سیاسی بلوغت

پچھلے کئی دنوں سے آزادکشمیر میں انتخابی فضا بہت گرم ہو چکی تھی ۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوز شریف نے جسطرح پی پی پی پر تابڑ توڑ حملے کئے وہ مسلم لیگ (ن) کی ا نتخابی منصوبہ بندی کا حصہ تھے۔ انھوں نے آصف علی زرداری پر الزامات کی بارش کر دی۔ انھیں کر پٹ ترین صدر کہا اور انکی حکومت کو پاکستان کی نکمی ترین حکومت قرار دیا۔ پاکستانی سیاست میں اپوزیشن ہمیشہ سے ہی برسرِ حکومتوں پر اسطرح کے الزامات لگاتی ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد سب کچھ بھول کر پھر شیرو شکر ہو جاتی ہے۔ میثاقِ جمہوریت سے قبل پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے در میان سیاسی معرکوں سے کون واقف نہیں ہے ۔ الزامات اور جوابی الزامات روز مرہ کا معمول تھے۔ ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرانے کی رسمیں بھی پرانی نہیں ہیں لیکن میثاقِ جمہو ریت نے پرانے اندازِ سیاست کو خیر باد کہہ کر پوری بساطِ سیاست کو بدل کر رکھ دیاتھا ۔ کل کے حریف ایک دوسرے کے اتحادی قرار پائے اور سیاست کا نیا باب رقم کیا گیا جس پر بہت سے لوگوں کو آج بھی حیرانگی ہے کہ یہ سب کیسے ہو ممکن ہو گیا۔ایسے تجزیہ نگاروں کے خیال میں ان دونوں جماعتوں کا اتحاد پاکستانی سیاست کا ایک انہونا واقعہ تھا اور وہ اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے اور ان کے اس عدمِ یقین نے دونوں جماعتوں کے درمیان موجودہ مفاہمت اور دوستی کو دیرینہ دشمنی میں بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان سازشی عنا صر کی خواہش تھی کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دفعہ پھر ماضی کے طرزِ عمل کا مظاہرہ کر تے ہوئے مخاصمتی سیاست کا آغاز کریں تا کہ ان کی بھی روٹی روزی بھی چلتی رہے ۔ سازشی عناصر اپنی سازشوں میں کامیاب ہو ئے اور آجکل دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی بنی ہوئی ہیں اور پاکستا نی سیاست میں ا یک د فعہ پھر غیر یقینی کی کیفیت طاری ہے جو پاکستان کی ترقی کےلئے زہرِ قاتل ہے۔

اس غیر فطری اتحاد کو حقیقت کو روپ عطا کرنے پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس کا کریڈٹ نہ دینا بے انصافی ہو گی ۔زندگی کے بے رحم تجربات اور جلا وطنی کی اذیتوں سے گزرنے کے بعد بی بی شہید اس نتیجے پر پہنچیں کہ سیاسی قوتو ں کو غیر سیاسی قوتوں کا آلہ کارنہیں بنناچائیے بلکہ چند اصول وضع کر لینے چائیں جو آنے والے دنوں میں سیاست کی گاڑی کو چلانے کے لئے بنیادی اصولوں کا کام دیں ۔ ان اصول و ضوابط کا نام ہی میثاقِ جمہوریت ہے ۔ملک کی دو نوں بڑی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے اس پر دستخط کئے اور یوں آئینِ پاکستان کے بعد میثاقِ جمہوریت سب سے اہم دستاویز قرار پائی۔ فروری ۸۰۰۲ کے بعد اسی دستا ویز کی روح کے مطابق مرکز اور صوبوں میں حکومتیں تشکیل پائیں لیکن جلد ہی سیاسی مفادات کے تحت دونوں بڑی جماعتوں کی راہیں جدا ہو گئیں اور چند ماہ کے حلیف ایک دفعہ پھر ایک دوسرے کے حریف بن کر سامنے آئے۔صدرِ پاکستان آصف علی زدراری نے انتہائی کوشش کی کہ میثاقِ جمہوریت کا عطا کردہ یہ اتحاد قائم رہے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا کیونکہ مسلم لیگ (ن) کو پورے پاکستان پر اقتدار کی بڑی جلدی تھی لہذا وہ حکومت کو بیچ چو راہے میں چھوڑ کر علیحدہ ہو گئی۔میڈیا کی بے سرو پا کہانیوں نے مسلم لیگ (ن)کی قیادت کو یہ یقین دلا رکھا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حمائت کے بغیر ی پی پی پی کی حکومت چند دن بھی نہیں چل سکتی لہذا آپ حکومت سے علیحدگی اختیا کر لیں۔ مسلم لیگ (ن ) نے ایسا ہی کیا لیکن حکومت کے گرنے کی آرزو حقیقت کا روپ ا ختیار نہ کر سکی کیو نکہ آصف علی زرداری نے مفاہتی سیا ست، اپنے صبر و تحمل اور بہتر سیاسی حکمت ِ عملی سے سب کو مات دے ڈالی ۔ کچھ طاقتیں تھیں جو پسِ پردہ کام کر رہی تھیں اور ان دونوں جماعتوں کو یکجا نہیں دیکھ سکتی تھیں لیکن اس کہانی کو کسی وقت بعد میں ضبطِ تحریر میں لایا جائےگا۔

