کامیاب مومن و رَاہ یاب مُسلم !!

#العلمAlilmعلمُ الکتاب{{{ سُورَةُالمؤمنون ، اٰیت 1 تا 11 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قد
افلح المؤمنون 1
الذین ھم فی صلاتھم
خٰشعون 2 والذین ھم عن الغو
معرضون 3 والذین ھم للزکٰوة فٰعلون 4
والذین ھم لفروجھم حٰفظون 5 الّا علٰی ازواجھم
اوماملکت ایمانہم فانھہم غیر ملومین 6 فمن ابتغٰی ورآء
ذٰلک فاولٰئک ھم العٰدون 7 والذین ھم لامٰنٰتہم وعھدھم رٰعون 8
والذین ھم علٰی صلٰوتہم یحافظون 9 اولٰئک ھم الوٰرثون 10 الذین یرثون
الفردوس ھم فیھا خٰلدون 11
انسانی تاریخ کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو تی ھے کہ اہلِ زمین میں سے جو لوگ اطمینان کار ہوتے ہیں وہی لوگ وسائلِ زمین کے حق دار ہوتے ہیں ، یہ اطمینان کار لوگ اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیۓ اپنی ہستی کو مٹا دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے ، یہ اطمینان کار لوگ لَغویات کو ترک اور حسنات کو اختیار کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ، یہ اطمینان کار لوگ جب تک زمین پر زندہ رہتے ہیں تب تک اپنے جسم و جان کی تطہیر کرتے رہتے ہیں ، یہ اطمینان کار لوگ انسان کے کشاد کار بھی ہوتے ہیں اور انسانیت کے حفاظت کار بھی ہوتے ہیں ، اِس پر مُستزاد یہ کہ یہ اطمینان کار لوگ اپنے ہمنشین و زیرِ نگین لوگوں کے لیۓ مدد گار و حوصلہ کار بھی ہوتے ہیں اور جو لوگ اللہ تعالٰی کے اِن اَحکامِ نازلہ سے رُوگردانی کرتے ہیں وہ حدُود شکن و بدکار ہوتے ہیں ، یہ اطمینان کار لوگ اَموالِ مَملکت کی بھی ہمیشہ نگہداری اور مواعیدِ ملّت کی بھی ہمیشہ پاسداری کرتے ہیں ، یہ اطمینان کار لوگ عملی طور پر قوانینِ اِلٰہی کے محافظ ہوتے ہیں ، یہی اطمینان کار لوگ وسائلِ زمین کے تقسیم کار ہوتے ہیں اور یہی اطمینان کار لوگ ہیں پہلے فردوسِ زمیں کے اور بعد ازاں فردوسِ بریں کے بھی حق دار ہوجاتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !!
قُرآنِ کریم نے اِس سُورت سے پہلی سُورت کی آخری دو اٰیات سے پہلی دو اٰیات میں انسان کو اللہ تعالٰی کی اُس قُوت و قُدرت کی طرف مُتوجہ کیا تھا جس قُوت و قُدرت کے تحت اللہ تعالٰی زمان و مکان کے جُملہ لَمحات میں زمان و مکان کی جُملہ مخلوقات کے جُملہ مکالمات کو سُنتا ھے اور زمان و مکان کے جُملہ لَمحات میں زمان و مکان کی جُملہ مخلوقات کے جُملہ حالات کو دیکھتا ھے اِس لیۓ اللہ تعالٰی اپنی تمام مخلوقات پر آنے والے اُن تمام حالات کو اُس وقت کے آنے سے پہلے ہی جان لیتا ھے جس وقت پر اُن حالات نے وقوع میں آنا ہوتا ھے اور اَب اُس پہلی سُورت کے بعد اِس دُوسری سُورت کی اِن پہلی گیارہ اٰیات میں جو کُچھ فرمایا گیا ھے وہ بظاہر تو سیدنا محمد علیہ السلام اور اَصحابِ محمد علیہ السلام کے اُس مُشکل حال و استقبال کا ایک اَحوال ھے جس مُشکل میں اُن کو اِس مُشکل حال کے ٹَل جانے اور ایک آسان حال کے آجانے کی نوید دی گئی ھے لیکن دَرحقیقت یہ اہلِ حق کے فلاح پانے کا ایک اَزلی و اَبدی قانون ھے جو اَزل سے اَبد تک جاری ھے اور اللہ تعالٰی کے اِس اَزلی و اَبدی قانون نے جب عالَم میں جاری ہونا ہوتا ھے تو اَجزاۓ عالَم میں اِس کے وہ آثار و اَثمار خود سے خود ہی جاری ہونے لگتے ہیں جن آثار و اَثمار کو دیکھ کر Cadet college کا ایک تجربہ کار instructor یومیہ مقابلے کی دوڑ میں شامل ہونے والے زیرِ تربیت نوجوانوں کے پہلے قدم کی پہلی اُٹھان کو دیکھ کر ہی کہہ دیتا ھے کہ اِس دوڑ کے اِس مقابلے میں شامل ہونے والے جوانوں میں سے کس جوان نے سب سے آگے نکل جانا ھے ، کس جوان نے سب سے پیچھے رہ جانا ھے اور کس جوان نے مقابلے کے اِس دورانیۓ کے درمیان ہی ہانپ کر گرجانا ھے ، یہ بات درست ھے کہ اِن اٰیات میں جس قانونِ فطرت کا ذکر ہوا ھے اُس کے سب سے پہلے مخاطب سیدنا محمد علیہ السلام اور اَصحابِ محمد علیہ السلام تھے جنہوں نے اِس قانون کو اُس وقت اپنی عملی زندگی میں آتے ہوۓ دیکھا تھا جب وہ مکّے میں اپنے دین و ایمان کی جنگ لَڑ رھے تھے اور جو اِس جنگ کے دوران پہلے پیچھے ہٹتے ہوۓ مدینے تک جا پُہنچے تھے اور پھر آگے بڑھتے ہوۓ ایک فاتحانہ پیش قدمی کے ساتھ دوبارہ مکّے میں داخل ہوگۓ تھے لیکن یہ بات بھی اتنی ہی درست ھے کہ اللہ تعالٰی کا یہ قانون پہلی بار اللہ تعالٰی کے اِن برگزیدہ بندوں کے لیۓ نہیں بنا تھا جو مکّے میں پیدا ہو کر مکّے والوں کے ہاتھوں سے ہی کُشتہِ ستم بنے ہوۓ تھے بلکہ یہ قانون تو زمین میں اِن کے تخلیق کیۓ جانے سے پہلے ہی تخلیق کیا جا چکا تھا اِس لیۓ کہ یہ فاطرِ عالَم کا وہی قانونِ فطرت تھا جو ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ جاری کیا گیا تھا ، اِس سُورت کی پہلی اٰیت میں آنے والے حرفِ تحقیق "قد" کے بعد آنے والا دُوسرا لَفظ "اَفلح" ھے جو واحد مذکر غائب فعل ماضی معروف کا صیغہ ھے اور جس سے مُراد زمین کا ہر وہ آباد کار انسان ھے جو مُردہ زمین کو اپنی محنت و لیاقت سے زندہ کرتا ھے اور پھر اُس مُردہ زمین کے سینے سے زندہ انسانون کے لیۓ رزق و رحمت کے خزانے نکالتا اور تقسیم کرتا ھے ، اِس پہلی اٰیت کے بعد کی جو دس اٰیات ہیں وہ اسی فردِ مُفرد کی مُختلف کی صفات ہیں جن کو اَلگ اَلگ بیان کیا گیا ھے ، اِس سلسلہِ کلام میں اِس پہلی اصطلاح کے بعد دُوسری قابلِ ذکر اصطلاح اسمِ جمع "فروج" ھے جو اسمِ واحد "فرج" کی جمع ھے جس کا ایک معنٰی کسی غیر کشادہ جگہ کو کشادہ کرنا