عبدالستار افغانی: کراچی کی ترقی وخوشحالی کی علامت


تحریر: شبیر ابن عادل
کراچی پاکستان کے ان قدیم شہروں میں سے ہے، جو قیام پاکستان کے وقت سے بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔ اس شہر کی کئی شناختیں تھیں۔ لیکن جدید کراچی کی علامت کے طور پر اگر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا مزار دکھا دیا جائے تو آدمی بے ساختہ اسے کراچی کہہ اٹھتا ہے لیکن سن1979 کے بعد کراچی کی ایک اور علامت ساری دنیا میں مشہور ہوئی اور وہ بابائے کراچی عبدالستار افغانی تھے۔
دنیا میں کہیں بھی عبدالستار افغانی کا نام لیا جائے تو بے اختیار کراچی ہی کا نام زبان پر آتا ہے۔
عبدالستار افغانی کا نام یقینا زریں حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے جنہوں نے بحیثیت میئر کراچی کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں اور دوبار بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میئر رہے۔ اس عرصے میں تن، من، دھن سے اس شہر کو بین الاقوامی سطح کا شہر بنانے کیلئے کوشاں رہے اور ایسے ایسے منصوبے تشکیل دیئے جن کی بناء پر یہ شہر ترقی کی راہ پر چل پڑا اور آج بھی چل رہا ہے۔
1979میں جب بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ڈھیلی ڈھالی ساخت بحال کی گئی تو عبدالستار افغانی میئر منتخب ہوئے۔ وہ ایک حیران کن اور چونکا دینے والی شخصیت تھے۔ امیر شہر مگر فقیر منش۔ درویش صفت اور خدمت گار رہنما۔عبدالستار افغانی مرحوم تقریباً آٹھ برس کراچی کے میئر رہے مگر رنگ ڈھنگ وہی قلندرانہ رہے۔ لباس، چال ڈھال، بات چیت اور روزمرہ معمولات، سب میں قلندری جھلکتی تھی۔ جو بات دل میں ہے، وہی زبان پر۔ نہ کسی کا خوف نہ ڈر۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
خاندان اور پیدائش
کراچی سے افغانی کا تعلق قیام پاکستان سے بھی پہلے کا ہے۔ ا ن کے جدامجد افغانستان سے ہجرت کرکے انیسویں صدی کے اوائل میں بمبئی چلے گئے۔ لیکن افغان خون حرکت پذیر رہتا ہے۔ ان کے بیٹے اس کے پچاس سال بعد ہجرت کرکے کراچی آگئے اور لیاری کے علاقے میں آباد ہوئے۔
عبدالستار افغانی06جولائی سن 1930 کو کراچی کے علاقے لیاری میں پیدا ہوئے اور تمام عمر اسی گھر میں گزار دی۔
تعلیم
لیاری میں اپنی محلے میراں پیر کے بی ایف کیمرون اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ سندھ مدرستہ الاسلام سے میٹرک اور عبداللہ ہارون کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ گریجویشن بھی اسی کالج سے کیا۔
کھیل کود
عبدالستار افغانی کو فٹبال بہت پسند تھا۔ کیونکہ لیاری میں فٹبال ہمیشہ سے مقبول کھیل رہاہے۔ انہوں نے تھوڑی بہت کرکٹ بھی کھیلی۔ لیکن ان کا اصل شوق فٹبال تھا۔
ازدواجی بندھن
عبدالستار افغانی کی شادی ابتدائی عمر ہی میں ہوگئی۔ 1948میں ان کے والدین کو حج کرنے جانا تھا۔ ان کے سب بچوں کی شادیاں ہوگئی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے عبدالستار افغانی کی شادی کردی۔ جو اُس وقت میٹرک میں تھے۔
روزگار
عبدالستار افغانی نے چاکیواڑہ میں قائم سیلز اینڈ سپلائی کے ایک آفس میں ابتدائی ملازمت کی۔ اس کے بعد ایم اے جناح روڈ پر جوتوں کی ایک دکان میں منیجر رہے اور وہ ملازمت میئر منتخب ہونے تک جاری رہی۔ جب وہ میئر منتخب ہوئے تو ایک دن پہلے تک وہاں بیٹھتے تھے اور جب کراچی شہر کے میئر منتخب ہونے کے بعد جوتوں کی دکان پر گئے تو پورے بازار کے دکاندار جمع ہوگئے۔ وہ بہت خوش تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا بندہ میئر بنا ہے۔ کیونکہ اس دکان پر افغانی نے انتیس (29) سال گزار دئیے تھے۔
جماعت اسلامی سے تعلق
عبدالستار افغانی سن1949 میں چودہ سال کی عمر میں جماعت اسلامی کے کارواں میں شامل ہوئے۔ بانی جماعت اسلامی اور مقتدر عالم دین مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم ؒ سن1951 میں ان کے گھر آئے تھے۔ اس کا احوال خود عبدالستار افغانی نے ان الفاظ میں بیان کیا:
