دو متحارب لیڈر، جن کا مشن ایک تھا مگر راستے جُدا جُدا

پاکستان، ہمارا پیاراپاکستان!جس قسم کے حالات سے دوچار ہے ان حالات کاتقاضا تویہ تھاکہ ہم سب مل کر ملکی آزادی و خودمختاری کے تحفظ ،ملکی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ،ملکی پسماندگی اورغربت کے خاتمہ ،عوام کی فلاح وبہبوداورمعیار زندگی بلند کرنے کامشن لے کر ،مل جل کر عزم کرتے کہ ہم سب اپنے مشن کی تکمیل کی خاطر اپناسب کچھ قربان کرنے کوتیار ہیں ۔ہم صرف باتوں ہی میں مصروف نہ رہتے بلکہ عملی اقدامات کرتے ہوئے ہر آدمی اپنے اپنے حصہ کاکام شروع کردیتا۔اوراس وقت پوری قوم سستانے یاآرام کرنے کی فکر کرتی جب مشترکہ مشن پایہ تکمیل کوپہنچ جاتا۔مگر شاید ابھی کاتب تقدیر کو اس ملک کی آزادی وخودمختاری کا تحفظ ،عوام کی خوشحالی اورمسائل کاحل منظور نہیں جبھی توایسا نہیں ہوا۔دنیا کے تمام بڑے بڑے فلاسفر ،معاشرتی علوم کے ماہر ،عمرانیات کے استاد ،تاریخ دان ،مذہبی راہنماو سیاست کے کل پرزے اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی جب تک وہ پوری قوم متحد ہوکر آپس کے فروعی اختلافات ،ذاتی مفادات اورچھوٹے چھوٹے مسائل سے صرف نظر کرکے اجتماعی وقومی مفادات کے حصول کی فکر نہیں کرتی ۔اسی لیے کسی شاعر نے بھی کہہ دیاکہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفرد ہے ملت کے مقدرکاستارہ

لیکن ہم ابھی تک ایک قوم بننے سے قاصر ہیں۔لوگوں کی بھِیڑ ہم ضرور ہیں مگر قوم نہیں۔بتائیے کیاقومیں ایسے ہواکرتی ہیں؟جیسے ہم ہیں ۔ہمیں لوگوں کی بھِیڑ توکہاجاسکتاہے مگر قوم نہیں ۔ہم قوم کہلانے کے حق دارہی نہیں ہیں۔اس لیے کہ ہم نے پچھلے ساٹھ سالہ نام نہاد”دور آزادی“ میں کوئی بھی کام آزادی سے نہیں کیا۔دال چاول کی قیمتوں کے تعین سے لے کر ملکی دفاعی و خارجی پالیسیوں تک کچھ بھی ہم اپنی مرضی سے کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ساٹھ سالہ دور آزادی میں اگر کبھی کوئی ایسالیڈر ہمیں نصیب ہوابھی جو عالمی سامراجی استعمار کے سامنے ڈٹ جانے کاتہیہ کرتاتوہم نے اُس لیڈر کاوہ حشر کیاکہ وہ بے چارہ بالآخر وہیں پناہ لینے پر مجبور ہوا جہاں سے ہم ملک کونکالنے کی فکر میںسرگرداں ہیں۔

میری بات سے اختلاف یقینی ہے مگر میرے خیال کے مطابق مسٹر ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلالیڈر تھاجس نے امریکی سامراج کے تسلط سے آزادی کی خواہش کااظہارکیا۔پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کی تعمیرکافیصلہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پاکستان آمد ،اسلامی سربراہی کانفرنس کاانعقاد ،امت مسلمہ کے تمام بڑے بڑے اکابرین اورسربراہان مملکت کی شرکت،مشترکہ اعلامیہ ،اورخصوصی رپورٹس کے مطابق امریکی صدر کاسائیکل پر دفترجانااس بات کے ثبوت ہیں کہ بھٹو ہی وہ شخص تھا جس نے امریکی غلامی سے نجات کافیصلہ کیااوراسے عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد شروع کی ۔ اُس بے چارے کے ساتھ المیہ یہ تھاکہ اس کاماضی قریب بذاتِ خود داغدار تھا۔کیونکہ مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی میںوہ براہِ راست ملوث تھا۔اسی کی اقتدارکی ہوس کی وجہ سے پاکستان متحد نہ رہ سکا۔اوریہ بات کوئی پرانی نہ تھی بلکہ سقوطِ ڈھاکہ کے تقریباً چار یاپانچ سال بعد ہی مسٹر بھٹو کو ملکی وقومی سوچ نے مجبور کیاکہ وہ امریکی استعمار کے مدمقابل ڈٹ جائیں۔مسٹر بھٹو کایہ فیصلہ بڑا خوش آئند اوربروقت تھااوربھٹو جیسے لیڈر کیلئے یہ کوئی مشکل کام بھی نہ تھاکیونکہ باوجود اس کے کہ اسے سانحہ مشرقی پاکستان کاذمہ دار قرار دیاجارہاتھالیکن عوام کی ایک خاص اکثریت بہرحال بھٹو کواپناقائد مانتی تھی اوراسے اقتدار میںدیکھناچاہتی تھی ۔میرے خیال کے مطابق بھٹو نے قادیانیوں کوغیر مسلم اقلیت قرار دینے کاجو تاریخی فیصلہ کیا وہ فیصلہ بذات خود اتنی اہمیت کاحامل تھا کہ اس کی بنیاد پر اگرپاکستانی قوم بھٹو کی سقوط ِمشرقی پاکستان والی غلطی معاف کردیتی تواچھاتھا۔بجائے اس کے کہ اس کے خلاف تحریک نظام ِمصطفےٰ چلائی گئی۔ جس کااختتام بھٹو کے اقتدار کے ساتھ ہی ہوگیا۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیاتحریک نظام ِ مصطفےٰ صر ف اورصرف بھٹو کواقتدار سے باہر کرنے کیلئے ہی چلائی گئی تھی ؟چونکہ بھٹو کے اقتدار سے باہر کردیے جانے کے بعد مارشل لا ءلگااوراس کے ساتھ ہی تحریک نظام ِ مصطفےٰ ختم کردی گئی ،چنانچہ کہاجاسکتاہے کہ تحریک نظام ِ مصطفےٰ چلانے والوں کامقصد ہی بھٹو کو اقتدار سے نکال باہرکرناتھااوربس!میرا مقصد تحریک نظام ِ مصطفے ٰ کے قائدین اوراکابرین پر بلاوجہ اعتراض کرنانہیںبلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اورحقائق جھٹلائے نہیں جاسکتے ۔اسلئے اگریہ مان لیاجائے کہ اکابرین ِسیاست، جوکہ تحریک نظام ِ مصطفےٰ کے روح رواں تھے، ان سے غلطی ہوگئی، تو کوئی حرج نہیں ،بجز اس کے کہ ہم انہیں معصوم عن الخطاءقرار دیتے پھریں۔میرے خیال کے مطابق تحریک نظام ِ مصطفےٰ کے تمام قائدین کی نیت پر شک کرنامناسب نہیں بلکہ یہ کہناچاہئے کہ وہ غیر ارادی طورپراورغیر محسوس طریقے سے امریکی مفادات کیلئے استعمال ہوگئے حالانکہ وہ تمام کے تمام افراد اپنے طورپر پوری دیانت اورخلوص کے ساتھ جدوجہد کررہے تھے ان کامقصد بھٹو کوپھانسی دلانانہ تھابلکہ یہ توآنے والے حالات تھے جنہوں نے اُن اکابرین سیاست کی جدوجہد کوغلط رنگ دے دیااوروہ کچھ ہوگیاجس کااُن قائدین کوذرا برابر بھی شک شبہ نہ تھا۔