ہوتا ھے ، دُوسرا معنٰی غم کو دُور کرنا ہوتا ھے ، تیسرا معنٰی فضا سے غبار کا چَھٹ کر غائب ہو جانا ہوتا ھے ، چوتھا معنٰی مُرغی کا اَنڈوں سے بچوں کو نکال لینا ہوتا ھے ، پانچواں معنٰی غلامی سے آزادی یا قید سے رہائی پانا ہوتا ھے ، چَھٹا معنٰی وادی کا وسطی حصہ ہوتا ھے ، ساتواں معنٰی مُسافر کے راہِ سفر کا آدھا ہوجا نا ہوتا ھے ، آٹھواں معنٰی دو چیزوں کا مرکزی حصہ ہوتا ھے ، نواں معنٰی بھید اور دسواں معنٰی دائرہِ پُرکار بھی ہوتا ھے لیکن عُلماۓ روایت نے اِس لفظ کے اِن سب قابلِ قبول امکانی معنوں کو چھوڑ چھاڑ کر جو ناقابلِ یقین معنٰی قبول کیا ھے وہ مرد و زَن کی دو رانوں کا درمیانی حصہ ھے اور پھر انہوں نے اپنے اِس خانہ ساز مُجمل معنی سے جو مُفصل معنٰی بر آمد کیا ھے وہ مرد و زَن کے جنسی اعضا ہیں اور پھر جنسی اعضا کے اِس معنٰی اور اِس مفہوم سے جو مقصدی و مُرادی معنٰی کشید کیا ھے وہ مرد و زَن کا اپنے اپنے جنسی اعضا کی حفاظت کرنا ھے لیکن اِس بحث سے حفاظت کا یہ مفہوم نکالنے والے بزرگ یہ بات بُھول گۓ ہیں کہ حفاظت کا مُرادی معنی زیر حفاظت چیز کو صرف چُھپانا نہیں ہوتا بلکہ اُس زیرِ حفاظت چیز کو متوقع خطرات سے بچانا بھی ہوتا ھے جس کا مطلب یہ ھے کہ مرد و زَن شوہر بیوی ہوں تو اِن دونوں کے جنسی اعضا ایک دُوسرے سے محفوظ ہوتے ہیں لیکن اگر مرد و زَن شوہر و بیوی نہ ہوں تو اُن کے جنسی اعضا ایک دُوسرے سے غیر محفوظ ہو جاتے ہیں ، اہلِ روایت کی نیت پر شُبہ کرنا تو شاید درست نہ ہوگا مگر اُن کی اُس ذہنیت پر ضرور شُبہ ہو تا ھے جس ذہنیت کے تحت انہوں نے اِن اٰیات سے پہلے تو صرف جنسی تلذذ کی راہ ہَموار کی ھے اور پھر جنسی تلذذ کی یہی راہ بیوی سے لے کر لونڈی تک سب کے لیۓ تیار کر دی ھے اور جس نے اُن کی اِس جنسی راۓ سے اختلاف کی جرات کی ھے وہ اُن کے اِس خانہ ساز دائرہِ اسلام سے باہر ہو گیا ھے ، بہر کیف سُورت ھٰذا کا موضوعِ سخن محنت و ہمت ھے اور محنت و ہمت میں راحت ہی راحت اور سکون ہی سکون ھے ، ھم لفظِ ایمان کا ترجمہ عموما اطمینان کرتے ہیں کیونکہ ایمان کا معنی اطمینان حاصل ہونا ھے اور اِس اطمینان کا اظہار کرنا اِس اطمینان کو دُوسرے انسانوں تک پُہنچانا ہوتا ھے اور جو شخص ایمان کا یہ مفہوم ذہن میں رکھ کر اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا کو پڑھے گا تو وہ اُس مقصد تک ضرور پُہنچ جاۓ گا جس مقصد تک اٰیات بالا کا انسان کو پُہنچانا مطلوب اور مقصود ھے اور جو انسان اِس مطلب و مقصد کو پالیتا ھے تو وہ ایک کامیاب مومن اور ایک راہ یاب مُسلم ہوجا تا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 468283 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More