تعلیم کو بربادی سے بچاؤ

پنجاب میں اس وقت باون ہزار سے زیادہ سرکاری یا پبلک سکول کام کر رہے ہیں۔جبکہ پرائیویٹ سکولوں کی تعداد ساٹھ ہزار سے کچھ زائد ہے۔پبلک سکولوں میں پڑھنے والے طلبا کی تعدادایک کروڑ دس لاکھ سے زائد اور پرائیویٹ سکولوں کے طلبا کی کل تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔یوں پبلک اور پرائیویٹ سکولوں کے بچوں کی کل تعداد دو کروڑ دس لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔پرائیویٹ سیکٹر میں ان سکولوں کے علاوہ بھی کئی ایسے سکول ہیں جو کسی حساب میں نہیں آتے ، چھوٹے چھوٹے پسماندہ علاقوں میں میٹرک یا ایف اے پاس بچیاں ایک گروپ کی صورت بہت معمولی فیس میں محلے کے بچوں کو سکول جیسی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ اس بدترین مہنگائی کے زمانے میں بھی پسماندہ بستیوں میں ایسے سکول ہیں کہ جہاں فیس سو یا دو سو روپے ہے اور ٹیچر کو تنخواہ ڈیڑھ دو ہزار سے زیادہ نہیں ملتی۔ان سکولوں کے بچوں کو بھی اگر شمار کر لیا جائے تو سکول جانے والے بچوں کی تعداد سوا کروڑ سے لے کر ڈھائی کروڑ تک پہنچ جائیگی۔

حکومت نے Covid-19کے پھیلاؤ سے بچنے کے لئے آن لائن ایجوکیشن کا نظام شروع کیا ہے۔ سکولوں میں پڑھنے والے دو ڈھائی کروڑ بچوں میں سے دو تین فیصد بچے ایسے ہیں جن کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہے اور وہ چند معروف پرائیویٹ سکول سسٹم سے علم حاصل کرتے ہیں ۔ان طلباکے گھر میں انٹر نیٹ موجود ہے ، کئی کئی لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر موجود ہیں۔بڑے بچے اگر انہیں دلچسپی ہو تو اس آن لائن ایجوکیشن سے کسی حد تک استفادہ حاصل کر لیتے ہیں مگر زیادہ تر کو دلچسپی ہی نہیں۔جو چھوٹے ہیں ان کی پڑھی لکھی مائیں ہمہ وقت ان کے ساتھ بیٹھی ،آدھے سے زیادہ کام ان کو کر کے دیتی ہیں۔ یہ ننھے بچے بھی کسی حد تک پڑھتے ہیں مگر ان کی مائیں ان لائن ایجوکیشن کو زیادہ انجوائے کرتی ہیں۔ان لاکھ دو لاکھ کے قریب طلبا کو نکال دیا جائے تو بقیہ دو ڈھائی کروڑ سے لگ بھگ طلبا کا مستقبل کیا ہے۔یہ لوئر کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے بچے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ان بچوں کے گھر میں راشن نہیں، کپڑے نہیں اور سچ تو یہ ہے کہ جس کو ایک مکمل گھر کہتے ہیں وہ گھر بھی انہیں میسر نہیں۔ لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کہاں سے آئے گا۔ہم یکساں نظام تعلیم کی بات تو کرتے ہیں لیکن یکساں مواقع فراہم کرنے کی بات نہیں کرتے۔پبلک سکولوں کے سو فیصد طلبا اپنے اس جیسے نامساعد حالات کی وجہ سے کسی بھی قسم کی تعلیم سے محروم ہیں۔یہ طبقاتی نظام ہے اور اس نظام میں حکومتیں عام آدمی کے بارے میں نہ سوچتی ہیں اور نہ ہی انہیں سوچنے سے غرض ہوتی ہے۔ پالیسی ساز وہی حکومت کے پروردہ لوگ ہیں جو کبھی کلاس روم میں نہیں گئے اور شاید کلاس روم میں جانا انہیں اپنی توہین نظر آتا ہے۔ ہاں البتہ بلی کوبھیگا دیکھ کر بارش کا اندازہ لگانے میں انہیں کمال مہارت حاصل ہے۔ انہیں احساس ہی نہیں کہ کیسے کیسے ذہین بچے غربت کی نظر ہو جاتے ہیں۔ نالائق یا نا تجربہ کار سیاستدانوں کو خوش کرنے کا فن وہ خوب جانتے ہیں۔ ان کی موجودہ پالیسیوں کے باعث موجودہ حالات میں ان بچوں کے پاس جو لولی لنگڑی پڑھنے کی سہولت تھی وہ بھی ختم ہو گئی ہے۔ایک سال پہلے ضائع ہو چکا ابھی نہ جانے کتنے برس اسی طرح بیت جائیں گے۔