"مولانا مودودی مرحوم ؒ سے سن1951میں اس وقت ملاقات ہوئی تھی، جب موسیٰ لین میں ہمارا حلقہ قائم ہوا اور ککری گراؤنڈ مں اجتماع ہوا۔ ایک دن ہمارے ہاں عصرانہ رکھاگیا۔ اس میں نعیم صدیقی، نصراللہ خان عزیز، امین احسن اصلاحی اور سارے شوریٰ کے ارکان شریک تھے۔ وہاں نماز کا وقت ہوا، عصر کی نماز مولانا نے پڑھائی۔ جب وہ گاڑی میں بیٹھے تو پوچھا کہ پان مل جائے گا۔ میں نے کہا کہ ہاں مل جائے گا۔ وہ تمباکو بھی کھاتے تھے، میں نے ان کو پان لاکر دیا۔ بڑی زبردست شخصیت تھے، آدمی کو اپنی جانب کھینچنے والے۔ ان سے مل کر خوشی محسوس ہوتی تھی۔ ایک تو ان کی گفتگومیں بڑی بے تکلفی تھی عام طور پر بالکل دوستانہ انداز میں بات کرتے تھے۔ کسی نئے آدمی سے ملاقات ہوجاتی تو مذاق بھی کرلیتے۔ آدمی ان کے سامنے کوئی اجنبیت محسوس نہیں کرتا اور یہ سمجھتا تھاکہ میرا بہت پرانا دوست ہے، یہ خوبی تھی، اُن میں "۔
وہ سر تا پا ایک نظریاتی شخصیت تھے اور نظریہ بھی وہ جسے انہوں نے چودہ سال کی عمر میں اپنایا تو پھر آخری سانس تک اپنے وجو د کا حصہ بنائے رکھا۔ وہ نظریہ پاکستان اور اسلام کے رنگ میں ایسے رنگے کہ پیر کے ناخن اور سر کے بالوں تک "اسلامی" ہوگئے۔ اسلام کے مقابلے میں بیوی، اولاد، مکان، ملازمت، جائیداد، رشتہ داریاں، دنیا کی ہر چیزان کے لئے ثانوی حیثیت اختیار کرگئی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی اُس تین کمرے کے فلیٹ کے بجائے کسی بڑے اور کشادہ مکان میں منتقل ہونے کی کوشش بھی نہیں کی۔
عوامی خدمت کا آغاز
لیاری سے ہی سماجی خدمت کے کاموں کا آغاز کیا اور اپنے علاقے کی خدمت کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔ بے لوثی اور بے غرضی کے ساتھ اپنے عوام کی خدمت کی جس کے نتیجے میں 1962 میں وہ صدر ایوب خان کے قائم کردہ بنیادی جمہوریت کے بی ڈی ممبر منتخب ہوئے۔ علاقے کے مسائل کے حل میں وہ سماجی رہنماؤں میں سب سے آگے نظر آئے۔ منشیات کیخلاف سے پہلے عبدالستار افغانی اور ان کے ساتھیوں نے موثر آواز اٹھائی۔
سماجی کام اس قدر دلجمعی سے کرتے کہ لیاری کی گلیاں اور سڑکیں ان سے مانوس ہوگئی تھیں۔ ایک ایک گلی اور ایک ایک علاقے کے لوگوں سے عبدالستار افغانی کاذاتی تعلق تھا اور ہر ایک کو اس کے نام سے جانتے اور پکارتے تھے۔
انہوں نے میئر کراچی بننے سے قبل ہی لیاری کی تعمیر وترقی کیلئے جو مثالی جدوجہد کی، اس کے نتیجے میں مساجد کی تعمیر، جمنازیم، ہال، پلے گراؤنڈز اور کمیونٹی سینٹرز جیسے تحفے لیاری کے لوگوں کو ملے۔ میئر بننے کے بعد عبدالستار افغانی نے اس علاقے کو لیاری جنرل اسپتال کی صورت میں علاقے کو سب سے بڑا اور تاریخی تحفہ دیا۔
میئرشپ۔ پہلا دور
جنرل ضیاء الحق نے ستمبر سن1979میں سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت پورے ملک میں غیرجماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کرائے۔ لیکن سیاسی جماعتوں نے مختلف ناموں سے ان میں شرکت کی۔ جماعت اسلامی نے کراچی میں اخوت گروپ کے نام سے حصہ لیا، جس کونسلرز بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے۔ اخوت گروپ نے کراچی کے شہریوں کے اعتمادپر پورا اترنے کیلئے لیاری کی گدڑی سے عبدالستار افغانی جیسالعل تلاش کیا۔ وہ اس وقت صدر میں خان شوز میں سیلز مین کی ملازمت کررہے تھے۔عبدالستار افغانی کو جب میئر کے عہدے کے لئے نامزد کیا گیا تو ان کے سامنے ایک بہت مالدار شخصیت عبدالخالق اللہ والا تھے۔ عبدالخالق اللہ والا شہر میں معروف شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے اورعبدالستار افغانی کو محض لیاری اور جماعتی حلقوں میں جانا جاتا تھا۔ لیکن کامیابی نے اُس غریب درویش کے قدم چومے۔
عبدالستار افغانی کاپہلا دور سن1979سے 1983تک رہا جس میں انہوں نے کراچی کے شہریوں پر دو بڑے احسانات کئے۔ ایک یہ کہ انہوں نے بلدیہ سے کرپشن کے خاتمے کا عہد کیا ور یہ کام کرکے دکھایا۔ شہریوں پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا اور اس عہد کو اس طرح پورا کیا کہ چند کروڑ روپے کے بلدیہ کراچی کے بجٹ کو صرف چار سال میں سو ارب تک پہنچا دیا۔
عبدالستار افغانی کا دوسر ابڑا احسان یہ تھا کہ انہوں نے کراچی کے تمام امیونٹی پلاٹس کا سروے کرایا اور ان کی چاردیواری تعمیر کروا دی۔ اس طرح اہل کراچی کے پارکوں اور کھیل کے میدانوں کو قبضہ مافیا سے بچانے میں اہم کردار اد اکیااور آج کراچی کے شہریوں کو جگہ جگہ جو پارکس میسر ہیں، ان کا سبب یہی چاردیواری تھیں۔
