امریکہ کے جائو بھائی جان

امریکی انتخابات کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں نے اس نہج پر اپنے نظریات قائم کئے جیسا کہ انتخابات امریکہ میں نہیں ، ہندوستان میں ہورہے ہیں۔ انتخابات ٹرمپ کو ہٹانے کیلئے نہیںبلکہ مودی کو ہٹانے کیلئے کئے جارہے ہیں۔ جوبائیڈن (جومسلمانوں کے بھائی جان بن گئےہیں) انہیںلیکر ہندوپاک کے مسلمان اس قدر خوش خوش ہورہے ہیں جیسے کہ وہ ہندوستان کے راہل گاندھی اورپاکستان کے عمران خان ہیں۔ ان کی کامیابی پر جسطرح سے جشن منایا جارہا ہے وہ قابل دید ہےاور مسلمان الیکشن کے نتائج آنے پر اس قدرخوش ہوچکے ہیں کہ جیسے کے انہوں نے ٹرمپ کوہٹاکر بیت المقدس فتح کرلیا ہےاورجائو بھائی جان امریکی صدر نہیں ارتغرل غازی ہیں۔ دراصل مسلمان ایک ایسی قوم ہے جو جذبات کے ساتھ چلتی ہے۔ حالانکہ ایک دور تھا کہ مسلمانوں کے پاس جوش ، جذبہ اورحکمت سے لیز تھے۔ لیکن اب تو مسلمانوں کے پاس سوائے جوش ، جذبات اورحماقت کے کچھ بھی باقی نہیں رہا ۔ دراصل ٹرمپ اور جوبائیڈن کے تعلق سے جو تاثر مسلمانوں میں دیکھا جارہا ہےوہ حکمت کے نظیرے سے نہیں بلکہ جذبات کے نظریہ سے ہے۔ افغانستان، ایراق اور لیبیا جیسے ممالک پر حملہ کرنے والی ریپبلکن پارٹی نہیںتھی بلکہ ڈیمارکریٹک پارٹی تھی اوریہ ریپبلکن پارٹی وہی ہے جس سے ڈونالڈ ٹرمپ کا تعلق ہے۔ ان اسلامی ممالک پر حملہ کرنے والی سیاسی جماعت ڈیمارکریٹک تھی اوریہ وہی ڈیمارکریٹک پارٹی جس سے جوبائیڈن تعلق رکھتے ہیں۔ بتائے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد کون کوسنے اسلامک ممالک پر حملے ہوئے تھے۔ تو ٹرمپ اچھے نکلے کے جوبائیڈن کی سیاسی جماعت؟۔ جو مسلمان آج جوبائیڈن کے الیکشن کو لیکر تبصرے، بحث ومباحثے کررہے ہیں۔ انٹرنیشنل لیول کی سیاست پر بات کررہے ہیں۔ انہیں گرام پنچایت کے الیکشن کا سسٹم معلوم نہیں۔ وہ بھی انٹرنیشنل پالیٹکس پر بات کررہے ہیں جس طرح سے ہندوستان میں کوئی غیر مسلم سیاست دان اسٹیج پر خطاب سے پہلے اسلام وعلیکم کہہ دے تو وہ مسلمانوں کا لیڈر بن جاتا ہے یا پھر اذان کے وقت 2 منٹ خاموش ہوجانے سے مسلمانوں کے دلوں میں جگہ بنالیتا ہے اسی طرح سے جائو بھائی جان (جوبائڈین) نے بھی وقتاً فوقتاً حدیث مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے مسلمانوں کو دلدہ بنالیا۔ اگر واقعی میں جوبائیڈن مسلمانوں کو انکا حق دلانا چاہتے ہیں تو فلسطین کے تعلق سے امریکہ نے جو فیصلہ کیا تھا کہ فلسطین وبیت المقدس مسلمانوں کا نہیں بلکہ اسرائیل کا ہے اور اسرائیل ایک ملک ہے اس پر اپنی رائے قائم کرے۔ صرف حدیث کا درس دینے سے اورسلام کرنے سے ہر کوئی مسلمانوں کا قائد نہیں بن سکتا ، ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ اگر ہم مسلمانوں میں سے کوئی سورۂ رحمٰن کی تفسیر بھی کردے تو کوئی مسلمان کو لیڈر نہیں مانتا اوروہ لوگوں کی نظرمیں بنیاد پرست یعنی کمیونل مسلمان بن جاتا ہے۔ اوریہ ہی مسلمان گیتا، رامائن اوروید کے شلوک بھی پڑھ لے تو وہ نہ تو مسلمانوں کا لیڈربن سکتا ہے اورنہ ہی ہندو اسے یہ شلوک سن کر اپنا لیڈر ماننے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ جسطرح سے جائو بھائی جان کو مسلمان ترجیح دے رہے ہیں اسی طرح کملا ہارس کو بھی سرپر چڑھ کر بیٹھارہے ہیں۔ مسلمان یہ نہیں جانتے کہ کملاہارس صرف نژادامریکی خاتون ہیں بلکہ وہ یہودیوں میں پہلی ہندوستانی نژادبہو بھی ہیں ۔ انکے شوہر ایم ہوف ایک یہودی ہیں جو پیشے سے وکیل ہیں ۔ سوچئے کہ کسطرح سے یہودی لابی جنگ پرست ، جوبائیڈن اوریہودی مذہب سے تعلق رکھنے والی خاتون کوامریکہ پر مسلط کردیا، جس مقصد کیلئے ٹرمپ کوچناگیا تھا وہ کام تو ٹرمپ نے انجام نہیں دیا، کیونکہ ٹرمپ کے پاس عیش وعشرت اورعیاشی کرنے کیلئے وقت تھا نہ کہ یہودی ایجنڈے کو دنیا پر مسلط کرنے کیلئےانکے پاس وقت تھا۔ مسلمانوں زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں بیت المقدس ہاتھ سے چلاگیا ، عرب ممالک ایک ایک کرکے اپنے یہاں سے اسلامی قوانین کو ہٹارہے ہیں۔ دبئی جیسے ملک نے شراب نوشی کو قانونی درجہ دے دیا، غیرشادی شدہ مرد وخواتین کو ایک ساتھ رہنے کی اجازت دے دی، سعودی عرب میں بار ریسٹورینٹ کھلنے لگے۔ جن سعودی خواتین کی انگلیاں دیکھنے کیلئے بھی کبھی لوگوں کی آنکھیں ترستی تھی اب وہ خواتین ساری دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچا رہی ہیں۔ ہمیں لیڈر بنانے کیلئے شخصیت نہیں سوچ کی ضرورت ہےاوریہ سوچ اسی وقت مثبت ہوگی جب ہم دنیا وآخرت کے تعلق سے سوچیں گے۔


 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 176004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.