کیا لاہور جلسہ ناکام تھا؟

حسیب اعجاز عاشرؔ
حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم جلسے کو آڑے ہاتھوں لیا جارہا ہے کہ گیارہ سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو کر بھی کوئی اچھا پاور شو نہ کر سکیں جبکہ اپوزیشن اپنے موقف پر بضد ہے کہ یہ ایک تاریخی جلسہ تھے بلکہ مریم نواز تو یہاں تک کہہ گئیں کہ ایک جلسہ تو جلسہ گاہ میں تھا اور دوسرا جلسہ جلسہ گاہ سے باہر برپا تھا۔ سوشل میڈیا پر بھی بحث و مباحثہ جاری ہے اور گیارہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے جلسے کو پی ٹی آئی کے 2011میں لاہور میں ہونے والے جلسے سے موازنہ کرکے ناکام قراردیا جارہا ہے۔
یہاں تک تو بات صاف اور واضح ہے کہ اپوزیشن وہ طاقت کا مظاہرہ نہیں کر سکی جس کے بلند و بانگ اعلانات اور دعوے کئے جا رہے تھے اور اِس تجزیہ سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پی ٹی آئی نے نو سال قبل لاہو رکی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کیا تھا اور یہ اعزاز و ریکارڈ اب بھی اُن کے پاس محفوظ ہے لیکن دوسری طرف لاہور جلسے کو گیارہ جماعتوں کی مشترکہ سرتوڑ کوشش کہنا اور ناکام قرار دینا بھی غیرجانبدار تجزیہ نہیں۔ ساری جماعتوں کے جھنڈے جلسے کے منتظمین کی جانب سے پول پرلگائے گئے جس سے یہ تاثرضرور مل رہا تھا کہ ہجوم میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہے جبکہ ایسا نہ تھا سب جماعتیں توکھلی ہوئی دیگ کے گرد تیار بریانی کھانے اور سجھے دھجے پنڈال کا مزہ لینے کیلئے اکٹھی تھیں۔ فضل الرحمن کی جانب سے جو افراد جلسہ گاہ میں موجودتھے اُن کی اکثریت سیکیورٹی انتظامات پر مامور تھی۔اِس سے بھی بڑھ کر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جلسہ تو مسلم لیگ(ن) کا جلسہ بھی نہیں تھا۔نہ بانی جماعت نوازشریف موجود نہ صدر جماعت شہبازشریف کی شرکت اور حمزہ شہبازشریف بھی شمولیت سے قاصر جبکہ درجنوں اہم عہدیداران بھی پرسرارطور پر غیر حاضر رہے جو موجود تھے اُنہوں نے مریم نواز کے متعلقہ حلقوں کے دوروں کے دوران تو سٹریٹ پاور دیکھا کر مکمل یقین دہانی کرادی کہ لاہور جلسہ میں میلہ لوٹ لیا جائے گا جسے’دیکھائی سجھی اور ماری کبھی‘ کہا جاسکتا ہے۔جلسے کے روز حلقوں کی سطح پر وہ موبائلزیشن نہیں دیکھی گئی جو عموما اِن دنوں میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے دیکھنے کو ملتا ہے۔جی روڈ جہاں رونق لگانے کا ہنر مسلم لیگ (ن) خوب جانتی ہے بے رونق اور پھیکی پھیکی ہی رہی موٹرویز پر قافلوں کے وہ مناظربھی نہیں آئے جس کی حسبِ روایت توقع کی جا رہی تھی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ لوگ نکلنا چاہ رہے تھے مگر اُنہیں نکالا نہیں گیا جو کہ مسلم لیگ(ن) کی جماعت کے لئے نہیں بلکہ صرف (ن) کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ مشرف کے مارشل لاء کے بعد جیسے ’ن‘ کو تن تنہا کر دیا گیا تھا،کہیں ایسا پھر سے کیا جارہا ہے؟ کیا ایسا محض اتفاق ہے اور نظروں کا دھوکا ہے؟ یا پھر جھپیاں اور تھاپیاں صرف مخالفین کے منہ بند کرنے کے لئے،حقیقت میں ’ن‘میں ’ش‘اپنا کام دیکھا رہا ہے؟
بہرحال جلسہ ہوا اور یہ جلسہ گیارہ جماعتوں کا نہیں اور مسلم لیگ(ن) کابھی نہیں بلکہ مریم نواز کا جلسہ تھا۔یہ مجمع مریم نواز کے متحرک کرنے کے باعث پنڈال میں موجود تھا اور چند ماہ کے سیاسی سفر میں یہ مریم نواز کی اچھی کامیابی ہے اور اِس چند ماہ پر مبنی سیاسی جدوجہد کے بعد ہونے والے جلسے کو عمران خان کی دودہائیوں پر مشتمل جدوجہدکے بعد ہونے والے جلسے سے کوئی موازنہ نہیں بنتااِس تناظر میں مریم نواز نے اپنے آ پ کو بڑے سیاستدانوں کی صفوں میں لا کھڑا کیا ہے۔ویسے بھی مریم نواز کاجلسہ اپنی مددآپ کے تحت تھا جس میں کارکنوں کو کوئی خاطر خواہ ٹرانسپورٹ اور آنے کیلئے سہولیات فراہم نہیں کی گئی سب اپنی اپنی سواریوں پر پہنچے۔