میئرشپ۔ دوسرا دور
سن1983کے بلدیاتی انتخابات میں ایک بار پھر اخوت گروپ پہلے سے کہیں زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوا۔ سن1979میں ایک ووٹ سے کامیاب ہونے والے عبدالستار افغانی دوسری مرتبہ بیس ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوکر دوبارہ میئر کراچی منتخب ہوگئے۔ پہلے کے مقابلے میں دوسرا دور زیادہ سخت تھا، کیونکہ جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت دینی جماعتوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ چکی تھی اور کراچی میں ایم کیوایم کی تشکیل میں سرگرم تھی۔ اعداد وشمار بتارہے تھے کہ عبدالستار افغانی دوسری مرتبہ میئر نہیں بن سکیں گے۔ لیکن تمام تجزیے غلط ثابت ہوئے اور عبدالستار افغانی اپنی سحرانگیز شخصیت اور عوامی خدمت کے بل بوتے پر دوسری مرتبہ بھی میئر منتخب ہوگئے۔ اور پہلے سے زیادہ ووٹوں کی اکثریت کے ساتھ۔ انہوں نے حسین ہارون جیسی بلندپایہ شخصیت کو شکست دی تھی۔
عبدالستار افغانی نے فنڈز کی تقسیم میں منصفانہ رویہ اختیار کیا اور سب کا میئر بن کر دکھایا۔ پیپلز پارٹی ہویا مسلم لیگ، سب عبدالستار افغانی کے گن گاتے تھے۔ بابائے کراچی کا خطاب بھی بلدیہ کراچی کے کونسلروں نے انہیں دیا۔

کراچی کے حقوق اور میئرشپ کی قربانی
وہ میئر کی حیثیت سے ہمیشہ کراچی کے مفادات کے بارے میں سوچا کرتے تھے اور بہت سے ایسے ٹیکس جو کراچی کے لوگوں سے وصول کئے جاتے تھے، کراچی کو دینے کے حق میں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سندھ کی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے موٹر وہیکل ٹیکس، بیٹرمنٹ ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس اور انٹرٹینمنٹ ٹیکس، صوبائی حکومت کے سپرد کرنے کے احکامات جاری کئے تو انہوں نے وقت کے حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کیااور اُس وقت کے وزیراعلیٰ غوث علی شاہ کو للکارا کہ ان ٹیکسوں پر صوبائی حکومت کانہیں، کراچی کے شہریوں کا حق ہے۔
اسی دوران ملک کے تمام بلدیاتی ادارے جنرل ضیاء الحق کے تاحیات صدر رہنے کی قراردادیں منظور کررہے تھے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اجلاس میں بھی اسی قسم کی قرارداد کو افغانی صاحب نے روک دیا۔ اس طرح کے ایم سی پورے ملک کی واحد بلدیہ تھی، جس نے یہ جسارت کی۔ اس گستاخی پر اسلام آباد کے حکمرانوں کا شدید غصہ یقینی امر تھا۔
سن 1987کے آغاز میں بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ایک قراراداد منظور کی گئی کہ صوبائی حکومت موٹر وہیکل ٹیکس بلدیہ کراچی کو واپس کرے۔ چندر وز بعد 15فروری سن1987کوعبدالستار افغانی کی قیادت میں تمام کونسلرز اور ان کے حامی ایک جلوس کی صورت میں سندھ اسمبلی کی عمارت تک گئے۔ جہاں پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا۔ میئر کراچی عبدالستار افغانی کو سو سے زائد کونسلروں سمیت گرفتار کرلیا گیا۔ اسی دن شام بلدیہ عظمیٰ کراچی توڑدی گئی اور عبدالستار افغانی کو برطرف کردیا گیا۔ دیگر کونسلر تو چند ہفتوں میں رہا ہوگئے۔ مگر افغانی کافی عرصے تک جیل میں رہے اور برسوں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ جس وقت اپنے سو کونسلروں کے ساتھ گرفتار ہوئے، پولیس کی گاڑیوں میں بھیڑبکریوں کی طرح
پھینک دیا گیا، اس وقت بھی وہ غوث علی شاہ کو پولیس وین کے دروازے پر کھڑا ہوکر للکار رہا تھا "میں کراچی کے حقوق کے لئے اپنی جان بھی دے سکتاہوں۔" قصور کیا تھا، اس کا؟ یہی نا کہ کراچی اگر میٹروپولیٹن سٹی ہے تو اس کو وہی حقوق دو، جو دنیا کے دوسرے میٹروپولیٹن شہروں کو حاصل ہیں۔ پولیس کو اس کے تابع بناؤ، موٹروہیکل ٹیکس اس کو دو۔ کیونکہ سٹرکیں اسی کے خرچ سے بنی ہیں۔ جب بلدیہ عظمیٰ کراچی کو توڑا اور افغانی صاحب کو برطرف کیا گیا تو حکومت اور تحقیقاتی اداروں کو ان کے خلاف کارروائی کے لئے کوئی ایک نکتہ بھی نہ ملا۔
کراچی کے حقوق کا پرچم لے کر استبدادی قوتوں کے مقابلے پر نکلے تواس شان سے کہ رہِ یار کو قدم قدم یادگار بنا دیا۔ کوئے یار (کے ایم سی کی سرخ پتھروں والی عمارت) سے نکل کر زندان خانے کی طرف بڑی آن بان اور شان سے سفر کیا۔ کوئی قوت، کوئی طاقت، کوئی دھونس اور کوئی دھمکی ان کے پائے استقلال میں لرزش نہ لاسکی اور انہیں کراچی کا مقدمہ عوام کی عدالت میں دائر کرنے سے نہیں روکا جاسکا۔
