تحریک پاکستان کا پس منظر اور ہمارا قومی کردار

23مارچ قراداد پاکستان

تحریک پاکستان کے حوالے سے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں مارچ1944ء کو اپنے خطاب میں فرمایا کہ پاکستان’’ اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا ، یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت ابھی قائم نہیں تھی مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید پر ہے وطن اور نسل پر نہیں جب ہندوستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا بلکہ ایک جدا گا نہ قوم کا فرد بن گیا ہندوستان میں ایک نئی قوم وجد میں آگئی ‘‘ ؂
عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال
عجم کا حسن طبعیت ، عرب کا سوز دروں

قائد اعظمؒ کا یہ فرمان تحریک پاکستان کی مکمل وضاحت ہے کلمہ توحید کی بنیاد پر قومیت کا تصور اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے ، اسی عقیدے کو دوسرے لفظوں میں دوقومی نظریہ بھی کہا گیا ہے یہ عقیدہ اور نظریہ کیا ہے اس کوسمجھے بغیر نظریہ پاکستان کا مفہوم اور قیام پاکستان کی طویل اور جانگل جدوجہد کو سمجھا جاسکتا ہے لیکن دوقومی نظریئے کو سمجھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تحریک پاکستان کا پس منظرجانا جائے ماضی کی طرف چلیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت کم وبیش ایک ہزار سال تک رہی اس دوران میں انہوں نے غیر مسلموں بالخصوص ہندؤوں کے ساتھ اپنے بہتر یں حسن سلوک ، مروت اور رواداری کا مظاہرہ کیا لیکن ہندؤوں کے دلوں سے کبھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات میں کمی واقعی نہ ہوئی وہ مسلمانوں کو ملیچھ اور ناپاک ہی سمجھتے رہے اور یوں ایک ہزار سالہ دور حکومت کے باوجود ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان معاشرتی بعد قائم رہا مسلمانوں کی آمد سے برصغیر پاک و ہندنے اپنی زندگی کا نیا تازہ اور پائیدارورق الٹا تو ہندومت سطحی نظرآنے لگا اور اس کی باطنی خامیاں روز روشن کی طرح جھانکنے لگیں ، برصغیر پاک و ہندمیں مسلمان حکمرانوں نے ہندؤوں کے ساتھ بڑی رواداری برتی اور ان کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا جس کے وہ مستحق نہ تھے ، ابتدائے اسلام میں ذمیوں کا درجہ صرف اہل کتاب و عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے مخصوص تھا حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں جب عراق فتح ہوا تو وہاں کے عیسائیوں کو بھی اہل کتاب جیسے حقوق دیئے گئے ، حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے عہد میں ایران فتح ہوا تو ایران میں بسنے والے مجوسیوں کو بھی ذمیوں کا درجہ دے دیا گیا اسی طرح شام میں بسنے والے سامریوں کو بھی ذمیوں میں شامل کرلیا گیا جب خلیفہ ولیدبن عبدالمالک کے عہد میں سندھ فتح ہوا تو ہندؤوں اور بدھوں کو ، باوجود بت پرست ہونے کے ذمیوں کا درجہ دے دیا گیا حالانکہ فقہائے اسلام کے نزدیک بت پرستی کو ذمی نہیں بنایا جاسکتا اور اس کے لئے صرف دوہی راستے ہیں کہ وہ اسلام قبول کرلے ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا قاضی ابو یوسف ؒ نے کتاب الحزاج میں ہارون الرشید کو بت پرستی کے بارے میں یہی مشورہ دیا ہے برصغیر میں محمد بن قاسم ؒاور اس کے جانشینوں نے ہندؤوں کو جو حقوق دیئے ان کے وہ فقہہ اسلامی کی رو سے مستحق نہ تھے لیکن مسلمان حکمرانوں نے اپنی وسیع القلبی اور مذہبی رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں بھی ذمیوں کا درجہ دے دیا مسلمان سلاطین کی رواداری کے باوجود ہندؤوں کو جب بھی سراٹھانے کا موقع ملا انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ بڑا ناروا سلوک کیا اور انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا قطب الدین مبارک خلجی کو منظور نظر نو مسلم غلام خسروخان نے اپنے ولی نعمت کو قتل کرکے اپنے قبیلے کے افراد کی مدد سے تخت و تاج پر قبضہ کرلیا اوربقول امیر خسرو ؒاس نے کافروں جیسے طور طریقے اپنالئے ، خسرو خاں نے اپنے قبیلے کے افراد کو جو ہندو تھے ، دہلی میں پور ی آزادی دے دی اور انہوں نے متعدد مساجد پر قبضہ کرکے محرابوں میں بت رکھ دیئے تھے خسرو خان کے بارے میں مورخین ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ قرآن حکیم کے نسخوں کا چبوتر ہ بنا کر اس پر بیٹھتا تھا پنجاب کے گورنر غازی ملک نے جب خسرو خان کے خلاف چڑھائی کی تو اس نے اپنی مدد کے لئے جن افراد کو بلایا انہیں اسلام ہی کا واسطہ دیا اور ان سے یہ استدعا کی کہ وہ خسروخاں کو مسند اقتدار سے ہٹا کر اسلامی شعار کی ترویج میں مدد دیں امیر خسرو کی تصنیف تغلق نامہ پڑھ کر اس بات کا صحیح اندازہ ہوجاتا ہے کہ خلجی خاندان کے خاتمہ پر ہندؤوں نے برصغیر میں از سر نو اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور اس میں وہ وقتی طور پر کامیاب بھی ہوگئے تھے لیکن غازی ملک جیسے جانباز سپاہی کے سامنے ان کی کوئی پیش نہ چل سکی اور بالآخر انہیں اپنے عزائم میں ناکام ہونا پڑا ، امیر تیمورؒ کے حملے کے بعد برصغیر میں طوائف الملوکی کا دور دورہ شروع ہوا تو ہندؤوں نے جنوبی ہندوستان میں وجیانگر کے نام سے ایک ریاست قائم کرلی جس میں ہندو دھرم کے احیاء کے لئے بڑا کام کیا وجیانگرکی موجودگی سے جنوبی ہندوستان میں اسلام کی اشاعت رک گئی اور ہندؤوں کی سختیوں سے تنگ آکر مشرقی گھاٹ پر بسنے والے مسلمان جزائر شرق الہند کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے سیدوں کے عہد میں مرکزی حکومت کی کمزوری اور سلاطین کی نااہلی کی بناپر ہندؤوں کو سراٹھا نے کا موقع مل گیا اور غیر مسلم کھوکھروں نے پنجاب کے امن و امان کو تہہ و بالا کردیا سیدوں کے عہد میں ہندؤوں میں احیائے دھرم کے لئے کام شروع ہوا اور لودھیوں کے عہد میں ہندؤوں کی بعض تحریکوں میں جارحیت پیدا ہوگئی ہندؤوں نے کئی مقامات پر مسلمانوں کی شدھی شروع کردی کاپسی کے ضابطہ دار نصیرخان نے ہندودھرم اختیار کرلیا اور مسلمانوں کے درپے آزار ہوا اس نے مسلمان عورتوں کو ہندؤوں کے حوالے کردیا اور ان سے کہا کہ وہ انہیں رقص و سرور کی تعلیم دیں اسی طرح لکھنوتی کا حاکم احمد خان بھی ہندوؤں کی صحبت میں رہتے ہوئے اسلام سے برگشتہ ہوگیا اسی عہد میں بنگال کے قدیم دارالحکومت ندیا کے ایک ہندو چتینیہ نے احیائے ہندو دھرم پر کمر باندھی اور وہ بنگال سے شمالی ہندوستان کی طرف روانہ ہوا دوران سفر وہ ہندو دھرم کا پرچار کرتا اور ہندؤوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارتارہا اس نے متھرا کے نواح میں نبدرائین میں متعدد پاٹھ شالائیں اور مندر تعمیر کروائے جو ہند ودھرم کے احیاء کی تحریک کا مرکز بن گئے چتینیہ کی کوشش سے بجلی خاں نامی ایک پٹھان اپنے متعدد پٹھان ساتھیوں سمیت شدھ ہوگیا اور اس نے احیائے ہندو دھرم میں اپنے گورو سے بھی بڑھ کر سرگرمی کا مظاہرہ کیا چتینیہ کے سوانح نگارر قمطراز ہیں کہ بجلی خان اور اس کے ساتھی جو پٹھان بیراگی کہلاتے تھے ہندؤوں کے جس تیرتھ پر جاتے وہاں ہندو انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے چتینیہ کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ چتینیہ مسلمانوں کو ہندو بنانے کے جنوں میں آخری عمر میں پاگل ہوگیا تھا لودھیوں کے عہد میں ہندؤوں کی شرکشی یہاں تک بڑھ گئی تھی کہ رائے سین( بھوپال کے نزدیک ایک مشہور قلعہ ) کے قلعہ دار پورن مل نے رائے سین کے قریب وجوار میں بسنے والے مسلمانوں کاقافیہ تنگ کردیا اور وہ کئی مسلمان عورتوں کو جبراً اٹھالے گئے ابراہیم لودھی کے دربار میں اس کے خلاف شکایت کی گئی لیکن ابراہیم لودھی پورن مل کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہ کرسکا اسی طرح علاقے میں ایک ہندو راجہ نے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانا چاہا اور اس جنوں میں اس نے بہت سے عثمانی النسل مسلمانوں کو قتل کروادیا اس موقع پر بعض لوگوں نے جان بچانے کے لئے ہندو دھرم قبول کرلیا عثمانیوں کے اس قتل عام سے ایک شخص کسی نہ کسی طرح جان بچانے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے سکندر لودھی کے دربار میں راجہ کے ظلم کے خلاف فریاد کی لیکن سکندر لودھی بعض وجوہات کی بناء پر اس ظالم راجہ سے باز پرس کرنے سے قاصر رہا بابر کی آمد سے قبل ابراہیم لودھی کے عہد حکومت میں میواڑ کے حکمران رانا سانگا نے برصغیر میں رام راج قائم کرنے کے ارادے سے اپنے گرد ونواح سے ہزار سوا رجمع کرلئے راجستھان کی مسلمان بستیوں پر حملے شروع کردیئے اور اس نے ناگور جیسے اسلامی تہذیب تمدن کے قدیم مرکز کو تباہ برباد کرڈالا رانا سانگا کی یورش کے وقت ناگورکے باشندے اپنی جانیں بچا کر گجرات کی طرف بھاگ گئے ناگور کے بعد اجمیر کی باری آئی اور رانا سانگانے اجمیر جیسے عظیم روحانی مرکزی کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا یہ عظیم مرکز کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا شیخ عبدالحق محدث ؒاپنی مشہور تصنیف اخبار الاخیار میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ کھنڈر جنگلی جانوروں اور درندوں کا مسکن بن گئے تھے اور ان کے خوف سے کوئی شخص خواجہ معین الدین اجمیر ی ؒ کے مزار کی زیارت کے لئے نہیں جاسکتا تھا رانا سانگا نے بابر کو برصغیر پر حملہ کرنے کی دعوت دی اس کا یہ خیال تھا کہ بابر بھی اپنے پیشر و امیر تیمور کی طرح دہلی کے حکمران کو شکست دے کر لوٹ مار کرکے واپس جائے گا ، لیکن جب رانا سانگا کی توقع کے خلاف بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر برصغیر میں رہنے کا ارادہ کرلیا تورانا سانگا کو اپنا منصوبہ خاک میں ملتا نظر آیا اور وہ ۱۵۲۷؁ء میں خم ٹھنونک کربابر کے مقابلہ میں کنواہہ آپہنچا بابر نے اس موقع پر بڑی جرات اور تدبرکاثبوت دیتے ہوئے رانا سانگا کو شکست دے کر راجپوتوں کی قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اگر بابر کو کوئی اور کریڈٹ نہیں دیا جائے تو اسے اس بات کا کریڈٹ ضرور ملنا چاہئے کہ اس نے رانا سانگا کے عزائم کو خاک میں ملادیا اور اگررانا سانگا کامقابلہ بابر کے بجائے ابراہیم لودھی کے ساتھ ہوتا اسے یقینا کامیابی حاصل ہوتی اور وہ سو لہویں صدی کے ربع اول میں برصغیر میں رام راج قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتا اور پھر خدا ہی جانتا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کا کیا حشر ہوتا رانا سانگا میواڑ کا سب سے طاقتور حکمران تھا اور اس نے جنگ کنواہہ سے پہلے کسی میدان میں ناکامی کا منہ نہیں دیکھا تھا وہ راجپوتوں کا مسلمہ قائد تھا اور راجپوتوں کو بھی اس سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں رانا سانگا کا دلی عہد راجکمار بھوج اپنے باپ کے بعد برصغیر کا حکمران بننے کا خواب دیکھ رہا تھا اور رانا سانگا بھی اس کی تربیت اپنے جانشین کی حیثیت سے کررہا تھا لیکن قدرت کوکچھ اورہی منظور تھا راجکمار بھوج کی شادی میرتا کی شہزادی میرابائی سے ہوئی لیکن شادی کے جلد بعد راج کمار فوت ہوگیا جواں سال میرا بائی بیوہ ہوگئی اور اس کا مستقبل میں برصغیر کی مہارانی بننے کا خواب ادھورا رہ گیا ابھی راجکمار بھوج کی چتا کا دھواں فضا میں تحلیل نہ ہونے پایا تھا کہ بابر نے برصغیر پر حملہ کردیا اور ابراہیم لودھی کو پانی پت کے تاریخی میدان میں شکست دے کر برصغیر کے تخت و تاج کا مالک بن گیا رانا سانگانے بابر کو برصغیر سے نکالنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہو کر بابر کے ہاتھوں قتل ہو انوجوان میرابائی کی آنکھوں میں یہ وسیع عالم رنگ و بوتاریک بن گیا اور وہ جوگن بن کر شاہی محل سے نکل آئی اور اس نے اپنے بھجننوں کے ذریعے راجستھان کے ہندؤوں میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک دی رانا سانگا کی وفات کے بعد اس کے جانشین اودھے سنگھ اور رانا پرتاب مغلوں سے نبردآزمارہے لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے شیر شاہ سوری نے برصغیر میں جو حکومت قائم کی تھی اس کے جانشین اس کی کماحقہ حفاظت نہ کرسکے اور اس کے ایک نالائق جانشین عادل شاہ کے عہد میں ریواڑی کا ایک بنیاہمیوں ترقی کرتے کرتے سپہ سالار بن گیاہیموں نے اپنی طاقت کے نشے میں راجہ بکر ما جیت کا لقب اختیار کیا جو اس کے خطرناک عزائم کی غمازی کرتا ہے ہمیوں بقال کے دور اقتدار میں ریواڑی کے مسلمان سیدنے اپنے بچے کا عقیقہ کیا تو اتفاق سے کسی کوے یا چیل کی چونچ سے ایک ہڈی ہمسایہ برہمن کے گھر گرگئی اس برہمن نے ہمیوں کے پاس شکایت کی اور اتنی بات پر مشتعل ہوکر ہمیوں نے اٹھارہ سیدوں کو ذبح کروادیاہمیوں بقال کے عزائم کو دیکھ کر یہ مترشح ہوتا ہے کہ اگر اسے بیرم خان اور اکبر کے ہاتھوں شکست نہ ہوتی تو اس نے عادل شاہ کو تخت سے الگ کرکے ہندوستان میں رام راج قائم کردیا ہوتا اکبر کے عہد میں اکبر کی حکمت عملی سے ہندؤوں کو ہولی کھیلنے کا موقع مل گیا اور بعض مقامات پر ہندؤوں نے اتنی قوت