ترقی کر رہی ہے،لیکن ہم تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی ترقی یافتہ کیوں نہیں ہو رہے؟اس کی ایک بڑی وجہ اخلاقیات میں زوال پزیر ہونا ہے۔ملک میں ہر چیز میں بدعنوانی، رشوت،منافقت اور جھوٹ پایا جاتا ہے،جو معاشرے کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ان صلاحیتوں کے مالک ہمارے صاحبان اختیار ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں ،لیکن ان کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر بھی اخلاق برائے نام ہی باقی رہ گیا ہے ،ہمارے اندر بڑوں کا احترام نہیں،احساس،ایمانداری کے مفہوم کو ہی بھول چکے ہیں،حلال و حرام میں فرق کرنا ہمیں یاد نہیں رہا،یہی وجہ ہے کہ ہمارے درودیوار سے اخلاقی دیوالیہ پن جھلکتا ہے۔ہم نے اپنے بڑوں سے سیکھی ہوئی مشرقی تہذیب و روایات جن کے ہم امین تھے ،انہیں کہیں دفن کر چکے ہیں، حالاں کہ تعلیم اور ترقی تو ادب اور آداب سکھاتی ہے ،لیکن ہمارے معاشرے میں بد تہذیبی ہمارے معاشرے میں وبا کی طرح پھیل چکی ہے ،اس صورت حال کا تدارک ممکن نظر نہیں آتا۔
دنیا ترقی اور جدیدیت کی جانب گامزن ہے،مگر ہم ان سے بہت پیچھے ہیں ،لیکن ہمارے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ’’فکر نہ کریں‘‘سب اچھا ہے۔چشم حقیقت سے دیکھنے والے جانتے ہیں کچھ اچھا نہیں ہے،دنیا نے ستاروں اور سیاروں کے راز جان لئے ہیں ،مگر ہمارے لوگ کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہیں ،ان کا کوئی گھر نہیں،اکثریت علاج نہ ہونے کی وجہ سے دنیا سے چلے جاتے ہیں،بے روزگار جب اپنے بلبلاتے بچوں کو دیکھتا ہے تو اسے خودکشی کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا،لیکن ہمارے صاحبان اقتدار یا حزب اختلاف دولت سمیٹنے میں مگن ہیں۔ان کو اس بات کا قطعی ادراک نہیں کہ ان کے عوام کی کیا حالت ہے ،وہ دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے قوم کو ’’کام ،کام اور کام‘‘کے اصول پر چلنے کی ترغیب دی تھی ،مگر آج کے قائدین ’’پیسہ،پیسہ اور پیسہ‘‘ کا فارمولا سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔یہ پیسہ کسی طرح آئے یہی ترقی کی کنجی سمجھی جا رہی ہے۔ہمیں اپنی روش بدلنی ہو گی اور خود فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمیں ایک ترقی یافتہ قوم بننا ہے یا پھر دنیا کے سامنے ایک غیر مہذب قوم بن کر جینا گوارہ ہے ۔

 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95595 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.