مسجد اقصیٰ کا انتظام اور سعودی عرب

 اسرائیل نے عرب دنیا کو شیشہ میں اتارنے کے بعد بیت المقدس کا انتظام خادم الحرمین الشریفین کو دینے کا ایک ایسا شوشہ چھوڑا ہے جس کا مقصد دنیائے اسلام کو تقسیم کرنا ہے۔ مسلم دنیا کو کئی بلاکوں میں توڑ کر اسے پارہ پارہ کرنا وہ زیادہ آسان سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان فرقہ بندی اور منافرت پھیلانا بھی اسی کی ایک کڑی ہو گی۔ فلسطین اور عرب علاقوں پر ناجائز قبضہ کرنے والے اسرائیل کے وزیر خارجہ یائیر لپید نے گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کا دو روزہ دورہ کیا جس میں مسجد اقصیٰ کا انتظام سعودی حکومت کے حوالے کرنے سے متعلق بات ہوئی۔ حالیہ دنوں میں مسجد اقصی میں فائرنگ، فلسطین اور اسرائیل کے درمیان 11 روزہ جنگ اور مسجد اقصی کے لئے فلسطینیوں کی قربانی اور آئے روزہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے اسرائیل کا مسجد اقصیٰ کا انتظام سعودی عرب کو دینے پر غور کرنا اہم بات ہے۔عرب میڈیا کہتا ہے کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کے انتظام کے لئے ایک کونسل بنانے پر راضی ہوگیا ہے جس کے تحت بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے انتظام و انصرام میں اب اردن کی حکومت کے ساتھ سعودی حکومت بھی اپنا حصہ ڈالے گی۔ مسجد اقصیٰ کا کلی اختیار و انتظام اردن کے بادشاہ شاہ عبداﷲ دوم کے پاس ہی رہے گا ۔ یہ واضح نہیں کہ انتظامی کونسل میں سعودی عرب کے علاوہ کسی اور ملک کو بھی شریک کیا جائے گا یا نہیں۔60 کی دہائی میں ایک ہفتے کی جنگ کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے کے علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد اسرائیل اور اردن کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا ۔جس کے تحت اردن کو متنازعہ علاقے میں مزاحمت نہ کرنے کی شرط پر مسجد اقصیٰ کا کسٹوڈین بنا دیا گیا ۔

اسرائیل کے وزیرِ خارجہ یائر لیپڈ کا گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات میں اسرائیل کے سفارتِ خانے کا افتتاح کرنا بھی اہم ہے۔یائر لیپڈ دو روزہ دورے پر متحدہ عرب امارات پہنچے۔ انہوں نے ابوظہبی کی ایک بلند و بالا عمارت میں واقع اسرائیل کے دفتر میں فیتہ کاٹ کر سفارتِ خانے کا افتتاح کیا۔اس دفتر کو اسرائیل کے عارضی سفارتِ خانے کا درجہ دیا گیا ہے۔2015میں اسرائیل نے عرب امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے۔ گزشتہ برس امارات کے لئے اسرائیلی کمرشل فلائٹس شروع کی گئیں۔اب یائر لیپڈ نے سفارت خانے کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن چاہتے ہیں، ’’ہم کہیں نہیں جارہے اور مشرقِ وسطیٰ ہمارا گھر ہے۔ہم یہیں موجود ہیں اور خطے کے تمام ملکوں سے کہیں گے کہ وہ اسے تسلیم کریں۔‘‘یائر لیپڈ نے اپنے دو روزہ دورے کے دوران دوبئی میں اسرائیلی قونصل خانے کا بھی افتتاح کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون کے معاہدوں پر بھی دستخط کئے۔اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد یہ اسرائیل کے کسی بھی وزیر کا پہلا دورہ ہے۔متحدہ عرب امارات پہنچنے سے قبل یائر لیپڈ نے ٹوئٹر پر اپنی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے اس دورے کو تاریخی قرار دیا ۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کا اعلان کیا تھا۔گزشتہ برس اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والے دیگر اسلامی ملکوں میں بحرین، سوڈان اور مراکش بھی شامل تھے۔اسرائیلی وزیرِ خارجہ نے ایسے موقع پردورہ کیا جب حال ہی میں اسرائیل میں نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا ۔سابق وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے 12 سالہ اقتدار کا خاتمہ کرتے ہوئے اپوزیشن کی آٹھ جماعتوں نے یائر لیپڈ کی قیادت میں نئی حکومت تشکیل دی ۔حکومت سازی کے ایک غیر معمولی سمجھوتے کے تحت نفتالی بینیٹ دو سال کے لیے وزیرِ اعظم بنے ۔2023میں دو برس کے لیے یائر لیپڈ وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالیں گے۔

سعودی عرب نے فلسطین کو سیلف گورنمنٹ تشکیل دینے پر تیار کیا تا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات شروع کریں۔ شاہ عبداﷲ نے ہی حماس اور الفتح کو مکہ المکرمہ میں مذاکرات کی میز پر لائے تھے۔ اسرائیل اور اسلام دشمن ممالک عراق ایران جنگ کی طرح سعودی عرب ایران جنگ چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ دونوں کے اتحادیوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی وقفہ وقفہ سے مہم جوئی ہوتی ہے جسے قادیانی اور ان کے ہم نوا تعاون کرتے ہیں۔ عمران خان پر بھی بعض الزامات عائد کئے گئے مگر انہیں ثابت کوئی نہ کر سکا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کو ایک میز پر لایا جائے۔ عمران خان حکومت کو اپنی کوشش جاری رکھنا چاہیئے تاکہ اسلام دشمنوں کو سازشوں اور برادر ممالک کے درمیان جنگی حالات پیدا کرنے کا کوئی موقع میسر نہ آ سکے۔
 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 487209 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More