خوش گمانی یا بدگمانی

یہ کوئی اتفاق نہیں کہ سعودی ولی عہدمحمد بن سلمان نے نومنتخب امریکی صدرجوبائیڈن کوانتخابی کامیابی پرمبارک باددینے میں کافی تاخیر کی۔واشنگٹن میں سعودی عرب کے خلاف کام کرنے والی لابی جوبائیڈن انتظامیہ کواس حدتک یقین دلانے میں کامیاب دکھائی دے رہی ہے کہ گزشتہ چاربرس کے دوران سعودی ولی عہد نے یمن پرجوبدترین بمباری کی،جس کاکوئی خاطرخواہ نتیجہ بھی نہیں نکلا اورعلاوہ ازیں چین کے ساتھ مل کریورینیم کی افزودگی کا خفیہ پروگرام شروع کررکھاہے۔ان ٹھوس وجوہات کی بناء پرامریکی ڈیموکریٹ کے ارکان جلدسعودی عرب کے ساتھ امریکاکااتحادختم کرنے کیلئے بائیڈن سے اپیل کریں گے لیکن دوسری طرف یہ آراءبھی سامنے آرہی ہیں کہ بائیڈن کواس تجویزکی مخالفت کرنی چاہیے کیوںکہ اتحادختم کرنے سے کسی کے رویے میں بہتری نہیں لائی جاسکتی بلکہ بائیڈن کومغربی اتحادیوں اورمشرق وسطیٰ کی ریاستوں کے ساتھ مل کر نیااتحاد قائم کرناچاہیے،جس میں سعودی عرب بھی شامل ہوتاکہ امریکاکوسعودی عرب کی جانب سے جوہری ہتھیاروں سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پامالی روکنے میں مددمل سکے۔

اس میں شک نہیں کہ ری پبلکن اورکانگریس ارکان سعودی عرب سے تنگ آ چکے ہیں۔گزشتہ برس ٹرمپ نے دونوں پارٹیوں کی حمایت سے کی جانے والی قانون سازی کواہم امریکی مفادات کی بناء پرویٹوکر دیا تھا،جس کے ذریعے یمن پربمباری کے جواب میں سعودی عرب کواسلحے کی فروخت پرپابندی لگائی گئی تھی۔اس قانون سازی کے حق میں کانگریس میں ہرڈیموکریٹ رکن نے ووٹ دیالیکن خاص طورپرٹرمپ کے قریبی ری پبلکن سینیٹر لُنڈسے گراہم نے بھی حمایت کی۔اسی دباؤکے نتیجے میں ہی جہاں ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب سے تاریخ کاسب سے بڑاآرڈرلینے میں کامیاب ہوئی تھی بلکہ خلیجی ریاستوں سےاسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کروانے میں بھی کامیاب رہی تھی،دراصل خلیجی ریاستوں سے اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم کروانے کی کامیابی کواپنے اگلے صدارتی انتخاب میں کامیابی کی کلیدسمجھتاتھا۔یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ صدارتی انتخاب میں اپنی شکست کو قبول کرنے کوبالکل تیارنہیں تھے اوراس کوایک گہری سازش سے تعبیرکرتے ہوئے قصرسفیدسے رخصت ہوئے اور جاتے جاتے امریکاکی تاریخ میں کچھ ایسی مثالیں بھی رقم ہوگئیں جس پرٹرمپ کے خلاف باقاعدہ قانونی کاروائی بھی عمل میں لائی گئی لیکن ایک معمولی تعدادکی حمائت کی بناء پرٹرمپ تادیبی کاروائی سے بچ گئے۔

یہ بات بھی اظہرمن الشمس ہے کہ سعودی عرب کی حمائت کے بغیراسرائیل کوتسلیم کروانامشکل اور ناممکن تھاجبکہ سعودی عرب نےبظاہراب تک اسرائیل کومحض اس لئے تسلیم نہیں کیاکہ حرمین کی وجہ سے امت مسلمہ میں اس کوایک خصوصی درجہ حاصل ہے لیکن امت مسلمہ اس بات کوسمجھ چکی ہے اورموجودہ سعودی ولی عہدکی پالیسیوں سے جہاں سخت نالاں ہے وہاں امت مسلمہ کی قیادت کابھی اس کااہل نہیں سمجھتی۔امت مسلمہ کواس بات کاادراک ہے کہ عرب اسپرنگ کے نتیجے میں سعودی عرب میں انتشارمسلم امہ کیلئے کہیں ایسے عظیم صدمے کاباعث نہ بن جائے کہ جس سے حرمین کے تقدس کوناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے بس اسی وجہ سے امت مسلمہ اس موجودہ سعودی قیادت کے نعلم البدل کیلئے”او آئی سی”میں سعودی اجارہ داری کوختم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔

جوبائیڈن دیگرڈیموکریٹ ارکان کے مقابلے میں سعودی عرب پرزیادہ تنقیدکرتے رہے ہیں۔نومبر2019ء میں اپنی انتخابی مہم کے آغاز میں جوبائیڈن کہہ چکے ہیں”میں یہ واضح کرناچاہتاہوں کہ ہم سعودی عرب کومزیدہتھیارفروخت نہیں کریں گے”۔جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش اور انسانی حقوق کی پامالی پرسعودی عرب کوجواب دہ ٹھہراناسمجھ آتاہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کس طرح کیاجائے۔سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت روک کراس کے جوہری عزائم اورانسانی حقوق کی پامالیوں کو روکانہیں جاسکتا۔اگرواشنگٹن سعودی عرب میں اصلاحات چاہتاہے تواس کوغورکرناہوگاکہ ریاض کی سب سے بڑی پریشانی کیاہے شاید امریکاکی جانب سے ساتھ چھوڑدینے کاخدشہ،اوراس خوف کی جڑیں عرب بہار میں پائی جاتی ہیں۔عرب بہارکے آغازپراوبامانے مصرمیں جمہوری مظاہرین کی حمایت کی تھی،اس وقت امریکاکے اتحاد ی آمرحسنی مبارک اقتدارسے مضبوطی کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔

سعودی شاہی خاندان کے افرادسمجھتے ہیں کہ امریکاان کے ساتھ بھی حسنی مبارک جیسادھوکہ کرسکتا ہے۔2015ءمیں ایران سے جوہری معاہدے کے بعدہی سعودی عرب کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیاتھا۔جوہری معاہدے کوسعودی عرب کے اندرونی حلقوں میں امریکاکی جانب سے ایران سے دوستی اورسعودی عرب سے غداری کرنے کے مترادف سمجھاگیا۔ریاض کیلئےٹرمپ صدراوباما سے بہترتھاکیوںکہ ٹرمپ نے انسانی حقوق کی پامالیوں کونظر انداز کیااورایران کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ اپنایالیکن ٹرمپ نے بھی سعودی عرب کے امریکاپر انحصار پر طنز کرتے ہوئے2018ء میں کہاتھا “بادشاہ ہم آپ کی حفاظت کررہے ہیں،شاید آپ ہمارے بغیردوہفتوں کیلئےحکومت قائم نہیں رکھ سکتے”۔

کانگریس کی جانب سے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت پرپابندی کی حالیہ کوششوں نے ریاض کی جانب سے امریکا کے حوالے سے خدشات کو مضبوط کردیا۔جس کے بعدیہ کوئی اتفاق نہیں کہ سعودی ولی عہد نے چین کے ساتھ مل کرایک خفیہ جوہری پروگرام شروع کیا۔وہ یمن میں ایرانی اثرو رسوخ کوسعودی وجود کیلئےخطرہ سمجھتے ہیں۔ولی عہدسمیت بہت سی حکومتی شخصیات کولگتاہے کہ سعودی عرب چین سے تعلقات قائم کرکے اپنے لیے جوہری ہتھیارحاصل کرسکتاہے، تو پھرواشنگٹن پرمسلسل انحصار کرنے کاکیا فائدہ۔اگرامریکانے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے نئی سوچ اختیارنہیں کی تو پوراخطہ آسانی کے ساتھ جوہری کشیدگی کاشکارہوجائے گا،سعودی جوہری ہتھیاروں کانشانہ ایران، اورایرانی جوہری ہتھیار وں کانشانہ ریاض ہوگا۔

اس کے ساتھ ہی ترکی اورمصربھی اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی کوشش میں مصروف ہیں۔اس صورتحال سے خوفزدہ اسرائیل اپنے جوہری ہتھیاروں کوبہتربنانے میں لگاہے۔اگربائیڈن انتظامیہ سعودی عرب کونظراندازکرنے کی پالیسی اپنائے گی توریاض کے طرزِعمل میں بہتری کاکوئی امکان نہیں لیکن اس بات کونظراندازنہیں کیاجاسکتا کہ درپردہ امریکاکی پالیسیوں کو وضع کرنے میں وہاں کے تین ادارے ہمیشہ فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں اورپہلی مرتبہ ٹرمپ نے پہلے پہل اپنی جولانی طبیعت کی بناءپرکچھ ایسے بیانات داغے لیکن جلدہی ان اداروں نے ان کوبھی قابومیں کر لیاتھا۔

امریکاکے اہم سیاسی تجزیہ نگارجوبائیڈن انتظامیہ کومشورہ دے رہے ہیں کہ کہ امریکاکی جانب سے انسانی حقوق اورجوہری سرگرمیوں پرشام، ایران،شمالی کوریااورکیوباجیسے ممالک پرلگائی گئی پابندیاں ان ممالک کوتبدیل نہیں کرسکیں،توپھرسعودی عرب کوکیسے تبدیل کریں گی۔ اگرامریکاسعودی عرب سے اتحادختم کرلیتاہے توبھی ریاض کے جوہری عزائم ختم اورانسانی حقوق کی صورت حال بہترنہیں کی جاسکتی،جس کے خطے پرطویل مدتی اثرات ہوں گے۔ تحفظ کااحساس دلانے کیلئے ریاض کومغرب اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کی ایک نئی علاقائی تنظیم میں شامل کیاجاسکتاہے۔جو دفاعی،توانائی،معاشی اورمعاشرتی ترقی کے معاملات میں کثیرالجہتی تعاون کرے۔اس تنظیم کی بنیادچندممالک مل کربھی رکھ سکتے ہیں،جس میں امریکا،یورپی یونین، برطانیہ ،سعودی عرب ،اردن،عمان،متحدہ عرب امارات،بحرین اورتیونس جیسی چھوٹی ریاستیں بھی شامل ہوسکتی ہیں۔جس کے ذریعے ریاض کویقین دلایاجائے کہ واشنگٹن اورمغربی اتحادی سعودی عرب کوایران اور دیگربیرونی دشمنوں کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑیں گے۔اس سے سعودی عرب کاخوف کم کرکے جوہری ہتھیاروں کے حصول اور یمن میں اندھا دھند بمباری روکی جاسکتی ہے۔ ایک نئے مشترکہ علاقائی تربیتی مرکزکے ذریعے یہ اتحاد مسلح افواج کوبہترتربیت اوراسلحے سے لیس کرے گا،تاکہ وہ عسکری طورپرمکمل خودکفیل ہوسکیں۔اگرکسی رکن ریاست پرحملہ ہوتاہے تومغرب زمینی فوج فراہم کرنے کے علاوہ ہرطرح کی امداد فراہم کرنے کاوعدہ کرے گا۔
واشنگٹن پہلے ہی خلیج فارس کی پہلی جنگ اورداعش کے خلاف لڑائی میں مقامی اتحاد قائم کرنے کا کامیاب تجربہ کرچکا ہے۔ اس طرح کے معاہدے کیلئےامریکااوریورپ کے نجی شعبے کوانفرااسٹرکچرپراجیکٹ اورکاروباری منصوبوں کیلئےمالی معاونت اورمہارت فراہم کرناہوگی تاکہ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کوراغب کیاجاسکے۔امریکاکی انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ فنانس کارپوریشن واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کے اہداف کیلئے قرض کی ضمانت اورمالی معاونت فراہم کرتی ہے۔اس نوعیت کی طویل مدتی سرمایہ کاری کامنصوبہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ قابل عمل ہو سکتاہے۔ مغربی ممالک کوترقیاتی بینکوں کے ذریعے غیرجوہری توانائی منصوبوں،قدرتی گیس اورپائپ لائن جیسے منصوبوں پرسرمایہ کاری کرنی چاہیے کیونکہ مشرق وسطیٰ میں دھوپ اورگیس کی بہتات ہے،اس ذریعے سے جوہری ری ایکٹرزکے مقابلے میں زیادہ توانائی پیداکی جاسکتی ہے۔

سفارتی طورپریہ اتحادممبران کے درمیان علاقائی تنازعات حل کرنے کاایک فورم بھی تشکیل دے سکے گا۔اس کے بدلے میں سعودی عرب اوردیگر مشرق وسطیٰ کی ریاستیں1968ءکے جوہری عدم پھیلاؤکے معاہدے سے دستبردارنہ ہونے اورعسکری کاروائیوں کے دوران انسانی حقوق کی پاسداری کاعہدکریں گی۔اگرچہ اس تنظیم کوچھوٹے پیمانے پرشروع کیاجاسکتاہے لیکن اس اتحادکوتوسیع دی جانی چاہیے۔عرب اوراسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بعد تل ابیب بھی اس تنظیم کاحصہ بن سکتاہے،مستقبل میں مصراورترکی بھی اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔سوویت یونین کومارشل پلان میں شمولیت کی دعوت دینے کی طرح ایران کیلئےبھی تنظیم کے دروازے کھلے رہنے چاہییں۔ایران اورخطے کے دیگررکن ممالک کویورینیم کی افزودگی روکنے ،ساتھی ممالک کے خلاف فوجی آپریشن اور پراکسی واربندکرنے کاعہدکرناہوگا۔اب تک تہران ان دوباتوں کیلئےتیارنظرنہیں آتاہے بہرحال اتحادکو غیر جوہری مستقبل کے معاشی فوائداورتحمل کامظاہرہ کرنے کے سیکورٹی فوائدکواجاگرکرناچاہیے۔اس معاہدے کے ذریعے عرب ریاستوں اوراسرائیل کو خطے میں بڑھتی ایرانی مہم جوئی کامؤثراندازمیں مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس معاہدے کوکامیاب بنانے کیلئےواشنگٹن کو ثابت کرناہوگا کہ وائٹ ہاؤس میں کسی تبدیلی کااس معاہدے پرکوئی اثرنہیں پڑے گا۔جس کیلئےامریکی سینیٹ اس معاہدے کومحفوظ بناسکتی ہے۔کانگریس کوبھی اس معاہدے کیلئےمالی معاونت فراہم کرنے کی منظوری دینی چاہیے،کانگریس کے ارکان اس منصوبے کی حمایت میں قراردادبھی منظورکرسکتے ہیں۔