آزاد کشمیر کے موجودہ انتخابات نے ایک دفعہ پھر دونوں جماعتوں میں کشیدگی کو بڑھانے میں ہوا دی۔میاں نواز شریف کی انتخابی تقریروں نے جیالوں کے تن بدن میں آگ لگا دی۔ کیونکہ میاں محمد نواز شریف کا ہدف صدرِ پاکستان آصف علی کی ذات تھی اور جیالے اپنے قائد کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں۔ ۱۲ جو ن کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے یومِ ولادت کی تقریب پر صدرِ پاکستان آصف علی نے دھواں دار تقریر کر ڈالی اور میاں نواز شریف کو مولوی کے خطاب سے نواز ڈالا جس پر مسلم لیگ (ن) کا ردِ عمل فطری تھا۔ اگر حقائق کا کھلے دل سے جائزہ لینے کی کوشش کریں تو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی تقریر سچے حقائق کی آئینہ دار تھی۔ انھوں نے میاں برادران کے سیاسی کردار پر کھل کر بات کی اور ان پر مفاہمتی سیاست میںرکاو ٹیں ڈالنے اور فوج کے اندر بغاوت کو ہوا دینے کا الزام لگایا۔ انھوں نے کہا کہ ہماری فوج پاکستانی سالمیت کی علا مت ہے اور اس کی مضبوطی کی خاطر ہم اپنا لہو دیں گے اور جو کوئی بھی فوج پرا نگشت نمائی کرنے کی کوشش کرے گا پی پی پی اس کی راہ میں پوری قوت سے کھڑی ہو گی۔انھوں نے میاں برادران پر الزام لگایا کہ وہ مولویوں سے ملے ہو ئے ہیں۔ آصف علی زرداری کا یہ بیان ایک ایسا سچ ہے جس میں رتی برابر بھی شک کی گنجائش نہیں۔سچ تو یہ ہے کہ پی پی پی کی قیادت نے اسٹیبلشمنٹ اور طالع آزما جرنیلوں کے ہا تھوں لاشے اٹھا ئے ہیں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں لیکن پھر بھی پی پی پی کی قیادت فوج کے دفاع میں پیش پیش ہے تو یہی بات ان کی حب الوطنی کی گواہی د ینے کےلئے کافی ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ کشمیر کے حالیہ ا نتخا بات میں افواجِ پاکستان سے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کا اظہارِ یک جہتی بھی پی پی پی کی فتح میں ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے تو بے جا نہیں ہو گا ۔

میاں محمد نواز شریف کی سیاسی تربیت پاکستان کے سب سے بے رحم اور سفاک آمر جنرل ضیا لحق کے زیرِ سایہ ہو ئی تھی جس نے پاکستان میں مذہبی جماعتوں کو فعال کیا تھا اور شدت پسندی کو ہوا دی تھی۔ جنرل ضیا لحق نے مذہبی جماعتوں اور میاں برادران کے درمیان ایک ایسی مفاہمت کو فروغ دیا تھا جو آج تک جاری ہے۔ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) نے جماعت اسلامی سے اتحاد کیا تھا اور مذہبی جماعتوں کے ووٹ حاصل کئے تھے ۔ مذہبی جماعتوں کا پی پی پی سے نظریاتی اختلاف ہے اور ان کا پی پی پی کی ترقی پسند سوچ کے ساتھ چلنا نا ممکن ہے لہذا ان کا فطری جھکاﺅ مسلم لیگ (ن) کی طرف ہے اور پھر یہ ساری جماعتیں ۷۷۹۱ کی تحریک میں بھی اکٹھی تھیں اور پی پی پی کے خلاف نو ستاروں والے پرچم تلے پی پی پی کو کچلنے اور ااس کے اقتدار کا خاتمہ کرنے کے لئے یکجا تھیں۔ یہ وہی تحریک ہے جس میں جنرل ضیا لحق نے فوجی بغاوت کے ذریعے ذولفقار علی بھٹو کی آئینی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک پر مارشل لا مسلط کر دیا تھا اور ملک کی ساری قابلِ ذکر مذہبی جماعتیں جنرل ضیا لحق کے مارشل لا کا حصہ بن گئی تھیں۔

آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات پر پاکستان پیپلز پارٹی کی شاندار کامیابی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی عظیم قربانی کا صدقہ ہے۔یہ مزدوروں، کسانوں ، محنت کشوں اور محروم طبقات کی فتح ہے۔ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابا ت سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چائیں جو پی پی پی کے خلاف دن رات زہر اگلتے رہتے ہیں ۔ الیکش کے نتائج نے پاکستان میں ۳۱۰۲ میں ہو نے میں ہو نے والے انتخابات کے نتائج کے بارے میں بڑا مضبوط اشارہ دے دیا ہے۔پی پی پی عوام کی مقبول جماعت ہے اور جس طرح صدرِ پاکستان آصصف علی زرداری بی بی شہید کی مفاہمتی پالیسی کو لے کر چل رہے ہیں عوام اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ پی پی پی کے شریک چیر مین آصف علی زرداری نے ایک زبردست قائد کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا یا ہے۔ گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر کی کامیابی نے ان کی انتخابی حکمتِ عملی پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔

آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات پر متحدہ قومی موومنٹ کا احتجاج بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔ دنیا بھر میں اکثر ہوتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر متعلقہ علاقے کی انتظامیہ کے پیش کردہ حقائق کی روشنی میں انتخا بات کو ملتوی کر دیتا ہے اور جیسے ہی حالات نارمل ہو جاتے ہیں وہاں پر انتخابات کی نئی تاریخ کا اعلان کرد یا جاتا ہے۔ پنجاب میں چند مخصوص نشستوں پر ایک عرصے تک انتخابات ملتوی ہوتے رہے اور آخر کار سپریم کورٹ کی مداخلت پر وہاں پر انتخابات منعقد ہو سکے۔ اگر کراچی کی دو نشستوں پر انتخابت ملتوی کر دئے گئے تھے تو کیا اس کا ردِ عمل یہ ہونا چاہیے کہ ایم کیو ایم حکومت کو خیر باد کہ کر اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھ جا ئے؟ گورنر سندھ عشرت العباد نے بھی اپنے عہدے سے استعفے دے دیا ہے اور وہ قائدِ تحریک الطاف حسین سے ملاقات کےلئے لندن یاترا ہ پر چلے گئے ہیں۔ پی پی پی تو یہ انتخابات جیت رہی تھی اور کچھ نشستوں پر انتخا با ت کا التوا اسکے حق میں بھی نہیں تھا لیکن اسے بھی یہ سب کچھ سہنا پڑا کیونکہ حالات کا تقاضہ تھا کہ ان دونوں نشستوں پر انتخابات کو ملتوی کیا جائے۔ اتنے بڑے لیڈر سے اس طرح کے غیر سنجیدہ رو یے کی توقع نہیں تھی ا سطرح تو گلیوں میں گلی ڈنڈا کھیلنے والے کھلنڈرے بھی نہیں کرتے۔ ایم کیو ایم ملکی معاملات کو چلانے میں ایک رول ا دا کر رہی تھی اور یکدم یہ بریکینگ نیوز کہ ایم کیو ایم دو نشستوں کے انتخا با ت ملتوی ہونے کی وجہ سے حکومت سے علیحدگی اختیار کر رہی ہے متلون مزاجی کی غماز ہے۔ غیر سنجیدگی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور ایم کیو ایم نے اپنے عمل سے ساری حدیں پار کر لی ہیں۔ قائدِ تحر یک ا لطاف حسین اس ملک کے اہم قومی راہنما ہیں لیکن انھوں نے نہائت ہی غیر سنجیدہ حرکت کی ہے۔ میری دعا ہے کہ ہمارے قومی راہنما ٹھہراﺅ برداشت،رواداری ا ور سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کریں تا کہ ہمارے قومی مسائل حل ہو سکیں۔