کراچی: ریکارڈ ترقیاتی کام
عبدالستار افغانی کی شکل میں شہرِ قائد کو ایک غریب اور دیانتدار قیادت میسر آئی افغانی صاحب نے بلدیہ
کراچی میں انقلابی اقدامات کئے بہت تیزی سے ترقیاتی کام ہونے لگے۔ اور لوگوں نے اپنی برسوں سے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو بنتے ہوئے دیکھا۔ پانی کا مسئلہ حل ہوا اور سیوریج کی نئی لائنیں ڈالی گئیں۔ سن 1979سے 1983تک کا دور شہر کی بلدیاتی تاریخ کا سنہری دور ہے کہ ایک طویل عرصے سے شہرکی کراچی کے بلدیاتی اداروں پر بیوروکریسی قابض تھی۔لوگ باگ جب دھڑا دھڑ سڑکیں تعمیر ہوتے، چوراہے بنتے، سگنلز نصب ہوتے، سیوریج کی لائنیں پڑتے، تاریک گلیوں کو روشن ہوتے، پارکس بنتے، ڈسپنسریاں اور لائبریریاں کھلتے دیکھتے تو حیرت سے پوچھتے کہ اچانک بلدیہ کو کیا قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے؟ آخر پہلے یہ سارے مسائل کیوں حل نہ ہوئے؟
کراچی کے پہلے اوور ہیڈ برج کی تعمیر کا آغاز ان ہی کے دور میں ہوا۔ مشرقی پاکستان سے اورنگی ٹاؤن میں آکر آباد ہونے والے مہاجرین کی بستیوں کو کے ڈی اے میں شامل کرانے کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔ عباسی شہید اسپتال میں کئی اہم شعبوں کا قیام، تیموریہ لائبریری کا قیام، عائشہ منزل کے قریب اسلامک سینٹرکا قیام، پانی کو بڑے پیمانے پر پانی کی فراہمی کے منصوبوں کا آغاز، کشمیر اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر، 133کچی آبادیوں کو مستقل کرنے کا عمل، صادقین آرٹ گیلری کا قیام اسپورٹس کے تمام رجسڑڈ اداروں کے لئے فنڈز مختص کرنے کا اعلان۔ جامعہ کراچی کو ہرسال ایک بس کا تحفہ، لیاری جنرل
اسپتال کا قیام، کراچی میں پہلی بار گنجان آباد علاقوں میں گندی گلیوں کی پختگی کا مرحلہ، کراچی کی اہم شاہراہوں اور چورنگیوں پر اسلامی وثقافتی فن تعمیر کا کام، بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ملکیتی زمینوں کے گرد چاردیواری کی تعمیر کا آغاز سمیت سیکڑوں امور انجام پائے۔
کراچی کے شہریوں کے لئے عبدالستار افغانی نے ایک بہت بڑی تفریح گاہ سفاری پارک قائم کی۔ اس پروجیکٹ پر خود انہیں بہت فخر تھا۔
لیکن اس کے علاوہ بھی افغانی نے اور بہت سے کام کئے۔خاص طور پر کچی آبادیوں کو، جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا، ان کو مالکانہ حقوق دلوائے۔ غریب ہی غریب کادرد جانتا ہے، جب ہی تو وہ بابائے کراچی کہلائے۔
اپنی میئرشپ کے دوران اپنے علاقے لیاری کیلئے انہوں نے دو بنیادی کام کئے۔ ایک تو لیاری جنرل اسپتال، جو بالکل تباہ ہوگیا تھا، بلکہ منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ عناصر کا گڑھ بن گیا تھا۔ اس کے لئے صدر جنرل ضیاء الحق سے پانچ کروڑ روپے کی رقم منظور کرائی، جو اُس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔ اس کے سامنے انہوں نے لیاری انٹرنیشنل فٹ بال گراؤنڈ تعمیر کرایا۔
افغانی کا بلدیاتی دور
عبدالستار افغانی کا بلدیاتی دور اُن کی بے لوثی، بے غرضی اور خدمت میں دیانت کی اعلیٰ مثال کے طور پر ہمیشہ یادگار رہے گا۔ دوبار میئر رہنے کے باوجودانہوں نے اپنے دامن کو کرپشن اور بدعنوانی کے کسی بھی داغ سے محفوظ رکھا۔انہوں نے بلدیہ کا بجٹ امانت و دیانت کی مثال کے طور پر بناکر اس میں کئی گنا اضافہ کیا تھا اور یہ ثابت کیا تھا کہ اگر قیادت امانت دار و دیانت دار ہوتو سب کچھ ممکن ہے۔
بلدیاتی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے خود اجلاس کی صدارت کرتے تھے۔ اپنے ایمان اور ضمیر کی روشنی میں میئرشپ چلائی۔ کونسل کے اجلا س میں ایک ہی دن میں 80-80آئٹم کے ایجنڈے نمٹائے جاتے تھے اور اسی کے ایم سی بلڈنگ میں رات تین، چاربجے تک اجلاس ہوا کرتے تھے۔ میئرشپ کے دور میں انہوں نے کوئی پروٹوکول لیا اور نہ ہی کوئی مراعات حاصل کیں۔ ابتدائی دنوں میں ان کی گاڑی پر