بہر حال پاکستان کی تاریخ کاوہ پہلاسیاستدان جس نے امریکی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کی فکر کی ،کوشش کی اوروہ مسلسل اسی جدوجہد میں مصروف عمل تھا کہ کس طرح پورے عالم اوربالخصوص عالم اسلام کو امریکی غلامی سے نجات دلائی جاسکتی ہے وہ سیاستدان امریکی سازشوں کاشکار ہوکر اپنے ہی ملک میں قتل کے ایک مقدمہ میں مجوزہ مشاورت کرنے کے مبینہ جرم میں پھانسی پر لٹکادیاگیا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نہ تواس سے پہلے کسی سیاستدان نے اورنہ ہی اس کے بعد کسی سیاسی شخصیت نے امریکہ کے خلاف اس طرح کاموقف اختیار کیاجس طرح کاموقف بھٹو نے اختیار کیاتھا۔اسلئے کہاجاسکتاہے کہ پاکستانی تاریخ کاوہ پہلااورآخری سیاستدان امریکی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی سوچ اپنے ساتھ لے کر پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔اوریہ بھی ایک المیہ ہی ہے کہ اس سیاستدان کے سیاسی وارث جس میں اس کی بیٹی اوراس کاداماد بھی شامل ہے دوبارہ کبھی بھی امریکی استعمار کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی کوشش بھی نہ کرسکے ۔بلکہ انہوں نے اپنے ہر دور اقتدار اورہر دوراپوزیشن میں امریکی غلامی کوگلے کاہار بناکرسجائے رکھااوراس پر شرمندہ ہونے کی بجائے اسے قابل صد افتخار ہی سمجھا۔

پاکستان کی تاریخ کاایسا دوسرا حکمران جس نے امریکی غلامی سے نجات کی کوششیں کیں وہ ایک فوجی جرنیل تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ فوجی حکمران جس نے پہلے امریکی مخالف سیاستدا ن کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا،بعد میں وہی فوجی حکمران بذات خود امریکی استعماری پالیسیوں سے متنفر ہوکرامریکی غلامی سے نجات پانے اورعالم اسلام کو امریکی غلامی سے نکالنے کی فکر اورسوچ لے کر میدان عمل میں اترا۔میرا مطلب ہے جنرل محمد ضیاءالحق ۔وہ دوسرا پاکستانی حکمران تھا جس نے امریکی سامراج سے آزادی کی کوشش کی ۔بھٹو کاامریکی غلامی سے آزادی کی خاطر اپناطریقہ کارتھااورضیاءالحق کااپناطریقہ کار۔لیکن دونوں متحارب لیڈروں کامشن اورمقصد امریکی غلامی سے نجات پانااورعالم اسلام کو امریکی غلامی سے نجات دلاناہی تھا۔بھٹو صاحب اپنی تیز روطبیعت کے تحت امریکہ مخالفت میں ذرا گرم جوشی دکھارہے تھے اس لیے فوری طور پر امریکہ کی نظروں میں آگئے ۔جبکہ جنرل محمد ضیاءالحق صاحب ایک صحیح فوجی جنرل ہونے کے ناطے بڑے دھیمے دھیمے انداز سے چلتے ہوئے غیر محسوس طریقے سے اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھ رہے تھے ۔