پکڑی کہ مسلمان شعائر اسلام بجالانے سے قاصر ہوگئے ، حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے مکتوبات اس پر شاہد ہیں کہ ہندو اپنے برت کے سن مسلمانوں کو سرعام کھانے پینے سے روکتے تھے لیکن رمضان کے دنوں میں وہ مسلمانوں کی دل آزاری کے لئے گلیوں اور بازاروں میں کھاتے پیتے تھے ہندؤوں نے مسلمانوں کی کئی مسجدوں پر قبضہ کرلیا اور بہت سے قبرستان مسمار کرڈالے ، کوروکھیشتر میں ہندؤوں نے ایک مسجد اور مقبرہ شہید کرکے اس جگہ مندر تعمیر کرلیا متھر ا میں مسلمانوں نے مسجد تعمیر کرنے کے لئے سامان فراہم کیا تو مہارانی جودھابائی کے پروہت نے اس سامان پر قبضہ کرکے مندر تعمیر کروالیا اور جب متھرا کے قاضی عبدالرحیم نے اس پروہت سے باز پرس کی تو اس نے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی شروع کردی اکبر کے وزیر مال ٹوڈر مل نے بنارس میں ایک عالیشان مندر تعمیر کیا اور اس کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں برصغیر کے بڑے بڑے ہندو ودیادانوں اور پنڈتوں کو مدعو کیا حضرت مجدد الف ثانی ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ایسی کوئی بلا نہیں جو ہندؤوں نے گانگڑہ کے علاقے میں مسلمانوں پر روانہ رکھی ہو اکبر کے عہد میں تلسی داس نے ارمائن لکھ کر ہندؤوں کے سامنے رام چندرکا مثالی کردار پیش کیا اور یوں رام راج قائم کرنے کے منصوبے کو ہوادی جہانگیر کے عہد میں ہندؤوں کی چیرہ دستیاں بدستور قائم رہیں اور تزک جہانگیر ی کے مطالعہ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ جہانگیر کو کشمیر میں سفر کے دوران یہ اطلاع ملی کہ راجوری کے نواح میں ہندؤوں نے مسلمان عورتیں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے گھروں میں ڈالا ہوا ہے جہانگیر اگر چہ اکبر جیسے ملحد باپ اور رانی جودھابائی جیسی ہندو عورت کا بیٹا تھا تاہم اس میں اسلامی غیرت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا جہانگیر نے ایک فرمان کے ذریعے ایسے ہندؤوں کو جن کے گھروں میں مسلمان عورتیں تھیں حکم دیا کہ وہ مسلمان ہوجائیں بصورت دیگر ان عورتوں کو ان کے ہندو خاوندوں سے الگ کردیا جائے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہانگیر کے اس اقدام کے باوجود کشمیر میں ہندؤوں کے گھروں میں مسلمان عورتیں موجود رہیں شاہ جہاں کو کشمیر میں سفر کے دوران یہ اطلاع ملی کہ بھمنبر کے علاقے میں کئی ہزارمسلمان عورتیں ہندؤوں کے قبضے میں ہیں شاہ جہاں نے ایک فرمان کے ذریعے ایسے ہندؤوں کو جن کے گھروں میں مسلمان عورتیں تھیں مشور ہ دیا کہ وہ اسلام قبول کرلیں بصورت دیگر ان عورتیں کو ان کے چنگل سے رہا کروالیا جائے اور ایسے ہندؤوں پر جرمانہ عائد کیا جائے شاہ جہان کے سوانح نگار اس بات پر متفق ہیں کہ شاہ جہان کے اس فرمان کے بعد پانچ ہزار ہندؤوں نے اسلام قبول کیا جب شاہ جہان بھنبر گجرات پہنچا تو علماء اور قضاۃ نے اس کے دربار میں فریاد کی کہ گجرات کی کئی مسجدوں پر ہندؤوں نے غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے اور وہ مسلمان عورتوں کو بھی اٹھا کر لے گئے ہیں شاہ جہان نے گجرات کی مساجد کا قبضہ مسلمانوں کو دلوایا اور مغویہ عورتوں کی بازیابی کے لئے احکاما ت صادر کئے شاہ جہاں کے عہد میں سرہند کے ایک سرکش ہندو دلیپ نے چھ مسلمان لڑکیوں کو اغوا کرلیا اور ان میں سے ایک سید زادی زینت کو شدھ کرکے اس کا نام گنگار کھا مسلمانوں نے اس ظلم کے خلاف شاہ جہاں کے دربار میں فریاد کی تو اس نے دلیپ کو گرفتار کراکر اپنے حضور میں طلب کیا شاہ جہاں نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی لیکن دلیپ نے اس پر آماد گی ظاہر نہ کی شاہ جہان نے اس کے جرائم کی پاداش میں اسے قتل کروادیا اور نگ زیب کے عہد میں ہندؤوں کی مسلم آزار سرگرمیاں جاری رہیں ستنامیوں نے نازنول کے علاقے میں بغاوت کردی پنجاب میں سکھوں نے شور ش بپا کردی اور کشمیری ہندؤں نے نویں سکھ گوروتبغ بہادر کو اورنگزیب کے مقابلے میں لاکھڑا کیا جب گوروتبغ بہادر کی باغیانہ سرگرمیاں حد سے تجاوز کرگئیں تو اورنگزیب نے اسے گرفتار کرا کے قتل کروادیا گوروتبغ بہادر کے فرزند اور جانشین گوروگوبندسنگھ نے شوالک کی پہاڑیوں میں متعدد قلعے تعمیر کرکے حکومت کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں جاٹوں نے دہلی اور آگرہ کے درمیانی علاقے میں شورش برپا کردی اور انہوں نے سکندرہ پریورش کرکے اپنے عظیم محسن اکبر کی قبر کھود کر اس کی ہڈیاں جلاڈالیں جنوبی ہند میں مرہٹوں نے سر اٹھایا اور اورنگزیب کے آخری چھبیس سال انہی کی سرکوبی میں گزرے اورنگزیب کے انتقال کے بعد اس کے نالائق جانشین حالات پر قابونہ پاسکے پنجاب میں بندوہ بیرا گی نے مسلمانوں پر مظالم کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا اور اس نے مسلمانوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے جن کی نظیر چنگیز اور ہلاکو کی داستانوں میں بھی نہیں ملتی مرہٹوں نے دوبارہ قوت پکڑلی اور ۱۷۵۹؁ء میں انہوں نے لاہور میں اپنا گورنر مقرر کردیا ان نازک حالات میں حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ نے احمد شاہ ابدالی ؒکو برصغیر پر حملہ کرنے اور مرہٹوں کے تسلط سے مسلمانوں کو آزاد کرانے کی درخواست کی احمد شاہ ابدالی ؒنے ۱۷۶۱؁ء میں پانی پت کے تاریخی میدان میں مرہٹوں کی قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور برصغیر کے مسلمان شاہ ولی اﷲ ؒ کے اس دانشمند انہ اقدام کی وجہ سے ہندؤں کے قبضہ میں جانے سے بچ گئے ، اگر احمد شاہ ابدالی شاہ صاحب ؒ کی دعوت پر برصغیر پر حملہ نہ کرتا تو مرہٹوں نے یہاں رام راج قائم کرکے اسلامی تہذیب و تمدن کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا ہوتا انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کے بعد ہندؤوں کے ساتھ ترجیحی سلوک شروع کیا اور ہندو انگریزی عہد میں تعلیم تجارت اور دوسرے شعبوں میں خوب ترقی کرگئے سرسید احمد خان کے زمانے میں مسلمانوں کی پسماندگی کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ کلکتہ یونیورسٹی کے بی اے کے امتحان میں پاس ہونے والے 240امیدوار وں میں فقط ایک مسلمان تھا سرسید احمد خان اس بات کے شاکی تھے کہ مسلمانوں کو گھاس کھودنے ، بگھی چلانے اور چپڑاسی کے علاوہ اور کوئی ملازمت نہیں ملتی ہندؤوں نے اپنی روائتی چالاکی اور چاپلوسی کی بدولت انگریزوں کے دلوں میں گھر کرلیا اور مسلمانوں کا استحصال کرنے لگے انگریزی عہد میں ہندؤوں کی سعی وکاوش سے یوپی کے سرکاری دفاتر میں ہندی زبان مروج ہوگئی اور سرسید احمد خان نے ہندؤوں کی ذہنیت کو بھانپ کر اس بات کا صیح اندازہ لگایا تھا کہ ہندؤوں اور مسلمانوں میں اشتراک ممکن نہیں رہا ۱۸۵۸؁ء میں جب ایک انگریز ریٹائرڈ آفیسر ہیوم نے انڈین نیشنل کا نگریس کی بنیاد رکھی تو ہندو ایک بڑی تعداد میں اس جماعت میں شامل ہوگئے اس موقع پر سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو کانگریس میں شامل نہ ہونے کا مشورہ دیا سرسید کی کوششوں سے مسلمان تعلیمی میدان میں ترقی کرنے لگے اور ملازمتوں میں بھی انہیں حصہ ملنے لگا ۱۹۰۵؁ء میں انگریزوں نے انتظامی سہولت کے لئے بنگال کو دوحصوں میں تقسیم کردیا اتفاق سے مشرتی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی اسی تناسب سے انہیں ملازمتوں میں حصہ ملنے لگا مشرقی بنگال کی انتظامیہ میں مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے حصہ ملا اسی طرح مشرقی بنگال کے ہائی کورٹ میں مسلمان ججوں کا تقرر ہوا مسلمانوں کو کلکتہ کے ہندو تاجروں اور سرمایہ داروں کے چنگل سے رہائی ملی تو تجارتی میدان میں مسلمان آگے بڑھنے لگے ہندو مسلمانوں کو کھاتے پیتے اور خوشحال نہ دیکھ سکے اور انہوں نے تقسیم بنگال کو ختم کرانے کے لئے تحریک شروع کردی جس نے بالآخر تشدد کا رنگ اختیار کرلیا اور انگریزہندؤوں کے اس مطالبے کے آگے جھک گئے اور ۱۹۱۱؁ء میں دربار دہلی کے موقع پر جارج پنجم نے تقسیم بنگال منسوخ کردی تقسیم بنگال کی منسوخی سے اس بات کا صیح اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہندو مسلمانوں کو کھاتے پیتے اور خوشحال نہیں دیکھ سکتے تھے ۱۹۰۶؁ء میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو مسلمان رہنماؤں نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے کوشش کی قائد اعظم کی سعی وکوشش سے ۱۹۱۶؁ء میں لکھنؤ میں مسلمانوں اور ہندؤوں میں سمجھوتہ ہوگیا لیکن یہ سمجھوتہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا پہلی عالمی جنگ کے بعد برصغیر میں تحریک خلافت شروع ہوئی تو مسلمانوں نے خلافت کو بچانے کی سردھڑ کی بازی لگادی ، ہندؤوں نے اس تحریک میں اپنے مفاد کی خاطر مسلمانوں کا ساتھ دیا لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کا اتحاد اور جذبہ دیکھا تو انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ مسلمان ایک بڑی قوت بن سکتے ہیں تو آنجہانی گاندھی چورا چوری کے موقع کو بہانہ بنا کر اپنے رفقاء سیمت تحریک خلافت سے الگ ہوگئے ۱۹۲۸؁ء میں برطانوی حکومت نے برصغیر میں آئینی اصلاحات نافذکرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور اس مقصد کے لئے سائمن کمیشن بھیجنے کا اعلان کیا مشہور کانگرسی رہنماپنڈت موتی لال نہرونے نیا آئین تیار کرنے کے لئے جو تجاویز پیش کیں وہ نہر ورپورٹ کے نام سے مشہور ہیں نہرورپورٹ میں مسلمانوں کے مطالبات کوٹھکرادیا گیا تھا اور پنڈت موتی لال نہرونے جوسفارشات پیش کیں وہ ان کے ہندو ذہن کی عکاسی کرتی ہیں ۱۹۳۲؁ء میں برطانوی حکومت نے کمیونل ایوارڈ کا اعلان کرتے ہوئے اچھوتوں کو الگ نمائندگی دینے کا اعلان کیا تو ہندؤوں میں اضطراب کی ایک لہر دوڈ گئی اور انہوں نے اچھوتوں کو دائمی طورپر اپنا غلام بنائے رکھنے کی خاطر گاندھی کو مرن برت رکھنے پر آمادہ کرلیا اچھوت لیڈر ڈاکٹر امبید کرکی کوتاہ بینی کی بدولت اچھوت ہندؤوں کے دوبارہ غلام بن کررہ گئے ۱۹۳۵؁ء میں برصغیر میں نیا آئین نافذ ہوا اور اس آئین کے تحت انتخابات کرائے گئے تو گیارہ میں سے چھ صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوگئیں کانگرسیوں کا دور حکومت ۱۹۳۷؁ء سے ۱۹۳۹؁ء تک رہا اور اس دوران میں انہوں نے مسلمانوں پر بڑے مظالم ڈھائے کانگرسیوں نے اسکولوں میں اردو کی جگہ ہندی رائج کردی ، سرکاری عمارتوں پر یونین جیک کے ساتھ ترتگا جھنڈا بھی لہرانے لگا اسکولوں اور کالجوں میں بندے ماترم کا ترانہ پڑھنا لازمی قراردیا اس ترانے کے الفاظ سے ہندؤوں کی اسلام دشمنی کی بو آتی تھی تعلیمی اداروں میں ودیا مندر سکیم نافذ ہوئی جس کے تحت تمام طلباء کے لئے آنجہانی گاندھی کی مورتی کے آگے ہاتھ جوڑ کر پرنام کرنا شامل تھا مسلمان طلبہ کو اس صریحاًبت پرستی سے بڑی کوفت ہوتی تھی ہندؤوں نے ذبیحہ گاؤ پر پابندی لگادی اور رابطہ عوام کے نام سے ایک تحریک چلاکر ہندؤوں کو مسلمانوں سے برگشتہ کرنا شروع کردیا سروس کمیشن میں ہندو نمائندوں کی موجودگی سے مسلمان امیدوار وں کی حق تلفی ہونے لگی اور سرکاری ملازمتوں میں ہندؤوں کا ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ حصہ ملنے لگا کانگریسی وزارتوں کے دور میں جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات ہونے لگے محرم ، دیوالی، دسہرہ ، ہولی اور جنم اشمٹی کا کوئی تہوار امن وامان سے نہیں گزر سکتا تھا ۱۹۳۹؁ء میں دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر جب کانگریسی وزارتیں بطور احتجاج مستعفی ہوئیں تومسلمانوں نے یوم نجات منایا کانگریسی وزارتوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی تفصیلات شریف رپورٹ ، پیرپوررپورٹ اور مولوی ابوالقاسم فضل الحق کی رپورٹ میں دیکھی جاسکتی ہیں مسلمانوں پر ہندؤوں کے اس ظلم و تشدد نے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان ہندؤوں کے ماتحت نہیں رہ سکتے جس کی بعد دوقومی نظریئے پر عمل درآمد کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی جس کے لئے حضرت علامہ اقبالؒ نے پوری اسلامی دنیا کو نغمہ توحید سے معمور ہونے کا مژدہ جانفزاسنایا تھا ان کی دلی خواہش تھی کہ پوری روئے زمین ایک ایسی عالمگیر ریاست میں تبدیل ہوجائے جہاں پر ہر وقت نغمہ توحید بلند ہوتارہے اور پورے نظام میں یہی نغمہ اپنے تمام ترتقاضوں کے ساتھ بس جائے ۔
حضرت علامہ اقبال ؒ کی خواہش تھی کہ یہ مقصد کما حقہ حاصل ہوسکے جب روئے زمین پر کوئی ایسا خطہ زمین موجود ہو جسے اس توحیدی نظام کے بطور تجربہ گاہ استعمال کیا جاسکے کیونکہ ایک علیحدہ خطہ زمین پر حکمرانی کے نتیجے ہی میں دنیا اور بالخصوصی مسلمان توحید کے ثمرات اور برکات سے مستفید ہوسکیں گے اور یوں ان کا اسلام کی طرف مدابعت کا داعیہ پیدا ہوگا ، چنانچہ انہوں نے ۱۹۳۰؁ء میں الہ آباد کے مقام پر اپنے تاریخی خطبے میں ایک ایسی جدید اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا جو دور حاضر کے تمام تقاضوں کو پورا کرتی ۔

