اسلام پسندوں کی کامیابی،ترکی میں بیداری کی نئی لہر

ترکی میں اسلام پسندوں کی کامیابی

گزشتہ دنوں ترکی میں ہونے والے عام انتخابات میں حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی 59.11 فیصد ووٹ لے کر تیسری بار حکومت کرنے کیلئے منتخب ہوگئی،ابتدائی اطلاعات کے مطابق جسٹس پارٹی نے 550 کے ایوان میں 326 نشستیں حاصل کرکے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی اور 81 میں سے 66 صوبوں پر اپنی برتری قائم کردی،انتخابات کے غیر سرکاری نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر دوسرے شخص نے ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان کے حق میں ووٹ دیا اورعوام نے فوجی دباؤ کو یکسر مسترد کردیا،جس کے بعد ملک میں نئے سول آئین تیار کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے،حزب اختلاف کی جماعت ری پبلیکن پیپلز پارٹی نے 135 نشستیں حاصل کیں اور 25 فیصد ووٹوں کے ساتھ صرف 8 صوبوں تک ہی محدود رہی،دیگر جماعتوں میں نیشنلسٹ ایکشن پارٹی نے 54 جبکہ آزاد امیدواروں نے 35 نشستیں حاصل کیں،ترکی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کی طیب اردگان نے مسلسل تیسری بار کامیابی حاصل کی ہے اور انہوں نے ہر بار پہلے سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں،قارئین کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ 2002ءکے انتخابات میں اِس جماعت نے 34 فیصد ووٹ ملے تھے اور2007ءانتخابات میں اِس جماعت نے 47 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ جون 2011ءکے الیکشن میں اِس جماعت نے 59.11 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں،جو کہ حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت کی بین دلیل ہے ۔

قارئین محترم،یہ وہی ترکی ہے جو ایک عرصے تک خلافت عثمانیہ کا مرکز رہا اور جسے عالم اسلام میں مرکزی حیثیت حاصل رہی، مگر ایک عالمی سازش کے تحت ترکی سے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد یہ ملک عالم اسلام میں اپنی حیثیت کھو بیٹھا، جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ملک کا نظم و نسق چلانے کیلئے سیکولر ازم کا سہارا لیا اور یوں صدیوں تک دنیائے اسلام کی قیادت کرنے والی ریاست اپنی مسلم شناخت سے یک لخت محروم ہو گئی، مصطفی کمال پاشا نے مذہب سے نفرت کو سیکولر ازم کی تعریف قرار دیا اور اسے ہر شعبہ ہائے زندگی سے خارج کر دیا،اُس نے ملک کو مغربی ممالک کے ہم پلہ بنانے کےلئے سب سے پہلے اسلام کو زد پر رکھا،مدارس کو بند کر دیا گیا،قرآن کریم کا پڑھنا اور تعلیم دینا جرم بن گیا،بے ضرر صوفی سلسلوں پر بھی پابندی لگائی گئی،عورتوں کےلئے پردہ موقوف کر دیا گیا،مرد و خواتین کو جبراً مغربی لباس پہننے پر مجبور کیا گیا،ترکی ٹوپی ممنوع قرار دے دی گئی،نام اختیار کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بیشتر ترک باشندوں کے نام عثمانی عہد کے ناموں سے یکسر مختلف ہیں،جن سے کبھی مسلمان ہونے کی بو آتی تھی،اسلامی کلینڈر کا بھی خاتمہ کر دیا گیا،اسلام کے عائلی قوانین کا خاتمہ کر کے اُس کی جگہ سوئس قوانین کو آئین کا حصہ بنایا گیا ۔

نتیجتاً کثرت ازدواج بھی ممنوع ہو گئی اور یہ حال ہوگیا کہ 98 فیصد مسلمانوں کے حامل ملک میں ایک سے زائد شادی کرنے والے افراد دوسری بیوی کو اپنی گرل فرینڈ قرار دیتے تو اُن سے کوئی باز پرس نہ کی جاتی،البتہ دو بیویاں رکھنے پر دھر لیا جاتا،عربی رسم الخط کو کالعدم قرار دے کر لاطینی رسم الخط اختیار کیا گیا،چن چن کر عربی اور فارسی الفاظ کو زبان سے نکال دیا گیا،مساجد میں عربی زبان میں اذان دینے اور حج کی ادائیگی پر بھی پابندیاں لگا دی گئی،پانچ صدیوں تک مرکزی حیثیت رکھنے والے شہر استنبول کی جگہ دارالحکومت کو انقرہ منتقل کر دیا گیا،فتح قسطنطنیہ کی سب سے اہم نشانی ”ایاصوفیہ “ کو مسجد سے عجائب گھر بنا دیا گیا،کمال اتاترک نے بہت سے رہنماؤں کو زندانوں میں ڈلوادیا،یا سزائے موت دے دی،محمد عاکف جیسے عظیم شاعر اور مشہور مصنفہ خالدہ ادیب خانم نے اپنے شوہرکے ساتھ جلا وطنی کو غنیمت جانا،غرضیکہ اتا ترک نے پوری کوشش کی کہ اسلام اور مسلمانوں سے تعلق کی ہر نشانی کو مٹاکر ترکی کو مشرق سے کاٹ کر مغرب کا حصہ بنا دیا جائے،اُس نے اسلام کا حلیہ بگاڑ کر ترک مسلمانوں کو ان کے صدیوں پر محیط عظیم علمی ادبی و ثقافتی ہر اُس ورثے سے محروم کر دیا جو فکر اسلامی کا عکاس تھا ۔

حال یہ تھا کہ1960 ءتک ترکی میں اسلام کا نام لینا بھی ایک جرم تھا،یہ وہی سال تھا جس میں وزیر اعظم عدنان میندریس کو اسلامی رجحان رکھنے کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی،مگر انہی حالات میں ڈیزل میکانکس کے کامیاب سائنسدان کی حیثیت سے شہرت حاصل کرنے والا ایک 34 سالہ نوجوان”نجم الدین اربکان “ ترکی میں اسلام کے نام پر ایک تحریک بپاکرتا ہے، اپنی جدوجہد کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے کیلئے نجم الدین اربکان کوپانچ مرتبہ نئی پارٹیاں قائم کرنی پڑی،انتخابات جیتنے کے بعد بھی اُن کی پارٹی پرپابندی لگائی جاتی رہی،اثاثہ جات ضبط کئے جاتے ہیں،پابند سلاسل کیا جاتا ہے،لیکن یہ اربکان ہی کا حوصلہ و ہمت تھی کہ بار بار کی پابندیوں،اثاثوں کی ضبطی اور قید و بند کے باوجودصبر کا پہاڑ بنے رہے،آشیانہ بار بار جلتا رہا مگروہ ہر بار نئے حوصلہ کے ساتھ تنکا تنکا جمع کرکے نیا آشیانہ تعمیر کرتے رہے،وہ ترک فوج جو ملک کی سیکولر پہچان کی نگہبان سمجھی جاتی ہے اور جس نے ملک میں اسلامی طرز زندگی بدلنے میں اہم ترین کردار ادا کیا،نجم الدین اربکان کی ذات اُس کے سامنے پہلی چٹان کے روپ میں سامنے آئی،انہوں نے جمہوری طریقے سے انتخابات میں حصہ لے کر کامیابی حاصل کی اور حکومت بنائی،لیکن جب جرنیلوں کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آنے لگا،تو پہلے تو اُن پربے جا قسم کی پابندیاں عائد کی گئیں پھر نجم الدین اربکان کی حکومت توڑ دی گئی،رفاہ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی،لیکن نجم الدین اربکان نے جو راستہ کھول دیا تھا وہ فوج سے بند نہ ہوسکا،رفاہ پارٹی فضیلت پارٹی کے روپ میں سامنے آئی اور آج جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے نام سے اقتدار میں ہے ۔

