اصلاحات بزریعہ صدارتی آرڈیننس

یہ پارلیمانی طرز کی پہلے حکومت دیکھی ہے جسے صدارتی طرز پر چلایا جارہا ہے ۔ صدارتی آرڈینینس برائے انتخابی اصلاحات اورا تنی جلدی میں جب ابھی حکومت کا آدھا وقت باقی ہے ۔ اور آجکل کے انتہائی اہم مہنگائی ، بے روزگاری اور بجٹ کے معاملا ت کو چھوڑ کر الیکٹرانک مشین کے زریعے انتخابات پر بضد اور بھی اپوزیشن کو اعتماد لئے بغیر ، جس کے متعلق دنیا میں تجربات تسلی بخش نہیں اور موجودہ معاشی حالات میں اس پر عمل بھی انتہائی مشکل ہے کیونکہ اس کے لئے خطیر رقم بھی درکار ہے ۔

حکومت کی انتخابی اصلاحات کے لئے بے چینی دیکھ کرشکوک و شبہات سر اٹھا رہے ہیں ۔ کیونکہ موجودہ سیاسی حالات دیکھ کر ایک بات تو واضح ہے کہ ان اصلاحات کا مقصد کسی صورت بھی منصفانہ الیکشن نہیں کیونکہ زمینی حقائق موجودہ حالات میں حکومت کے حق میں نہیں اس کی وجوہات میں آٹھ ، نو سیٹوں پر ضمنی الیکشن میں بری طرح سے شکست ہے جو کبھی بھی حکومتی پارٹی کو کبھی نہیں ہوئی ۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے الیکشن بھی پوری کوششوں کے باوجود امید افزاء نہیں تھے ۔ دوسرا ان کی نیت پر اس لئے بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ ڈسکہ کے الیکشن نے حکومت کا سارا پول کھول دیا ہے کہ وہ اگر مخلص تھے بھی تو صرف اور صرف ہر حال میں اپنے امیدوار کو جتوانے کے لئے ۔

بہرحال یہ تو پاکستان کی سیاسی روایات ہیں کہ جس کا بھی ہاتھ پڑا اس نے اس معاملے میں اخلاص دکھانے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جیسے دو دن ہی قبل ہونے والے حلقہ 249 کے نتائج بھی اس کی تصدیق کر رہے ہیں اور اس پر کل الیکشن کمیشن نے نوٹیفکیشن کو روک کر دوبارہ گنتی کا حکم نامہ جاری کردیا ہے ۔ اس معاملے میں مسلم لیگ کا ماضی بھی کوئی خاص تابناک نہیں ہے ۔ دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں ان کے خلاف بھی الزامات ہیں جن کسی طرح بھی مکمل طورپر پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔

تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ منصفانہ طور پر الیکشن کروانے میں مخلص نہیں تو ان کا مقصد کیا ہے ؟

اس کا مقصد تو ایک ہی ہے جو ہر سیاسی حلقے کا ہوتا ہے اور خاص کر ان کا جو اقتدار میں ہوتے ہیں ۔ جب حالت ان کے حق میں نہیں ہوتے تو وہ ان کی مہاڑ کو موڑنے کے لئے تگ ودو میں لگ جاتے ہیں اور یہ انتخابی اصلاحات کی صدارتی آرڈیننس کے زریعے لانے کی کوشش بھی اس تگ و دو کا ایک ٹریلر ہے ۔ اسے جمھوریت کے لبادے میں فرنچائزڈ آمریت کے مشینی ریفرنڈم کی ایک جدید پیشکش کی تیاری ہی کہا جاسکتا ہے ۔

اس جلدی کی ایک اور وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جیس طرح سے ملکی معاشی حالت کو دیکھ کر قومی حکومت لانے کی کوشش کی افواہیں گردش کر رہی ہیں تو ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کبھی بھی نہیں چاہیے گی کہ ان کی حکومت کو ہٹا کر اس طرح کی کوشش کامیاب ہو لہزا ایسی صورتحال میں وہ اپنا متبادل سوچ رہے ہونگے کہ اگر اسمبلیاں تحلیل کرنا پڑجائیں تو اس کے بعد چانس کے لئے لائحہ عمل بھی تو تیار ہونا چاہیے ۔ وگرنہ اس وقت سب سے بڑی ضرورت عوامی مسائل کی طرف توجہ دینے کی ہے جو مہنگاری اور بے روزگاری ہے ۔

ہمارے ہاں تاریخ میں ایسی کئ کوششیں ہوئی ہیں اور وہ کامیاب بھی رہی ہیں جیسے ضیاالحق اور مشرف کے ادوار میں ریفرنڈم ہوتے رہے ہیں یا پھر ان کی صدارت میں ہائبرڈ جمھوریت کے زریعے عوامی حکومتیں کام کرتی رہی ہیں ۔

خیر یہ سب تو ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے اور قریب قریب میں اس میں کوئی خاص تبدیلی بھی متوقع نہیں ہے کیونکہ حالات اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں دے رہے اور اس کی بھی وجوہات ہیں کیونکہ جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ تحریک انصاف کے لئے موجودہ سیاسی صورتحال ساز گار نہیں اور پیپلز پارٹی بھی اس معاملے میں ان سے پیچھے نہیں اور مسلم لیگ کے بارے زمینی حقائق چونکہ بہتر ہیں لہذا وہ منصفانہ الیکشن کے بارے مخلص لگ رہے ہیں ۔

اگر ہم دو ہزار آٹھ کے بعد کے سیاسی صورتحال کا جائزہ لیں تو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ سنجیدہ سیاست کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ کچھ سالوں کے بعد تحریک انصاف بھی زیادہ نہیں تو ان کے جتنی سنجیدگی اپنے اندر پیدا کر لے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دو ہزار آٹھ کے بعد سے جیسے بھی ہے حکومتیں اپنا دور پورا کر رہی ہیں اور عوام کو ان کو پرکھنے کا کھل کر موقعہ مل رہا ہے اور اب عوام اپنی رائے قائم کرنے میں کامیاب ہورہی ہے جس کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ہم پوری طرح سے عوام کی رائے سے مستفید نہیں ہو پا رہے ۔ اور یہ سب جمھوریت کے ٹرانزشن پیریڈ میں ہوتا ہے اور اس کا حل صرف اور صرف یہی ہے کہ جمھورت کو جیسے بھی ہے چلنے دیا جائے ۔

جمھوریت کو مضبوط کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کو پہلے اپنے اندر مضبوط جمھوریت پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقی قیادت سامنے آ سکے ۔ اور اس طرح جب اہل قیادت سامنے آئے گی تو یقیناً سنجیدہ سیاست کو فروغ ملے گا ۔

جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ یہ نیتوں کا فطور ہمارا قومی المیہ ہے جس کا جتنا ہاتھ پڑتا ہے وہ کسر نہیں چھوڑتا اور پھر ہم اس سارے کے سارے فطور کا ملبہ سسٹم پر ڈال دیتے ہیں کہ سسٹم ہی خراب ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سسٹم بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں مگر سسٹم کو بالاخر چلانا ہم نے ہی ہوتا ہے اور اگر ہم خود مخلص نہیں تو پھر کوئی بھی سسٹم مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ ہم ستر سالوں سے مختلف نظاموں کے تجربہ گاہ بنے ہوئے ہیں اور ہم نے تمام کے تمام نظاموں کو ناکام ثابت کردیا ہے اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ ہم خود ہی کسی بھی نظام کو چلنے نہیں دیتے اور ایک کو اٹھا کر باہر پھینکتے ہیں اور دوسرے کو لے لیتے ہیں ۔

آج کال پھر سے صدارتی نظام کی بات ہو رہی ہے ۔ صدارتی نظام بھی جمحوریت کی ہی ایک قسم ہے اور یہ دونوں پارلیمانی اور صدارتی اپنی اپنی جگہ پر کامیاب ہیں ۔ جو صدارتی نظام کی بات کرتے ہیں ان کا یہ جمھوری حق ہے اور یہ جمھوریت کی ہی خوبصورتی ہے ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں نئے تجربات میں پڑنے کی بجائے اب اس موجودہ کو ہی بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اس کو چلاتے ہوئے ہم اس کی خامیوں سے اب واقف ہوگئے ہیں کہ کہاں کہاں اس میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے اور اگر ہم اپنی زاتیات سے باہر نکل کر قومی مفاد کی خاطر اصلاحات کی کوشش کریں تو اس میں ہمارے حالات سے مطابقت پیدار کرنے کے لئے بہتری کی بہت ساری گنجائش موجود ہے ۔ برطانیہ میں کامیاب پارلیمانی نظام کی ایک بہتریں مثال ہمارے پاس موجود ہے حالانکہ ان کا آئین کسی تحریری صورت میں موجود بھی نہیں اس کے باوجود وہ اس نظام کو کامیابی کے ساتھ چلا رہے ہیں ۔

