بطور گورنر جنرل قائداعظم کے پاکستان کے ابتدائی دنوں میں کیے جانے والے اقدامات جو موجودہ حکمرانوں کے لیے ایک مثال ثابت ہوسکتے ہیں

image
 
قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل اپنے عہدے کا حلف 15 اگست 1947 کو اٹھایا ۔ وہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے جنہیں ایک طویل جدوجہد کے بعد دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی سربراہی کی ذمہ داری ملی تھی- کوئی پھولوں کا تخت نہ تھا بلکہ ایک کانٹوں کی سیج تھی ایک نوزائیدہ مملکت جو کہ اپنی ابتدائی سانسیں لے رہی تھی بے تحاشا مسائل کا شکار تھی-
 
قیام پاکستان کے ابتدائی دور کے بڑے مسائل
قیام پاکستان کے وقت بطور گورنر جنرل قائد اعظم کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان میں مہاحرین کی آباد کاری ، اداروں اور کام کرنے والے افراد کے نظام کی غیر موجودگی ، نئے آئین کی تیاری اور معاشی مسائل سر فہرست تھے- یہ سارے مسائل اتنے بڑے تھے کہ ان کو فوری طور پر حل کرنا ملک کی بقا کے لیے ضروری تھا اور اگر موجودہ مسائل کے تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ حکمران بھی ایسے ہی مسائل کا رونا روتے نظر آتے ہیں- ان مسائل کے حل کے لیے قائداعظم کے کیے گئے اقدامات نہ صرف ان کی بہترین فہم و فراست کا ثبوت تھے بلکہ موجودہ حکمرانوں کے لیے ایک مشعل راہ بھی تھے-
 
1: سرکاری عمائدین کو سادگی کی ہدایت
معروف خاتون رہنما بیگم شاہنواز کے مطابق قیام پاکستان کے وقت ملک کے خزانے میں بیس کروڑ روپے موجود تھے جبکہ اس وقت بلوں کی ادائیگی کے لیے ملک کو چالیس کروڑ روپے درکار تھے اس وقت میں قائد اعظم نے جو سب سے پہلا قدم اٹھایا وہ سادگی کا حکم تھا- جس پر نہ صرف وہ خود سختی سے عمل پیرا ہوئے بلکہ انہوں نے اس کی ہدایت تمام سرکاری اہلکاروں کو بھی کی تاکہ خزانے کے پیسے کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے-
 
2: حکومت کو غیر سیاسی کرنا
گورنر جنرل بننے کے بعد جب ان سے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کی درخواست کی گئی تو انہوں نے اس ذمہ داری کو سنبھالنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اب ان کے اوپر پورے ملک کی ذمہ داری ہے- اس وجہ سے وہ کسی ایک سیاسی پارٹی کی قیادت نہیں سنبھال سکتے ہیں اس کے علاوہ 15 اپریل 1948 کو پشاور میں سرکاری افسران سے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپ کی ذمہ داری حکومتی امور کو وفاداری اور ایمانداری سے انجام دینا ہے اور آپ کا کام کسی بھی سیاسی رہنما یا کسی سیاسی پارٹی کو سپورٹ کرنا نہیں ہے اس وجہ سے آپ کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہونا چاہیے-
 
image
 
3: جمہوری اقدار کا تحفظ
‍قائد اعظم آئین اور قانون کی پاسداری پر مکمل یقین رکھتے تھے اس حوالے سے قائد اعظم کے اے ڈی سی میجر گل حسن کے مطابق ایک دفعہ 400 سرکاری ملازمین اپنے کچھ مطالبوں کے حصول کے لیے احتجاجاً گورنر جنرل کے دفتر کے سامنے جمع ہو گئے- اس وقت اسٹاف نے قائد اعظم سے درخواست کی کہ اس ہجوم کو لاٹھی چارج کے ذریعے منتشر کر دیا جائے تو قائد اعظم نے ان کو اس عمل کو کرنے سے سختی سے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ پر امن احتجاج کرنا ان لوگوں کا آئینی حق ہے جس کو بزور طاقت روکنا ایک غیر آئينی عمل ہے جس کی وجہ سے اجازت نہیں دے سکتے ہیں-
 
4: معاشی ترقی کے لیے اقدامات
قائد اعظم اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ کسی ملک کی ترقی کا بھی راز اس کے معاشی استحکام میں پوشیدہ ہے جس کے لیے حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات ضروری ہوتے ہیں جو کاروباری افراد کا ان پر یقین بڑھا سکیں- اسی حوالے سے حبیب بنک ، مسلم کمرشل بنک چمبر آف کامرس اور انڈسٹری کا قیام قائد اعظم کی انہی کوششوں کا حصہ تھے-
 
image
 
5: اسلامی معاشرے کا قیام
چٹا گانگ کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم کا یہ کہنا تھا کہ ہم لاکھوں مسلمانوں کے احساسات کے ترجمان ہیں جنہوں نے قیام پاکستان میں قربانیاں دی ہیں اور ہم اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب کہ ہم ایک ایسا معاشرہ بنانے میں کامیاب ہو سکیں جس کی بنیاد انصاف اور اسلامی اقدار پر رکھی جائے جہاں مساوات اور بھائی چارہ ہو اور ہر ایک کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں-
 
یاد رکھیں !
قائد اعظم کے یہ اقوال اور طرز عمل ہمارے لیے اور ہمارے حکمرانوں کے لیے ایک مثال ہیں اور ان پر عمل پیرا ہو کر ہی قائد اعظم کا پاکستان بنایا جا سکتا ہے جس کا خواب حکیم الامت علامہ اقبال نے دیکھا تھا-
YOU MAY ALSO LIKE: