انسان اور طبیعیات

اس مضمون میں مصنف نے مادہ اور توانائی پر تبصرہ کیا ہے اور انسان کو اللہ کے نور کے ذرات سے آگاہ کیا ہے

علوم کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں ۔ میڈیکل سائنس میں جانداروں کی صحت کا جائزہ لیاجاتاہے ۔ ارتھ سائنسز میں زمین اور اس کی فضا کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔ اسی طرح ایک انتہائی اہم علم ہے طبیعات (فزکس)۔ یہ وہ علم ہے، جس میں مادے اور توانائی اور ان کے باہمی ربط کا مطالعہ کیا جاتاہے۔دنیا مادے اور تونائی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں لہٰذا یہ کہا جاسکتاہے کہ طبیعات کائنات کا علم ہے۔ طبیعات ہمیں دنیا میں وقوع پذیر ہو نے والے ماجروں کی حقیقت بیان کرتی ہے ۔شاخ سے جدا ہو نے والا سیب زمین پہ کیوں جا گرتاہے ؟ ایسا کرّہ ارض کی کششِ ثقل کی وجہ سے ہوتاہے ۔ اس کشش کو فزکس ہی بیان کرتی ہے۔ فزکس کے اصول ہی یہ بتاتے ہیں کہ زمین سورج کے گرد کیوں گھوم رہی ہے اور سورج کہکشاں کے مرکز کے گرد کیوں ؟

کہکشاں کے مرکز میں ایک بہت بڑا بلیک ہول پایا جاتاہے ۔ وہاں بارہ عدد سورج ناقابلِ یقین رفتار سے ایک نادیدہ شے کے مدار میں بھاگتے چلے جا رہے ہیں ۔ فزکس نے ہمیں یہ بتایا کہ لازماً وہاں کو ئی خوفناک کمیت والی نادیدہ شے روپوش ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کسی کی کیا جرات کہ بارہ عدد ستاروں کو اپنے مدار میں اس خوفناک رفتار سے بھگانا شروع کر دے ۔ کوئی ایسی شے ، جس کے سامنے ہمارا سورج محض ایک نقطے کی مانند ہے ۔

1905ء میں البرٹ آئن اسٹائن نے اپنی مشہورِ زمانہ مساوات بیان کی ۔ سائنسی زبان میں اسے یوں لکھا گیا :e=mc2 ۔ یہ مساوات بتاتی ہے کہ مادہ تونائی اور توانائی مادے میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔ اسی مساوات کی مدد سے انسان نے ایٹم بم بنا لیا۔ ایک ایٹم بم میں مادے کی معمولی سی مقدار توانائی میں تبدیل ہوتی ہے اور پورے کے پورے شہر کھنڈر بن جاتے ہیں ۔کائنات کی تخلیق میں اس کے بالکل برعکس ہوا تھا۔ بگ بینگ کے بعد ہر طرف توانائی ہی توانائی تھی ۔ رفتہ رفتہ یہ توانائی جب مادے میں تبدیل ہونا شروع ہوئی تو سورج بنااور سیارے بنے۔

سائنسدان بتاتے ہیں کہ آغازِ کائنات کی یہ توانائی روشنی کی رفتار سے ہمیشہ بہتی رہتی‘ اگر خدائی ذرّہ نہ ہوتا۔ اسی ذرے نے توانائی کو مادے میں تبدیل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 2013ء میں تجربہ گاہ میں ابتدائے کائنات کا ماحول ایک محدود سے پیمانے پر پیدا کیا گیا اور پہلی بار خدائی ذرے کا وجود ثابت ہوا۔یہاں آپ غور و فکر کرنے والے دماغوں کی شان و شوکت دیکھیں ۔ خدائی ذرّے کا تصور اس کی دریافت سے نصف صدی پہلے ہی طبیعات دان پیٹر ہگزنے پیش کر دیا تھا ۔ اس کے عوض اس سائنسدان کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔ خدائی ذرے کی دریافت کا سہرا بھی فزکس ہی کے سر ہے۔جب کچھ چیزوں کا آپ کو علم ہو توفزکس اور ریاضی کے اصول و قوانین پہ کام کرتے ہوئے آپ باقی چیزیں ڈھونڈ سکتے ہیں ۔

