مسئلہ بلوچستان کا سادہ حل :وسائل کی منصفانہ تقسیم

پاکستان کا رقبہ کے لحاظ سے سب سے وسیع اورقدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان گزشتہ کئی سالوں سے بدامنی کا شکار ہے ۔ایک طرف علیحدگی پسند ہیں جن کا نشانہ سیکورٹی فورسز ہیں تو دوسری طرف فرقہ واریت کی آگ نے ہزارہ کمیونٹی کواپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، چندشرپسند قوم پرستی کے نام پر پنجابی مزدروں کا قتل عام کررہے ہیں تو کہیں عالمی میڈیا میں مسنگ پرسنز کی کہانیاں پھیلائی جا رہی ہیں ۔ بلوچستان میں جہاں ایک طرف مقامی سطح کے مسائل ہیں وہاں کبھی کبھار منسلک سرحد ایران اور افغانستان سے بھی چھیڑچھاڑ کر دی جاتی ہے جن کا مقصد اس صوبے میں بدامنی کی آگ کو مزید بھڑکانا ہوتا ہے۔افغانستان میں جاری جنگ نے امن و امان کے مسائل کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے دورہ گوادر کے دوران ’’ناراض ‘‘ بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کے بیان نے پھر سے امن کی امیدوں کو روشن کر دیا ہے ۔اس پر مزید وزیر اعظم کی جانب سے بگٹی خاندان کے شاہ زین بگٹی کو ہم آہنگی بلوچستان کے لیے اپنا معاون بنا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے اس بیان پر عمل کرنے میں واقعی سنجیدہ ہیں ۔جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ شاہ زین بگٹی ناراض بلوچوں کے ساتھ مذاکرات میں اپنا اثرورسوخ اور کردار ادا کریں گے ۔شاہ زین بگٹی نوابزادہ طلال اکبر بگٹی کے صاحبزادے اور نواب اکبر بگٹی کے پوتے ہیں ۔ شاہ زین بگٹی نے2018 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کااعلان کیا تھا ۔ سابق صدر اور فوج کے سربراہ مشرف دور میں سردار اکبر بگٹی کو ایک فوجی آپریشن کے دوران مار دیا گیا تھا ۔ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے اس تقرری کے بعد بلوچستان میں امن کے لیے کیے گئے اقدامات پر پھر سے وہی بحث چھڑ چکی ہے ۔پاکستان کا عام شہری اس مخمصہ کا شکار ہے کہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی جانب سے کیے جانے والے مطالبات درست ہیں یا ان کے خلاف کیے جانے والا آپریشن درست ہے ۔ وہاں جلنے والی آگ میں پنجابی مزدور قصور وار ہیں یا فرقہ واریت کی زد میں آنے والی ہزارہ کمیونٹی مجرم ہے۔ سیکورٹی فورسزپر حملوں میں شہید ہونے والے عام فوجی قصوروار ہیں یا وسائل پر قبضہ جمانے والے مفاد پرست سردار اپنی قوم کے ساتھ دھوکہ کر رہے ہیں ۔یہ وہ سوالات ہیں جو بلوچستان کی مسئلہ کی پیچیدگی کو واضح کرتے ہیں ۔

