۔تدبیر ، تعبیر اور تعمیر!

سابقہ جمہوری دور میں بر صغیر کے دو اہم ترین ممالک میں سیاسی جماعتیں منتخب ہو کر آئیں۔ ان دونوں حکومتوں نے اپنے ملکوں کو معاشرت، معیشت، سماجیت ، اقتصادیت، داخلی و خارجی پالیسیوں ، ترقی و بہبود نیز ہر ایک سطحی پہلو میں نقصان پہنچایا۔ دونوں ممالک میں تاجروں کی حکومت ہوئی ، ایک نے مذہبی کارڈ کھیلا اور دوسرے نے تجارتی کارڈ کھیل کر اپنی عوام اور ریاست دونوں کو نقصان پہنچایا۔ حالانکہ دونوں ممالک کی منتخب حکومتوں نے پس پردہ انجمن افزائش نسل ، انفرادی تجارت کے فروغ اور ریاستی مفاد سے بالا تر ہو کر ایسے اقدامات اٹھائے جن کا ازالہ ناممکن ترین ہو چکا ہے۔میں پاکستان اور بھارت میں گزرنے والے سابقہ جمہوری دور کی بات کر رہا ہوں ۔پاکستان میں خیر سگالی اور تجارت کا جذبہ رکھنے والی نواز حکومت نے جس طرح داخلی اور خارجی پالیسیوں پر اثر انداز ہو کر اداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی من مانیاں کیں ان کی وجہ سے نہ صرف عالمی سطح پر پاکستانی پاسپورٹ کمزور ہوا بلکہ پاکستان کی اقتصادی ترقی جسے مصنوعی طور پر استحکام دیا گیا تھا بھی بری طرح متاثر ہوئی۔بے دریغ قرضوں اور حوالہ ہندی کی روک تھام نہ ہونے کی وجہ سے دشمن ہمارے سروں پر آ بیٹھے اور اب ہم سے وہ کچھ ڈیمانڈ کر رہے ہیں جسے دینے سے مراد ہے کہ ریاست کی جان ان کے ہاتھ میں دے دی جائے ۔ دوسری جانب بھارتی منتخب حکومت نے مذہبی کارڈکھیل کر جہاں برہمن ازم کے فروغ میں سنگھ پریوار کے ساتھ وفا داری کا ثبوت دیا وہیں عوام اور ریاست کو تنزلی کی جانب لے جانے کی داغ بیل بھی ڈالی تھی۔ اسی برہمن ازم اور مذہبی کارڈ کی وجہ سے بھارتی عوام نے مودی کی موذیت سے متاثر ہونے کے باوجود دوبارہ اسے منتخب کیا ہے اور اس طرح بھارت کے جو حالات ہمیں نظر آ رہے ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت کا ٹوٹنا طے ہو چکا ۔ اگر ہم پاکستان اور انڈیا کے سابقہ جمہوری دور کا مبہم سا جائزہ لیں تو ہم بخوبی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ دونوں ممالک کا انجام کس قدر ہولناک ہونے والا تھا۔ لیکن کم از کم موجودہ جمہوری دور میں پاکستانی عوام کا سیاسی شعور بھارتی عوام کی نسبت زیادہ درست اور مضبوط ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے استعمار کو خیر باد کہہ کر استحکام کی جانب گامزن ہونے اور استقامت لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اتنے بڑے فیصلے کا رد عمل تو آخر دیکھنا ہی پڑے گا مگر روشنی اور خوشیو ں کے دن بھی دور نظر نہیں آتے ۔ اگر دونوں ممالک کے موجودہ جمہوری ادوار دیکھیں تو دونوں طرف فسادات، احتجاج ، مہنگائی وغیرہ نظر آتی ہے لیکن دونوں مما لک میں یہ بناوٹی ہے۔بھارت میں یہ حکومت کی طر ف سے بنائی گئی ہے جبکہ پاکستان میں یہ استحکام کو نا پسند کرنے والے اور ترقی و بہبود کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کی طرف سے بنائی گئی ہے۔اس مصنوعی جنگ کی آڑ میں اطراف کے فریقین اپنے مقاصد کو پورا کروانا چاہتے ہیں۔ مودی کی موذیت کی وجہ سے تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھارت کوخیر باد کہہ چکی ہیں اور اس طرح بھارت کے پانچ کروڑ سے زائد لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ این آر سی اور این سی اے بلوں کی وجہ سے بھارت کی انتیس میں سے بائیس ریاستوں میں دنگے، احتجاج اور فسادات برپا ہیں۔ کورونا سے پہلے شاہین باغ تحریک نے بھارت بھر میں ایک نئی ہوا چلا دی تھی جس کے بعد یوں لگتا تھا کہ مودی حکومت کا کھیل اب ختم ہونے والا ہے مگر کورونا کی آڑ میں جس طرح مودی حکومت نے اس تحریک کو کچل دیا اس کے بعدبھی کسان احتجاج ہونے کو پنجابی کسانوں کی دلیری کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ایک اہم عنصر جسے نظر انداز نہیں جا سکتا وہ بھارتی سپریم کورٹ ہے جس نے مودی کی موذیت کو ہر مقام پر سہارا دیا ہے۔ چاہے وہ 370 کا خاتمہ ہو، چاہے وہ بابری مسجد کا فیصلہ ہویا شاہین باغ تحریک کو دنگوں کی نظر کرنے والوں کے حق میں فیصلہ ہو،ہر کڑی گھڑی میں سپریم کورٹ حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے رہی ہے۔ مزید یہ کہ کسان احتجاج سے جب بارہا بات چیت کے بعد کوئی فیصلہ نہ ہو پایا ہے تو عدالت نے ایک کمیشن ترتیب دے دیا ہے ۔کمیٹی کے چاروں ارکان کسان مخالف بل کے حق میں ہیں اور وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بل یہی پاس ہو کر رہے گا آپ سے جو بن پائے کر لیجئے۔ ان اقدامات کے خلاف بھارتی اپوزیشن حکومت کے خلاف متحد ہو چکی ہے اور راہول گاندھی سمیت تمام جماعتوں نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہیں اور حکومت کے گرنے تک وہ احتجاج جاری رکھیں۔دوسری جانب پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں نے متحد ہو کر حکومت کے انتخاب تک کو چیلنج کیا ہے اور حکومت سے فی الفور نئے انتخابات کی ڈیمانڈ کی ہے۔حالانکہ حکومت نے بے شمار وعدے منتخب ہونے سے پہلے کئے تھے جنہیں وفا کرنا باقی ہے۔ لیکن ان وعدوں کے شرمندہ تعبیر ہونے سے قبل موجودہ پاکستانی حکومت جو اصلاحات لا رہی ہے، با الخصوص کرپشن کے خلاف جو جنگ چھیڑی ہے اس کیلئے بلا شبہ داد و تحسین کے لائق ہے ۔عمران نیازی کی سیاست نے عوام میں جس قدر سیاسی شعور بیدار کیا ہے اسی قدر پراپیگنڈوں کو بھی ہوا ملی ہے۔مصنوعی مہنگائی، مافیا شاہی اور ادارتی ہٹ دھرمیوں نے پی ٹی آئی حکومت کو سخت وقت دیا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ جن اصلاحات کو لانے کے بعد فی الفور عمل درآمد شروع ہو جانا چاہئے تھا اس میں تاخیر ہو رہی ہے اور حکومت بھی عوام تک بہبود کی فراہمی نہیں دے پائی ہے۔حالانکہ موجودہ حکومت نے جس طریقے سے ڈیمز کی تعمیر، ادارتی اصلاحات، اقتصادی ترقی، حوالہ ہندی کی روک تھام کیلئے اقدامات اور مؤثر داخلی وخارجی پالیسی سے ملک و ملت کا وقار بحال کیا ہے اس کی نظیر پچھلے ادوار میں بھی نہیں ملتی۔ مشرف کے بعد یہ واحد حکومت ہے جس نے نہ صرف ملک کی فلاح و ترقی میں اضافہ کیا ہے وہیں بیرونی قرضوں کی واپسی بھی یقنی بنائی ہے۔ چاہے وزیر اعظم کو کئی معاملات میں یوٹرن لینے پڑے مگر ان کے یہ یوٹرن بھی مثبت ثابت ہو رہے ہیں۔مگر استعماری طاقتوں کو یہ استحکام کھٹک رہا ہے! دونوں ممالک کے حساس ادارے اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کسی بھی ایک ملک کی خرابی سے پورا خطہ خراب ہوگا ، اسی سے ان کا استعمار اور چوہدراہٹ قائم رہے گی۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ برصغیر کو مٹھی میں رکھنے کیلئے دونوں ممالک کو کسی نہ کسی سازش میں پھنسائی رکھیں۔ آنے والے دن برصغیر کی سیاسی و اقتصادی زندگی پر بہت برے بن کر سامنے کا اندیشہ ہے۔ ایک طرف پاکستان میں فسادات کی نئی لہر برپا کر کے اسے غیر مستحکم کئے جانے کے امکانات بڑھ رہے ہیں تو دوسری جانب بھارت میں مذہبی جنگ بڑھا کر پاکستا ن میں منتقل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اس کیلئے وہ کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں ! اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بی جے پی،کشمیر حریت قیادت،علمائے ہند یا کسان اتحاد میں سے کسی کی بھی اہم شخصیت کا قتل کیا جائے اور اس سے لگنے والی آگ کے شعلے خطے بھر میں پھیل جائیں۔ دونوں ممالک میں جنگ کا سماں ضرور ہے لیکن:
تدبر خاصہ ہے مؤمن کا اب تدبیر ہوگی
ریاست کے ہمارے خواب کی تعبیر ہو گی

اس تدبیر اور تعبیر میں ریاست کی تعمیر چھپی ہوئی ہے جو ہم متحد ہوئے بغیر نہیں کر سکتے۔ اس وقت پوری قوم کو ہر ایک آزمائش ہونے کے باوجود وطن کی سلامتی اور انفرادی سلامتی کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا ۔اداروں کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کیلئے ایک جٹ ہو کر کام کرنا ہوگا۔ اور مبارک جدو جہد یعنی جہاد فی السبیل اﷲ کا آغاز کرنا ہوگا تاکہ پاکستان جو اس وقت مسلم امہ کیلئے امید بناہوا ہے کے پرچم تلے ایک عظیم اتحاد قائم ہو ۔ یہی واحد راستہ ہے استعماری طاقتوں کو نیست و نابود کرنے کا۔
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 167874 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More