روبرو ہے ادیب: ناصر بیگ

تحریر و ملاقات: ذوالفقار علی بخاری

بچوں کے لئے لکھنا مشکل ترین کام ہے اور جو یہ کام کر رہے ہیں اُن کی بھرپور طور پر حوصلہ افزائی کرنا بے حد ضروری ہے کہ وہ مستقبل کے نوجوانوں کی تعلیم وتربیت اس طرح سے کر رہے ہیں کہ معاشرہ بہترین بن سکے اور وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف اپنی بلکہ ملک کی تقدیر کو بھی بد ل سکیں۔


ہمارے ہاں بچوں کی دل چسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے کم لکھا جاتا ہے مگر کچھ لکھاری آج بھی ایسے ہیں جو کہ اُن کی نفسیات کو سمجھ کر لکھتے ہیں۔ان میں سے ایک ناصر بیگ صاحب اچھا لکھتے ہیں اورمختصر سی مدت میں یہ ادب اطفال کی دنیا میں نمایاں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موصوف اپنے لئے ایک انفرادیت کی راہ منتخب کر چکے ہیں اور ایسے موضوعات پر قلم اُٹھاتے ہیں جو کہ ان کی الگ پہچان کا سبب بن رہا ہے۔


ہمارے آج کے مہمان“ناصر بیگ صاحب ہیں۔ ان سے ہماری پہلی ملاقات کچھ ایسے انداز میں ہوئی ہے کہ ہمیں محسوس ہوا کہ ہم برسوں سے جانتے ہیں۔ ناصر بیگ صاحب بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے نئے رجحانات کو بھی مدنظر رکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ اُن میں مقبولیت بھی رکھتے ہیں۔


ان سے ہونے والی گفتگوآپ کی نذر ہے۔



سوال:آپ کو کب خیا ل آیا کہ لکھنا چاہیے،لکھنے کے حوالے سے کچھ یاد ہے کہ کس نے خوب حوصلہ بڑھایا تھا؟

جواب:مجھے اپنی لکھنے کی صلا حیت کا ادراک اس طر ح ہوا کہ میرے بچپن کے دنو ں میں خط وکتا بت کا رواج عام تھا تو گھر میں ا ٓ نے والے تمام خطوط کا جواب میں دیا کرتا تھا۔ میرے خط کا مضمون بہت دلچسپ اورپر اثر ہوتاتھا۔اس کے علاوہ ہمارے گھر میں جاسوسی اور سسپنس ڈائجسٹ پڑھے جاتے تھے۔ان کو میں بھی شوق سے پڑھنے لگا اور اس طرح ا ٓہستہ ا ٓہستہ میرا ادب کے ساتھ شغف پیدا ہوتا گیا۔میں نے باقاعدہ طور پر بچوں کے پندرہ روزہ میگزین ”روزۃالاطفال“ میں لکھنا شروع کیا۔



اس وقت کے موجودہ ایڈیٹر ”عبدالرحمن بھائی“ نے بہت رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی۔اس مجلہ میں چھپنے والی سلف صالحین کی زندگی کی کہانیوں کو بعد میں کتابی شکل میں شائع کروایا تو ملک بھر میں اس کتاب ”تار ے زمیں پر“کو بہت پذیرائی ملی۔الحمدللہ ثم الحمدللہ۔



اس کتاب کی اشاعت کے بعد ہمارے شہر کے نامور کالم نگار اور ادیب جناب ”اختر سردار چوہدری“ نے مجھے اپنے قلم قبیلے میں متعارف کروایا۔اس کے لئے میں ان کا تا حیات ممنون رہوں گا۔پھر موجودہ رسائل میری ا شاعت کے پیچھے”محترم نذیر انبالوی“صاحب کی رہنمائی،حسن اختر بھائی کے مفید مشورے اور کراچی والے سر ”محبوب الہی مخمور“کی ذرہ نوازی کا بہت بڑ ا کردار ہے۔ اس وقت ماہنامہ تعلیم وتربیت کی مدیرہ ”عابدہ اصغر“ صاحبہ اور روزنامہ اساس کے ایڈیٹر ”ناصر مغل“صاحب کی شفقت ہے کہ جو میری موٹیویشنل کہانیاں اور انسائیکلو پیڈیا اپنے میگزین میں شامل کرتی رہتی ہیں۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