علامہ اقبال ؒ نے پوری دنیا میں اسلامی نشاہ ثانیہ کا خواب دیکھا تھا انہیں اسلامی ریاست کا قیام برصغیر میں ہی ممکن نظر آیا اس لئے انہوں نے برصغیر میں اسلامی ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین بنایا جسے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ نے پایہ تکمیل تک پہنچایا حضرت قائد اعظم ؒ اس سے مستثنیٰ نہیں تھے وہ علامہ اقبالؒ کے ذہنی پیروتھے وہ ۲۲مارچ ۱۹۴۰؁ء کو لاہور میں ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قومیت کی تعریف چاہے جس طرح کی جائے مسلمان اس تعریف کی رو سے ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس بات کے مستحق ہیں کہ برصغیر میں ان کا اپنا ارض وطن ان کی اپنی الگ مملکت اور اپنی جداگانہ خود مختیار ریاست ہو ہم مسلمان چاہتے ہیں کہ ہندوستان کے اندر ہم ایک آزادانہ قوم بن کر اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہم آہنگی اور امن و امان سے زندگی بسر کریں ہماری تمنا ہے کہ ہماری قوم اپنی روحانی ، تمدنی ، اقتصادی ، معاشرتی اور سیاسی زندگی کی قابل ترین نشوونما بخشے اور اس کام کے لئے وہ طریق عمل اختیار کرے جو اس کے نزدیک بہترین ہوا ور ہماری رائے میں ہمارے قدرتی عطیات اور نصب العین سے ہم آہنگ ہو۔