کے ایم سی کا پرچم لگا ہواتھا، جسے انہوں نے یہ کہہ کر اتروا دیا کہ اس سے مجھے خاص ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ سرکاری بنگلہ جو کوئنز روڈ پر واقع تھا، یہ کہہ کر واپس کردیا کہ میں ایک غریب آدمی اور عوام کا خادم ہوں، آج میرے بچے ائر کنڈیشنڈ بنگلے میں رہنے کے عادی نہیں ہیں اورسرکاری رہائش گاہ کے آٹھ کمروں میں اے سی لگے ہوئے ہیں۔ میرے بچے وہاں رہ کر اس کے عادی ہوجائیں گے اور پھر میئرشپ کے بعد میں کو اے سی کہاں سے دلاؤں گا۔ اس لئے میں اس بنگلے میں نہیں رہ سکتا۔ عبدالستار افغانی ایک خوددار شخصیت کے مالک تھے۔اپنے چھوٹے بیٹے کے لئے، جو اگست 1983میں شہید ہوگئے تھے، میڈیکل کالج میں داخلے کی سفارش صرف اس لئے نہیں کی کہ وہ کسی دوسرے شخص کا حق نہیں مارنا چاہتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آج میں کسی سے اپنا ایک کام کہوں گا تو وہ کل مجھ سے اپنے دو کاموں کی توقع رکھے گا اور میں یہ نہیں کرسکتا۔ اپنے بڑے بیٹے عبدالصمد افغانی کا پیدائشی کارڈ اسلئے بنا کر نہیں دیا کہ کے ایم سی کے پاس ان کا ریکارڈ نہیں تھا، اس لئے وہ میئر کی حیثیت سے کسی گم شدہ یا غائب شدہ ریکارڈ پر دستخط نہیں کرسکتے تھے، اسلئے بیٹے سے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا۔
عبدالستار افغانی میرٹ پر کام کرتے تھے اور کوئی ناجائز کام نہ کیا اور نہ ہی کرنے دیا۔ اس لئے ان سے ان کے خاندان کے اکثر لوگ ناراض رہا کرتے تھے کہ افغانی میئر بن کر بھی ہمارے کام نہیں کرتا اور ہمارے بچوں کو ملازمتیں نہیں دیتا۔ بطور میئر وہ خاص خیال رکھتے تھے کہ کوئی کام بھی اصول، ضوابط اور دستور کے خلاف نہ ہو۔
افغانی کی کامیابی میں ان کی ذات کے علاوہ ان کے ساتھ کام کرنے والی مضبوط ٹیم کا اہم اور کلیدی کردار تھا۔ خود افغانی صاحب نے اس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا:
"مجھے اللہ کے فضل سے بڑے اچھے اچھے لوگ ملے، جو کراچی کی ہر بستی سے آئے تھے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ جس طرح سے تعاون کیا ہے اور جس طرح سے ہمارے فیصلوں کو نافذکیا ہے۔ جیسے ہم
نے ان سے کہا کہ فجر کی نماز کے بعد سینیٹری ورکرز کی حاضری لینا ہے۔ اور وہ سب اٹھتے تھے، باقاعدہ حاضری لیتے۔ ہر کونسلر نے اپنے اپنے علاقے میں اپنا پورا کردار ادا کیا۔ ہمیں اس بات کا بہت کم شکوہ ہوا کہ کسی کے علاقے میں کوئی گڑ بڑ ہوئی ہو"۔
اپنی مئیر شپ کو عبدالستار افغانی نے اپنے لئے اعزاز اور سعادت قرار دیا تھا
میں تو یہ کہتا ہوںکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس شہر کی خدمت پر جو دومرتبہ مامور کیا، وہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز اور سعادت تھی۔ کراچی کی تاریخ میں سن 1933سے آج تک یہاں میئر شپ کا نظام رہا ہے۔ کوئی ایک بھی میئر چاہے وہ ایک سال کا میئر ہو، چاہے چار سال کا ہو۔ کوئی میئر دومرتبہ کامیاب نہیں ہوا۔ اللہ نے اس غریب کویہ توفیق دی۔ ہم نے بڑے بڑے کروڑ پتیوں کو شکست دے کر دو مرتبہ اس شہر کی میئر شپ کو حاصل کیا۔ لوگ جانتے ہیں کہ جہاں پیدا ہوا، وہیں آج بھی رہتا ہوں۔ میں نے کوئی کوٹھیاں نہیں بنائیں یا کسی اور جگہ جاکر آباد نہیں ہوا۔میں غریب ہوں مگر مجھے پیسے سے محبت نہیں ہے۔ میں بک نہیں سکتا، نہ ٹو ٹ سکتا ہوں۔ کوئی طاقت نہیں، اللہ پاک کے سوا۔ اصل میں حرص، طمع اور خوف۔ یہ تین چیزیں ایسی ہیں، اگر ان سے انسان بچے اور اپنے دامن کو آلودگیوں سے پاک رکھے تو اس سے کامیاب کوئی نہیں ہوسکتا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں آج ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہتا ہوں۔ اگر ایک کالے پیسے کی بات مجھ پر آتی ہے تو میں اپنا سر قلم کرانے کو تیار ہوں۔ ایک پیسہ بھی اِدھر اُدھر نہیں ہونےدیا اور نہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ میئرشپ کے پہلے اور دوسرے دور میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ پبلک ڈیلنگ بھی سکھائی، لوگوں سے بات کرنے کا ڈھنگ بھی سکھایا ہے۔ لوگوں کی بات سننے کا شوق بھی دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے صبر وبرداشت کی نعمت دی۔ مجھ میں صبر کی بڑی کمی تھی، بلکہ میں جذباتی آدمی تھا"۔
انہوں نے دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ لیاری کے علاقے سے منشیات کے خاتمے کی جدوجہد کی اور ساری عمر اس کے خلاف برسر پیکار رہے۔ اپنے میئر شپ کے زمانے میں وہ اس علاقے سے منشیات کا بڑی حد تک خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
