کیا آرٹس کے مضامین کی اہمیت نہیں ہے؟

ہمارے تعلیمی حلقوں میں خاص طور پر اور پورے معاشرے میں عام طور پر یہ سوچ نہایت شدت کے ساتھ سرایت کرتی جارہی ہے کہ فنون یعنی آرٹس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، صرف سائنس کی اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے اسکولوں، کالجوں، اور اکیڈمیوں نے آرٹس کے داخلے بند کر رکھے ہیں۔ ان کے ہاں صرف سائنس اور کامرس پڑھائی جا رہی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جب ان کے پاس آرٹس کے مضامین کا کوئی طالبِ علم داخلے کے لیے آتا ہےتو ان کو نہ صرف داخلہ نہیں دیتے۔۔۔ کہ داخلے انھوں نے پہلے سے بند کر رکھے ہوتے ہیں۔۔۔۔ بلکہ دو چار نصیحتیں بھی جھاڑ دیتے ہیں کہ تم نے آرٹس کیوں لی۔آرٹس کی کوئی اہمیت نہیں۔آرٹس پڑھنے والوں کو کوئی نوکری نہیں ملتی۔آرٹس تو وہ بچے پڑھتے ہیں، جو نکمے اور پڑھائی میں کم زور ہوتے ہیں۔ تم نے تو اپنی زندگی برباد کر دی وغیرہ وغیرہ۔
درج ذیل نکات سے آرٹس کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
1۔ بہ نظر ِ غائر دیکھا جائے تو جس طرح سائنس کی اہمیت ہے، بعینہ اسی طرح آرٹس کی اہمیت ہے۔معاشرے کو جس طرح ایک انجینیر، ڈاکٹرکی ضرورت ہوتی ہے، بالکل اسی طرح ایک استاد،قانون دان، صحافی، مصنف، سیاست دان، معیشت دان وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ تمام شعبہ جات آرٹس سے نکلتے ہیں۔اس لیے سائنس اور آرٹس ۔۔ دونوں کی اہمیت تقریباً برابر برابر ہے۔
2۔ اگر سائنس نے نیوٹن، آئن اسٹائن، چارلس ڈارون، مادام کیوری، گلیلیو، فیثا غورث، ارشمیدس ، ایڈیسن، گراہم بیل وغیرہ جیسے شہرہ آفاق سائنس دانوں کو جنم دیا تو آرٹس نے بھی کارل مارکس، ارسطو، افلاطون، سقراط، آدم اسمتھ، الفریڈ مارشل، ولیم شیکسپئر، جان ملٹن، قائدِ اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، امام غزالی، ابن رشد، سعدی، رومی وغیرہ جیسے لوگ دنیا کو دیے۔ جس طرح سائنس دانوں نے انسانیت کی خدمت کی، بالکل اسی طرح آرٹس کے ماہرین نے انسانوں کو فائد ہ پہنچایا۔ اس لیے جس طرح سائنس کی اہمیت ہے، اسی طرح آرٹس اہم ہے۔
3۔ اگر سائنس پڑھنے والوں کو اچھی نوکری ملتی ہے توآرٹس پڑھنے والوں کو بھی ملتی ہے۔ اگر ایک شخص ایم اے انگریزی کرے اور دوسرا ایم ایس سی فزکس کرے تو دونوں کی تعلیم برابر سمجھی جاتی ہے۔ دونوں کو ایک ہی گریڈ کی نوکری مل سکتی ہے۔ دونوں کے لیے نوکری کے برابر کے مواقع ہیں۔ تعلیمی اداروں میں آرٹس اور سائنس دونوں کے مضامین پڑھانے والوں کی ایک جیسی اہمیت ہوتی ہے۔ اس لیے شروع سے ہی طلبہ کے ذہنوں میں یہ سوچ راسخ کر دینا کہ سائنس اہم ہے، آرٹس نہیں، ظلم ِ عظیم ہے۔