حضرت علامہ اقبال ؒ اور حضرت قائد اعظم ؒ نے جس دوقومی نظریئے کی بناء پر نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کا آغاز کیا اس کی تشریح کچھ یوں ہے کہ :
’’دو قومی نظریہ قیام پاکستان کا بنیادی پتھر ہے ، دوقومی نظریہ کا مطلب ہے کہ مسلمان ایک منفرد قوم ہیں مسلمانوں کا کسی غیر اسلامی مملکت میں کسی دنیاوی طاقت کا حاکم اعلیٰ تسلیم کرکے مستقلاً اس کی اطاعت میں زندگی گزارنے پر رضامند ہوجانا شرک ہے کیونکہ اسلام کی روسے حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ صرف اﷲ تعالیٰ کو حاصل ہے اﷲ تعالیٰ عزوجل کی حاکمیت اعلیٰ کو نافذ کرنے کیلئے آزاد اسلامی ریاست کا قیام دین اسلام کا بنیادی تقاضا ہے اسلام بحیثیت دین ( نظام زندگی ) اسی صورت میں کارفرما ہوسکتا ہے جب اس کی اپنی آزاد مملکت ہو اگر آزادہ مملکت نہ ہوتو یہ صرف مذہب کی شکل میں باقی رہ سکتا ہے متحدہ ہندوستان میں اسلام مذہب کی صورت میں جاری رہ سکتا تھا دین کی شکل میں نہیں اسے دین کی شکل میں منتقل کرنے کے لئے برصغیر کے مسلمانوں نے ایک آزاد مملکت کے حصول کا مطالبہ کیا اسی کو نظریہ پاکستان کہا جاتا ہے ۔