اگر گہرائی میں جاکر مندرجہ بالا وجوہات اور حالت کی روشنی مین دیکھیں تو ہمیں نظاموں کو بدلنے سے زیادہ اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ جو بنیادی وجہ ہماری ساری خرابیوں کی جڑ ہے وہ ہماری انفرادی سوچ ہے کہ ہماری سوچ ہماری ذات کے گرد گھومتی ہے ہم سب اپنے زاتی مفادات کو قومی اور اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں اور ایسی سوچ کے حامل افراد جہاں جہاں بھی جس جس عہدے پر بھی بیٹھے ہیں وہاں جب اس انفرادی سوچ کا اثر دکھاتے ہیں تو وہ اپنا فائدہ تو حاصل کر لیتے ہیں مگر اس سے ادارے اور ملک و قوم خسارے میں چلے جاتے ہیں ۔ لہذا ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا جب ہم اپنے اجتماعی اور قوم مفادات کو زاتی مفادات پر ترجیح دینے میں کامیاب ہوجائیں گے تو پھر مثبت تبدیلی ضرور آئے گی اور جہاں جہاں بھی اس فعل کی پریکٹس ہورہی ہے وہا ں پر مثبت نتائج سامنے آ بھی رہے ہیں ۔

یہی سوچ اگر سیاسی جماعتوں کے اندر بھی پیدا ہوگئی جیساکہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر بھی مضبوط جمھوریت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ تو ایسی صورتحال میں جب فلٹر ہوکر صحیح قیادت سامنے آئے گی تو پھر یقیناً ان کو اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے اور بدنام کرنے کی نوبت بھی نہیں آئے گی ۔ جب یہ خود اہلیت رکھتے ہونگے تو اداروں کی سیاست میں دخل اندازی کا سدباب کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہونگے ۔

گر واقعی حکومت اصلاحات کے لئے مخلصانہ ذہن رکھتی ہے تو اسے چاہیے کہ اپوزیشن کو اعتماد میں لے اور اپوزیشن کو بھی قومی مفاد کی خاطر اخلاص کے ساتھ ان کے ساتھ بیٹھ کر ملکی بہتری کے لئے کام کرنا چاہیے ۔

آج کچھ لوگ خلافت کی بات بھی کرتے ہیں تو میں پھر یہی کہوں گا کہ خلافت بھی اس وقت تک کامیاب رہی جب تک سوچوں میں دم رہا خلافت کامیابی سے چلتی رہی اس خلافت کے پیچھے دنیا کے کامیاب تریں شخص کی تئیس سالوں کی محنت تھی اور جب تک اس محنت میں دم رہا خلافت چلتی رہی اور جب اس محنت کے اثرات کم ہوتے گئے اور قوم کی سوچوں میں تغیر برپا ہوا تو یہ سوچوں کی تباہی کا طوفان خلافت کو بھی ساتھ ہی بہا کر لے گیا ۔

ہم خلافت کی بات تو کرتے ہیں اس کی بہت بہت اعلیٰ مثالیں بھی دیتے ہیں مگر ہم اپنے آپ کا خلافت کے دور کے لوگوں سے موازنہ نہین کرتے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ ہم ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ خدا کے گھروں پر ہم نے اپنے اپنے نظریات کے پہرے بٹھائے ہوئے ہیں اور کوئی اللہ کے گھر میں اپنی مرضی سے آزادانہ عبادت بھی نہیں کرسکتا تو ایسے حالات میں خلافت کی باتیں کرنا حقیقت سے کسی طرح سے بھی مطابقت نہیں رکھتا ۔

ہمیں اپنی اصلاح کی ٖضرورت ہے ہم اس قابل ہوجائیں کہ ریاست کے اعلیٰ عہدے ہمیں ڈھونڈتے پھر رہے ہوں اور ہم چھپنے کی کوشش کررہے ہوں نہ کہ ہم ان ریاستی اعلیٰ عہدوں کے پیچھے مرے جارہے ہوں ۔ حب ہم صحیح معنوں میں تبدیل ہوجائیں گے تو پھر یقیناً اسلامی نظام خلافت ہمیں پا ہی لے گا بلکہ یہی جمھوری نظام ہی وہی صورت اختیار کر لے گا اس میں کوئی خاص تبدیلی کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی ۔
 

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 114933 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More