آؤ مل کر ایک بار سچ بولیں ․․․!

اﷲ کے رسول ﷺنے منافق کی چار علامتیں بیان فرمائی ہیں ۔1)وہ جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے۔2)وعدہ خلافی 3)خیانت اور4)گالی گلوچ کرتا ہے۔یہ چاروں علامتیں خالص منافق کی نشانیاں ہیں ۔آج ہم من حیث القوم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں۔تو اندازہ لگانا مشکل نہیں رہے گا کہ ہم نے گزشتہ چند برسوں سے اصول اپنا رکھا ہے کہ جھوٹ اتنا بولنا ہے جس پر سچ کا گمان ہونے لگے۔’’یوٹرن‘‘یعنی وعدہ خلافی کو کامیابی کی کنجی سمجھنا ہے۔کرپشن اور دیانت کو مادی امور تک محدود کر دیا ہے،لیکن اگر کوئی سیاست میں جھوٹ بولتا ہے،ووٹ کی چوری کو جائز سمجھتا ہے تو اس کا کوئی تعلق اس کی دیانت سے نہیں ہے۔دوسروں کی تضحیک ،پگڑی اچھالنا اور گالی گلوچ دینا اور اس عمل کی دوسرے ساتھیوں کو ترغیب دینا معمول بن چکا ہے۔

پاکستان ایک مذہبی معاشرہ ہے ،ہمارا تصورِ اخلاق مذہبی ہے۔اس میں چوری فرد کرے یا ادارہ یکساں جرم ہے ۔چوری پیسے کی ہو یا ووٹ کی ناجائز ہے ۔یہ بات قابل قبول نہیں کہ کوئی پیسے کی چوری نہ کرے اور ووٹ کی چوری کرے تو اس کو صادق و امین کا لقب دے دیا جائے اور پیسے کی چوری کرنے والا مجرم مان لیا جائے ۔ایسے منافقانہ رویے کی وجہ سے ملک کے حالات بد ترین سطح تک پہنچ چکے ہیں ۔احتساب کے نام پر جس انداز سے بددیانتی کی گئی ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔پانامہ سے شروع ہونے والے سلسلے نے نا ختم ہونے والا جانب دارانہ رویہ اپنا رکھا ہے۔پانامہ میں چار سو افراد کا ذکر ہے،لیکن مورد الزام صرف شریف خاندان کو ٹھہرایا گیا۔باقی لوگوں کی ریاست نے کیوں خبر نہیں لی؟مسلم لیگ (ن) کی سعدیہ عباسی کی دُہری شہریت کا مقدمہ دنوں میں نمٹا دیا گیا،لیکن فیصل واوڈا کا معاملہ تین سال سے لٹکایا جا رہا ہے۔آج بھی فیصل واوڈا کو نا اہلی سے بچانے کے لئے کابینہ کی مخالفت کے باوجود سینیٹر بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔

یہ سب اس لئے کیا جا رہا ہے کیوں کہ انہوں نے تبدیلی کا نعرا جو لگایا تھا،اسی لئے تبدیلی کے معنی تبدیل کر دیئے گیے ہیں ۔اب سیاسی معاملات میں آئین شکنی کرنا کوئی جرم نہیں سمجھا جاتا۔سماج کو فتنے اور فساد میں مبتلا کرنے والوں کو مسیحا کہا جانے لگا ہے۔حالاں کہ پاکستان تحریک انصاف کو لوگوں نے اس لئے چنا تھا کہ مہنگائی ،چوربازاری اور بے روزگاری سے نجات ملے گی،پٹرول ،گیس اور بجلی کے بلوں میں ریلیف ملے گا،انصاف کا حصول آسان ہوگا،گڈ گورننس ہوگی،لیکن پی ٹی آئی حکومت نے عوام کی آرزوں اور تمناؤں کا خون کر کے رکھ دیا ہے ۔