برصغیر کے حوالے سے دو قومی نظریہ سے مراد یہ تھی کہ ہندوستان میں دو قومیں ( ملتیں ) آباد ہیں ایک مسلمان دوسری ہندو اور دیگر غیر مسلم اقلیتیں اس تفریق کی بنیاد نہ علاقہ ( وطن ) ہے نہ رنگ ، نہ نسل اور نہ زبان بلکہ اس کی بنیاد صرف مذہب ہے پھر اسلام اور ہندو مت دو علیحدہ علیحدہ مذاہب ہی نہیں بلکہ دو مختلف نظام ہائے زندگی ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل الگ اور مختلف ہیں اس لئے وہ ایک متحدہ قومیت کا روپ اختیار نہیں کرسکتے اگر مسلمان متحدہ قومیت کے طورپر ہندو سے نباہ کرنے کیلئے تیار ہوجاتے تو ان اور ان کے عقیدہ کیلئے موت کا پیغام اور سامان ہوتا اپنے سے تین گنا بڑی ظالم ہندو اکثریت انہیں ہر لحاظ سے لاچاروبے بس کردیتی مسلمانوں کے لئے ان کا تشخص ملی ختم ہو کر رہ جاتا ہے اس حقیقت کے پیش نظر اسلامیان ہند کے لئے اور کوئی چارہ نہ تھا کہ ہندوؤں سے الگ ہوجائیں جس کے لئے انہیں ایک خطہ زمین کی ضرورت تھی جہاں وہ آزادانہ اسلام کے اصولوں کے تحت زندگی بسر کرسکیں چنانچہ اسی حقیقت ( نظریہ ) کے تحت پاکستان معرض وجود میں آیا ۔

