افغانستان میں طالبان کی واپسی اور بھارتی کردار

 یہ نائن الیون کے بعد کی بات ہے جب آئی ایس آئی کے چیف جنرل محمود احمد امریکہ میں موجود تھے جن کا کہنا تھا کہ اس حملہ کے بعد وہ امریکہ کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے ایک زخمی جانور بپھر جاتا ہے۔ اس حملہ سے پہلے ہی امریکی سی آئی اے چیف جارج جنرل محمود سے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور طالبان حکومت کے سربراہ ملا عمر کے حوالہ سے بات کر چکے تھے جس کا موضوع دنیا بھر میں امریکی اڈوں اور تنصیبوں پر القاعدہ کے حملوں کو روکنا اور اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کرنا تھا ۔اس سانحہ کے بعد جنرل محمود احمد کی قیادت میں ایک اعلیٰ سرکاری وفد نے ملاعمر سے ملاقات کی اس وفد میں پاکستان سے کچھ مذہبی شخصیات کو بھی ساتھ لے جایا گیا ، ذرائع کہتے ہیں کہ یہ ملاقات القاعدہ کے سربراہ ملا اسامہ بن لادن کے حوالہ سے تھی اور جنرل محمود سمیت تمام رہنما ملاعمر اور ان کی کابینہ کو اس بات پر رضا مند کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ اسامہ بن لادن کو یا تو امریکہ کے حوالہ کر دیا جائے یا القاعدہ کی تمام قیادت بشمول اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکال دیا جائے اور پھر امریکہ جانے اور القاعدہ جانے ۔ ملا عمر اور ان کی کابینہ نے پاکستانی وفد کی بات بڑی تسلی سے سنی اور ساری بحث کے بعد واضح طور پر’’Absolutely Not‘‘ کا پیغام دے دیا جس سے یہ وفد واپس آگیا ۔ تاہم اس ملاقات کے حوالہ سے امریکی اداروں نے پاکستان پر شک کا اظہار کرنا شروع کر دیا اور چیف آئی ایس آئی پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ طالبان کو امریکی حملوں اور ان سے بچاؤ کی تدابیر کے لیے گئے تھے ۔ اس کے بعد پاکستان نے امریکہ کے ساتھ فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور صدر مشرف نے جنر ل محمود احمد کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹا دیا ۔ فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے ہم نے کیا کھویا کیا پایا یہ ایک طویل بحث ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے اس کی اتنی بڑی قیمت ادا کی کہ جو خطے میں کسی اور ملک نے ادا نہیں کی ۔بیس سال کی مسلسل جنگ کے بعد کابل کے اردگرد آج پھر وہی طالبان ہیں جنہوں نے ’’absolutely not‘‘ کا پیغام دے کر امریکہ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا ۔