محنت تو بہت لوگ کرتے ہیں۔ تن من دھن سے کام کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ اصل کال تو ٹیم تشکیل دینے والوں اور لوگوں سے اُن کی صلاحیت کے مطابق کام لینے والوں کا ہے۔ افغانی صاحب لوگوں سے کام لینے کا ہنر جانتے تھے۔ وہ بحیثیت میئر بہت بااختیار تھے لیکن انہوں نے اپنی ذات میں اختیارات کے ارتکاز کو کبھی پسند نہیں کیا۔پہلی مرتبہ میئر بننے کے کچھ عرصے بعد ہی کے ایم سی کونسل سے ایک قرارداد منظور کرائی اور اس کے ذریعے انہوں نے اپنے بہت سارے مالی اور انتظامی اختیارات اپنے ماتحت افسروں کو سونپ دیئے۔
انہوں نے اپنے دور میں اپنی حکمت، تدبیر، ایمانداری اور دیانت داری کی مدد سے بلدیہ کراچی کا کروڑوں کا بجٹ اربوں تک پہنچایا۔ کراچی کے حقوق کے لئے وہ سب سے بات کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔ کراچی کی ترقی کے لئے انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ مل کرکام کیا۔
قومی اسمبلی کی رکنیت
اکتوبر سن2002کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 250سے عوام نے ایک بار پھر ان پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیااور انہیں بھاری اکثریت سے قومی اسمبلی کا رکن منتخب کیا۔ قومی اسمبلی کا رکن بننے کے بعد
بھی انہوں نے کوئی مراعات نہیں لیں اور اپنے آخری وقت تک وہ عوام الناس کی خدمت انجام دیتے رہے۔
وفات
جگر کے عارضے میں مبتلا تھے اور بالآخر ہفتہ ۱۳شوال المکرم۱۴۲۷ھ مطابق 4نومبر سن2006 کی شب اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ مرحوم نے ساری زندگی ایمانداری اور دیانتداری سے گزاری۔ وہ ایک درویش صفت انسان تھے کہ جن کے انتقال کے بعد مخالفین نے بھی ان کی تعریف کی۔ ان کی زندگی ایسی شمع کی مانند تھی، جس نے ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کے لئے راہ روشن رکھی ہے۔
عبدالستار افغانی مرحوم کے جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔عبدالستار افغانی نے کراچی شہر کی دل وجان سے خدمت کی۔ وہ راہِ حق کے مسافرتھے حق کی راہ جنت پر منتج ہوتی ہے۔
اولادیں
عبدالستار افغانی کی سات اولادیں تھیں۔ اپنے بچوں کے بارے میں وہ کہتے تھے
"میرا ایک بچہ عبدالخالق افغانی جھنڈا لگاتے ہوئے شہید ہوگیا۔ اس نے گریجویشن کیا تھا اور الائیڈ بینک میں ملازم تھا۔ دوسرے بیٹے عبدالعزیز افغانی نے میرین انجینئرنگ میں کیا اور پی این ایس سی میں ہے۔ عبدالصمد افغانی اسٹیٹ ایجنسی کا کام کرتا ہے۔ جبکہ چوتھا بیٹا عبدالوحید افغانی ایک نجی بینک میں ملازمت کرتا ہے۔ میں اولاد کے معاملے میں نہ زیادہ سختی کا قائل ہوں اور نہ ہی بے جا لاڈ پیار کا۔ کوشش کی کہ متوازن رویہ رہے۔ میں نے اللہ کے فضل وکرم سے اپنے بچوں کو جو راستہ دکھایا ہے، اگر وہ اس راستے پر چلیں گے تو انشاء اللہ دنیا بھی پائیں گے اور دین بھی۔ میری اولادیں میرے جیسے ذہن کی مالک ہیں۔ جس طرح میں سوچتا ہوں، میرے بچے بھی اسی ذہن کے ہیں "۔
والدہ سے محبت
وہ اپنی والدہ کے زیادہ قریب رہے۔ وہ ہمیشہ اپنی والدہ کے پیر چومتے تھے۔ جب گھر سے باہر جاتے تو لازماً اُن کے پیر چوم کر جاتے تھے اور وہ بڑی خوش ہوتی تھیں۔ وہ اپنی والدہ سے کہتے کہ آپ سے محبت کے اظہار کا یہی ایک طریقہ ہے۔
حسن اخلاق
عبدالستار افغانی کی کامیابی کا بڑا راز ان کا حسن اخلاق اور رویہ تھا، وہ نہ صرف عام شہریوں سے انتہائی تپاک سے ملتے اور ان کی شکایات کا ازالہ کرنے کی یقین دہانی کراتے، بلکہ انہیں افسروں اور عملے سے کام لینے کا گُر بھی آتا تھا۔ اس لئے وہ ہر ایک کو اپنا ماتحت سمجھ کر مخاطب نہیں کرتے تھے بلکہ مشفقانہ اور برادرانہ لب ولہجہ اختیار کرتے۔ لوگوں نے انہیں غصے کے عالم میں بہت کم دیکھا لیکن اس صورت میں بھی وہ زبان سے گرا ہوا لفظ نہیں نکالتے تھے۔ وہ اکثر موقع نکال کر اچانک معائنہ کیلئے پہنچ جاتے مگر کبھی ماتحتوں سے اس طرح مخاطب نہ ہوتے کہ کسی کی دل آزاری ہو۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے دور میں ادنیٰ کارکن سے لے کر اعلیٰ افسر تک ان کی بات پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش کرتے۔ انہوں نے کبھی کسی ناجائز کام کے لئے دباؤ ڈالا اور نہ کسی کی ایسی سفارش قبول کی۔ صرف یہی نہیں، ان کے دوست احباب، یہاں تک کہ صاحبزادوں تک کو بھی یہ اجازت نہ تھی کہ وہ سرکاری کاموں میں کسی طرح مخل ہوں یا ان کا نام استعمال کریں۔ یہ وہ اوصاف ہیں، جن سے فی زمانہ اکثر مقتدر شخصیات محروم نظر آتی ہیں۔