دو قومی نظریہ برصغیر کے حالات کی پیدا وار نہیں ہے اور نہ یہ کسی ایک مسلمان فرد کی سیاسی یا مذہبی اصلاح یا ایجاد ہے بلکہ اس کے ماخذ قرآن و سنت نبوی ﷺ ہیں ، قرآن و سنت نبوی ﷺ کی رو سے تمام مسلمان ایک ملت (قوم) ہیں اور تمام کافر، مشرک ملحد مرتد اور زندیق ایک ملت ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور نہیں تھے لوگ مگر ایک ہی امت ( ملت) پھر وہ مختلف ہوگئے ‘‘ ( سورۃ یونس آیت نمبر 19)

اور نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے ’’کفراصل میں ایک ہی ملت ہے ‘‘ روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ( مسلم شریف)

’’دوقومی نظریہ ‘‘ ایک نظریہ ( IDEOLOGY)ہی نہیں بلکہ یہ ایک عقیدہ بھی ہے کوئی نظریہ کلی یا جزوی طورپر غلط بھی ہوسکتا ہے لیکن اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ ازل سے لے کر ابد تک مسلمان ( حزب اﷲ ) اور کافر ( حزب الشیطان ) دو علیحدہ علیحدہ ملتیں ہیں ۔

اس بنیادی عقیدے اور تصور کے لئے جو قیام پاکستان کی بنیاد بنا اور نظریہ پاکستان اور دوقومی نظریہ کی اصلاحتیں استعمال ہوتی ہیں نظریہ ئپاکستان کی اصلاح اپنے مفہوم کے اعتبار سے دو قومی نظریئے کے ہم معنی ہے لیکن اپنے اطلاق کے لحاظ سے منفرد اور خاص ہے ۔

دوقومی نظریئے کی رو سے دنیا کا ہر مسلمان خواہ وہ کرہ ارض کے کسی بھی خطے میں آباد ہو ایک الگ ملت اور جداگانہ قوم کافرد ہے یہی وہ حقیقت ہے کہ جس کی جانب قائد اعظم نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس دن ہندوستان میں پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا وہ ایک نئی قوم کافرد بن گیا ۔

برصغیر پاک وہند میں اسلام کی آمد کے بعدجب کروڑوں لوگوں نے لاالہ الا اﷲ کی شہادت دیکر ایک نئے نظام حیات کے قیام کا عہد کرلیا تو ان کیلئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ کسی دوسرے نظام کی غلامی میں زندگی بسر کریں اور پھر دوسرے نظام کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے دو قومی نظریئے کو عملی جامع پہنانے کی خاطر 23مارچ 1940ء کو مسلمانان برصغیر نے بانی پاکستان قائد اعظم ؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں لاہور کے منٹو پارک (اقبال پارک) میں آزاد مملکت خداداد قائم کرنے کے فیصلے پر مہرثبت کردی قراردار پاکستان جو ہماری تہذیبی اساس ہے کو قراردادلاہور کے نام سے 23مارچ 1940ء کو مولوی فضل الحق مرحوم نے پیش کیا انہوں نے اپنے خطاب میں کہا ’’ہم نے یہ بات بالوضاحت اور بغیر کسی تذبذب کے کہہ دی ہے کہ ہم جو چیز چاہتے ہیں وہ محض وفاق کے تصور کی دفع الوقتی کے لئے ادھر ادھر سے درستگی نہیں ہے بلکہ اس تصور کی ساری کی ساری درستگی اور صحت ہے تاکہ وفاق تو نتیجہ میں بالآخر ختم ہوجائے وفاق کے اس تصور کو نہ صرف ملتوی کرنا بلکہ اس کو کلیتاً ترک کرنا ضرور ی ہے کئی ایک مواقع پر مسلم لیگ کے پیلٹ فارم سے اور گزشتہ دنوں مجلس مقننہ بنگال کے ایوان میں ، میں نے ایک یقینی حتمی اور پرزور دعویٰ کیا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان کسی ایسی اسکیم کو منظور نہیں کریں گے جو ان کی رضا مندی حاصل کیئے بغیر تیار کی جائے گی ہم اس قسم کے دستور کو مطلقاً نا قابل عمل بنادیں گے مجھے توقع ہے کہ وہ لوگ جن کو ہندوستان کے آئندہ دستور کو مرتب کرنے کا اختیار حاصل ہوگا مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھیں گے اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس پر انہیں بعد میں پچھتا نا پڑے ہم اپنی پوزیشن بالکل واضع کرچکے ہیں مسئلہ بہت ہی آسان ہے بحالت موجودہ مسلمان آٹھ کروڑہیں جو سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں یہ بظاہر بڑی بھاری تعداد معلوم ہوتی ہے لیکن درحقیقت تعداد کے اعتبار سے مسلمان ایک بہت کمزور پوزیشن میں ہندوستان کے تقریباً تمام صوبوں میں ہیں پنجاب اور بنگال میں ہم ایک موثر قسم کی اکثریت میں اور دوسرے تمام علاقوں میں بہت ہی ناگفتہ بہ اقلیت میں پوزیشن کچھ ایسی ہے کہ دستور خواہ کیساہی کیوں نہ ہو مسلمانوں کے مفادات کو خطر ہ لاحق ہونا از بس یقینی ہے اسی طرح جس طرح صوبائی خود مختاری کے تین سالہ عملی دور میں مفادات کو نقصان پہنچا اگر آٹھ کروڑ مسلمانوں کا ایک کافی اور شافی تناسب ایک صوبہ میں بھی یکجا ہو تا تو ہمیں پھر کسی بات کا ڈر نہ تھا جس طرح کہ اس وقت ہم ہیں ہمارے سیاسی دشمن موقع و محل اور حالات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ہمارے دوستوں کو یہ یادرہے گا کہ پنجاب اور بنگال تک بھی ہماری پوزیشن کچھ ایسی زیادہ محفوظ نہیں ہے مجالس مقننہ میں ہم کوئی ایسی خاص بھاری اکثریت میں نہیں ہیں ہمیں مخلوط حکومتیں بنانے کیلئے جو ماہرین دستور کی نظر میں حکومتوں کو کمزور ترین شکل اور ہیت سے دیگر مفادات اور اقلیتوں کی اعانت حاصل کرنی ضروری ہے جہاں تک دیگر صوبوں کا تعلق ہے ہم ایک بہت کمزور حیثیت سے مالک ہیں اور اکثریت کے رحم و کرم پر ہیں جب تک اس مسلم آبادی کی غیر مساویانہ تقسیم کا کوئی حل دریافت نہ ہو دستوری ترقی یا تحفظات کی بات کرنا قطعی فضول اور بے کار ہے میں بے حد خلوص کے ساتھ سارے ہندوستان میں اپنے دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ سنجیدہ ، متین اور پرسکون انداز میں فیصلہ کریں اور یادرکھیں کہ ہمیں اپنے پیروں پر خود کھڑا ہونا ہے اور ہم کسی اور پر اعتماد نہیں کرسکتے یہ ایک ایسی ہی بات ہے جیسے ہر ایک بس اپنے لئے ہے اور ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے کوئی نہیں۔

