انقلاب کا کھیل

تاریخ کے اوراق کی گردان کرتے کرتے ہم لوگ ہمیشہ ایک لفظ REVOLUTION سنتے اور پڑھتے آئے ہیں ۔اور ہر کوئی اس لفظ سے جڑے قصوں اور تاریخی واقعات کو سراہے بنا نہیں رہ پاتا۔ہر فہم و فراست رکھنے والا انسان ان بہادری کے قصوں کی پزیرائی کرتا آ یا ہے ۔لیکن ایک مسلمان ہونے کے ناطے جس طرح ہر اچھے اور برے عمل کے پیچھے نیکی اور بدی کی رسی کھنچنے والے ہاتھ کسی انسان کے نہیں ہوتے ۔قسمت کی کنجیا ں اور ڈورسنبھالنے والی ذات اﷲبزر گ و برتر کی ہے ۔لیکن ایک اور شیطانی طاقت جسکے بہکاوے سے ہمیں بار ہا قرآن پاک میں خبر دار کیا گیا ہے انکار نہیں۔ جسکا نام ابلیس ہے ۔مطلب ، ایسی بڑی طاقتیں ہیں جن کی سر پرستی شیطانی طاقتیں کرتی ہیں ۔اور وہی لوگ آجکل اپنی ایڈوانس ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی کے مرہون منت دنیا میں کافی آگے ہیں اور برے رویوں اوراقدار کے فروغ کے ساتھ ساتھ ونیا کی بڑی اکانومی پر برا جمان ہیں ،اور دنیا کو اپنے احکام کے تابع کر رکھا ہے ۔انہی شیطانی طاقتوں میں ایک طاقت وجال کی ہے جسکے پیروکار اس کے آنے کے انتظار میں ایک جال بن رہے ہیں ۔عیسائی اور یہودیوں کی بڑی تعداد تو انکی پیروکار ہے ہی لیکن وہ مسلمانوں کو بھی اپنے شکنجے میں جکڑنا چاہ رہے ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ عظیم منصوبہ بندی کا عمل جو صدیوں پر محیط ہے ،شیطانی طاقتیں اس میں آہستہ آہستہ کامیاب ہو رہی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے روزاول سے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے ۔

اتنی بڑی وضاحت اس لئے کی گئی تاکہ ایک عام آدمی جان پائے کہ اج کل کا تمام انقلاب ایک کھیل ہے جو تمام مسلمان ملکوں میں کھیلا جا رہا ہے اور واہ واہ ہو رہی ہے ۔مگر ہم بحیثیت ایک مسلمان قوم خود ہی نہی جانتے کے ہمارے جذبات مجروح کیے جا رہے ہیں پہلے ا سرائیل پر غاصبانہ قبضہ ،افغانستان کو آزادی دلانے کے ورغلاو ے کی شہ میںنہ ختم ہونے والی طویل جنگ تحفہ بدامنی ،کویت اور عراق کی ایک چھوٹی سی چپکلش کوآگ کی طرح بھڑکادینا اور سعودی عظیم ریاست کو ڈرا کر وہاں امریکہ کے ڈیرے جما لینا ۔یہ سب میرے خیال میں یاد دلانے کی ضرورت نہیں تھی مگر ایک نظر دوڑانا تاریخ پر شاید انقلاب کو سمجھا سکے۔

آجکل فیس بک ریولوشن کی آڑ میں بکے ہوئے مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے ہی ملک کا بیڑا غرق کروا دیا گیا مصر ،لیبیا،شام، ار دن ،اور کئی ممالک ، انے والے دنوں میں اگر زندگی رہی تو ہم دیکھ لیں گے کہ انکا مستقبل بھی کتنا تابناک ہوتا ہے ۔یہ سب کھیل امریکہ اور اتحادیوں نے کیوں کھیلا ۔۔۔۔۔صرف اور صرف طاقت کا نشہ اور حوس ،یہ انقلاب آزادی کفار اور یہود کی آزادی تو ہے مسلمانوں کی نہیں۔یہ انکے لیے اسلامی ممالک میں بقا کی آزادی ہے نہ کہ مسلمان ممالک میں مسلمانوں کے تشخص کی آزادی ۔ ہمارے ملک پاکستان کو ہی لے لیجئے ہم خیال کرتے ہیں کہ شاید ہم آزاد ہیں مگر روز اول سے ہی ہم غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ،آزادی کے بعد شاید ہمیں چار دن چاندنی تو نصیب ہوئی مگر جب وطن کے معماروں نے ہمیں چھوڑ دیا تو ہم نے اپنے اقدار کو انگریزوں کے ہاتھوںچند ڈالرز کے عوض بیچ ڈالا ۔کچھ مہنگے بکے کچھ سستے ،مگر بکتے چلے گئے اور فرنگیوںنے پھر ہمیں ہمارے تشخص سے اس طرح دور کر دیا ہمیں ہی کہہ دیا begger are not the choser تو کیا ہم آزادی کی بات منہ پر لا سکتے ہیں ۔۔ہمیں افسوس ہے کہ ہم صرف انگریزوں کے پتلے اور جھنڈے جلا کر اپنا غصہ تو ٹھنڈا کر سکتے ہیں مگر آواز بلند نہیں کر سکتے۔کیا برداشت کرتے کرتے ہم اسی طرح اپنے بچوں کو مار ڈالتے رہینگے اور مزید پچاس سال بے حسی سے ان دجالوں کا ظلم سہتے رہینگے اگر ہم بکاؤ نہ ہوتے ،ذاتی مفاد پر ملکی مفاد پر ترجیح نہ دیتے تو ہم کسی ترقی یافتہ ملک سے پیچھے نہ ہوتے ،آج ہمارے بچوں کوبھی ضروریات زندگی میسر ہو تی اور ہر وقت سر پر منڈلاتے خوف کے سائے میں ہمارے بچے پروان نہ چڑھتے ۔ آج کہنے سننے کی نہیں عمل کی ضرورت ہے ۔دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے ہر کوئی اپنے اپنے گریبان میں جھانکے تو ملک خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔
ان کے سرد لہو میں جو سرائیت کر جائے
میرے الفاظ میںباقی وہ حرارت ہی نہیں
سرفروشوں کے لہو کو جو معطر کر جائے
سپہ سالار میرے لشکرمیں کوئی ایسا نہیں
زندگی موت سے بدتر ہو تو بھی کٹ جائے
گل یہ زندگی کیا جسکا حاصل ہی نہیں
Gul e semon
About the Author: Gul e semon Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.