کربلا اور مظلوم حسینؓ (قسط اوّل)

تحریر: شبیر ابن عادل
زمین اور آسمانوں میں ہر چیز اللہ کی تسبیح کررہی ہے، اور وہی زبردست اور دانا ہے۔ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے، زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے، اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ وہی اول بھی ہے اور آخر بھی، اور ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ اُس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اُس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔ جو کام بھی تم کرتے ہو اُسے وہ دیکھ رہا ہے۔ وہی زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لئے اُسی کی طرف رجوع کئے جاتے ہیں۔ وہی رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ (الحدید۔ ۲ تا ۶)
نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ (سورہ ئ ملک۔ ۱، ۲)
اگرکہیں اللہ لوگوں کو اُن کی زیادتی پر فوراً ہی پکڑ لیا کرتا تو روئے زمین پر کسی متنفس کونہ چھوڑتا۔ لیکن وہ سب کو ایک وقت مقررتک مہلت دیتا ہے۔
خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دُوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تو اُس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی۔ پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے۔ دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں۔ دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرواپنے ربّ کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے۔ جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لئے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (الحدید۔ 20،21)
یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آزمائش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی
نیکیاں ہی تیر ے ربّ کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور ان ہی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ فکر اس دن کی ہونی چاہئے جب کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو بالکل برہنہ پاؤگے اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلوں پچھلوں میں سے) ایک بھی نہ چھوٹے گا۔ اور سب کے سب تمہارے ربّ کے حضور صف در صف پیش کئے جائیں اور دیکھ لو آگئے نا تم ہمارے پاس اسی طرح جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہارے لئے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں کیا ہے۔
جب سورج لپیٹ دیا جائے گا، اور جب تارے بکھر جائیں گے، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے، اور جب دس مہینے کی حاملہ اونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کردئیے جائیں گے۔ اور جب سمندر بھڑکا دئیے جائیں گے، اور جب جانیں (جسموں سے) جوڑ دی جائیں گی۔اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟ اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے، ا ور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا، اور جب جہنم دہکائی جائے گی، اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی، اُ س وقت ہر شخص کو معلم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔
(سورہ التکویر۔ ۱ تا ۱۴)
بے شک فیصلے کا دن ایک مقررہ وقت ہے۔ جس روز صور میں پھونک ماردی جائے گی، تم فوج در فوج نکل آؤ گے۔اور آسمان کھول دیا جائے گا حتیٰ کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کررہ جائے گا، اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہوجائیں گے۔ (سورہ النبا۔ ۱۷ تا ۲۰)
آخرکار جب وہ کان بہرے کردینے والی آواز بلند ہوگی۔ اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہر شخص پر اُس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ اُسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا۔ کچھ چہرے اُس روز دمک رہے ہوں گے، ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے۔ اور کچھ چہروں پر اُس روز خاک اڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی۔ یہی کافر و فاجر لوگ ہوں گے۔ (سورہ عبس۔۲۳ تا۲۴)
یہ دنیا امتحان ہے، ہمارے ربّ نے ہمیں دونوں راستوں پر چلنے کا اختیار دیا ہے، چاہے ہم بدی کا راستہ اپنائیں یا نیکی اور صراط مستقیم پر چلیں۔جزا وسزا کامعاملہ آخرت میں ہوگا، اس زندگی میں ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرکے اپنی آخرت سنوارنا ہے۔
اگردنیا راحت اور آرام یا جزا و سزا کی جگہ ہوتی تو کربلا کا واقعہ نہ ہوتا۔ ہمارے نبی کریم ﷺ کے نواسے اور اُنؐ کی نسل کے سترہ (۱۷) خوبصورت نوجوانوں کا خون پانی کی طرح نہ بہتا اور نہ ہی ان کویزید بدبخت کالشکر یوں بیدردی سے ذبح کرتا۔
اگر دنیا جزا و سزا کی جگہ ہوتی تو شمر فتح نہ پاتا، ابن زیاد جھنڈے نہ گاڑتا، یزید ملعون تخت پر نہ بیٹھتا اور امام حسین ؓ کاسر نیزے پر نہ چڑھتا۔اور آل رسول ؐ کے سر، معصوم بچے عبداللہ جیسے معصوموں کے سر نیزوں پر چڑھے ہوئے اور ان کے لاشے خاک و خون میں نہیں تڑپ رہے ہوتے۔ یہ سب کچھ نہ ہوتا لیکن دنیا امتحان کی جگہ ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے، ہر انسان کے کندھوں پر دوفرشتے بیٹھے ہوئے ہیں ایک نیکیاں لکھتاہے اور دوسرا گناہ۔ ان فرشتوں کو کراماً کاتبین کہتے ہیں۔ انسان کا چھوٹے سے چھوٹا عمل چاہے وہ بدی ہو یا نیکی، سب لکھا جارہا ہے۔ (جاری ہے)


shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 111225 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.