مسلم شخصیات کے دفاتر اور گھروں پر چھاپے،حکومت کی بوکھلاہٹ کا پیش خیمہ

محمودپراچہ پر کاروائی:شاید فرقہ پرستوں کی پول کھلنے لگی تھی

محترم قارئین کرام: کالے قانون سی اے اے اور این آرسی کے خلاف دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہوئے شاہین باغ احتجاج کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔۔۔۔اور اب کچھ دنوں بعد فساد کو بھی ایک سال ہوجائے گا۔ ۔۔۔لیکن اس کی آڑ میں جس طرح سے بے قصوروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیااور ان کے ساتھ انتہائی وحشیانہ سلوک جیلوں میں جاری ہے۔ جن کی رہائی کے لئے مختلف تنظیمیںاور مشہور وکلاء حضرات کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔اور وہ انشاء اللہ بہت جلد انہیں رہا بھی کروالیں گے لیکن دہلی پولس اور آر ایس ایس اپنی پول کھلتی دیکھ آئے دن مسلم شخصیات کے دفاتر و مکانات پر چھاپے مار رہی ہے، خالد سیفی، شرجیل امام، آصف، عمر خالد سے لیکر گل فشاں تک کئی ایک قیمتی مسلم نوجوانوںکو سلاخوں کو پیچھے ڈھکیل رہی ہیں، تبلیغی جماعت کے مولانا سعد صاحب کے خلاف ٹرائل چلایاگیا، پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے عہدیداروں کے یہاں چھاپے، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نمائندہ شخصیت کے یہاں بھی ایجنسیوں نے چھاپے مارے ۔۔۔

اور اب اسی چھاپہ مار سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے دہلی پولس نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو انصاف دلانے اور دہلی فسادات کے معاملات میں ماخوذ کئے گئے ملزمین کو انصاف دلانے کے لئے پوری تندہی سے مقدمات لڑ رہے معروف وکیل محمود پراچہ کے خلاف دہلی پولیس نے چھاپہ مار کارروائی کی ہے۔ دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے ان کے دفترواقع مشرقی نظام الدین پر چھاپہ مارتے ہوئے ان کا لیپ ٹاپ ضبط کرلیا اور کئی اہم دستاویز بھی ضبط کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ حالانکہ اس دوران مختلف صحافیوں کی جانب سے ٹویٹر پر پوسٹ ہونے والے ویڈیوز میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ محمود پراچہ نہ صرف تفتیشی ایجنسی سے تعاون کررہے ہیں بلکہ انہیں قانون کے مطابق عمل کرنے کی تلقین بھی کررہے ہیں۔ اس دوران وہ اپنے لیپ ٹاپ کو ضبط کئے جانےکے خلاف احتجاج بھی کرتے نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق لیپ ٹاپ کی جانچ کی جاسکتی ہے لیکن اسے ضبط نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہ ایک وکیل اور اس کے موکلین کے حقوق کی خلاف ورزی ہو گی ۔ اس کے باوجود دہلی پولیس کا افسر اُن کی بات نہیں مان رہا تھا۔۔۔۔۔ دہلی پولیس کے خصوصی سیل کے مطابق محمود پراچہ کے خلاف یہ کارروائی دہلی فسادات کے معاملوں میں اہم ثبوت حاصل کرنے اور ان کے دفتر کے ای میل کا میٹا ڈیٹا حاصل کرنے کے لئے کی جارہی ہے۔

پراچہ نےکارروائی کے دوران ہر طرح کا تعاون کیا لیکن انہوں نے افسران کو یہ یاد بھی دلایا کہ تلاشی وارنٹ میں کہیں بھی ایسا نہیں لکھا ہے کہ ان کا لیپ ٹاپ یا دیگر کوئی اہم چیز ضبط کی جاسکتی ہے۔ یہ بات وہ افسران کو سمجھاتے ہوئے بھی دیکھے گئے۔دوستو میں اپنی بات آگے بڑھائوں اس سے پہلے بتادینا چاہتا ہوں کہ محمود پراچہ نہ صرف ملک کے نامور وکیل ہیں بلکہ دہشت گردی کے معاملات میں ماخوذ کئے گئے متعدد نوجوانوں کے مقدمات انہوں نے لڑے ہیں اور انہیں انصاف بھی دلایا ہے۔ دہلی فسادات کیس اور سی اے اے مخالف معاملات میں بھی وہ نہایت سرگرمی اور عرق ریزی کے ساتھ عدالتوں میں مقدمات لڑ رہے ہیں جس سے کئی معاملات میں دہلی پولیس کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔

واضح رہے کہ محمود پراچہ کے دفتر پر یہ چھاپہ دوپہر میں ساڑھے بارہ بجے شروع کیا گیا لیکن اس دوران ان کا فون بھی ان سے لے لیاگیا تھا جس کی وجہ سے وہ کسی سے رابطہ نہیں کر پارہے تھے ۔ انہوں نے اس پر احتجاج بھی کیا لیکن انہیں ایک طرح سے نظر بند کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے دوپہر ۳؍ بجے کے بعد ہی میڈیا کو اس چھاپہ ماری کی بھنک لگی ۔ جب میڈیا کے نمائندے وہاں پہنچے تو انہیں بھی کسی سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ حالانکہ محمود پراچہ نے پولیس سے نہایت شائستگی کے ساتھ درخواست کی کہ وہ انہیں میڈیا سے ملاقات کرنے دیں لیکن پولیس نے یہ درخواست بھی رد کردی۔
اس دوران انہوںنے اپنے دفتر کی بالکونی پر کھڑے رہ کر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کی اور بتایا کہ کس طرح پولیس قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ کارروائی کررہی ہے۔ انہوں نے امکان بھی ظاہر کیا کہ جس طرح سے پولیس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہی ہے اسے دیکھتے ہوئے تو لگتا ہے کہ وہ انہیں بھی گرفتار کرسکتی ہے۔ اسی دوران پولیس آفیسر نے پھر سے آواز دی کہ وہ میڈیا سے گفتگو نہیں کرسکتے اس لئے بالکونی سے ہٹ جائیں۔ خیر وہ وہاں سے ہٹ تو گئے لیکن دہلی پولس اور آر ایس ایس انہیں مظلوم اوربے گناہ لوگوں کے کیس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہٹادینا چاہتی ہیں کیونکہ محمود پراچہ پوری ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ کیس لڑتے ہوئے ممکن ہے بہت جلد تمام کو رہا کرانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن ایسا آر ایس ایس اور بجرنگ دل کرنے نہیں دے گی۔

میرے عزیز دوستومحمود پراچہ نے کافی تحقیق کے بعد اب اس نتائج پر پہنچ چکے تھے کہ سی اے اے مظاہرین بے گناہ ہیں اور پولس قصوروار ہیں اور اس کے لئے محمود پراچہ نے خود دہلی فسادات علاقوں کا دورہ بھی کیا تھا انھوں وہ تمام حالات اور فساد زدہ لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ وہ اپنے کیسس میں یہ پروف کرنے والے تھے کہ کس طرح سے کالے قانون کی مخالفت کو ختم کرنے کے لئے ایک منظم سازش کے تحت فساد برپا کیاگیا۔

انھوں نے دیکھا تھا کہ جس مسجد میں آگ لگائی گئی ہے اس کے آس پاس ہندو آبادی نہیں تھی جس سے پتہ چلا کہ پولس والوں نے خود مسجد کا دروازہ توڑا اور مسجد میں آگ زنی کی۔پولس نے ہی وہاں گولی باری بھی کی جس میں کئی لوگوں کی جانیں بھی چلی گئیں۔محمود پراچہ سی اے اے کی مخالفت کررہے نوجوانوں کی گرفتاری کولے کراور پھر فسادکی آڑ میں ان کو گرفتارکرنے کے تعلق سے بارہا کہہ چکے ہیں کہ فساد راصل بی جے پی حکومت کا اسٹیٹ اسپانسر فساد تھا جس میں اب شک کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ فساد حکومت ہی نے پوری پلاننگ کے ساتھ کروایا ہے۔اوراہم فسادیوں کپل مشرا سمیت دیگر بی جے پی کے غنڈوں کو بچا کر اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے اور شرپسندوں کو بچانے کا کام کررہی ہے۔

محمود پراچہ نے کہا کہ یہ مسجدوں پر جو آگ زنی کی وجہ سے کالے دھبے ہیں در اصل حکومت کے منہ پر کالے دھبے ہیں ۔یہ کام ہندئوئوں نے نہیں کیا بلکہ پولیس اور آرایس ایس کے لوگوں نےیہاں آگ لگائی تھی۔پراچہ نےکہاکہ یہ پلاننگ سی اے اے اور این آرسی کے خلاف چل رہے احتجاجات کو ہٹوانے کی تھی ،اسی لئے اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں ،جس میں کپل مشرا اور دوسرے لوگ پیش پیش تھے جس کے بعد پوری پلاننگ کے ساتھ فساد کروایا گیا۔

پراچہ نے کہاکہ آخر کیا وجہ تھی کہ امریکی صدر ٹرمپ کے دورے کے وقت ہی دہلی میں فساد رونما ہوا؟۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ بی جے پی اندر سے دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی ہے ۔ایک بی جے پی کے لوگ ہیں اور دوسرے آرایس ایس کے تربیت یافتہ افراد ہیں اور دہلی فساد میں سرکار کے ان لوگوں کا ہاتھ ہے جو آرایس ایس سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ فساد دہلی اسٹیٹ مشینری نے کرایاہے ۔