پنجاب حکومت نے جسطرح ان انتخا بات میں پنجاب کی چند سیٹوں پر ریاستی طاقت کا مظا ہرہ کیا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا ہیں نہیں ہے۔ انھوں نے جسطرح سے ان انتخابات میں غنڈہ گردی کو ہوا دی ہے اس پر جمہوری حلقے ابھی تک ششدر ہیں۔ اسلحے کے زور پر مخالفین کو ہراساں کرنا اور انھیں ووٹ کے حق سے محروم کرنے جیسے غیر جمہوری اقدا مات نے پنجاب حکومت کی ساکھ کو بری طرح سے مجروح کیا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کرنے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے حوا لے سے میاں شہباز شریف بڑی شہرت رکھتے ہیں ۔ اپنے پچھلے دورِ حکومت میں انھوں نے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے جو ریکارڈ قائم کئے تھے وہ لوگوں کو آج بھی نہیں بھولے۔ حالیہ انتخابات میں بھی اسی انداز کو د ہرا یا گیا ہے لیکن ان سارے حکومتی ہتھکنڈوں کے باوجود پی پی پی نے فتح کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں جو کہ مسلم لیگ (ن) اور ان کے حواریوں کو ہضم نہیں ہو رہے لہذا وہ نت نئے الزامات سے ان انتخابات کی شفا فیت کو متنا ز عہ بنا نے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں لیکن انھیں اس میں کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ ان کا اپنا دامن پہلے ہی داغدار ہے۔ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کے نتائج سے اپوزیشن بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے اور سوائے الزام تراشی کے اس کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ مسلم لیگ (ن) فراخ دلی سے اپنی شکست کو تسلیم کر کے ایک صحت مند جمہوری روائت کا آغاز کرتی لیکن بغضِ معاویہ کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔۔۔

کشمیر کے مسئلے سے پی پی پی کی جذباتی وابستگی ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت میں کشمیر کے مسئلے نے بنیادی کردار ادا کیا تھا تو غلط نہیں ہو گا۔ ذولفقار علی بھٹو کی سلامتی کونسل میں تقریر آج بھی سلا متی کونسل کی شاہکار تقاریر میں شمار ہو تی ہے اور یہی وہ تقریر تھی جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو پلک جھپکنے میں قومی ہیرو بنا دیا تھا۔ کوئی ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے اس جملے کو بھول سکے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر ہمیں ایک ہزار سال تک بھی جنگ کرنی پڑ ی تو ہم جنگ کریں گے لیکن بھارت کے سامنے سر نہیںجھکائیں گے۔ ایسے لگتا تھا جیسے پاکستان کا بچہ بچہ ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر کا عملی پیکر بن کر بھارت کو للکار رہا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بیان نے ہر پاکستانی کے قلب و نظر میں ایسی برقی رو دوڑا دی تھی جس نے پوری قوم کو یکجا کر دیا تھا اور قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر بھارتی عزائم کے سا منے ڈٹ گئی تھی۔ کشمیر کے لوگوں کو پختہ یقین ہے کہ پی پی پی حکومت کی چونکہ کشمیر کے مسئلے سے جذباتی وابستگی ہے لہٰذا پی پی پی کی حکومت مسئلہ کشمیر کو بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرے گی اور اس کا کوئی ایسا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے گی جو سب فریقوں کو قابلِ قبول ہو گا اور حالیہ انتخابات میں پی پی پی کی شاندار کامیابی کشمیریوں کے اسی اعتماد کے ا ظہار کی غماز ہے۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 451505 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.