پھر بھی جمہوریت اچھی ہے ۔۔۔۔۔کیونکہ۔۔۔۔۔؟

قوم کو مبارک ہو کہ کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں شہید ہونے والے سرفرازشاہ کے واقعے پر سپریم کورٹ کے حکم کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے رینجرز کے ڈی جی میجر جنرل اعجاز چوہدری اور انسپکٹر جنرل سندہ فیاض لغاری کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا اور دوسری طرف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے منگل کو اسلام آباد میں ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں واضع کیا کہ اگر آئندہ وردی میں ٹارگیٹ کلنگ ہوئی تواس کی ذمہ داری متعلقہ ادارے کے سربراہ پر ہوگی۔ اس واقعے میں سپریم کورٹ کا حکم ماننے میں پہل فوج کی طرف سے کی گئی بعد ازاں وفاقی حکومت نے بھی آئی جی سندھ کو ہٹانے کا نوٹیفیکشن جاری کردیا ورنہ اطلاعات کے مطابق حکومت اس حکم کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی تھی بہرحال مذکورہ دونوں اقدامات سے جمہوریت کی بالا دستی کی جھلک نظر آتی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ جو کچھ قومی اسمبلی کی اس کمیٹی نے کہا ہے اس پر آئندہ بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے عمل درآمد کیا جائے کیونکہ اس طرح ہی کے اقدامات سے لوگوں کی جانوں کا تحفظ ہوسکے گا اور مذکورہ اداروں کی گرتی ہوئی ساکھ بحال ہونے میں بھی مدد مل سکے گی اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ قانون کے محاظ اداروں کے ذمہ داران بھی حکومت کے ایسے اقدامات کے نتیجے میں اپنے دفاتر میں وقت گزارنے کے بجائے احسن طریقے سے اپنی ذمہ داریاں انجام دیں گے۔

ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت دونوں ہی صورتوں میں لوگوں کی جان و مال کا تحفظ حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے، جمہوریت چونکہ اس نظام حکومت کو کہا جاتا ہے جس میں عوام کے منتخب کردہ نمائندے حکومت کررہے ہوتے اور ان پر تنقید یا ان کا احتساب کرنے والے اپوزیشن بھی ان کے مد مقابل ہوتی ہے اسی لیئے لوگوں کو بھی اپنے جان و مال کے تحفظ کی امیدیں جمہوری دور میں اپنے منتخب کردہ نمائندوں سے زیادہ ہوجاتی ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ عوام کے نمائندوں کی اکثریت بھی بنیادی طور پر عوام کی جان و مال ہی کی حفاظت کرنے کے دعوے کرتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتی ہے لیکن بد قسمتی سے عوام کو نہ تو جہموری ادوار سے کوئی قابل ذکر فوائد حاصل ہوئے اور نہ ہی آمریت کی وردی والے ادوار سے لوگوں کی قسمت کھلی۔

دانشوروں کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ جمہوریت میں ہی ملک ترقی کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں جمہوریت کو پھلنے پھولنے ہی نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے جمہوریت کے وہ آئیڈیل فوائد بھی نظر نہیں آتے یہ بات اگر درست تسلیم کرلی جائے تو ہمیں زندہ قوموں کی طرح جمہوری حکومتوں اور آمریتی دور کا جائزہ لینا پڑے گا اور جتنے بھی عرصے ملک میں جمہوریت کا چراغ جلتا رہا اسے آمریت کے شعلے سے جانچنا پڑے گا اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ ان ادوار میں ملک اور قوم کب اور کتنے دنوں تک خوشحال یا بد حال رہی؟

بظاہر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں مختصر دورانیے کی جمہوریت کا مقابلہ آمریت کے طویل ادوار سے نہیں کیا جاسکتا لیکن میرا خیال ہے کہ اگر ہم جنرل پرویز مشرف کے آمریت کم جمہوریت کے دور کو بھی شامل کرکے تینوں ادوار کا جائزہ لیں تو شائد ہم کسی ایک نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔

اس تحریر سے یہ نہیں سمجھ لیا جائے کہ میں جمہوریت کا مخالف اور آمریت کا حامی ہوں حالانکہ ایک صحافی کی حیثیت سے تو مجھے اخبار کے دفتر سے ٹی وی چینل تک صرف وہ ہی آمریت نظر آئی جو ملک پر رہی جسے مجھ جیسے لاکھوں مزدورں نے کبھی نظریہ ضرورت جان کر تو کبھی مجبوری کے نام پر قبول کیا۔یہ اور بات ہے کہ ہم نے جمہوریت کے لیئے ہمیشہ اپنے ہاتھ ، پیر اور قلم کو حرکت میں رکھا اور یقین کریں کہ ہمیں اپنی ذات کے لیئے کبھی بھی نہ تو جمہوری ماحول ملا اور نہ ہی جمہوری ادارہ۔۔۔۔۔

بعض دانشور اور صحافی تو جمہوریت کی لڑائی لڑتے لڑتے آمریت کی گود میں بھی بیٹھ گئے اور آمروں کا دودہ بھی پیتے رہے اور جمہوریت پسند صحافی ہونے کے مزے بھی اڑاتے رہے۔۔۔۔۔۔

خیر بات ہورہی تھی ملک کے نظامِِِ حکومت کی جمہوریت بمقابلہ آمریت کی۔۔۔۔۔۔

جنرل یحییٰ کے بد ترین دور جس کے نتیجے میں ملک کے دو حصے ہوئے کے بعد باقی ماندہ ملک کا جو حال ہوا یا ہورہا ہے اس کے ذمہ دار کون ہیں آج ہم سب کو یہ طے کرنا ہوگا، یہ معلوم کرنا ہوگا سیاست دان زیادہ کرپٹ ہیں یا فوجی ؟

پرویز مشرف کا دور جیسا بھی تھا لیکن آج اسے لوگ یاد کررہے ہیں اور خوب مثالیں دے رہے ہیں ، پرویز مشرف کی ایک بات مجھے اکثر یاد آتی ہے وہ کہا کرتے تھے کہ ” ہم آئیڈیل ڈیموکریسی کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں “ اس طرح کہتے ہوئے شائد وہ جنرل ضیاءالحق کے دور کی بھی حمایت کردیا کرتے تھے یا اسے بھی اچھا دور قرار دیا کرتے تھے۔

موجودہ جمہوری دور کو اگر ایمانداری کے ساتھ کسی بھی آمریت کے دور سے جوڑ کر دیکھیں تو ہم اسے آمریت سے بد تر دور ہی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس دور میں جمہور یعنی عوام کو سوائے اس کے کہ وہ ایک جمہوری دور سے گزر رہے ہیں کہ علاوہ کچھ بھی تو نہیں ملا ، کچھ بھی تو نہیں مل رہا، جبکہ ملک کی سالمیت الگ خطرے میں پڑ گئی اور رہی سہی ساکھ اس کی بھی مٹی پلید ہوگئی۔ اس دور میں قوم نے جان و مال سب کچھ کھودیا بدلے میں کچھ بھی نہیں مل رہا تین ساڑے تین سالہ جمہوریت کے دور میں عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر اسفند یارولی کو پشاور سے ایوان صدر کا رخ کرنا پڑا کیونکہ ان کے اپنے صوبے اور شہر میں ان کی جان کو خطرہ بڑھ گیا جبکہ پرویز مشرف کے سخت دور میں وہ اپنے ” نصیب کی گولی “کا انتظار وہیں کیا کرتے تھے۔اب تو روزانہ ہی پشاور یا پختونخواہ کے کسی نہ کسی علاقے میں خودکش حملہ نہیں تو امریکی حملہ ہوجاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ پرویز مشرف کے دور کو جو پارٹی قوت دیتی رہی وہ ہی جماعت متحدہ قومی موومنٹ موجودہ جمہوری دور کے سہارے کا سبب بھی بنی رہی وہ پرویز مشرف کے پورے آٹھ سالہ دور میں پرویز مشرف کی خاص پارٹی کے مزے لوٹتی رہی اور جبکہ موجودہ جمہوری دور میں وہ بیک وقت حکومتی اور اپوزیشن کی پارٹی کا کردار ادا کررہی ہے اتنی جرات صرف متحدہ ہی میں ہوسکتی ہے جس کا وہ ثبوت بھی دے رہی ہےشائد اسے ہی حق پرستی کہتے ہیں؟۔