سوال: اولین تحریر کی اشاعت پر کیسا محسوس ہوا تھا؟

جواب:جب میری پہلی تحریر ”پیارے بچوں کے پیارے رسول ﷺ“ بچوں کے میگزین میں شائع ہوئی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



سوال: بطور لکھاری کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے پورا کر رہے ہیں؟

جواب:بطور لکھاری میں سمجھتا ہوں کہ اپنی بساط اور صلاحیت کے مطابق میں اپنے حصے کی شمع جلانے کی کوشش کر رہا ہوں۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سوال: ابھی تک کتنی کتب /تحریریں منظر عام پر آچکی ہیں؟

جواب:ابھی تک دو کتب شائع ہو چکی ہیں۔اور ان متعدد مضامین،کالم اور کہانیاں مختلف اخبارات اور جرائد کی زینت بن چکی ہیں۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


سوال: اچھے شاگرد اور اچھے استاد کی آپ کی نظر میں کیا خصوصیات ہیں؟

جواب:اچھا شاگرد میری نظر میں ایسا شاگردہوتا ہے جو حقیقت میں طالب علم ہو۔اپنے استاد کی ہر بات کو سننے والا اور اپنے ماحول سے سیکھنے والا ہوتا ہے۔دوسری طرف ایک مثالی استاد اپنے شاگردوں کو اپنی گفتار اور کردار سے متاثر کرنے والا ہوتا ہے۔بقول”قاسم علی شاہ“صاحب ایک اچھا استاد علم دیتا نہیں بلکہ اپنے شاگرد میں علم کی پیاس پیدا کرتا ہے۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سوال: خواتین کی آزادی کے حوالے سے آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟

جواب:میرے خیال میں خواتین کو جتنی سوچنے سمجھنے کی ا ٓزادی اسلام نے دے رکھی ہے وہ کافی ہے۔اگر وہ اپنی ذمہ داریوں اور اپنے سماجی مقام کو سمجھ کراپنے جائز حدود میں رہے تو وہ تعلیم حاصل کر کے معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے لیکن اس کی اولین ترجیح اپنے خاندانی نظام کی ترقی ہونی چاہیے۔جو تعلیم زن کو نازن بنادے وہ فتنے کے علاوہ کچھ نہیں۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سوال: آپ کے بچپن کی کوئی خا ص یاد/ ناخوشگوار تجربہ، جو قارئین کو بتا نا چاہیں؟

جواب:مجموعی طور پر مجھے بچپن کے اوائل میں اپنے بڑوں کی طرف سے حوصلہ افزاء ماحول ملا،مگر نوجوانی کے دور میں کچھ گھریلو تلخیاں میرے مزاج کا حصہ بن گئیں۔لیکن اللہ کے فضل سے منفی حالات نے بھی میرے اندر درست مو ٹیویشن پیدا کی۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سوال: استاد اور شاگرد کے درمیان تعلقات کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟

جواب:استاد اور شاگرد کے تعلق کو بہتر بنانے کے لئے ہمیشہ پہل استاد کو کرنی ہوتی ہے۔اگر وہ اپنے شاگرد میں یہ یقین پیدا کردے کہ وہ کچھ کر سکتا ہے۔تو یہ بات شاگرداستاد کا مرید بن جائے گا۔اور شاگرد کی تقدیر بدل جائے گی۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سوال:کیا آج کے ادب اطفال کے رسائل بچوں کے موجودہ رجحانات کے مطابق شائع ہو رہے ہیں؟