ترکی کے موجودہ وزیراعظم رجب طیب اردگان نجم الدین اربکان کے تربیت یافتہ اور دینی مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں، آج فوج کے تمام تر جبر و استبداد کے باوجود ترک عوام کی اسلام سے محبت بڑھتی چلی جارہی ہے،خیال رہے کہ گزشتہ انتخابات کے موقع پر سیکولر عناصر نے فوج کی شہ پر بڑے بڑے احتجاجی جلوس نکالے لیکن سب بے اثر رہے،عوام نے جسٹس پارٹی کے حق میں اپنا فیصلہ دیا،عوامی تائید کی وجہ سے فی الوقت فوج بھی کسی مہم جوئی کی پوزیشن میں نہیں ہے،کچھ عرضہ قبل حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں کئی فوجی افسر گرفتار کیے جاچکے ہیں،حال ہی میں دو حاضر سروس جنرل بھی پکڑے گئے ہیں،یہ عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام پسندوں کی بڑھتی ہوئی قوت کے سامنے فوج بے بس ہوتی جارہی ہے،لیکن فوجی بغاوت کا ظہور کسی وقت بھی ممکن ہے،ہر چند کہ فوج بزعم خود اُس سیکولرازم کی محافظ ہے جو ترکی میں دم توڑ رہا ہے،لیکن عالمی دہشت گرد امریکہ کسی بھی مسلم ملک میں امن و امان نہیں دیکھنا چاہتا اور اسلام پسندوں کا عروج تو اُسے کسی بھی حالت میں قبول نہیں ہے،چنانچہ سی آئی اے ترکی میں اسی طرح کی بغاوت کرواسکتی ہے جس طرح اُس نے الجزائر میں اسلامک فرنٹ کے خلاف کرائی تھی،آپ کو یاد ہوگا کہ الجزائر میں عباسی مدنی کی قیادت میں اسلام پسندوں نے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی لیکن وہاں بھی امریکہ اور اُس کے صلیبی حواریوں نے فوج کی مدد سے انہیں اقتدار سے دور رکھا اور عباسی مدنی کو ایوان اقتدار کے بجائے جیل بھیج دیا گیا،ترکی میں بھی یہی کوشش دہرائی جاسکتی ہے ۔

کیونکہ موجودہ الیکشن میں ترک عوام نے سیکولرازم کو ہی مسترد نہیں کیا ہے بلکہ عوام کی اکثریت نے سیکولر ازم اور فوجی آئین کے خلاف اپنا فیصلہ بھی دے دیا ہے،آج ترکی میں صورتحال بدل چکی ہے،جسٹس اینڈ ڈ ڈویلپمنٹ پارٹی عوام کی تائید و حمایت سے آگے بڑھ رہی ہے،وزیر اعظم رجب طیب اردگان اور صدر عبداللہ گل کی قیادت میں سیکولر ترکی نے ایک نئی انگڑائی لینی شروع کی ہے،اب یورپی یونین میں شرکت کے لیے بھیک مانگتا ترکی ایک نئے روپ میں سامنے آ رہا ہے،وزیر اعظم طیب اردگان اور صدر عبداللہ گل کی اسلام پسند پارٹی ترکی کی سیاست پر حاوی نظر آتی ہے،فوج کی جانب سے تشویش کے باوجود عوام میں اسلامی تشخص مقبولیت اختیار کرتا جا رہا ہے،اسلام کا یہ سابق گڑھ اب اپنا جھکاؤ اسلامی ممالک کی جانب بڑھا رہا ہے،ماضی میں ترکی کو اسرائیل اور امریکہ کا بہترین حمایتی سمجھا جاتا رہا ہے لیکن آج ترکی اسرائیل کی مخالفت میں کسی بھی اسلامی ملک سے زیادہ سرگرم نظر آتا ہے،آپ کو یاد ہوگا کہ ترک صدر عبداللہ گل نے سویٹزرلینڈ میں انٹرنیشنل کانفرنس کے دوران غزہ میں اسرائیلی قتل عام کے خلاف آواز بلند کی تھی،یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب اسرائیلی صدر ایہود اولمرٹ کی بات کا جواب دینے کے لیے ترک صدر کو مناسب وقت نہ دیا گیا تو انہوں نے اجلاس سے احتجاجا ًبائیکاٹ کر دیا تھا،جسے بعض حلقوں نے ترک صدر کا جذباتی فیصلہ قرار دیامگریہ بات غلط ثابت ہوئی اور ترکی نے مسلسل اسرائیل کی پرزور مخالفت کرکے غزہ پر حملوں کے مسئلے پر آواز بلند کی،اسی طرح ترکی نے اپنے ہاں ہونیوالی فوجی مشقوں سے بھی اسرائیل کو بے دخل کر دیا، ترک وزیر اعظم نے واضح طور پر اعلان کیا کہ یہ اقدام غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے جواب میں کیا گیا ہے،جس پر امریکہ اور کئی دوسرے مغربی ممالک کی جانب سے تشویش کا اظہار بھی کیا ۔

