تنہائی پسند

جب عامر چودہ برس کا تھا تو ایک حادثے میں اس کے والدین کا انتقال ہو گیا. اور اس کا کوئی بھائی بہن نہیں تھا. اس لئے وہ اکیلا رہ گیا اس وقت وہ آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا. مگر وہ اپنی عمر سے کافی زیادہ عقل مند تھا اپنے والدین کے اچانک موت سے وہ بہت سکتے میں آگیا. اس کے والد کی جائیداد کافی تھی اس کا کوئی قریبی رشتہ دار بھی نہیں تھا. اس لیے اس کو زندگی گزارنے میں کوئ مسلۂ درپیش نہیں تھا. اور اس کے والد کے بہت سے وفادار ملازم موجود تھے جو عامر کا خیال رکھتے جب آہستہ آہستہ ہو وہ اپنے والدین کے دکھ سے باہر آیا تو اس نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری کیا. وہ گھر میں ملازموں کے ساتھ اکیلا رہتا تھا. ملازموں سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا. اسی طرح وہ اپنی زندگی گزارتا رہا اسکول کے بعد کالج میں داخلہ لے لیا اور اب وہ جوان بھی ہو چکا تھا.

اور ایک دن اس کے منشی رحمت علی نے اس کو بتایا کہ عامر صاحب آپ کی زمینوں پر کچھ لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے اور وہ چھوڑنے پر نہیں آ رہے. تو آپ ہمیں بتائیں کہ ہم کیا کریں اس وقت عامر کی عمر بیس برس تھی .اور وہ کالج میں پڑھتا تھا. اس بات نے عامر کو بہت پریشان کیا وہ سوچنے لگا کہ اب کیا کیا جا سکتا ہے. اس کا کوئی جاننے والا بھی نہیں تھا جو اس کی مدد کر سکے وہ کسی سے زیادہ بات کرنے کا عادی نہیں تھا اس لئے اس کا کوئی دوست بھی نہیں تھا .جس سے وہ مدد مانگ سکے. تو اس نے منشی رحمت علی سے کہا 'وہ کون لوگ ہیں ،تو رحمت علی نے کہا صاحب آپ کی زمین کے ساتھ ہی ان کی زمین ہے اور وہ بہت ہی بااثر لوگ ہیں. تو عامر نے کہا میں ان سے ملنا چاہتا ہوں. تو منشی رحمت علی نے کہا نہیں آپ کا ملنا اچھا نہیں ہے وہ بہت ہی خطرناک لوگ ہیں آپ کو نقصان پہنچائیں گے تو عامر نے کہا جو ہوگا میں دیکھ لوں گا تم ان سے کہو کہ عامر صاحب ملنا چاہتے ہیں رحمت علی نے بھی عامر کے حکم کی تعمیل کی اور جاکر اس زمیندار جس کا نام سیٹھ عارف تھا کھا کھ ہمارے ملک عامر صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں تو سیٹھ عارف ملنے پر راضی ہو گیا. اور منشی رحمت علی سے کہا شام کو اپنی صاحب کو میرے پاس لے آنا. تو منشی رحمت علی نے آ کر عامر کو بتایا کھ ھم نے شام کو سیٹھ عارف کو ملنے جانا ھے اگر آپ کہیں تو میں کچھ بندوں کا انتظام کر لوں. سیٹھ عارف بہت خطرناک شخص ہے تو اس پر عامر ھنس پڑا اور بولا رحمت علی تم کیوں فکر کرتے ہو. اور شام ہوتے ہی عامر اور منشی سیٹھ عارف کے پاس چلے گئے تو سیٹھ عارف بہت خوشی سے ان کا استقبال کیا اس کا یہ رویہ دیکھ کر عامر کو یقین ہی نہ ہوا کھ یہ وہی شخص ہے جس نے ہماری زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے. عامر نے بات شروع کی اور بولا سیٹھ صاحب آپ جانتے ھی ہیں کہ ہم آپ سے کس لیے ملنے آئیے ہیں. تو سیٹھ عارف جو کے پہلے ہی عامر سے بہت متاثر ہو چکا تھا بولا ہاں ،بتاؤ بیٹا تم کیا چاہتے ہو؟ تو عامر نے کہا سیٹھ صاحب ہماری زمین ہمیں واپس کردیں تو اس پر سیٹھ عارف نے کہا نہیں یہ میں نہیں کر سکتا مگر اگر تم چاہو تو میں تم کو اس کی قیمت دے سکتا ہوں. تو عامر نے منشی کی طرف دیکھا اور کہا کہ چلیں آپ مجھے ان کی قیمت ہی دے دیں تو سیٹھ عارف نے کہا عقلمند معلوم ہوتے! ہو عامر نے اس کا کوئ جواب نھ دیا بس ھس دیا. اگلے ھی دن عامر نے اپنی ساری زمین سیٹھ عارف کے نام کردی اور زمین کی قیمت لے لی. کیونکہ سیٹھ عارف عامر سے پہلے ہی کافی متاثر ہوچکا. تھا اس لیے اس کو زمین کی اچھی خاصی قیمت دے دی. عامر نے اپنی رقم لی اور اپنا گھر بھی بیچ کر وہاں سے لاہور جا کر ایک فلیٹ خریدا اور باقی ساری رقم بینک میں جمع کرا دی. اس فلیٹ میں اکیلا ہی رہنے لگا فلیٹ بہت ہی خوبصورت تھا. اس لیے اس کو وہاں رھ کر بہت اچھا محسوس ہوتا تھا بچپن سے اکیلا رہنے کی وجہ سے تنہائی پسند ہو چکا تھا. اسی طرح اس کی زندگی گزرتی رہی اور کسی چیز کی کمی نہیں تھی .اور اس نے اپنی تعلیم مکمل کر لی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس کو ایک دفتر میں بہت اچھی نوکری مل گئی. اور اس نے وہ نوکری شروع کر دی. وہ اکیلا ہی رہتا تھا مگر وہ خوش تھا اب اس کی عمر تیس برس ہو چکی تھی اس نے کبھی بھی شادی کا نہیں سوچا تھا. اس کے دفتر میں اس کے کافی جاننے والے بھی بن گئے تھے اور اکثر عامر کو شادی کا بھی کھا کرتے تھے. مگر عامر ان کی بات پر غور نہیں کرتا.