امریکہ اور یورپ میں بڑے بڑے پلازہ، ہوٹل اور کمرشل مقامات مکمل بند ہیں ۔ وہاں سب خریداری آن لائن ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔مگر سکول SOPsکے تحت پوری طرح کام کر رہے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ بند سکول ایک پوری نسل کی بربادی کے پیامبر ہوتے ہیں۔ ہم الٹا کام کر رہے ہیں۔ یہاں بڑے بڑے پلازے، ہوٹل اور کمرشل مقامات تو کھلے ہیں مگر سکول پوری طرح بند ہیں۔ ہم خریداری کو آن لائن نہیں کر سکتے کہ بڑے بڑے کاروباری تباہ ہو جائیں گے۔ ہم نے ایجوکیشن آن لائن کر دی ہے۔ ہمیں نسلوں کی بربادی کا احساس ہی نہیں۔

میں سلام پیش کرتا ہوں دیہاتوں اور چھوٹی آبادیوں میں کام کرنے والے ان سکولوں کو جو طالب علم سے سو یا دو سو روپے کے لگ بھگ فیس لیتے ہیں ۔ جن کی اساتذہ ہزار دو ہزار میں کام کرتی ہیں۔ سکول کے مالکان جو خود بھی پڑھاتے ہیں، گھر کے کمرے بھی سکول کو دیتے ہیں ،ان کی کل آمدن بھی پانچ سات ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ کسی بھی رجسٹریشن سے بے نیاز ، کرونا کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یہ سکول آج بھی پوری طرح کام کر رہے ہیں۔ استاد کی یہ معمولی تنخواہ اور سکول مالک کی یہ معمولی آمدن آج کے اس مہنگائی اور نفسا نفسی کے عالم میں خدمت خلق کے سوا کچھ نہیں۔ اﷲ کرے کسی سرکاری اہلکار کی مکروہ نظر ان اداروں پر نہ پڑے ورنہ ایک تو غریبوں کے جو چند بچے ان بے یارومددگار سکولوں میں پڑھ رہے ہیں، وہ غریب بچے بھی اس تعلیم سے بھی محروم ہو جائیں گے۔دوسرا وہ بچیاں جو ڈیڑھ دو ہزار تنخواہ پر کام کر رہی ہیں یا وہ سکول مالکان جو فقط پانچ چھ ہزار آمدن کے لئے اپنا بہت کچھ قربان کر رہے ہیں۔ ان کے گھروں کے چولہے جلانے میں اس معمولی آمدن کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہمارے سرکاری اہلکار ان کی مجبوریاں نہ تو جان سکتے ہیں اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

ساری یونیورسٹیاں چاہے وہ سرکاری ہوں یا پرائیویٹ ڈگریاں بانٹ رہی ہیں۔ ہمارے بچے بھی اک کاغذمیں ہی دلچسپی لیتے ہیں انہیں علم سے نہیں ڈگری سے غرض ہے۔ایسے حالات میں جو نسل تیار ہو گی وہ تو تعلیمی معاملات میں ہر طرح سے بانجھ ہو گی۔اہل درد بے بسی سے ساری صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں مگر کچھ نہیں کر سکتے۔ہمارے وزیر تعلیم خوش ہیں کہ چھٹیوں میں جو ایک آدھ دن وقفہ آتا ہے اور طالب علم اپنی درسگاہ کا دیدار کرتے ہیں تو ان کے حق میں زبردست نعرے بازی کرتے ہیں کہ جب تک سورج چاند رہے ، زندہ تیرا نام رہے گا۔جناب وزیر تعلیم صاحب ! خدارا تعلیمی نظام کی بحالی کے بارے میں سوچیں۔ وگرنہ آپ کا نام تاریخ میں زندہ تو رہے گا مگر ان لوگوں کے ساتھ زندہ رہے گا جنہوں نے قوموں کو برباد کیا۔ بربادی بہت ہو چکی ،اسے جس حد تک ممکن ہو روک لیں ورنہ تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی۔

 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444735 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More