تاہم ترکی نے اِن سب اعتراضات کو مسترد کر دیا،دوسری طرف ترکی نے امریکہ،اٹلی اور اسرائیل کی شراکت سے ہونیوالی فوجی مشقیں کو منسوخ کرتے ہوئے شام کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کرکے مغربی دنیا کو ایک نیا پیغام بھی دیا،ترکی کے سرکاری ٹی وی نے غزہ میں ہونیوالی بربریت کے خلاف ایک ڈرامہ بھی تیار کیا جس میں اسرائیلی فوجیوں کو قتل عام کرتے اور معصوم لوگوں کو ظلم کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھایا گیا،جس پر اسرائیلی وزیر خارجہ اور وزیر اعظم نے اِس ڈرامے کو اشتعال انگیز قرار دے کر روکنے کا مطالبہ کیا،لیکن ترکی نے سیپیرشن نامی اِس ڈرامے کو روکنے سے انکار کر دیا،ترک وزیر اعظم نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں تمام مسائل کو مشترکہ جدوجہد سے حل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو جلد از جلد اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ بھی کیا، جوکہ یہود و ہنود اور صلیبی قوتوں کیلئے ایک واضح پیغام تھا،انہوں نے ایران پر کسی قسم کے حملے کو پاگل پن قرار دیتے ہوئے ایران کی بھرپور حمایت کا اعلان بھی کیا،ترک وزیر اعظم کے یہ سارے اقدامات اِس بات کے عکاس ہیں کہ ترکی اِس بار عالمی سامراج کے ایجنٹ کے طور پر نہیں بلکہ اسلامی جذبات کی حامل قیادت کے تحت ہم مذہب ممالک سے تعلقات کی بہتری کی کوششوں کےلئے خلوص دل سے کوشاں ہے،حقیقت یہ ہے کہ جب سے ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کی بھیک مانگنے کی بجائے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا فیصلہ کیا ہے،عالم اسلام میں اُس کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے،خلاف عثمانیہ کے دور میں اسلام کا یہ مرکز ایک پھر اسلامی قوت کا گڑھ بن کر ابھر رہا ہے،جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی تیسری بار کامیابی اِس بات کی علامت ہے کہ ترکی کے عوام اپنی اسلامی اقدار اور شناخت کا دوبارہ احیاءچاہتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ جسٹس پارٹی کی حالیہ شاندار کامیابی نے ترکی سے سیکولر آئین کے چھٹکارے کی راہ ہموار کردی ہے،یقینا اسلام پسندوں کی یہ کامیابی اسلام اور عالم اسلام کیلئے اِک اُمید نو کی مظہر ثابت ہوگی ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313617 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More