کچھ تو عامر کو کہتے تھے شاید تو نے محبت میں دھوکا کھایا ہے تو اس پر عامر ان کو جواب دیتا کہ میں تو محبت نام کے لفظ سے آشنا ہی نہیں ہوں. اس کے دفتر میں لڑکیاں بھی کام کرتی تھی مگر عامر کیوں کے شریف تھا. اس لیے اس نے کبھی کوئی فضول بات نہیں کی تھی. ان میں سے ایک لڑکی جس کا نام آمنہ تھا. وہ عامر کو پسند کرنے لگی تھی مگر عامر کو اس بات کا علم نہ تھا .شاید دفتر میں سب کو ہی اس بات کا پتہ تھا کہ آمنہ عامر کو پسند کرتی ہے. مگر ایک عامر ہی ایسا تھا جس کو اس بات کا علم نہ تھا عامر بہت ہی تنہائی پسند اور اپنے اندر گم رہنے والا شخص تھا. اس کو کسی دوسرے کی بات سے کوئی مطلب نہیں تھا. مگر ایک دن ہمت کرکے آمنہ نے عامر سے اپنی محبت کا اظہار کر دیا. تو اس پر عامر کو انکار کرنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ھوتی تھی. کیونکہ آمنہ خوبصورت بھی تھی. اور پڑھی لکھی بھی تھی. اور بھی کوئی کمی نہیں تھی. مگر پھر بھی عامر نے ایک دن کا وقت مانگا اور اس گھر جاکر بہت سوچا اس کے ذہن میں یہ خیال بھی آتا کہ وہ اپنے ساتھ کسی دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتا .کیونکہ اب تو وہ تنہائی پسند ہو چکا تھا پھر اس کے ذہن میں یہ خیال بھی آتا کہ وہ شادی کر لیتا ہے تو اس سے ہرگز برداشت نہ ہوگا کہ اس کی بیوی کسی دوسرے مرد سے بات کرے اسے یہ بھی سوچا کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا غلط فہمی پال لیتا ہے وہ کیسے زندگی گزار سکتا ہے. اور آمنہ ھر مرد سے خوش ہو کر بات کرنے والی لڑکی ہے .اور اس سے یہ برداشت نہیں ہو گا. مگر پھر بھی اس نے انکار نہ کیا. اور ایک ہفتے بعد ان کی شادی ہو گئی. عامر اور آمنہ دونوں ہی بہت خوش تھے اور کچھ ہی عرصے بعد عامر کو الجھن ہونے لگی کیونکہ وہ تنھائ پسند ہو چکا تھا کبھی کبھی اس کے ذہن میں آتا تھا کہ تنہائی پسند ہونا بھی ایک بیماری ہے .وقت گزرتا رہا مگر عامر کی یھ الجھن بڑھتی گئی. جب کبھی آمنہ کسی دوسرے مرد سے خوش ہو کر بات کرتی تو عامر اندر ہی اندر پاگل ہو جاتا. مگر آمنہ کو کچھ نہ کہتا. اس کے اس پاگل پن کی حد بڑتی رہی ایک دن آمنہ کو اپنی کسی دوست کی شادی پر جانا تھا تو اس نے عامر کو ساتھ چلنے کو کہا مگر عامر کے ذہن میں آیا کہ وہاں پر آمنہ اپنے دوستوں سے خوش ہو کر بات کریں گے جو اس سے برداشت نہ ہوگا. اس لئےاس نے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور آمنہ کو بھیج دیا جب وہ چلی گئی تو عامر کے ذہن میں پھر آنے لگا کہ آمنہ وہاں کیا کر رہی ہو گی .کسی سے خوش ہو کر بات کر رہی ہو گی اور اس کے دماغ میں عجیب خیالات آنے لگے اور کچھ ہی دیر بعد آمنہ گھر واپس آگئی اس نے فلیٹ کا دروازہ اس چابی کے ساتھ کھولا جو وہ ساتھ لے کر گئی تھی .جب وہ گھر میں داخل ہوئی تو اس نے سارے فرش پر لال رنگ دیکھا جوکہ عامر کا خون تھا اور آگے ہی عامر کی لاش پڑی تھی یہ دیکھ کر آمنہ نے چیخ ماری دی.
 
Hamza Safdar
About the Author: Hamza Safdar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.