وزیر اعظم عمران خان نے عوام کی بھلائی کے کام کرنے کی بجائے حزب اختلاف کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کی طرف مکمل توجہ دے رکھی ہے۔آئے روز اپنے ترجمانوں کا اجلاس بلایا جاتا ہے اور وہاں ترجیح صرف اپوزیشن کے خلاف لائحہ عمل پر گفتگو ہوتی ہے۔حکمران سینیٹ کے الیکشن میں ہر حال میں کامیابی کے خواہاں ہیں ،لیکن حکومت کی بے چینی میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے ،کیوں کہ حکومتی ارکانِ صوبائی اور قومی اسمبلی میں پائے جانے والے باغیانہ خیالات اور اضطراب سے ہوا ہے۔حکومت باضد ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں ووٹ اوپن بیلٹ ہوں ،مگر یہی حکومت 2019 میں موجودہ چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے موقع پر سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے اقلیت ہوتے ہوئے اکثریت حاصل کر لی تھی،مگر آج حکومت سیکرٹ بیلٹ پر کیوں پریشانی کا شکار ہے۔اسی گھبراہٹ میں حکومت کبھی قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کا بل لاتی ہے تو کبھی صدارتی آرڈیننس جاری کر دیا جاتا ہے۔بے چینی کا عالم یہ ہے کہ اپنے لوگوں کی ویڈیو خود ہی ریلیز کر دی جاتی ہے ،کبھی صوبائی و قومی اسمبلی کے ارکان کو ترقیاتی فنڈ کی مد میں پچاس پچاس کروڑ صرف تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو دینے کا اعلان کیا جاتا ہے ۔اسی طرح فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ابھی باقی ہے،اس مقدمے کا فیصلہ سیاست میں بڑی ہلچل مچائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا سونامی اس حکومت کے لئے جان لیوا ثابت ہو گا۔

عوام حیران اور پریشان حکومت اور اپوزیشن کا یہ کھیل دیکھ رہی ہے۔ان کے مسائل حل ہونے کی بجائے مسلسل خراب ہو رہے ہیں۔مسائل کیوں نہ بڑھیں ؟مسائل خود بخود حل نہیں ہوتے ،بلکہ کیے جاتے ہیں۔جنہیں مسندِ اقتدار پر بٹھایا ،سمجھا یہ گیا تھا کہ وہ قوم کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کریں گے،وہ اقتدار کے سنگھاسن پر اپنا وجود برقرار رکھنے کی تگ و دو میں لگے ہیں ۔قوم کے وسائل پر قابض لوگوں سے عوام اپنے بنیادی مسائل کا حل چاہتے ہیں،تاکہ ان کا جسم و جاں سے رشتہ تو برقرار رہ سکے۔

موجودہ دور پاکستانی تاریخ کا سیاہ حصہ بنتا جا رہا ہے۔حکمرانوں کو اپنے منافقانہ رویوں پر غور کرنا ہوگا۔پاکستان گونا گوں مسائل سے دو چار ہے ،سماجی اور معاشی تانا بانا الجھتا جا رہا ہے ،ہر طبقہ بے یقینی ،ایک خلش اور الجھن کا شکار ہے ۔ڈھائی سال پہلے جن تمناؤں اور خوابوں کے سہارے عمران خان کو برسر اقتدار لایا گیا تھا،وہ سب ٹوٹ کر بکھر چکے ہیں ۔ غریبی ،بھوک اور بے روزگاری سنگین صورت حال اختیار کر چکے ہیں۔عمران خان عوام سے ایک کروڑ نوکریوں کا کیا ہوا وعدہ وفا نہیں کر سکے۔بے روزگاری ایک لعنت ہے،جو اپنے ساتھ بہت سی مصبتیں لے کر آتی ہے،بے روزگاری، مفلسی ،بھوک اور بیماری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔بیروزگاری کا اثر ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے ،دنیا کی نظر میں وہ ملک پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے،جو اپنے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو نوکریاں بھی فراہم نہیں کر سکتا،تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بے روزگاری کا مطلب ہے ملک کے تعلیمی منصوبوں سے جو ملک کو ترقی اور فائدہ ہونا چاہیے تھا وہ سب بے کار اور ضائع ہو رہا ہے ۔

آج ہمیں حقیقت پسند بننے کی ضرورت ہے،سچ بولنے کی جرأت اور ہمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے مسائل کا حل محبّ الوطنی اور اتحاد میں ہے۔حکمران جب تک اَنا،بغض اور اقتدار کی ہوس کو پسِ پشت رکھ کر عملی ہم آہنگی پیدا نہیں کریں گے،ملکی مسائل کا حل ممکن نہیں ہو گا۔اس لئے حکومت کو چاہیے کہ ’’گرینڈ ڈائیلاک‘‘کا راستہ اپنائے ۔اس میں بھلے کسی کا کتنا بھی نقصان ہو،لیکن ملک ضرور بچ جائے گا۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95208 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.