بلوچستان کے مسئلہ کے حل کے لیے ہمیں ماضی کی تاریخ پر بھی ایک نظر ڈالنی ہوگی ۔ اب تک اس صوبہ میں چار بڑی بغاوتیں ہو چکی ہیں جس میں علیحدگی پسند ، عام شہریوں کے ساتھ ساتھ سیکورٹی فورسز کی بڑی تعدا د اپنی جانیں گنوا چکی ہیں ۔ان میں پہلی بغاوت کا آغاز تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہو گیا تھا جس میں مرکزی کردار خان آف قلات کے بھائی آغا عبدالکریم ادا کررہے تھے ۔ یہ بغاوت جلد ہی دم توڑ گئی اور آغا عبدالکریم افغانستان فرار ہوگئے لیکن جب افغانستان میں انہیں کچھ نہیں ملا تو وہ چند ماہ بعد ہی واپس آگئے اور کئی سال قید میں رہے۔ 1958میں پھر ایک بار بغاوت نے سر اٹھایا جب خان آف قلات کے قلعہ پر چڑھائی کی گئی ۔1962میں ایوب خان کے دور میں بھی ایک دفعہ پھر بغاوت ہوئی تاہم وسائل کی کمی اور اسلحہ کی عدم دستیابی کے باعث اس کا دورانیہ بھی مختصر ہی رہا۔ 1970میں پہلی دفعہ جب یہاں نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ) کی عوام کی منتخب صوبائی حکومت بنی تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے محض آٹھ ماہ بعد ہی اسے گھر بھیج کر وہاں فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا۔ نیپ پر پابندی لگا کر اس کے رہنماؤں کو نظر بند کر دیا گیا جس کے جواب میں بلوچ جنگجو بھی مقابلے پر آگئے اور تقریبا چار سال جاری رہنے والی اس بغاوت میں چار ہزار کے لگ بھگ باغی بلوچ مارے گئے اور سیکورٹی فورسز کے افراد بھی اتنی ہی تعدا د میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے ۔مشرف دور میں پھر بگٹی قبائل کے خلاف ایک بڑے آپریشن کا آغاز ہوا جس کا اختتام نواب اکبر بگٹی کے قتل پر ہوا۔ یہ ہماری تاریخ کے وہ تاریک گوشے ہیں جس میں ہم بحثیت قوم ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکے کہ درست کون تھا۔2001میں جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملوں کا آغاز کیا تو فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت سے خیبر پختونخواہ کا سرحدی علاقہ اور بلوچستان کا سرحدی علاقہ اس جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا اور پھر طالبان حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی شمالی اتحاد کے ساتھ ساتھ جن گروپوں کو کابل میں تخت کا حصہ دار ٹھہرایا گیا ان کے تعلقات پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ بہت بہتر تھے چنانچہ بھارت نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ بلوچستان کی عوام پہلے ہی مختلف معاشی محرومیوں کا شکار تھی چنانچہ اس صورتحال کو بھارت نے ایک نئی بغاوت کے لیے استعمال کیا اور بدقسمتی سے اس حوالہ سے افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران کے سرحدی علاقوں کو بھی استعمال کیا گیا ۔ 2015میں ہی بلوچستان کی سرحدی پٹی کے ساتھ افغانستان میں دس سے زائد بھارتی افغان قونصل خانے قائم ہوچکے تھے لیکن اس وقت ان کی موجودگی کو نظر انداز کیا گیا اورپھر اس کے نتائج ہمیں ابھی تک بھگتنا پڑ رہے ہیں ۔ عالمی طاقتیں بالخصوص امریکہ نے بھارت کا بھرپور ساتھ دیا اور کلبھوشن یادیو نیٹ ورک پکڑنے کے بعد ہمیں احساس ہونا شروع ہوا کہ بھارت کس حد تک افغانستان کے ذریعے اس صوبے میں چند نوجوانوں کے ذریعے معاشی محرومیوں کے ازالے کا نقاب پہن کر عسکریت کی طرف دھکیل چکا ہے ۔

یہ اس مسئلہ کا ایک پہلو ہے لیکن اس مسئلہ کا دوسرا اہم اور سنگین پہلو یہاں پروسائل کی عدم دستیابی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کو یہ موقع کیونکر ملا ؟ کیوں بلوچ نوجوان جن میں کئی اعلی تعلیم یافتہ بھی ہیں ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار ہوگئے تو اس کی ایک بڑی اور اہم وجہ بلوچستان میں تعلیم ، صحت ، روزگار سمیت دیگر ضروریات زندگی کی عدم دستیابی ہے۔ اگر حکومت ان کے معاشی مسائل کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ کر لے اور انہیں حل کرنے کے لیے موثر اقدامات اٹھائے تو اس حساس مسئلہ کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔اگرچہ گزشتہ کچھ سالوں سے اس پر کام ہورہا ہے لیکن ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔گوادر ایک معاشی طور پر دنیا کی بڑی بندرگاہ بنتا جا رہا ہے ،پاک چین اقتصادی راہداری سے بھی اہم تبدیلیاں ہو رہی ہیں لیکن اس کے باوجود بلوچ عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی ضرورت ہے ۔صحت کی سہولیات ، اعلی تعلیم کے مواقع اور روزگار کی فراہمی پر بلوچ نوجوانوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ کسی دوسرے صوبے کے نوجوان یہ حق رکھتے ہیں بلکہ شاید ان سے بڑھ کر بلوچ نوجوانوں کا حق بنتا ہے کہ وہ صوبہ ایک عرصہ سے بدامنی کا شکار رہا ہے ۔ وزیر اعظم اور ان کے معاون خصوصی اگر واقعی بلوچستان مسئلہ کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں اور اسے مستقل بنیادوں پر حل کرنا چاہتے ہیں تو قدم بڑھائیے ، بلوچستان کے نوجوان اور عوام آپ کا راہ دیکھ رہے ہیں ۔وسائل کی تقسیم کو منصفانہ بنائیے ، روزگا ر اور تعلیم کی دستیابی کو عام کیجیے ، بلوچستان کو ان کے آئینی حقوق دیجیے اور ہر فرد کو قومی دھارے میں شرکت کا موقع فراہم کیجیے مختصر عرصہ میں ہی نتائج آپ کے سامنے ہوں گے ۔ 

Asif Khursheed
About the Author: Asif Khursheed Read More Articles by Asif Khursheed: 97 Articles with 64691 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.