امریکی افواج کے انخلاء سے دنیا کی سیاست اور سفارت کاری کا رخ جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کی طرف مڑچکا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتہ سفارتکاری کے لحاظ سے بہت ہی مصروف رہا ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی شنگھائی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے ساتھ ساتھ ان کی بھارت کے وزیر خارجہ کے علاوہ دیگر ہم منصب افراد سے ملاقاتوں میں خطے کی بدلتی صورتحال موضوع گفتگو رہی ۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء جتنی تیزی کے ساتھ ہورہا ہے اتنی ہی تیزی کے ساتھ طالبان علاقوں کا کنٹرول سنبھال رہے ہیں ۔ انہی حالات کے پیش نظر شنگھائی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کا مرکزی نقطہ بھی افغانستان ہی رہا۔ افغانستان میں طاقت کا توازن طالبان کے حق میں بدلنے پر خطے کے تمام ممالک گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کیونکہ ایک دفعہ پھر افغان سرزمین سے انارکی کا لاوہ پھوٹنے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے اور اس کا اثر تمام ملحقہ ممالک پر پڑے گا۔وزیراعظم عمران خان بھی اپنا دوروزہ دورہ ازبکستان مکمل کرکے وطن واپس پہنچ چکے ہیں ۔ اپنے دورہ کے دوران انہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معاہدوں کی شکل میں مزید مضبوط کیا ہے وہاں تاشقند میں جنوبی ایشیا ، وسطی ایشیا ، علاقائی روابط ،مسائل اور مواقع کے عنوان سے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس موقع پر دیگر وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی جانب سے بھارتی وزیر خارجہ سے ہاتھ ملائے بغیر گزرجانا بھارت سمیت دیگر ممالک کو ایک خاموش پیغام کے علاوہ موجودہ حکومت کی کشمیرپالیسی کا اظہار بھی تھا۔اس کا اظہار وزیراعظم نے بھارتی صحافی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بھی کیا جب ان پاک بھارت تعلقات کے حوالہ سے سوال ہوا تو انہوں نے کہا ہم تو کب سے انتظار کررہے ہیں کہ بھارت ایک مہذب پڑوسی بن کر رہے مگر کیا کریں آر ایس ایس کا نظریہ بھارت کے آڑے آجاتا ہے ۔ یہ بیان نریندرا مودی سرکار کی ہندو انتہا پسندپالیسیوں پر پاکستان کا ردعمل تھا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ طالبان کی حالیہ پیش رفت نے بھارت کی ان پالیسیوں کو بھی بری طرح ناکام کر دیا ہے جوشمالی اتحاد کے آنے کے بعد بھارت نے بھاری سرمایہ کاری کے جواب میں اپنا رکھی تھیں ۔ یہ محض سرمایہ کاری ڈوبنے کا خطرہ نہیں تھا کہ طالبان امریکہ مذاکرات کے آغاز سے بھار ت مسلسل ان مذاکرات کے خلاف رہا ہے ۔ حامد کرزئی سے لے کر اشرف غنی کے موجودہ دور تک بھارت کا مکمل جھکاؤ افغان حکومت کی طرف رہا ہے ۔ لیکن کچھ ہفتے پہلے ہی بھارتی میڈیا میں تجزیہ نگاروں نے بھارت کی اس پالیسی پر تنقید شروع کی اور حکومت کو مشورہ دیا کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے بھارت کو طالبان کے ساتھ اپنے روابط بنا لینے چاہیے کیونکہ اب کافی دیر ہو چکی ہے جبکہ طالبان ایک ایسی حقیقت بن چکی ہے جس کو امریکہ سمیت ساری دنیا تسلیم کر رہی ہے ۔خطے کی دیگر بڑی طاقتیں جن میں روس اور چین سرفہرست ہیں انہوں نے طالبان کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ان کو مذاکرات کے لیے بھی مکمل معاونت فراہم کی ۔ دوسری جانب طالبان بھی سفارتی لحاظ سے اپنے پچھلے دور سے کہیں بہتر جارہے ہیں اور وہ ایران ، چین ، روس سمیت تمام علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو استوار کر رہے ہیں ایسی صورتحال میں بھارت کو بھی ان کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرنے چاہیے جس پر بھارتی سرکار نے طالبان سے رابطہ کی کوششیں تیز کیں اور کچھ میڈیا میں یہ بھی رپورٹس سامنے آنے لگیں کہ بھارت اور طالبان کے وفود میں ملاقاتیں ہوچکی ہیں تاہم طالبان ذرائع اس کی تصدیق نہیں کرتے ۔ البتہ شنگھائی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک دفعہ پھر لشکر طیبہ پر یہ الزام عاید کیا کہ وہ افغانستان میں افغان حکومت کے خلاف عسکری کارروائیوں میں ملوث ہیں ۔

طالبان کی واپسی کے ساتھ جہاں دنیا خطے کے امن کے لیے پاکستان کے کردار کا اعتراف کر رہی ہے وہاں بھارت کو اپنے کردار کے حوالہ سے کئی قسم کے خدشات کا سامنا ہے ۔ بھارت پر یہ دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے کہ وہ طالبان سے اپنے تعلقات بہتر بنائے لیکن اس کی افغان حکومت کے ساتھ تعلقات اس کے آڑے آ رہے ہیں دوسری طرف افغان سرزمین سے بھارتی قونصل خانوں کی موجودگی اور وہاں سے پاکستان کے خلاف مختلف اقدامات بھی سوالیہ نشان ہیں ۔ قندھار میں بھارتی قونصل خانہ بند ہوچکا ہے جبکہ کابل اور مزارشریف میں موجود سفارتی عملہ انتہائی محدود کر دیا گیا ہے ۔ اب یہاں بھارت کے سامنے بہت محدود آپشنز موجود ہیں ۔ ایک تو یہ کہ وہ طالبان سے تعلقات بہتر بنا کر خطے میں اپنی منفی سرگرمیوں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ پراپیگنڈہ مہم بھی ختم کر دے اور خطے میں مثبت کردار کے لیے کشمیر جیسے مسائل کے حل کے لیے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیاری کرے ، دوسری صورت میں علاقائی ترقی میں اس کا کردار محدود ہوتا جائے گا ، اس وقت علاقائی طاقتیں اس بات پر متفق نظر آرہی ہیں کہ خطے سے باہر کی طاقتوں کے اثرورسوخ کو کم سے کم کرکے علاقائیت کو فروغ دیا جائے تاکہ معاشی ترقی اور باہمی تعلقات کا نیادور شروع ہو سکے ۔ ان حالات میں خطے میں منفی سرگرمیوں کی گنجائش باقی نہیں رہ سکتی ۔

 

Asif Khursheed
About the Author: Asif Khursheed Read More Articles by Asif Khursheed: 97 Articles with 64697 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.