سادگی
عبدالستار افغانی اور ان کے اہل خانہ نے ہمیشہ سادگی کی زندگی گزاری۔ بقول افغانی صاحب کے:
"ہم اصل میں عیش پسند لوگ نہیں تھے۔ہم نے ہمیشہ سفید پوشی پر، سادہ کھانوں پر گزاراکیا ہے۔ نمود ونمائش اور دکھاوے پر کبھی خاندان کو قائم نہیں کیا۔ ہمیشہ یہ کہا کہ ہم غریب ہیں۔ سفید پوش لوگ ہیں۔ ہم اپنی عزت بھی بچاتے ہیں اور کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلاتے اور اپنے اخراجات پورے کرنے کا حوصلہ بھی ہے۔ اسی ذہن کے ساتھ اپنے خاندان اور اولادوں کی پرورش کی ہے اور آج بھی اس کے اثرات ہیں "۔
جراء ت مندی اور بے باکی
عبدالستار افغانی بے باک اور جراء ت مند تھے۔ ایک بار جنرل ضیاء الحق کو اہلیان کراچی کی جانب سے فرئیر گارڈن میں استقبالیہ دیا گیا۔ اس میں میئر کی حیثیت سے افغانی صاحب کو استقبالیہ خطاب کرنا تھا۔ گورنر سندھ لیفٹننٹ جنرل ایس ایم عباسی کی جانب سے انہیں لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کو دی گئی۔ انہوں نے چند جملے اس تقریر میں سے پڑھے، پھر اسے ایک طرف رکھ کر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کراچی کے مفاد کے خلاف غیر منصفانہ سلوک پر بھرپور روشنی ڈالی جس پر گورنر صاحب بہت ناراض ہوئے تھے۔
بھاری بھرکم شخصیت، بلند آوازاور یادداشت:
عبدالستار افغانی تھے تو افغانی لیکن لیاری کے لوگوں کا معروف سنگ وآہنگ رکھتے تھے، مگر نقوش نہیں۔ لحیم شحیم جسم اور بھاری بھرکم شخصیت کے مالک تھے۔ قد ایسا کہ سیکڑوں انسانوں سے بلند تر، دور ہی سے نظر آجاتے تھے۔ رہی آواز تو وہ بھی توانا، بغیر مائک سیکڑوں کی حاضری ان کا ایک ایک لفظ سن لیا کرتی تھی۔لوڈشیڈنگ کراچی کی بیماری ہے۔ ایسے دن اگر بلدیہ عظمیٰ کا اجلاس ہوتاتھا تو کونسلر چھوڑ، گیلری میں بیٹھے سامعین بھی کبھی شاکی نہیں رہے کہ آواز نہیں پہنچ رہی۔
انہیں پرانی پرانی باتیں اور تاریخی معلومات بھی ازبر تھیں جن کا حوالہ بڑی خوش اسلوبی سے دیا کرتے تھے۔ اسی طرح اگر کسی سے ایک دفعہ ملاقات ہوگئی تو بالعموم اس کانام یاد رہتا تھا۔
عبدالستار افغانی کےسینے میں کراچی کی تاریخ محفوظ تھی۔ کئی لوگوں نے ان سے اس بات کا اظہار کیا کہ اپنی یادیں ان کو کسی کتاب میں محفوظ کرنا چاہیئے۔ وہ اپنے آخری وقت تک بلا کا حافظہ رکھتے تھے۔ شخصیات، واقعات، منظر اور پس منظر ان کے ذہن میں محفوظ رہتا تھا۔
صاف گوئی
عبدالستار افغانی عہدے، مقام، حیثیت اور پوزیشن سے بے نیاز انسان تھے۔ بلکہ سامنے والے کی کسی پوزیشن سے متاثر ہوئے بغیر کھل کر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی ہمت وحوصلہ رکھتے تھے۔ انہیں اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ کا استعمال کرتے کم ہی کسی نے دیکھا تھا۔ کھلی، دو ٹوک بات چاہے وہ کسی کو بری لگے، ان کی شخصیت کا نمایاں ترین وصف تھا۔
پیشے کے اعتبار سے سیلز مین، لیکن کسی بھی عوامی لیڈر سے زیادہ عوامی خصائص کے ساتھ ساتھ بارعب بھی تھے۔ لوگ ان سے ذرا سنبھل کر بات کرتے تھے۔ اگر کوئی بات انہیں غیر مناسب معلوم ہوتی تھی تو سیاسی انداز اختیار کرنے کے بجائے کھڑتل ٹوک دیا کرتے تھے، چاہے وہ رتبے میں بلند تر ہی کیوں نہ ہو۔ ذاتی مفاد صفر تھا، حتیٰ کہ آج بھی ان کی اولاد اسی لیاری میں زیدوبکر کی مانند رہ رہی ہے۔ کیا عجب شخصیت تھی، حلیہ میں عوامی، دل میں روحانی۔
مختلف زبانوں پر عبور
عبدالستار افغانی مرحوم کی مادری زبان فارسی تھی۔ وہ اردو، انگریزی، فارسی، پشتو، بلوچی، براہوی اور سندھی پر پوری مہارت اور ملکہ رکھتے تھے۔ کبھی کبھار تذکرہ ہوتا کہ زبانوں کے معاملے میں افغانی صاحب پاکستان ہیں۔ پاکستان میں زبانیں بولی جاتی ہیں، وہ روانی کے ساتھ بول سکتے تھے۔ ان کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کا کئی زبانوں پر عبور تھا اور لیاری جیسے علاقے میں جہاں ملک کے ہر علاقے کی زبانیں بولنے والے سادہ دل شہری آباد تھے، انہیں افغانی کی صورت میں ایک حقیقی رہنما میسر آیا تھا۔