جواب:کچھ رسائل تو بہت عمدہ کام کررہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں۔مگر بعض رسائل میں ا ٓج بھی وہی پرانے مو ضوعات کو ترجیح دی جاتی ہے۔میرا خیال ہے ا ٓج کا بچہ متحرک اور تصویری مواد کو دیکھنا چاہتا ہے۔اس کو کتاب کی طرف لانے کے لئے رسائل اہم کردار اداکر سکتے ہیں۔اگر ان کے مواد کو نئے رجحانات کے مطابق ترتیب دیا جائے۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


سوال:آپ کی نظر میں قارئین کی پذیرائی اور ایوارڈ ز ایک لکھاری کے لئے کتنے اہم ہیں؟

جواب:یہ ایوار ڈ ز اور اسناد محض کاغذیا شیشے کے ٹکڑے نہیں ہوتے، یہ کسی بھی فنکار کو آگے بڑھنے کے لئے انرجی اور تحریک فراہم کرتے ہیں۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سوال:آپ کی نظر میں بڑے ادیب کی کیا خصوصیات ہیں؟

جواب:بڑے ادیب کی تین خصوصیات نمایاں ہوتی ہیں۔وہ علم دوست،باعمل اور اپنے معاشرے کے ساتھ مخلص ہوتا ہے۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


سوال: آج کے بچوں کو کس طرح سے رسائل وجرائد اورکتب بینی کی جانب مائل کیا جا سکتا ہے؟

جواب:جیسا میں نے پہلے عرض کیا،ا ٓج کل جو رسائل موجودہ دور کے بچوں کی ترجیحات اور رجحانات کو مدنظر رکھ کر کام کریں گے۔وہی کامیاب رہیں گے۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سوال: ”مار نہیں پیار“ اس نعرے کے حوالے سے رائے دیجئے کیاآپ سمجھتے ہیں کہ یہ بچوں کو تعلیم کی جانب مزید راغب کرتا ہے؟
جواب:میں ذاتی طور پر اس کے حْق میں ہوں کہ ہر بچے کے ساتھ اس کی نفسیات کے مطابق برتاؤ کرنا چاہئے۔ کچھ بچے صرف پیار سے کام کرنے والے ہوتے ہیں،کچھ بچے کام صرف سزا کے خوف سے ہی کرتے ہیں۔مجموعی طور پر ایک استاد کا اچھا رویہ اور مضبوط تعلق ہر قسم کے بچے کو راہ راست پر لا سکتا ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سوال:کیا پیسے کی چمک لکھاری کے لفظوں کی تاثیر کم کر سکتی ہے؟
جواب:کام کا معاو ضہ ملنا لکھاری کا حق ہوتا ہے۔ویسے بھی پاکستان میں لکھنا پیشے کے طور پر اپنا نا مشکل ہے۔اس کے لئے ا ٓپ یا تو بہت مقبول ہوں۔یا پھر ا ٓپ اسے بزنس کے طور پر شروع کریں۔دیکھا یہ گیا ہے کہ جب کوئی اس کام کو صرف پیسے کے لئے کرتا ہے تو لفظ اپنی خوشبو کھو دیتے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سوال:لکھنے کے حوالے سے جو آپ کے خواب تھے،وہ کس قدر پورے کر چکے ہیں؟
جواب:ابھی تک جتنا سوچا وہ اللہ نے ا ٓسان کر دیا۔ا ٓگے بھی اللہ کریم سے اچھے کی ہی امید ہے۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سوال:کوئی پیغام جو آپ دینا چاہیں؟
جواب:میرا پیغام یہی ہے کہ ہمیں ہر روز اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے،اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔تبدیلی کا سفر ہمیشہ اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے کائنات سے نہیں۔
آپ کے قیمتی وقت کا بے حد شکریہ۔

۔ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 480933 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More