روس پہلے ہی افغانستان پر حاوی تھا جس کی ایک ادنیٰ سی مثا ل یہ ہے کہ افغانی کرنسی بھی روسی پریس کے ذریعے چھپ کر آتی تھی ۔روس کاافغانستان پر قبضہ کرنے کامقصد صرف افغانستان پر اپناتسلط جماناہی نہ تھا بلکہ روس کی اگلی منزل گرم پانی کاساحل سمندر یعنی پاکستانی بلوچستان تھا۔جنرل محمد ضیا ءالحق وہ دور اندیش پاکستانی حکمران اورفوجی جرنیل تھا جس نے بروقت حالات کاتدارک کیا اوروہ روسی چال کوسمجھنے میں کامیاب ہوگیا۔یہ جنرل محمدضیاءالحق کا خاصہ تھا کہ اس نے پاکستان کے دفاع کی جنگ افغانستان کی سرزمین پر لڑی اورملک کو سفید ریچھ کی غلامی میں جانے سے بچانے میں کامیاب ہوگیا۔یہ خوبی بھی صرف جنرل محمدضیا ءالحق کے ساتھ وابستہ تھی کہ اس نے بغیر کسی لمبے چوڑے اخراجات کے ،بغیر کسی اضافی دفاعی بجٹ کے ،اپنے ملک کی عوام سے غیر معمولی جانی مالی قربانی لیے بغیر نہ صرف ملک کی آزادی کادفاع کیابلکہ سفید ریچھ کوماضی کاقصہ بنادیا۔جنرل محمدضیاءالحق کادور حکمرانی عوامی خوشحالی کے حوالے سے بھی اورملکی دفاع کے حوالے سے بھی ایک روشن اورشاندار دور تھا۔اس درویش صفت فوجی جرنیل کی نظریں اب امریکی سامراج کی طرف تھیںاوروہ غیر محسوس طریقے سے اسی طرف بڑھنے کی تیاری میں تھا ۔یہ جنرل ضیاءہی تھا کہ جس کے دور میں امریکی سفیر کو بلااجازت افغانستان جانے کی جرات نہ تھی اور وہ طورخم سرحد سے پاکستان کے ایک معمولی سپاہی کے منع کرنے پر واپس اسلام آباد جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتاتھا۔حالانکہ لوگ کہتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ امریکی ڈالروں سے لڑی گئی۔توجناب داد دیجئے ا ُس چیف ایگزیکٹو کوکہ جو امریکی امداد وصول کرنے کے باوجود امریکہ کو اپنی مٹھی میں بند کرکے رکھاکرتاتھا۔دورہ امریکہ کے دوران ایک امریکی صحافی نے بڑی عجلت اورپیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ جناب ضیاءالحق صاحب پر سوال داغ دیاکہ جناب صدر آپ بتائیے کہ کیاپاکستان کے پاس ایٹم بم ہے؟توحاضر دماغ حکمران فوراً گویاہوا کہ یار ایٹم بم توکالج کا سٹوڈنٹ بھی بنالیتاہے کوئی اوربات کرو۔ اگرآج کاکوئی مفاد پرست حکمران ہوتاتونہ جانے کیا اول فول کہہ بیٹھتا۔اوربعد میں پاکستانی دفتر خارجہ یاپاکستانی سفیر کوبے تہاشا صفائیاں پیش کرنی پڑتیں۔ افسوس اپنی قوم اپنے جرنیل کو سمجھنے سے قاصر رہی مگر دشمن اس کی پالیسیوں کوسمجھنے میں کامیاب ہوگیااوراس نے پاکستان کے آخری محب وطن حکمران کو اپنے راستے سے ہٹانے کی سازش کی اوراس سازش میں17اگست 1988ءکو کامیاب بھی ہوگیا۔

کوئی ضد کرے توا س کی اپنی مرضی لیکن یہ حقیقت بہرحال حقیقت ہی ہے کہ دونوں متحار ب قائدین جن میں سے ایک سیاستدان تھا اوردوسرا فوجی جرنیل ،ان دونوں کے ذاتی کردار ،لہجے اورگفتار میں بڑا واضح فرق تھا،دونوں کااندازِحکمرانی ایک جیسانہ تھا،دونوں کی ترجیحات بظاہر ایک جیسی نہ تھیں،دونوں لیڈروں کی ذاتی محافل سے لے کر طریقہ کار تک شدید اختلاف ہونے کے باوجود ان دونوں لیڈروں میں ایک قدر مشترک تھی کہ وہ دونوں امریکی غلامی سے نجات حاصل کرناچاہتے تھے ۔اوراسی مقصد کی خاطر وہ دونوں مصروف عمل تھے ۔طریقہ کار دونوں کاالگ الگ تھامگر منزل ایک ہی تھی ۔افسوس کہ ان دونوں کے وارثان ان کے نقش قدم پر چلنے سے قاصر رہے ۔اوراسی لیے پاکستان امریکی غلامی میں مزید سے مزید تر پھنستا ہوا بالآخر آج اس نوبت کوآن پہنچاکہ امریکہ نے ہماری چادر اورچاردیواری کاتقدس پامال کرتے ہوئے ایبٹ آباد کاڈرامہ رچایااورپاکستان کی سرزمین پرایک ایسامعرکہ سرانجام دیااور فلمایاگیاکہ جس کی صحت کے بارے لاتعداد شکوک وشہبات ہیںمگر اس کاروائی سے امریکہ نے ہماری جغرافیائی ونظریاتی سرحدوں کی زبردست خلاف ورزی کی ہے اوران کے تقدس کو پامال کرنے کی مذموم کاروائی کی ہے ۔اگر آج کے دور میں ہمارے پاس بھٹو جیسا سیاستدان ہوتایاضیاءالحق جیسا فوجی جرنیل تو ہم دیکھتے کہ امریکہ کیسے ہماری چادر اورچادر دیواری کاتقدس پامال کرتاہے۔

اوپر بیان کیے گئے میرے موقف پراگر تحمل سے غور کیاجائے ،اورسیاسی وابستگی اورذاتی پسند وناپسند سے بالاتر ہوکر چند منٹ کیلئے سوچاجائے تویقیناہر ذی شعور اسی نتیجہ پر پہنچے گاکہ واقعی وہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف لیڈرایک ہی مشن پر گامزن تھے اوران دونوں کی منزل بطورِپاکستانی ایک ہی تھی ۔یعنی امریکی غلامی سے نجات ۔ان میں سے ایک علی الاعلان ایساکرنے کاخواہش مند تھا اوردوسرااپنی فوجی تربیت کی وجہ سے کیموفلاج کاطریقہ کار اپنائے ہوا تھا۔امریکی غلامی سے نجات کی جدوجہد ان دونوں نے اپنے اپنے وقت پر شروع کی ،اوروہ دونوں امریکی سازشوں کاشکار ہوکر عالم عدم کوروانہ ہوئے ،ان دونوں کو قوم ان کی زندگیوں میں نہ سمجھ سکی اورشاید اب بھی نہ سمجھ پائے گی۔ کیونکہ ہم بطور قوم سوچنے اورسمجھنے سے بالکل عاری ہیں ۔کیونکہ ہم ایک قوم ہیں ہی نہیں بلکہ لوگوں کی ایک بِھیڑ ہیں ۔بھِیڑ کر بھی کیاسکتی ہے سوائے شور وغل کے ۔اورشوروغل ہم کر ہی رہے ہیں ۔عافیہ صدیقی کامعاملہ ہویاریمنڈڈیوس کا،قرآن جلانے کاواقعہ ہویاگستاخانہ خاکوں کا،میراتھن ریس کی بحث ہویاتوہین رسالت کے قانون کی بات ہو ،سانحہ ایبٹ آبا دہویاڈرون حملوں کا تذکرہ ،ہم اپنے ذاتی اغراض ومقاصد ومفادات وترجیحات سے باہر نکل کر سوچنے سے بالکل عاری ہوچکے ہیں ۔اے کاش ہم ایک قوم بن جائیں۔ہمار ا بھی اپناکوئی لیڈر ہو۔جو ہمارے دکھ درد بانٹ سکے اورہم اس کی زندگی میں اس کی قدر کرسکیں۔
Aijaz Ahmed Qasmi
About the Author: Aijaz Ahmed Qasmi Read More Articles by Aijaz Ahmed Qasmi: 11 Articles with 7093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.