جلسے کو سپورٹ کرنے والے چہرے سامنے نمایاں تھے جبکہ اِس وقت الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اکثریت کنٹرولڈہے اور رہی سہی کثر سیاسی مخالفین نے پوری کر رکھی ہے۔ اِدھر سوشل میڈیا پرمسلم لیگ (ن) کے چاہنے والے ’جی حضور‘کا نعرہ لگاتے ہیں وہ سوشل میڈیا کے موثر استعمال سے ناواقف ہیں ایسے میں وہ جماعت کے لئے سودمند نہیں بلکہ نیم حکیم خطرہ جان کے مترادف ہیں۔عالم تو یہ ہے کہ جماعت کے بڑے بڑے عہدیدار بھی غیرتصدیق شدہ مواد شئیر کر کے’آ بیل مجھے مار‘ کے مصداق مخالفین کو جماعت کا تمسخر اُڑانے کا موقع فراہم کررہے ہیں اور تعجب تو یہ بھی ہے کہ اِن سب کو مریم نواز نے بھی فولو کر رکھا ہے۔اَس طرح اِن تمام ن لیگی سوشل میڈیا صارفین کے سیاہ سفید سے اب مریم نواز کی لاتعلقی ناممکن ہے۔
ٍ 2011کے جلسے کی بات کی جائے توسپورٹ کرنے والے بڑے بڑے طاقتور ترین پردہ نشینوں کے نام سامنے آ رہے ہیں اگر ہم اِن الزامات کوسیاسی بیان بازی تصور کر کے نظرانداز بھی کردیں تو خان صاحب کا حمایتی سوشل میڈیا پہلے ہی بہت متحرک،فعال،موثر اور مضبوط ہے جنہیں کمپین چلانا بھی آتا ہے ٹرینڈ بنانا بھی، مخالفین کے موقف کے اثر کو زائل کرنا بھی،سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنا بھی جس کا فی الوقت کوئی ثانی پاکستان میں نہیں اور مستقبل قریب میں کوئی امکان بھی نہیں کہ مخالفین کوئی اِس کا توڑ نکال لیں اور اِس کوخان صاحب گزشتہ بارہ سالوں سے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جبکہ نو سال قبل میڈیا بھی آزادتھا کسی پابندیوں اور قدغن کی زد میں نہ تھا۔ جس نے خان صاحب کی ہر مہم میں بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا جس نے ہر جلسے، ہر جلوس، ہر پکڑ دھکڑ اور ہربیان کوخوب کوریج دی اُنہوں نے حکومت سے ہر سخت سوال کیا جس کا آج تصور ہی نہیں کیاجاسکتا۔نوسال قبل جان لیوا کورونا کی دوسری لہر بھی نہیں تھی کہ لوگ خوفزدہ ہوکرگھروں سے باہر نکلنے سے ہچکچاتے۔ نہ ہی یہ خطرات سر پر منڈلا رہے تھیکہ کوئی کیس بنا کر کسی قانونی شکنجے میں پھنسا دیا جائے اور نہ کسی کو سوفٹ ویئر آپ ڈیٹ کئے جانے کا خدشہ تھا۔ یہاں یہ نقطہ بھی اہم ہے کہ تحریک انصاف کا زیادہ تر ووٹرز جوان ہے اور سب اپنے قائد کی آواز پر سڑکوں پر تھا جبکہ ووٹرز کے ساتھ وہ سپورٹرز بھی جن کا ابھی ووٹ ہی نہیں بنا تھا جبکہ ن لیگ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر ووٹرز صرف ووٹ ڈالنے کے لئے نکلتے ہیں کیونکہ اکثریت کی عمر ہاف سینچری سے زائد ہے۔
قصہ مختصر2011اور2020کے جلسوں کا موازنہ نہیں بنتالیکن اِس جلسے کے بعد یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مریم نواز سیاسی میدان میں ایک طاقت بن کر اُبھری ہیں لیکن جو مسلم لیگ(ن) کے عہدیداروں کا رویہ نظرآرہا ہے (ن) کی مشکلات ختم ہونا مشکل لگ رہا ہے ایسا گمان ہورہا ہے جتنے قدم آگے بڑھائے جائیں گے اُتنے مسائل بڑھیں گے کیونکہ عوام کے لئے بھاری دوسال گزار دینے کے بعد اب خان صاحب بھی سیاسی حالات کا پانسا بدلنا سیکھ چکے ہیں ترقیاتی کاموں کے اعلانات اور عوامی ریلیف کیلئے متعلقہ اداروں کو عین اُس وقت متحرک کرنے کیلئے میدان میں اُتر چکے ہیں جب اپوزیشن حکومت گرانے کی مہم جوئی کر رہی ہے اور ایسے حالات میں نہیں لگتا کوئی احتجاج کارگر ثابت ہو سکے گا بلکہ یہ تمام حربے حکومت کو مضبوط سے مضبوط تر کریں گے لیکن سیاست میں کچھ بھی حرف آخرنہیں ہوتا کسی بھی ایک حکمت عملی سے کوئی گر سکتا ہے تو سنبھل کر آگے بڑھ سکتا ہے تو اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مریم نواز اپنی جماعت کو بچاتے ہوئے حکومت کے خلاف آگے کیسے بڑھتی ہیں اور خان صاحب اِس کا کیسے مقابلہ کرتے ہیں؟



Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 121 Articles with 117443 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More