بجٹ سے قبل کسانوں سے بات چیت بند

مرکزی حکومت کے نئے زرعی قوانین ایوان پارلیمان کا خصوصی اجلاس طلب کرکےاس وقت منظور کیے جب کورونا کی وباء بامِ عروج پرتھی ۔ سرکار نے سوچا ہوگا کہ کورونا کے خوف سے کسی کی اس جانب توجہ نہیں جائے گی اورکوئی احتجاج نہیں کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس قانون کی مخالفت پنجاب سے شروع ہوکر دیکھتے دیکھتے دہلی پہنچ گئی ۔ کسانوں کے خوف سے مرکزی حکومت نے کورونا کا بہانہ بناکرپارلیمان کا سرمائی اجلاس ملتوی کردیا، لیکن اب تو وباء کا زور ٹوٹ چکا ہے اور ویکسین بھی آگئی ہے اس لیے پارلیمانی امور کی کمیٹی نے ۲۹؍ جنوری سے بجٹ اجلاس کی تجویز پیش کی جسے کابینہ نے منظور کرلیا۔ امسال بجٹ اجلاس دو حصوں میں ہوگا۔ پہلا دور۲۹؍ جنوری تا ۱۵؍ فروری اور دوسرا ۸؍ مار چ سے ۸؍ اپریل تک چلے گا۔ پارلیمانی کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ اجلاس کے دوران کورونا سے متعلق تمام احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کیا جائےگانیز دونوں ہی ایوانوں کی کارروائی یومیہ ۴؍ گھنٹہ چلے گی۔ اجلاس کا افتتاح صدر جمہوریہ رام ناتھ کووندکے مشترکہ خطاب سے ہوگا ۔

کسان قوانین سے متعلق موجودہ سرکار کا پہلے تو یہ موقف تھا کہ کاشتکاراور عوام اس کی افادیت کو سمجھ نہیں پارہے ہیں لیکن جب ڈنڈے کے زور سے کسانوں نے بی جے پی رہنماوں کا ہریانہ اور پنجاب میں ناطقہ بند کردیا تو وزیر داخلہ کی عقل ٹھکانے آئی اور انہوں نے اپنے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کو بل کی تفہیم کے لیے منعقد کی جانے والی کسان مہا پنچایت سے روک دیا۔ ڈرا دھمکا کر حکومت کرنے والوں کا سب سے بڑا ہتھیار خوف ہوتا ہے ۔ عوام کے اندر سے اگر وہی نکل جائے تو اس کی بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے۔ اس لیے اپنی طاقت کا بھرم رکھنے کے لیے یہ اقدام کیا گیا اور عدالت کی مدد سے کسانوں کو ورغلانے کی کوشش کی گئی۔ عدالت نے جب دیکھا کہ اس مرتبہ سرکار کی مدد کرنے سے عزت کی مٹی پلید ہوجائے گی تو اس نے ان قوانین کو معطل کردیا اور ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی کہ جو عدالت کو نفسِ مسئلہ کی تفہیم کرائے۔ اس چار نفری کمیٹی کے ایک رکن نے استعفیٰ دے دیا ۔ کمیٹی کا اب یہ کام ہے کہ وہ کسانوں سے اس کے مسائل سمجھے اور عدالت عظمیٰ کو سمجھائے ۔ حیرت کی بات ہے عدالت کے پڑھے لکھے ججوں نے تو اس بات کا اعتراف کرلیا کہ اس مسئلہ کو سمجھ نہیں سکتے۔ انہیں اس کے لیےایسے ماہرین کی مدد درکار ہے جو کسان رہنماوں سے بات کر ان کو سمجھائے لیکن اقتدار میں بیٹھے ہوئے جاہل یہ نہیں سمجھتے اور کسانوں کو سمجھانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اس ناسمجھ حکومت کی حالت زار پر اب یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
سمجھ سمجھ کے سمجھ کو سمجھو ، سمجھ سمجھنا بھی اک سمجھ ہے
سمجھ سمجھ کے بھی جو نہ سمجھے میری نظر میں وہ ناسمجھ ہے

عدالت نے ان قوانین کا نفاذ اچانک معطل نہیں کیا بلکہ پہلے پیار سے پوچھا کہ کیا سرکار روک لگانے پر غور کرسکتی ہے ؟ مغرور حکومت کا جواب نفی میں تھا۔ اس کے بعد عدالت نے دھمکی دی کہ اگر حکومت قوانین کے نفاذ کو نہیں روکے گی تو وہ معطل کردے گی۔ اس پر بھی حکومت کو ہوش نہیں آیا اور اس نے اپنے سالیسیٹر جنرل کے توسط سے عدلیہ کو صبر و ضبط کی تلقین فرمادی۔ اس سے تنگ آکر عدالت نے سرکار کو پھٹکار دیا ۔ حکومت کودسویں دور کی بات چیت کے بعد ہوش آیا۔ وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ زرعی اصلاحاتی قوانین کے نفاذ کو ڈیڑھ سال کے لئے ملتوی کرنے پر سرکار رضامند ہے۔ سوال یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ تو اسے پہلے ہی معطل کردیا ہے اس لیے اب حکومت کے ذریعہ التواء کی تجویز کیا معنیٰ ہے۔ سرکار اگرابتداء میںہی یہی موقف اختیار کرتی تو ممکن کسان اس پر کان دھرتے لیکن اس نے تو پہلے بزور قوت کسانوں روکنے کی حتی الامکان کوشش کی ۔ اس میں ناکامی کے بعد خالصتانی کہہ کر بدنام کرنے کی سازش رچی اور جب وہ ٖربہ بھی ناکام ہوگیا تو اب کہا جارہا ہے کہ ڈیڑھ سال کے وقفے کی عارضی معطلی کے دوران کسانوں اور حکومتی نمائندوں مسائل کا حل تلاش کر کے آگے بڑھیں -

