پانی کی فراہمی ایک خواب ۔۔۔۔۔۔۔۔!

وَجَعَلنا مِنَ اَلماءِ کلَ شَئی حَئی۔اورہم نے ہرزندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا ،پانی زندگی کی علامت ہے ، زندگی کا پہیہ پانی کے بل پر گھومتا ہے ،گھریلو ضروریات ہوں ، صنعتی ہوں یا زرعی و تجارتی سرگرمیاں سب کا دارومدارپانی پرہے، پانی کے بغیر زندگی کا تصورتک نہیں کیا جاسکتا۔ اسی وجہ سے پانی اﷲ کی عظیم نعمت ہے اس کے بغیر زندگی اپنا وجو د کھو بیٹھے گی ۔اگرچہ زمین پر پانی تین حصے اورخشکی ایک حصہ پر مشتمل ہے مگر پھر بھی کئی ہزاربستیاں پانی جیسی نعمت سے محروم ہیں یا قلت ِ آب کے مسئلے کا شکارہیں ۔پاکستان میں بھی ایسے بیسیوں دیہات موجودہیں، جن میں پانی کی شدید قلت ہے بلکہ لوگ جوہڑوں کا پانی استعمال کرنے پر مجبورہیں، میانوالی میں بھی ایسے کئی گاؤں موجود ہیں، اس پانی کو نہ صرف پینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ دیگر ضروریات زندگی بھی اسی سے پوری کی جاتی ہیں ۔

دوسری طرف جن علاقوں یا شہروں میں پانی وافر موجود ہے ان کے شہریوں کا حال یہ ہے کہ بڑی بے دردی سے پانی ضائع کیا جاتا ہے ۔ساری ضروریات پوری کرتے ہوئے پانی کا بے جا اصراف کیا جاتا ہے ، مثلاََ وضو کرتے ، برتن ، کپڑے یا فرش دھوتے ،کھانا بناتے ،دانت برش یا شیوکرتے یا نہاتے ہوئے ،بعض اوقات بالٹی بھرنے کے لئے نل کے آگے رکھی جاتی ہے مگربھرنے کے بعد بھی نل بند نہیں کیا جاتا اورصاف شفاف شیشے جیسا حیات بخش پانی ضائع ہوتا رہتا ہے ۔موٹربائیک اور گاڑیاں سروس کراتے ہوئے بھی پانی بے حساب ضائع ہوتا ہے ۔ماہرین آب اورارضیات کے مطابق بھی ۲۰۲۵؁ء تک دنیا بھر میں پانی کی قلت شدت اختیار کرلے گی اورممکنہ طورپر خطرہ ہے کہ آئندہ جنگیں بھی پانی کی بنیا د پر لڑی جائیں ۔

اس ساری صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جس تیزی اوربے دردی سے پانی ضائع کیا جاتا ہے یہ حالت برقراررہی تو ممکن ہے کہ کسی دن آپ پانی کا نل کھولیں تو اس میں سے صرف شاں شاں کرتی ہوا سنائی دے اورپانی گدھے کے سرسے سینگوں کی طرح غائب ہوجائے کیونکہ ماہرینِ آب خواہ ملکی ہوں یا بین الاقوامی اداروں کے ،بتا رہے ہیں کہ دنیا بھر میں بالعموم اورپاکستان میں بالخصوص پانی تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے ۔اور پاکستا ن کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو پانی کی قلت کا شکارہیں ۔عالمی ادارے " واٹرایڈ" کے مطابق زیرزمین پانی استعمال کرنے والے ملکوں میں پاکستان کا نمبر تیسرا ہے ۔اور اس پانی کی سطح بھی تیزی سے کم ہوتی چلی جارہی ہے جو سالانہ ایک میٹر تک ہے ۔یہ بھی خطرے کی گھنٹی ہے ۔پاکستان میں بہنے والے دریاؤں کی صورتحال بھی کم گھمبیر نہیں ہے ۔برف نہ پگھلنے ،دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی کی وجہ سے منگلا اورتربیلا ڈیموں میں سطح آب خطرنا ک حد کو چھورہی ہے ۔دیگر قدرتی اورمصنوعی آبی ذخیروں کی صورتحال بھی اسی سے ملتی جلتی ہے ۔ماہرین کے مطابق اگر بارشیں مزید نہ برسیں تو اپریل تک معاملہ بہت بگڑ سکتا ہے اورپینے کے صاف پانی میں ۳۰تا ۴۰ فیصد کمی ہوسکتی ہے ۔اس قلت کے نتیجے کے طورپر نہ صرف زراعت اورصنعت کو نقصان پہنچے گا بلکہ بجلی کی پیداواربھی شدید متاثر ہوگی جس کی بناء پر لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھے گا اورزراعت وصنعت کا پہیہ بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے جسکی وجہ سے بھی ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے ۔اسی طرح زیرزمین پانی کے معیار میں بھی مسلسل کمی ہوتی چلی جارہی ہے ۔بیماریوں کا باعث بننے والا۹۲فیصد سیوریج کا گندہ اورآلودہ پانی براہ راست دریاؤں اورنہروں میں ڈالاجاتا ہے ۔جس سے زیرزمین اوردریائی ونہری پانی آلودہ ہوتا جارہاہے جس سے انسانی وحیوانی اورزرعی وجود کو خطرات کا سامناہے ۔زیرزمین پانی کے استعمال کے حوالے سے اگرچہ قوانین موجود ہیں مگر ان کے نفاذ کی طرف توجہ کم ترین ہے ۔
ان سارے معاملات وخدشات کو دیکھتے ہوئے رسول مہربان حضرت محمد ﷺ کے فرمان کی اہمیت دوچند بلکہ چہار چند ہوجاتی ہے کہ آپ علیہ الصلواۃ والسلام کے فرمان کا مفہوم ہے کہ " اگر تم دریا کے کنارے بھی بیٹھے ہوتو پانی ضائع نہ کرو" اسی طرح نعمتوں کے ضائع کرنے کے حوالے سے سورۃ التکاثر میں ارشاد ہوا کہ "پھر ضروراس روز (یعنی حشر)تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی " ۔پاکستان کاحصول بھی اﷲ اوراس کے رسول کے نام پر ہوا۔اورپاکستان کے عوام کی ۹۸ فیصد عوام اﷲ کے رسول ﷺ سے عشق ومحبت کرنے والی بھی ہے ،اب سوال یہ ہے کہ کیا محبت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو پانی جیسی نعمت سے محروم کرنے کی بجائے ان کے لئے وافر ذخائر آب فراہم کردیں ۔اس حوالے سے حکومت کافرض ہے کہ وہ نہ صرف کالاباغ ڈیم بلکہ دیگر ڈیم بھی تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ راول جھیل اورٹانڈہ جھیل جیسے دیگر آبی ذخائر بھی قائم کرے ،تاکہ پاکستان میں پانی کی قلت کا جو خدشہ سراٹھا رہا ہے وہ خطرہ باقی نہ رہے اور مملکت خدادادپاکستان کا مستقبل روشن اورتابناک ہوسکے ۔اگر ہم پانی بچانے کی بجائے ضائع کرتے رہے تو پھر وافرپانی کی فراہمی ایک خواب سے زیادہ کچھ نہ رہے گا۔ آئیے آج ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنے بچوں کے لئے بہتر مستقبل کی خاطر پانی بچاکر اپنے حصے کا فریضہ اداکرکے نہ صرف پاکستان کو ترقی وخوشحالی سے ہمکنارکریں بلکہ اپنی آخرت کو بھی سنوارنے کی کوشش کریں ۔

Aamir Farooq Anjum
About the Author: Aamir Farooq Anjum Read More Articles by Aamir Farooq Anjum: 11 Articles with 11593 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.