شادی بیاہ، فرسودہ اور غیر اسلامی رسومات اور معاشرتی زندگی پر اثرات

اسلا م ایک مکمل مذہب ہے جسکی بنیاد توحید ،طا قت عدل ،حسن تہذیب وشائستگی اور با ہمی بھائی چارہ ہے۔اس دینِ کا مل میں ہر بشر کے لئے ہدایت ورہنمائی کا سامان موجود ہے اس دین میں سب برابر ہیں اگر کسی کو برتری حا صل ہے توتقویٰ وپر ہیز گاری کی بنا پر۔اسلام مسا وات کا عمدہ آہنگ دیتا ہے اسلام نے جہان بندگی کا قرینہ بتا یا وہا ں عائلی،سما جی زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی سیکھا یا۔اسلام روزِاول سے ہی غلط،فرسودہ رسوما ت کا خاتمہ چاہتا ہے تاکہ زندگی سادہ اورآسان ہو۔رسوم کی تاریخ بہت پُرانی ہے دنیا کی ہر تہذیب مختلف رسومات کی حامل رہی ہے مسلمانوں نے بد قسمتی سے ہندوؤں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے غلط قسم کی رسومات اور رواجات کو اپنایا اور وقت گزرنے کے باوجود مسلمان ہندوانہ رسومات سے نجات حاصل نا کر سکے یہ مغل فرمارواکبر کے ”دینِ الہیٰ“کا شاخسانہ بھی ہے کہ ہم آج تک اپنی تہذیب کو ہنداونہ رنگ سے الگ نہ کر سکے اور آج یہ فرسودہ رسومات ہما ری معا شرتی اور اسلامی روایات میں رچ بس گئیں ہیں کچھ رسومات نے ہماری معا شرتی زندگیوں کو بھی متا ثر کیا ہے اور زندگی کو مشکل اور تلخ کر دیا ہے ہم فضول رسومات کے شکنجے میں ایسے اُلجھے ہیں کہ اب بے بس سے نظر آتے ہے۔ہم جانتے ہیں کہ جو رسومات ہمارے اسلامی تہواروں کا حصہ بن چکی ہیں وہ کسی بھی طرح اسلام اور اسلامی تہذیب سے تعلق نہیں رکھتیں لیکن ہم اپنی عملی زندگیوں میں اُن رسومات کی ادائیگی بڑے ذوق وشوق سے ر ہے ہوتے ہیں۔اسلام سادہ دین ہے اس میں پیچیدگی نہیں ہے نا ہی تضاد ونمائش ہے۔شادی بیاہ کا طریقہ بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح اور ولیمہ(جو جتنی استطا عت رکھتا ہو)پر مشتمل ہے لیکن ہما رے ہاں یہ اب ”بوجھ“بن چکا ہے لو گوں نے نمودونمائش کو اپنا لیا ہے دکھاوا آگیا ہے اس فرض کی ادائیگی میں۔۔۔!شادی بیاہ کی رسومات کی فہرست بہت طویل ہو گئی ہے ما یوں۔مہندی کی رسم وغیرہ وغیرہ شادی کی تاریخ طے ہونے سے رخصتی تک بے شمار رسومات کی ادائیگی فضول خرچی کے ساتھ بسا اوقات بدمزگی بھی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے شادی سے ہفتوں پہلے بلندآواز گا نے بجانے سے اہلِ محلہ کو تکلیف اُٹھا نی پڑتی ہے، طا لب علموں کی پڑھائی متا ثر ہوتی ہے ،لوگوں کی نیند میں خلل پیدا ہوتا ہے اور بوڑھے مریض نا حق اذیت سہتے ہیں لوگ اگر شکا یت کریں تو جواب ملتا ہے”خوشی کا موقع ہے“اب آپ کو جتنی کوفت ہوتی ہے تو ہو۔۔۔۔۔۔۔!