ملک کی ترقی اور عوام کی خشحالی کی بات ہو تو ہم کو پرانے دور بھی یاد آتے ہیں،ایوب خان کا دور ہو ، جنر ل ضیاءکا دور ہو یا پرویز مشرف کا ملک میں جب بھی آمریت نے قدم جمایا اس نے بلدیاتی نظام جسے نچلی سطع کا جمہوری نظام بھی کہا جاتا ہے کی احیاءکی جبکہ اس نظام کو ہر جمہوری ادوار میں مردہ کردیا گیا۔۔۔۔۔کیوں ۔۔۔۔جمہوریت سے محبت میں یا نفرت میں ؟

ملک میں کراچی سمیت تمام بڑے شہروں میں ترقیاتی کام جمہوری ادوار کے مقابلے میں آمریت ہی میں ہوئے۔ امن و امان کی صورتحال جس قدر اب خراب ہے اتنی کسی بھی دور میں نہیں رہی ملک کا سب سے بڑا شہر پرویز مشرف کے دور میں حالتِ سکوں میں آگیا تھا جبکہ یہ بے بینظر بھٹو اور نواز شریف کے دونوں ادوار اور موجودہ جمہوری دور میں ابتری کا شکار تھا اور ہے۔اسی طرح دیگر شہروں کی بھی اسی طرح کی صورتحال ہے اور رہی۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی جمہوریت اچھی ہے؟

ایوب خان کے دور کے لوگ اس وقت کی آمدنی اور اخراجات سے مطمئین تھے جبکہ مہنگائی سے ان کی واقفیت تو بھٹو کے جمہوری دور میں ہوئی۔

میرا بچپن تھا اور شائد یہ ایوب خان کے آمریت کی بات ہے جب میں نے کراچی میں پہلی اور آخری بار گوشت اور دودہ دہی کی تمام دکانوں پر مکھیوں سے بچاؤ اور صفائی کے لیئے جالیاں اور صفائی کے خاص انتظامات دیکھے ۔۔۔۔۔مگر مجھے جمہوریت اچھی لگتی ہے۔۔۔۔۔۔کیوں؟ شائد اب جمہوری دور میں نامعلوم ٹارگیٹ کلرز نہیں بلکہ وردی والے کلرز پیدا ہوگئے ہیں۔

آمریت کے دور میں اخراجات واضع طور پر عوام پر کیئے جاتے ہیں جبکہ جمہوری ادوار میں غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے اور یہ اخراجات خواص پر کیئے جاتے ہیں پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمہوریت اچھی ہے اس لیئے کہ جمہوریت رہے گی تو جمہوریت کے چمپیئنز کی باری آئے گی ورنہ نہ جانے انہیں کتنا انتظار کرنا پڑے ؟

دنیا کے ان مسلم ممالک جہاں آمریت یا بادشاہت ہے کیا وہاں بدحالی ہے یا خوشحالی۔۔۔۔۔۔۔مگر ہمیں تو آمریت کے مقابلے میں بد ترین جمہوریت بھی قبول ہے تو پھر رونا کس بات کا۔۔۔۔۔۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152824 views I'm Journalist. .. View More