اس دنیا کے عظیم راز طبیعات اور ریاضی جیسے علوم کی وجہ سے انسانوں پہ آشکار ہوتے ہیں ۔ اسی کی مدد سے سائنسدانوں نے ہمیں یہ بتایا کہ 12سورج خواہ مخواہ ایک مرکز کے گرد نہیںگھوم سکتے۔ یقیناً وہاں کئی ملین سورجوں کے برابر ایک جسم روپوش ہے ۔ یہ اور بات کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ایک دن آپ اس نادیدہ شے کو دیکھنے کے قابل ہو جائیں ۔

اپنے استاد پروفیسر احمد رفیق اختر سے میں نے یہ پوچھا کہ قرآن کی اس آیت کا مطلب کیا ہے :اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ کہا: آغازِ کائنات میں ہر طرف توانائی تھی۔ پھر وہ مادے میں بدلی۔یہ توانائی کہاں سے آئی ؟ کہا: رسول اللہ ﷺنے فرمایا : اللہ نور ہی نور ہے ۔ نور کی بہت سی قسمیں ہیں ۔ انہی میں سے ایک قسم بجلی ہے ۔اللہ کے ان گنت نور ہیں ، جنہیں انسان پوری طرح کبھی سمجھ نہیں سکتا۔میں نے یہ دیکھا کہ اس آیت ’’اللہ نور السموت والارض‘‘ کو بعض اوقات پروفیسر صاحب لا علاج بیماروں کو پڑھنے کے لیے دیتے ہیں ۔ سر خالد مسعودخان کی بینائی جب بری طرح متاثر ہوئی تو ان کی مرحومہ بیگم صاحبہ نے بھی انہیں یہی دعا پڑھنے کو دی تھی ۔ڈاکٹر حضرات نے جب ان کی بینائی بحال ہوتے دیکھی تو ششدر رہ گئے ۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر یہ کائنات اللہ کے نور سے بنی ہے تو کائنات میں جو کچھ ہم دیکھتے ہیں، کیا بجائے خود وہ خدا ہی کی ذات ہے؟ استاد نے فرمایا: نہیں، وہ خدا کے وجود کا بہت معمولی سا جزو ہے۔یوں بھی انسان دنیا میں جو کچھ دیکھ سکتاہے ، وہ صرف پانچ فیصد ہے ۔ پچانوے فیصد تو ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر کی صورت میں پوشیدہ ہے۔ فرمایا:جب ہم یہ سنتے ہیں کہ ایک روز خدا کائناتوں کو اس طرح سمیٹ لے گا، جیسے بکھرے ہوئے کاغذات کو ’’یوم نطوی السماء کطی السجل للکتب‘‘تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ سارے کے سارے مادے کو ایک بار پھر وہ توانائی میں بدل دے گا۔ پھر یہ توانائی وہ ایک ہاتھ سے سمیٹ لے گا۔

ان تمام علوم میں خدا کی شناخت کے لیے اشارے چھپے ہیں ۔ حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ نے فرمایا تھا: ہر علم میں سے اتناتو حاصل کرو، جتنا خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے ۔دل اگر ہدایت یافتہ نہ ہو تو شیطان سب علوم ہوتے ہوئے بھی جہنم میں جا گرتا ہے ۔ پروفیسر صاحب نے پھریہ آیت پڑھی: ’’اس دن پہاڑ ایسے اڑیں گے، جیسے روئی کے گالے‘‘۔ وتکون الجبال کالعہن المنفوش۔یہ کیسے ہوگا؟ زمین 1,08,000ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ اسی رفتار سے اس کے اوپر رکھے پہاڑ بھی حرکت میں ہیں۔ اب اگر ’’القارعہ ‘‘ کا خوفناک جھٹکا زمین کو ایک لمحے کے لیے ساکت ہونے پر مجبور کردے تو پہاڑ ٹوٹ کر ہوا میں اڑ جائیں گے۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے ایک تیز رفتار گاڑی کو ایک دم رکنا پڑے تو وہ ڈرائیور، جس نے سیٹ بیلٹ نہ باندھی ہو، اُچھل کے اسٹیئرنگ سے جا ٹکراتا ہے۔

Shaheena Naeem
About the Author: Shaheena Naeem Read More Articles by Shaheena Naeem: 21 Articles with 15695 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.