پچھلے دنوں برطانیہ سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں” پاکستان کو عورتوں پر تشدد کرنے والے ممالک میں تیسرے نمبر پررکھا گیا تھااور جہیز نہ لانے یا کم لانے کی وجہ سے پاکستان عورتوں پر تشدد کرنے میں پہلے نمبر تھا،اس رپورٹ کو بعدازاں پاکستان نے مسترد کر دیا تھاکہ یہ پاکستان کوبدنام کرنے کی سازش ہے اور بے بنیاد حقائق پر مشتمل ہے“حقیقت سے فرار کہاں تک؟ہم سب جانتے ہیں کہ جہیز کی فرسودہ رسم کس طرح ہمارے معا شرے میں رچ بس چکی ہے اور پاکستانی عورت کی مشکل زندگی کو مزید مشکلوں سے دوچار کر رہی ہے ہمارے ہاں بارہاں سننے میں آتا ہے کہ ”جہیز لعنت ہے“لیکن یہ لعنت ہونے کے باوجود ہماری شادی بیاہ کا جزو لازم ہے کتنے لوگ ہیں جو نا چا ہتے ہوکہ ان کی آنے والی بہواپنے ساتھ بیش قیمت جہیز نہ لائے؟بظاہر کوئی اس لعنت کی لاکھ مزمت کرے،عملی مُظاہرے کے وقت زمانے کا رونا رونے لگتے ہیں اور افسوس تو اس پر ہے کہ حکمران خود بڑی ٹھاٹ سے اپنی عشرت کا پرچار جہیز کی صورت کرتے نظر آتے ہیںجہیز اگر لعنت ہے تو اس کا بائیکاٹ کیوں نہیں ہوا؟آج تک یہ فر سودہ رسم ہما رے معاشرے میں خوب پھل پھول رہی ہے آخر ہم کیوں سمجھتے ہیں کہ اس کا تعلق ہمارے کلچر سے؟یہ خالصتاََ ہندوانہ رواج ہے وہ لوگ چو نکہ اپنی بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے تھے اس لئے شادی بیاہ کے موقعے پرسامان اور رقم دے دیا کرتے تھے دوسرے معنیٰ میں جہیز کے نام پروراثت سے حق،لیکن یہ خیرات کی صورت تھاہم نے اسے اتنی شدت سے اپنایا کہ آج یہ ہماری شادیوں کا اہم ترین حصہ ہے اورہم بضد ہیں کہ یہ ہمارے بزرگوں کی روایت ہے۔سرسید نے کہا تھا ”رسم کی پا بندی ہر جگہ انسان کی ترقی کی مانع ومزاحم ہے“جہیز کے با رے میں شریعت استطاعت کی قائل ہے جس میں آپ کوقرض نہ لینا پڑے،جس میںنمود ونمائش نہ ہو یعنی جو آپ پر بوجھ یا تکلیف نہ بنے۔۔۔۔!لیکن ہم نے اس کو بالکل برعکس اپنا رکھا ہے قرض،سود تک لے کر لوگ جہیز دے رہے ہو تے ہیں کہ معاشرے اور خاندان میں عزت رہ جا ئے اور جب شادی کے بعد قرض اور سودوالے تنگ کرتے ہیں توساری سفیدپوشی دھری کی دھری رہ جا تی ہے ۔ہم جو کام لوگوں کے لئے کرتے ہیںلوگ اُسی پر ہمیں لعن طعن کر رہے ہوتے ہیں۔شادی سے پہلے لڑکے والے کسی نہ کسی طرح جہیز کی فہرست لڑکی والوں کے گوش گزار کر دیتے ہیں میں یہاں ایلیٹ کلاس کی با ت نہیں کروں گی کیونکہ وہ متوسط اور غریب طبقہ سے بالکل جداگانہ لائف سٹائل کی حامل ہے۔متوسط طبقہ جہیز تھوڑی تگ ودو کے بعد دے دیتا ہے،اصل مسئلہ تو غریب طبقے کا ہے جہاں کھانے کودووقت مشکل سے پوری ہوتی ہے وہ قرض لے کر یا کسی دوسرے زرائع سے جہیز کا بندوبست کرتا ہے آپ نے اخبا رات میں اکثر پڑھا ہوگا کہ جہیز کے لئے چوری کی،جہیز اکٹھا کرنے کے لئے غلط قدم اٹھا یا۔ایسے ہی ایک کیس میں ملوث ایک لڑکی کا کہنا تھا کہ ”اس کے والد نے کہا تھا کہ وہ بنگلے پر چوری کرے تاکہ جہیز کا بندوبست ہو سکے“اس لڑکی نے جہیز کے لئے چوری کی مگر بدقسمتی سے پکڑی گئی اورشادی کی جگہ جیل کی سزا کااہتمام کر بیٹھی یہ فرسودہ رسم کی پیروی کی وجہ سے ہوا!ہمارے ہاں شادی بیاہ دکھاوابن گیا ہے اس موقعے پر بڑے اہتمام سے جہیز کی نمائش کی جاتی ہے جس کو دیکھنے کے لئے رشتے دار خواتین بڑے شوق سے آتیں ہیںجہیز اچھا ہونے کی صورت میں رشک آمیز جملے سننے کو ملتے ہیں،معمولی ہونے کی صورت میں عورتیں ناک بھوئیںچڑھا تی دکھائی دیتی ہیںبچارے غریب ماں باپ ساری جمع پونجھی لگا دیتے ہیں لیکن لوگوں کی باتیں پھر بھی سننی پڑتی ہیںبے بسی اور مجبوری کی ناسمجھ میں آنے والی صورتحال ہوتی ہے۔ایک ایسی خوشی جس میںخدشات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