دین داری
عبدالستار افغانی صوم وصلوۃ کے پابند تھے۔ اذان کا وقت ہونے سے پہلے ہی وہ مسجد کی جانب جاتے نظر آتے۔ پہلی صف میں امام کے پیچھے دائیں یا بائیں ہی نظر آتے۔ آخری رمضان جو شدید بیماری کے عالم میں گزرا، ڈاکٹر معرا ج الہدیٰ صدیقی سے ان کے بچوں نے کہا کہ بابا کو کہیں، وہ سارے روزے رکھ رہے ہیں۔ وہ رمضان میں افغانی صاحب کے پاس گئے۔ وہ کمزوری کے اس عالم میں تھے کہ بستر سے اٹھنا بھی ممکن نہ تھا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کو دیکھتے ہی کہنے لگے کہ روزے اس لئے رکھ رہا ہوں کہ کیا پتہ اگلا رمضان مل سکے گا یا نہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر معراج کو ان سے روزے چھوڑنے کی درخواست کرنے کہ ہمت نہ ہوئی۔
اچھے مقرر
عبدالستار افغانی اچھے مقرر تھے۔ وہ جماعت کے جلسوں میں، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اجلاسوں اور قومی اسمبلی کے ایوان میں جذباتی انداز میں بلا کسی خوف اور تردد خطاب کرتے۔ ان کی تقریر لوگ خاموشی سے سنتے۔ فوجی آمریت، سندھ میں تعصب کی آگ، کراچی میں ہونے والی دہشت گردی اور قتل کی وارداتیں اور بھتہ خوری، حکومت کی نااہلی اور غفلت، کراچی کے بلدیاتی اور شہری مسائل ان کی تقریروں کا خاص موضوع ہوتے تھے۔ عبدالستار افغانی کو اپنا مافی الضمیر پر زور طریقے سے ادا کرنے کی مہارت تھی۔ وہ ایک اچھے خطیب تھے۔ ان کا خطاب غیر ضروری باتوں سے پاک ہوتا تھا۔ موضوع پر جچا تلا اظہار خیال کرتے تھے۔
اختتامیہ
عبدالستار افغانی کی دیانتداری کا ذکر تو ان کے مخالفین بھی بڑے احترام کے ساتھ کرتے ہیں۔ لیاری میں ان ک وہ چھوٹا سا فلیٹ اب ایک مثال بن گیا ہے۔ میئر بننے سے قبل لیاری کے جس چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے، بعد میں بھی اسی فلیٹ میں رہے۔ پھر سن 2002کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کی امیدوار نسرین جلیل کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن بنے تو بھی اسی فلیٹ میں رہائش تھی۔اور
جب ان کا انتقال ہواتو ان کی میت بھی اسی فلیٹ سے اٹھائی گئی۔انہوں نے دیانتداری کا اتنا اونچامعیار اور پیمانہ سیٹ کردیا تھا کہ جسے سر اٹھا کر دیکھنے سے ہی لوگوں کی "دستار"گرپڑتی ہے۔ اپنے میئرشپ کے دور میں انہوں نے وہ حاصل نہیں کیا جو اس منصب پر بیٹھنے والے کرتے ہیں، اس معاملے میں بھی وہ بے نیاز ہی رہے۔ ایسی مثالیں بہت کم نظر آتی ہیں، خصوصاً پاکستان کی سیاسی تاریخ میں۔
حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا
عبدالستار افغانی ایک شخص نہیں، ایک کردار اور روایت کا نام ہے۔ آج وہ سادگی کا مرقع اور عظیم شخصیت ہمارے درمیان نہیں، لیکن اس کی زندگی کے انمٹ نقوش ہمارے دلوں میں بڑے گہرے ہیں اور یہ نقوش شہر کراچی سے کبھی ختم نہیں ہوسکیں گے۔ غریب گھرانے میں آنکھ کھولنے والا عبدالستار افغانی کراچی جیسے شہر کا دومرتبہ میئر بننے کا اعزاز حاصل کرگیا اور یہ اعزاز آج تک کسی دوسری شخصیت کے حصے میں نہیں آیا۔ ایک ایسے ماحوال میں جہاں سیاست خدمت کے بجائے دولت جمع کرنے کا نام قرار پائی ہے وہ بڑا اجنبی سا محسوس ہوتا ہے کہ جو شخص آٹھ سال تک کراچی کا میئر رہا ہو، وہ جب میئر منتخب ہوا تو لیاری جیسے پسماندہ علاقے میں 60گز کے چھوٹے سے فلیٹ کی چوتھی منزل پر رہائش پذیر تھا اور جب میئر شپ سے فارغ ہوا تب بھی وہ اسی فلیٹ کا باسی اور مکین تھا۔میئر شپ نے اس کی جھولی کو انسانوں کی خدمت، محبت اور دعاؤں سے مالامال کیا تھا اور یہی اس کے نزدیک ایک انتہائی قیمتی اثاثہ تھا۔
موت ایک حقیقت ہے اور زندگی موت کی امانت، لیکن عبدالستار افغانی ایک ایسی شخصیت تھے، جس کو دیکھ کر کہنے والے کہتے ہیں کہ زمین گناہوں سے بھر گئی ہے لیکن کچھ ہیں جن کی وجہ سے بارش برستی ہے، فصلیں اگتی ہیں، انسانوں پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے، افغانی صاحب کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔

shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 112337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.