4۔ حقیقت یہ ہے کہ سی ایس ایس اور کمیشن کے امتحانات میں آرٹس کے مضامین پڑھنے والے ٹاپ کر جاتے ہیں اور سائنسی مضامین پڑھنے والے پیچھے رہ جاتے ہیں، کیوں کہ آرٹس پڑھنے والوں کی معلومات اچھی ہوتی ہیں۔ ان کے پاس دنیا جہاں کی معلومات ہوتی ہیں۔ انھیں معاشیات کی شد بد بھی ہوتی ہے اور وہ شہریت کی گھاٹیوں کی بھی سیر کر چکے ہوتے ہیں۔ اگر انھیں غالب کی نکتہ آفرینی کا پتہ ہوتا ہے تو وہ شیکسپیئرکے سانیٹ بھی پڑھ چکے ہوتے ہیں۔ اسلامک اسٹڈیز میں وہ قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ پڑھ چکے ہوتے ہیں۔انھیں تاریخ کا بھی علم ہوتا ہے۔ المختصر یہ کہ ان کی معلومات محدود نہیں ہوتیں۔ اس کے برعکس سائنس پڑھنے والے کی معلومات محدود ہوتی ہیں۔ سائنسی مضامین اتنے وقت طلب ہوتے ہیں کہ طلبہ کو ادھر ادھر جھانکنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ نہ خبر دیکھنے کا ، نہ اخبار پڑھنے کا، نہ انٹرنیٹ کی نگری پہ پھیلی دنیا جہاں کی معلومات پڑھنے اور دیکھنے کا۔ جب کہ آرٹس کا ایک اچھا طالبِ علم ادھر ادھر ضر ور جھانکتا ہے۔ اس کی نظر حالاتِ حاضرہ پر ضرور رہتی ہے، کیوں کہ اس کے چنے ہوئے مضامین نہ صرف آسان اور کم وقت طلب ہوتے ہیں،بلکہ انھیں اھر ادھر کی معلومات اکٹھی کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اگر وہ معاشیات پڑھ رہے ہوتے ہیں تو ان کا دل چاہتا ہے کہ انھیں قومی اور بین الاقوامی اقتصادیات کا بھی علم ہو۔ اگر وہ مدنیات پڑھ رہے ہوتے ہیں تو اقوام ِ عالم کی تہذیبوں اور ثقافتوں کے بارے میں جاننے کی حتی المقدر کوشش کرتے ہیں۔ اگر وہ تاریخ پڑھ رہے ہیں تو تاریخ ِ عالم کو بھی ذرا ذرا سا جھانک لیتے ہیں۔ اس کے بر عکس سائنس کے مضامین میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی ۔ سائنس پڑھنے والے کو صرف سائنس کا علم ہوتاہے، دنیا جہاں کی معلومات اس کے پاس نہیں ہوتیں۔
5۔ اگر آرٹس کے مضامین کی اہمیت نہ ہوتی تو انگریزی، اردو، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے مضامین گریجویشن تک لازمی مضامین کے طور پر نہ پڑھائے جاتے۔ ان کی اہمیت کو مدِ نظر رکھ کر ہی انھیں لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اگر یہ اہم نہ ہوتے تو ان کو لازمی مضامین کے طور پر نہ پڑھا یا جاتا۔ پاکستان کے تمام بورڈز اور جامعات اس اصول پر عمل پیرا ہیں کہ اگر کوئی طالبِ علم محض ایک مضمون میں بھی فیل ہو جائے تو اسے ڈگری نہیں ملتی۔ چاہے وہ مضمون آرٹس کا ہی کیوں نہ ہو۔

6۔ آرٹس میں ایک مضمون انگریزی کا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ انگریزی کا مضمون ہمارے لیے کتنا اہم ہے۔ آج کل ہر جگہ انگریزی کی بالا دستی ہے۔ اگر کسی کو انگریزی نہیں آتی تو اس کے لیے اعلیٰ تعلیم کے زینوں پر چڑھنا شاید نا ممکن ہے۔ کیوں کہ کتابوں سے لے کر انٹرنیٹ کی نگری تک ۔۔۔ہر جگہ انگریزی کا راج ہے۔ انگریزی کے بغیر سی ایس ایس اور کمیشن جیسے امتحانات میں پاس ہونا نا ممکن ہے۔

7۔ تعلیم شوق اور دل چسپی کو مد ِ نظر رکھ کر حاصل کرنی چاہیے۔ بہت سارے بچوں کو سائنسی مضامین کا بالکل شوق نہیں ہوتا۔ ان کو فزکس سے زیادہ تاریخ میں دل چسپی ہوتی ہے۔ بہت سے بچے ریاضی سے بہت جلد اکتا جاتے ہیں، مگر ان کو شعر و شاعری سے شغف ہوتا ہے۔ بہت سے بچوں کو حیاتیات کی اشکال زہر لگتی ہیں، مگر ان کو تمام اہم معیشت دانوں کے قوانین از بر ہوتے ہیں۔ اب اگر ایسے بچوں پر زبر دستی سائنسی مضامین تھوپ دیے جائیں تو وہ بہت جلد اکتا جائیں گے اور دل سے نہیں پڑھیں گے۔ اس لیے ایسے بچوں کو ضرو ر بالضرور آرٹس کے مضامین پڑھنے چاہئیں۔
آخر میں چند گزارشات کروں گا۔
1۔ اساتذہ کو چاہیے کہ جو بچہ آرٹس لینا چاہے، اس کو لینے دیں۔ جو سائنس پڑھنا چاہے، اسے پڑھنے دیں۔
2۔ تعلیمی اداروں میں جس طرح سائنس اور کامرس کے مضامین پڑھائے جا رہے ہیں، اسی طرح آرٹس کے مضامین کی بھی کلاسز ہونی چاہییں۔
3۔ تعلیمی بورڈز کو چاہیے کہ وہ سائنس اور آرٹس کی فیس برابر رکھیں، تاکہ یہ شعور اجاگر ہو کہ دونوں کی اہمیت برابر ہے۔
4۔ جب بچہ جماعتِ نہم میں جائے تو اس سے ضرور پوچھنا چاہیے کہ وہ آرٹس لے گا یا سائنس۔ زبردستی اس پر سائنس کے مضامین تھوپ دینا اچھی بات نہیں ہے۔

Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 146225 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More