برصغیر ہند میں انگریزوں کے جبر و استبداداور قہر مانی قوتوں کے سامنے اگر ڈٹ کر کسی نے مقابلہ کیا تو وہ مسلمان ہی تھے جو کہ 150سالہ غلامی کے دوران نہ جھکے نہ دبے اور نہ ہی بزدل اور کمزور قوتوں کی طرح پیچھے ہٹے 1857ء سے لیکر پاکستان بننے تک راس کماری سے لیکر پشاور تک اور پشاور سے لیکر کلکتہ تک کہیں ٹیپو سلطان ؒ کی جوہر آبدار چمکی اور کہیں سراج الدولہؒ نے برطانوی سامراج کو للکارا کہیں پر مسلمانوں میں تحریک آزادی میں پہل کی کہیں جانباز رضا کاروں نے جذبہ جہاد کی مشعل اپنے گرم خون سے روشن رکھی آزادی کے انہیں متوالوں کے کارواں میں اگر خاکساروں کی قربانی اور ان کی تحریک کا ذکر نہ کیا جائے تو قرارداد پاکستان کی تاریخ ادھوری رہ گی ایسی تاریخ جسے مورخ ہر گز ہرگز نہ بھلا سکے گا 23مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے قافلے جس راستے سے گزر کر پاکستان کی جانب مڑے وہ نو گزے کا ہی راستہ تھا جس پر 19مارچ1940ء کو مسلمانان ہند کی بے باکی ، جرات ،جانبازی اور غزوہ بدر کے شہیدوں اور غازیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 313خاکساروں نے قربانی پیش کی جس کی نظیر بہت کم ملے گی اور یہ ہی وہ نعرۂ بزن تھا جس نے انگریز اور اس کے پھٹوؤں کو تحریک آزادی کے لئے قربانیوں کا سبق دیا سرفروشی کی تمنا لئے سروں پر کفن باندھے چپ راس چپ راس کرتے ہوئے 19مارچ 1940ء کو 313خاکسار نو گزے کی خانقاہ کے چوراہے پر پہنچتے ہیں اور انگریز DSPبیٹی آگے بڑھ کر خاکساروں پر جیش (قافلے) کو رک جانے کے لئے کہتا ہے سالار جیش نے DSPکو سامنے سے ہٹ جانے کا کہا اور بولا کہ ہم شاہی مسجد تک جانا چاہتے ہیں جس پر انگریز بولا ہرگز نہیں ایک منٹ کے اندر اندر دس پرس ہوجاؤورنہ ........اور ساتھ ہی آواز گونجی فائر دوسری جانب سے بزن ، انگریز کی گولیاں آگ برسانے لگیں دوسری جانب خاکسار مجاہد کا بیلچہ اٹھا اور بیٹی کا سر جسم سے جدا علم بردار شاباش شاباش پرچم نہ گرنے دینا ضیغم شہید نے پرچم کی انی اپنے سینے میں گاڑلی پرچم لہرادیا کیونکہ خون کی آبیاری سے پرچم لہرایا ہی کرتے ہیں اس حق و باطل کے معرکے میں غزوۂ بد کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے 50خاکساروں نے جام شہادت نوش کیا شام کا وقت ہے مغرب کی طرف شہداء کے خون کی سرخی افق پر جھلکنے لگی اور آواز بلند ہورہی ہے ؂
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تونے بخشا ہے ذوق خدائی

پاکستان کی بنیاد میں 19مارچ1940ء کو خاکساروں نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر عمارت کو مضبوط بنانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا تاکہ ان کی خون سے بننے والی بنیاد پر ایک آزاد مملکت پاکستان جس کا خواب دو قومی نظریئے کی روشنی میں علامہ اقبال نے دیکھا تھا کی تکمیل ہوسکے 23مارچ 1940ء منٹو پارک لاہور میں ( اقبال پارک) میں قرارداد لاہور ( قرارداد پاکستان ) منظور کرکے مسلمانان ہند نے خاکساروں کے خون سے رکھی گئی بنیاد پر پاکستان کی تعمیر کے لئے جدوجہد کا آغاز کردیا اور قرارداد پاکستان کے بعد تحریک پاکستان زور پکڑتی گئی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ برصغیر پاک و ہند میں آباد مسلمانوں کی روح ان کا ضمیر ، ان کی تاریخ ان کے قلب و نظر ان کی قوت اور ان کا ذوق تخلیق پگھل پگھل کر پاکستان کے جہان خیز لفظ میں سما گیا تھا ۔ان کی تمام تر صلاحتیں حصول پاکستان کے لئے وقف ہوکر رہ گئیں اوروہ ہندووں اور انگریزوں کی مخالفت اور سازشوں کے باوجود 14اگست 1947ء بمطابق 27رمضان المبارک کی بابرکت شب پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور یہ ساری کامیابی قائداعظم ؒ کی انتھک کوشش خلوص اور ذہنی و ملی جذبہ کے تحت حاصل ہوئی ۔

23مارچ قرارداد پاکستان کی روشنی میں 27رمضان المبارک کی بابرکت شب یہ نیا ملک پاکستان منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوا جو عطیہ خداوندی تھا یہ ایک کھلا ہوا راز تھا کہ اس ملک اور اس ملک میں بسنے والی قوم کے سیاسی خالق حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ تھے وہی اس ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اس ملک کی پیدائش سے ذراقبل اور پیدائش کے فوراً بعد انسانیت سے جو دردناک ہولی کھیلی گئی اور انسانوں کو جس ہولناک طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا گیا وہ بھی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے لیکن اس کے باوجود نہ تو ملک کا ناخدا گھبرایا اور نہ یہاں کی قوم نے دل چھوڑا لوگ گرتے پڑتے اور مرتے رہے عصمتیں لٹتی رہیں لیکن ان تھر تھر اتے ہوئے لبوں سے ایک ہی لفظ بر آمد ہوتا رہا ۔۔۔پاکستان!!۔۔اور ایسا کیوں کر ممکن ہوا ، یہ ایک طویل کہانی ہے جس کا آغاز علامہ اقبال ؒ نے دسمبر 1930ء کو الہ ٰ آباد میں اپنی تقریر میں کیا تھا کہ ’’ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خصوصی علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کریں میں ایک منظم اسلامی ریاست کا مطالبہ ہندوستان اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لئے کررہا ہوں اس سے ہندوستان میں توازن قوت کے باعث امن امان پیدا ہوسکے ‘‘۔

پھر علامہ اقبال ؒ نے فرمایا کہ ’’ ایک سبق جو میں نے اسلام کی تاریخ سے سیکھا ہے وہ یہ کہ آڑے وقت میں ہمیشہ اسلام ہی نے مسلمانوں کے وجود کو قائم رکھا اگر آج مسلمان اپنی نگاہیں پھر اسلام ہی پر جمادیں اور اس کی زندگی بخشنے والے تخیل کا اثر قبول کرلیں تو پھر ان کے منتشر اور پراگندہ قوتیں از سر نو جمع ہوجائیں گی اور ان کا وجود تباہی و بربادی سے یقینا محفوظ ہو جائے گا ‘‘۔

نتیجتاً 23مارچ 1940ء کو قرار داد لاہور سامنے آئی ،جسکے علامہ اقبال ؒ بھی ایک ثمرہ تھے، بہت سے افراد بہت سے نظریات اور صد ہاسال کی تاریخ کے پس منظر میں ان کے دماغ میں جو کشمکش تھی اور ان کے قلم سے جو کچھ نکلتا تھا وہ صدیوں کی تگ و تاز اور سوزو ساز کا نتیجہ تھا کہ پا کستان جس کے سیاسی ظہورکے ہیرو قائداعظمؒ تھے اور نظریاتی ظہور ماخذعلامہ اقبال ؒ تھے تحریک پاکستان صد ہا سال کے کروڑوں انسانوں کی امنگ تھی اور اسی لئے یہ عوام میں بجلی کی طرح دوڑ گئی ؂
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

81سال گزرنے کے بعد آج جب ہم یوم قرارداد پاکستان منارہے ہیں تو اس وقت وطن عزیز کے حالات انتہائی گھمبیر صورتحال سے دوچار ہیں 81سالوں میں ہم اپنی کوتاہیوں اور نظریہ پاکستان سے انحرافی کے باعث اپنا ایک بازوکٹواچکے ہیں اور اب باقی پاکستان کو انتشار میں مبتلا کردیا ہے جوکہ پوری قوم ، حکمرانوں ، سیاستدانوں ، علماء دین اور دانشوروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے !اس وقت مکروہ ہندو ایک مرتبہ پھر پاکستان پر میلی نظر ڈال رہا ہے اور آئے روز جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے LOCکی خلاف ورزیاں کررہا ہے کشمیر میں 8ماہ لاک ڈاون کر کے ظلم و بربریت کا بازار گرم کررکھا ہے حقوق انسانی کے علمبردا ر خاموش تماشائی بنے ہوے ہیں لہٰذا اس وقت وطن عزیز کے موجودہ حالات تحریک پاکستان کے پس منظر اور نظریہ پاکستان کی روشنی میں متقاضی ہیں کہ قوم میں ایک مرتبہ پھر قرارداد پاکستان اور تحریک پاکستان والا جذبہ بیدار کیا جائے اور سوئی ہوئی قوم کو جگا کر نا مساعد حالات کا مقابلہ اتحاد ، یقین ومحکم ، عمل پہیم پر عمل پیرا ہوکر کیاجائے وگرنہ ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں ؂
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند

آج جب کہ وطن عزیز اپنے معرض وجود میں آئے 73سال مکمل کرچکا ہے اور ہمارا ملک جس ڈگر پر چل رہا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سیرت سے ہدایت حاصل کی جائے ہماری اصلاح اور فلاح کا دار ومدار اسی پرہے ، خلاصہ یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی فلاح و اصلاح کا انحصار اسی پر ہے کہ ہم بطور امت محمد ی ﷺکے صرف اس لئے دنیا میں لائے گئے تھے کہ انسان کو فساد سے نکال کر فلاح کے مقام تک پہنچا دیا جائے اور قیام پاکستان کا مقصد ہی یہ تھا کہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور اﷲ کا کلمہ بلند کیا جائے اس مقصد کے لئے نیکیوں کو ماحول پر غالب کردیں کیا آج ہم اس فریضے کو ادا کرنے کیلئے تیار ہیں ؟اگر تیار ہیں تو اپنے ایمان وخودداری کے نوراور حیات طیبہﷺ کی روشنی سے کام لے کر ان دردناک اور شرمناک حالات کا جلد از جلدازالہ کریں جو بد عنوانیوں،چوروں، ڈاکوؤں ، ملاوٹوں ، زنا، اسمگلنگ ، رشوت ، جھوٹ ، فریب ، انتہا پسندی ، فرقہ واریت ، صوبائی عصبیت جیسے شیطانی کرتوتوں کے ذریعے ایک طرف ہماری ایمانی اور روحانی اقدار کو تباہ کررہے ہیں تودوسری جانب روشن خیالی کے خواب دکھا کر پاک وطن کی فضاؤں کو غیر اسلامی رسومات اور آلودگیوں سے بدنمابنارہے ہیں ، پہلے اپنے معاشرے کو مغربی تہذیب و تمدن کے بحران سے نکالئے اور پھر نظریہ پاکستان پر عمل پیرا ہوکر ایک مرتبہ پھر نئے پاکیزہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کا تصور لے کر ساری دنیا میں اسلام کا پیغام پھیلائیں گے تو ہمیں انتہا پسندی ، دہشت گردی ، فرقہ واریت ، بے روزگاری ، مہنگائی ، لوٹا کر یسی ، رشوت خوری، بد عنوانیوں اور دیگر پریشانیوں سے نجات مل سکتی ہے ، علامہ اقبال ؒ نے فرمایا کہ ؂
سبق پھرپڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امانت کا
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

 

Sahabzada Ahmed Imran
About the Author: Sahabzada Ahmed Imran Read More Articles by Sahabzada Ahmed Imran: 2 Articles with 1393 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.