اگرسعودی عرب کویقین دلایاجاسکے کہ امریکامشرق وسطیٰ میں استحکام کیلئےموجودرہے گاتوواشنگٹن سفارتی طورپربہت بہتر پوزیشن میں ہوگا،جس کے ذریعے امریکاریاض اوردیگرمشرق وسطیٰ کی ریاستوں کوبدترین صورتحال میں جانے سے بچاسکتا ہے اوراگریہ سب کچھ اس طرح ہی ہوا،توسعودی ولی عہد کی جانب سے بائیڈن کوانتخابی فتح پرمبارکباد دینے میں تاخیرپرپچھتاوا ہوگا۔

تاہم مسلمانوں کی ایک کثیرتعدادٹرمپ کے مقابلے میں جوبائیڈن کے بارے میں اس خوش گمانی میں مبتلاتھی کہ ٹرمپ کے مقابلے میں نئی منتخب امریکی انتظامیہ مسلمانوں کے حق میں بہترہوگی،اُن کی تمام امیدوں پرپانی پھرگیاہے کیونکہ جوبائیڈن انتظامیہ نے قصرسفیدمیں براجمان ہوتے ہی سعودی و اماراتی حکومتوں سے جہاں اپنے معاہدوں کوختم کردیاہے بلکہ سابقہ امریکی حکومت کی انتھک محنت سے ہونے والےافغان طالبان کے ساتھ معاہدے کو بھی یکسرختم کردیاہے۔نئی امریکی انتظامیہ کے تیوراس بات سے بھی عیاں ہوگئے ہیں کہ ترکی اورشام کے خلاف کردوں کے ساتھ ساتھ داعش کوبھی فعال کردیاگیاہے۔ان حالیہ اقدامات سے صاف واضح ہے کہ اب مسلمان ملکوں کے خلاف جنگیں شروع ہونے کاامکان بڑھ گیاہے اوربالعموم دُنیامیں اور بالخصوص مسلمان ملکوں میں تباہی،مہنگائی اورلاقانونیت میں اضافہ کے ساتھ ہی ڈوبی ہوئی امریکی معیشت کوبچانے کاکام لیا جائے گا۔

ادھرنئے امریکی صدرجوبائیڈن کے اس اشارے پرکہ ان کی انتظامیہ دوحہ معاہدے پرنظرثانی کرنے پرراضی ہے،کووہاں کے ادارے اس کوایک دانشمندانہ فیصلہ قراردےرہے ہیں جس پران کے پیش روٹرمپ نے دستخط کیے تھے کیونکہ یہ معاہدہ طالبان کوغیرمنصفانہ فائدہ پہنچاتا ہے۔ امریکا شدت سے19سالہ طویل جنگ کوختم کرناچاہتاتھا،اس لئےٹرمپ کے ذریعہ طے پانے والا معاہدہ عجلت میں کیاگیاکیونکہ لیکن موجودہ معاہدہ اپنی موجودہ شکل میں امریکاکے ساتھ افغانستان کوبھی شدیدنقصان پہنچاسکتا ہے۔تاہم امریکی اہم پالیسی سازادارے اس بات کاجائزہ لے رہے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کس حدتک کن پالیسیوں پرمعترض ہوکر اس معاہدے کاجائزہ لیکران میں کیسی تبدیلیوں کی خواہاں ہے اورکیااس روّیے سے مطلوبہ نتائج حاصل بھی کئے جاسکتے ہیں یامزید مہلک نتائج کاسامناکرناپڑے گا؟

 

Sami Ullah Khan
About the Author: Sami Ullah Khan Read More Articles by Sami Ullah Khan: 491 Articles with 316396 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.