پراچہ مزید بتاتے ہیں کہ پولیس نے فساد میں دو طرح کی بندوقوں کا استعمال کیاہے۔سوال یہ ہے کہ ایک پولیس والے کے پاس دوطرح کی بندوقیں کیوں تھیں؟۔ان کے پاس ایک بندوق سرکاری تھی اوردوسری بندوق غیر قانونی تھی جس کا فساد میں استعمال ہواہے۔۔۔۔۔ محمود پراچہ نے کہاکہ دہلی کا فساد پوری پلاننگ کے ساتھ کرایا گیاہے جس میں بے گناہوں کی جانیں گئیں اور مالی نقصان ہوا۔انہوں نے کہاکہ پولیس نے اس پورے معاملے میں ایک پارٹی کی طرح کام کیا اور پولیس کی گولی لگنے سے لوگوں کی جانیں گئیں۔اس لئے ہم یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ اس پورے معاملے میں ہم پولیس کے اعلیٰ افسران ،ڈی سی پی ،اور دیگر پولیس کے افسروں پر مقدمہ دراج کریں گے اور ان کو سزا دلواکر رہیں گے ۔
اور ہم اس تہہ تک پہنچ رہے ہیں حکومت کے کارندے چھاپہ مار کر ہمیں ڈرانا اور دھمکانا چاہتے ہیں لیکن ہم اس سے ڈرنے اور گھبرانے والے نہیں ہیں۔

میرے عزیز دوستومیں آپ کو ایک بار پھر بتادوں کہ ایڈوکیٹ محمود پراچہ دہلی فسادات میں مارے گئے مسلمانوں سمیت گرفتار مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کررہےہیں، ۔۔ اس سے پہلے بھی پراچہ سنگین عسکری و دہشتگردی کے الزامات کےتحت پھنسائے گئے مسلم نوجوانوں کے لیے لڑائی لڑچکے ہیں، جس میں وہ جمعیۃ علمائے ہند اور جماعت اسلامی ہند کے لیگل سیل کے ذریعے کام کرتےتھے ۔۔۔وہ دہلی فساد کے سرکاری اور سیاسی حقائق کو باہر لانے اور فساد میں سیاسی لوگوں کےخون آلود ہاتھوں کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے قانونی داؤ پیچ مرتب کرتے رہےہیں، جن لوگوں کو این۔آر۔سی اور شہریت قانون کےخلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے گرفتار کیاگیا ان میں سے مشہور نوجوان خاتون ایکٹوسٹ گل فشاں فاطمہ کی طرف سے بھی پراچہ کورٹ میں قانونی لڑائی لڑرہے ہیں ۔اور یقینا پراچہ صاحب تحقیق تحقیق کرتے کرتے وہاں تک ضرور پہنچ گئے ہوں گے جہاں سےان سیاسی غنڈوں کو گھسیٹ کر جیل میں ڈالا جاسکے۔اس لئے وہ وقت آنے سے پہلے ہی ان پر دبائو بنانے کے لئے دہلی پولس کی اسپیشل برانچ نے ان کے دفتر پر چھاپہ مار کر انہیں کمزور کرنے کی کوشش کی۔

انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی اور انہیں پھنسانے کی ہر ممکن کوشش میں ہے ۔

لیکن ہم پراچہ صاحب سمیت ، تمام وکلاء حضرات اوروہ تمام دانشوران قوم جو امت کا درد اپنے سینے میں رکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کی مدد بھی کرتے رہتے ہیں ان سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ بالکل بھی نہ ڈرےاور نہ ہی گھبرائیں۔کیونکہ ملک کے وہ تمام لوگ جواب تک زندہ لاش نہیںبنے ہیں اور قوم کے اوپر بوجھ نہیں ہیں وہ تمام کے تمام آپ کے ساتھ ہیں۔

۔۔۔اور پھر اللہ کہتا ہے کہ ومکرو ومکر اللہ واللہ خیر الماکرین۔۔۔انہیں کتنی بھی چالیں چلنے دو۔۔۔بہتر چال تو صرف اللہ ہی چلتا ہے۔ ۔۔اور ویسے بھی سچ بولنے لکھنے اور سچ جینے والوں کو تھوڑی بہت پریشانیاں تو آتی ہی ہیں۔۔۔۔لیکن دوستو ہمیں آپس میں مسلکی اور جماعتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک ہونا ہوگامتحد ہونا ہوگا۔اور محمود پراچہ جیسے تمام لوگ جن پر سرکاری چھاپہ ماری ہورہی ہے اس کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی تب کہیں جاکر ہم ان سے اور امت سے محبت کا صحیح معنوں میں حق ادا کرسکیں گے۔۔۔۔لہذا ہم تمام محمود پراچہ جیسے تمام حضرات کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ تمام کی ہر جانب سے حفاظت فرمائیں اور ان کی عمروں میں خوب برکتیں عطا فرمائیں۔ ۔۔اور ظالموں کوکیفر کردار تک پہنچادے۔
چلئے دوستو۔۔بولا چالا معاف کرا ۔۔۔زندگی باقی تو بات باقی۔۔۔۔۔اللہ آپ تمام کو اپنی حفظ وامان میں رکھیں۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
--
 

syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 46427 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.