امیرطبقہ کے لئے یہ خودنمائی کا ذریعہ ہے توغریب کے لئے بربادی اورمصیبت۔۔۔۔!جہیز نے بہت سی لڑکیوں کے گھربسنے سے پہلے ہی تباہ کردئے اور بہت سی کے بعد میں!!بہت سی لڑکیوں کے ارمانوں کا خون کیا ہے اس فرسودہ رسم نے،اخبار بھرے پڑے ہیں کہ جہیز نہ لانے یا کم لانے پر سسرال والوں کے ہاتھوں نئی نویلی دلہن کا قتل،کہیں یہ رسم آگ بن کے کسی لڑکی کو جلا رہی ہے،کہیں اس کی وجہ سے لڑکی پر تشدد کیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!میراخیال ہے کہ ہمارے ہاں ناتوحکومت اس کو ختم کرنا چاہتی ہے ناہی ہم خود اس ناسورکو ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں اسلئے اس رسم کی بھینٹ چڑھانے والی لڑکیوں کے ہم مجرم ہیںمجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ اپنے بیٹوں کی شادی گھر بسانے کے لئے کرتے ہیں یا گھر بھر کے لئے!!انہیںبہو کی صورت بیٹی کی نہیں بلکہ جہیز کے ساتھ نوکرانی کی ضرورت ہوتی ہے گویا شادی نا ہوئی لین دین ہوگیاجس میں خسارہ بےچاری لڑکی کو سہنا پڑتا ہے ایسے لوگ اسلام دوست نہیں ہوسکتے،انہیں اللہ عزوجل کا خوف نہیں ہوتا!آنحضرت محمدﷺنے جب حضرت فاطمہ زہرہ کی شادی کی تو جوجہیز دیا وہ سب کومعلوم ہے۔اتنے بڑے رسول کی پیا ری اور لاڈلی بیٹی کی شادی اور سامانِ جہیز مختصر!!رسول اللہ ﷺ کے اس عمل سے ہم جیسوں کی اصلاح مقصود تھی کہ”سامانِ زندگی میں الجھ کر نہ رہو جہاں تک ممکن ہوسادگی وقناعت کو،اعتدال وشرافت سے زندگی(جو کہ فنا ہے)کو بسر کرو۔

اگر آج کاہر انسان شادی بیاہ سے غیر اسلامی رسومات کا بائیکاٹ کر کے سنتِ رسولﷺ پرچلتے ہوئے اپنے بچوں کی شادیاں کریں توکتنی بیٹیاں اوربہیںجو جہیز کے انتظار میںبیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں اپنے اپنے گھروں کی ہوجا ئیں۔جو لوگ دنیاوی مال ودولت کے پجاری ہیں انہیں اللہرب العزت کے سوا کوہدایت نہیں دے سکتاکیونکہ ان لوگوں کے نزدیک انسان کی کوئی اہمیت نہیں،جو لوگ جہیز نہ لانے یا کم لانے پر لڑکی تذلیل کرتے ہیںوہ اسلام تو دور کی بات، انسانیت سے بے بہرہ ہیںوہ اسلامی معاشرے کے فرد نہیں ہوسکتے،ان کے نزدیک لڑکی کی حیثیت جہیز میں دی جانے والی مادی اوربے جان چیزوںسے کمتر ہوتی ہے۔۔۔۔!!!ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو جہیز نہ لانے پر نام نہاد عزت کی وجہ سے لڑکیوں جان سے مارنے کے بجائے روحانی طورپرمارنے کو ترجیح دیتے ہیں کبھی لڑکی کو کردار کی گالی دیتے ہیں تو کبھی اس کی وفاداری پر شک کرتے ہیں الغرض یہ لوگ پہلی قسم کے لوگوں سے زیادہ ظلم ہوتے ہیں ایسے لوگوں سے صرف اتنا کہنا ہی کہ اصل دولت تولڑکی کاسلیقہ ،تعلیم،اخلاق وکردار ہوتی ہے اگر انہیں اس دولت کی قدروقیمت کا احساس ہو جائے تو وہ کبھی دنیاوی دولت کے پیچھے کسی لڑکی کواذیتوں سے دوچار نہ کریں۔جہیز کے نام پرکسی کی بے بسی،کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کے بجائے نئے رشتے کی بنیادخلوص وسچائی پر رکھیں۔اسلام ایک مکمل دین ہے اس کی پیروی میں ہی انسان کی بھلائی ہے لہٰذا اپنی زندگیوں سے فرسودہ اوربیمار رسومات کو نکا لئے اپنی دنیا کو دین کے احکامات کے مطابق ستھرا بنا لیجئے ۔۔۔۔!
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
Sumaira Malik
About the Author: Sumaira Malik Read More Articles by Sumaira Malik: 24 Articles with 26502 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.