تبت میں بہترین تعلیمی سہولیات کی فراہمی

چین کے تبت خوداختیار علاقے میں گزشتہ ستر برسوں کے دوران جہاں اقتصادی شعبے میں بے شمار کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں وہاں سماجی شعبے بالخصوص تعلیمی میدان میں بھی زبردست پیش رفت ہوئی ہے۔اس وقت یہ خطہ بلا معاوضہ نو سالہ لازمی تعلیم کی فراہمی پر مکمل عمل پیرا ہے۔ بہترین تعلیمی پالیسیوں کے نفاذ کی بدولت اسکولوں میں بچوں کی شرح اندراج میں نمایاں اضافہ ہوا ہےاور ایک جدید نظام تعلیم آہستہ آہستہ نافذ ہو چکا ہے۔ یہ بات قابل زکر ہے کہ مارچ 1951 میں تبت میں پہلا جدید پرائمری اسکول قائم کیا گیا۔ اگست 1952 میں لہاسا پرائمری اسکول کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے فوراً بعد ہی دیگر مقامات پر 28 جدید پرائمری اسکول قائم کردیئے گئے۔ ستمبر 1956 میں لہاسا مڈل اسکول قائم کیا گیا تھا جسے تبت کی تاریخ کا پہلا جدید اور معیاری مڈل اسکول قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح بعد میں گزرتے وقت کے ساتھ مزید معیاری تعلیمی ادارے قائم ہوتے چلے گئے اور تبت کے باسی جدید علوم سے روشناس ہوئے۔

تبت میں قیام کے دوران پتہ چلا کہ یہاں 2020 کےاواخر تک کنڈر گارٹن یا پری اسکول کی تعلیم کے لئے داخلے کی مجموعی شرح 87.03 فیصد رہی ہے جس میں 2011 کے مقابلے میں 52 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔جبکہ حیرت انگیز طور پریہ تناسب پورے ملک کی 85.2 فیصد کی شرح سے زیادہ تھا۔اس وقت تبت میں بائیس سو کنڈرگارٹنز ہیں ، جو 2011 کی نسبت 10 گنا زائد ہیں ۔ایک گاوں کے دورے کے دوران دیہی علاقے کے بچوں کو فراہم کی جانے والی تعلیمی سہولیات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ اساتذہ کا جدید طریقہ کار پرمبنی طرز تدریس اور بچوں کی تعلیم میں دلچسپی اچھی لگی۔ یہاں بچوں کو شروع ہی سے تبتی زبان کے ساتھ ساتھ مینڈرین بھی سکھائی جاتی ہے تاکہ بڑے ہو کر یہ بچے کسی بھی شعبے میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ حکومت کی جانب سے یہاں کسانوں اور گلہ بانوں کے بچوں کے لئے اسکول کی تعلیم کا احاطہ کرنے کے لئے اپنی مفت تعلیمی پالیسیوں میں توسیع کی گئی ہے۔پالیسیوں کے تحت کسانوں اور گلہ بانوں کے بچے کھانے ، رہائش اور اسکول کے بنیادی اخراجات سے مستثنیٰ ہیں۔تبت میں ایسے افراد جو شہروں میں رہتے ہوں لیکن اگر انھیں مالی پریشانیاں لاحق ہوں تو اُن کے بچے بھی ان پالیسیوں سے مستفید ہوسکتے ہیں۔اسکولوں میں فراہم کیا جانے والا کھانا بچوں کی جسمانی نشوونما کو مد نظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے جبکہ کھانے میں ایسی ورائٹی دستیاب ہوتی ہے جس کے اکثر خاندان شائد اپنے گھروں میں متحمل نہیں ہو سکتے ہیں ۔سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ کھانا بالکل مفت ہے۔تبت میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمےسے قبل تعلیم کا حصول غریب افراد کے لیے ایک خواب تھا ۔ 1951 میں تبت کی پرامن آزادی سے قبل یہاں اشرافیہ کے ماتحت محکوم آبادی کا تناسب 95 فیصد سے زیادہ تھا لیکن انہیں تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا گیا تھا۔یہ بات قابل زکر ہے کہ 1951 میں تبت بھر کے اسکولوں میں صرف تین ہزار طلباء زیر تعلیم تھے۔بعد میں چینی حکومت نے یہاں تعلیم کے فروغ کے لیے مسلسل سرمایہ کاری کی جس سے نمایاں ثمرات برآمد ہوئے۔ چینی مرکزی حکومت نے 1951 سے 2020 تک مجموعی طور پر تبت میں 224 ارب یوآن (تقریبا 35 بلین امریکی ڈالرز) تعلیم کے فروغ پر صرف کیے ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چینی حکومت تعلیم کو کس قدر سنجیدگی سے لیتی ہے۔

سن1985 میں تبت میں نو سالہ لازمی تعلیم کے دوران کسانوں اور گلہ بانوں کے بچوں کو مفت کھانا ، رہائش اور تعلیم کی فراہمی شروع کی گئی جبکہ وقت کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ پالیسیوں میں مسلسل اصلاحات اور کئی بار توسیع کی گئی۔اس وقت تبت ، چین میں کنڈرگارٹن سے لے کر سینئر ہائی اسکول تک 15 سالہ تعلیم مفت فراہم کرنے والا چین کا پہلا صوبائی سطح کا علاقہ بن چکا ہے۔ اسکول کی تعلیم کو گذشتہ برسوں کے دوران انتہائی تیزی سے فروغ ملا ہے، اور اس میں تمام شہروں ، کاؤنٹیوں ، بستیوں اور دیہاتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق اس وقت کنڈر گارٹنز میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ طلباء داخل ہیں۔ اسکول کی تعلیم طویل مدتی تعلیم میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔مجموعی طور پر اس وقت تبت میں مختلف نوعیت کے 3,195 اسکول موجود ہیں جن میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد 790,000سے زائد ہے۔ ان میں اعلیٰ تعلیم کے 07 ادارے ، 12 ثانوی پیشہ ور اسکول ، 143 مڈل اسکول اور 827 پرائمری اسکول شامل ہیں۔یہاں لازمی تعلیم کی تکمیل کی شرح ریکارڈ پچانوے فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

قدیم تبت میں ایک بھی مناسب اسکول موجود نہ تھا, ناخواندگی کی شرح 95 فیصد سے تجاوز کر چکی تھی ، جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے تبت کے عوام مکمل طور پر لاعلم تھے۔ آج تبت کے تمام پرائمری اسکولوں میں ریاضی سمیت دیگر مضامین کی تعلیم دی جا رہی ہے ، تمام مڈل اسکولوں میں ریاضی ، طبیعیات ، کیمسٹری اور حیاتیات کے نصاب پڑھائے جا رہے ہیں ، تمام پیشہ ورانہ اور تکنیکی اسکولوں میں جدید تربیت کی فراہمی جاری ہے۔ تبت سے باہر جا کر تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد بھی بانوے ہزار سے زائد ہو چکی ہے ۔

سات دہائیوں کی کوششوں کے بعد تبت میں ایک جدید تعلیمی نظام پری اسکول،بنیادی تعلیم ، پیشہ ورانہ تعلیم ، اعلی تعلیم اور خصوصی تعلیم کا احاطہ کرتا ہے۔تبت کی علاقائی حکومت نےمرکزی حکومت کے تعاون سے یہاں تمام نسلی گروہوں کے لوگوں کے تعلیمی حقوق اور مفادات کو مکمل طور پر یقینی بنایا ہے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1121 Articles with 420002 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More