دسویں دور کی ملاقات کے بعد بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وزیر زراعت کے ہوش کے ناخن لے رہے ہیں اس لیے انہوں نے سردی میں بیٹھے کسانوں کی پریشانی پر فکرمندی کا اظہار کیا ۔ کسانوں کی واپسی کو جمہوریت جیت بتاتے ہوئے کہا کہ افراد کی فتح کسی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی لیکن سارا جھگڑا تو پردھان سیوک کی انا اور اڈانی و امبانی جیسے افراد کے مفاد پر اٹکا ہوا ہے۔ نریندر تومر اس بار بہت پرامید نظر آئے انہوں نے کئی بار گرو گوبند سنگھ جی کا ذکر کیا اور بتایا کہ ان کو یاد کرکے میٹنگ کا آغاز کیا گیا لیکن ان کی تمام تر ڈارمہ بازی کے باوجود کسان تنظیمیں حسبِ سابق قانون واپس لینے کے مطالبہ پرجمی رہیں۔ تو مر نے یہ احمقانہ بات بھی کہی کہ گرو گوبند سنگھ جینتی کا اثر ہے کہ کاشتکاروں نے حکومت کی تجویز کو سنجیدگی سے لیا اور اس پر تبادلہ خیال کیا حالانکہ کسان تو اول روز سے سنجیدہ ہیں اور حکومت کی غیر سنجیدگی اس معاملے کو الجھا رہی ہے۔نریندر تومر کے مطابق یہ گفت و شنید معنی خیزہوتی جارہی لیکن اس کے لیے انہیں اپنے ہم نام پردھان سیوک کو راضی کرنا پڑے گا ۔ ان دونوں پر یہ مشہور شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک نریندر کافی تھا
جب دودو نریندر حاضر ہوں انجام گلستاں کیا ہوگا

سرکار کا آخری حربہ کسانوں کو تھکانے تھا لیکن بالآخر وہ خود تھک گئی۔ حکومت بات چیت کے ذریعہ ٹال مٹول کررہی تھی اور دسویں میٹنگ میں اس نے پچکار کرکے بھی دیکھ لیا تھا ۔ گیارہویں نشست کے لیے وزیر زراعت آئے تو ان کے تیور بدلے ہوئے تھے اور دل کے اندر چھپی منافرت منافقت کا پردہ چاک کرکے باہرآگئی تھی۔ انہوں نے اپنے آقا کی مانند اکڑ دکھاتے ہوئے کسانرہنماوں کو ساڑھے تین گھنٹے انتظار کرایا۔ یہ دراصل کسانوں کی توہین تھی ۔ اس کے بعد میٹنگ کے عمل کو ختم کرنے کا اعلان فرما دیا۔ آخری نشست میں حکومت نے کسان رہنماوں سے اس کی تجویز میں ڈیڑھ کے بجائے دوسال کی معطلی کی پر غور کرنے کے لیے کہا، لیکن اس کے جواب میں کسانوں نے حکومت سے ان کی تجویز یعنی منسوخی پر غور کرنے کی بات کی تووزراء میٹنگ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔حکومت چاہتی تھی کہ کسان رہنما بیزار ہوکر میٹنگ میں آنا ترک کردیں اور وہ انہیں بدنام کرے لیکن بازی الٹ گئی۔اب گفتگو کا دروازہ بند کرنے کا الزام سرکار کے سر ہے۔ حکومت کی اس ہٹ دھرمی کے بعد اب کسانوں کے پاس اپنا پرامن احتجاج جاری رکھنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہےلیکن آگے چل کر حکومت کو اپنی ناک رگڑ کر کسانوں سے بات چیت شروع کرنی ہوگی ۔

کسانوں سے پریشان حکومت نے کووڈ-19 کے پیش نظرپارلیمانی اجلاس کے اوقات کار میں کی جانے والی ساری تبدیلیاں کے باوجود بجٹ سیشن اس بار ہنگامہ خیز ہوگا ۔ ایوان بالا کے اجلاس کا وقت دوپہر تک اور ایوان زیریں کی کارروائی قیلولہ کے بعد شام چار بجے سے نو بجے تک چلےگی ۔گزشتہ سیشن میں وقفہ سوالات کا موقع نہیں تھا لیکن اس بار ہوگا۔ بجٹ اجلاس میںغیر سرکاری کام کاج کے ساتھ اراکین پارلیمان کو نجی بل پیش کرنے کا بھی موقع ملے گا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ملک کی خستہ حال معیشت کے سبب بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے امیر وں پر ۴۰؍ فیصد تک انکم ٹیکس کی تجویز پیش کی جائےلیکن اسی کے ساتھ کورونا کا بہانہ بناکر عوام کی جیب کاٹنے کےلئے کورونا سیس لگائے جانے کے بھی امکانات روشن ہیں ۔ وزیر خزانہ اور ان کا عملہ جہاں بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے وہیں حزب اختلاف بھی مختلف مسائل کو لے کر حکومت کو گھیرنے کی حکمت عملی بنارہا ہے۔ اس سلسلے میں متنازع زرعی قوانین اوران کے خلاف کسانوں کے احتجاج کو مرکزی حیثیت حاصل رہے گی ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بی جےپی کے اتحادی بھی اس معاملے میں ا س کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کردیں اور بی جے پی ایوان میں تنہا پڑ جائے۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228409 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.