اگھم کوٹ ۔سندھ

سندھ کی پانچ ہزار سالہ تہذیب میں موہن جو دڑو کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے جس پر صرف دس فیصد کام ہوا ہے باقی نوے فیصد تحقیق ابھی باقی ہے اسی طرح سندھ کے دوسرے قدیمی مقامات بھی ایسے ہیں جن کا آج کے اس جدید دور میں بھی لوگوں کو علم نہیں ایسا ہی ایک تاریخی مقام اگھم کوٹ ہے۔اگھم کوٹ یا اگھامانو حیدرآباد شہر سے 45کلو میٹر دور چمبڑ سے 9میل کے فاصلے پر چمبڑ ٹنڈو غلام علی روڈ سے کچھ فاصلے پر آثار قدیمہ کا ایک تاریخی مقام ہے۔جس کی وسیع اراضی میں موجود مٹی کے کئی ٹیلوں پر قدیم تاریخی مقبرے موجود ہیں۔ یہاں کے قدیم آثار ، تاریخی مقبرے اور طویل اراضی پر مشتمل قدیم قبرستان محقیقین وا تاریخ دانوں کو دعوت تحقیق دے رہے ہیں۔

سندھ میں داخلِ اسلام کی تاریخ سے قبل دریائے سندھ کی لہریں اگھم کوٹ کو چھوتے ہوئے سمندر برد ہوا کرتی تھیں اس وقت دو سو ایکڑ پر محیط یہ شہر تجارت ، علم اور ادب کے لحاظ سے جنوبی سندھ کا مرکز ہوا کرتا تھااور اس علاقے پر راجہ اگھم لوہانہ کی حاکمیت ہواکرتی تھی نیز اگھم کوٹ بندر گاہ ہونے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیوں کا ایک مرکز بھی تھا جہاں کے بازار کبھی آباد ہواکرتے تھے یہاں دریائے سندھ کی ایک شاخ بہتی تھی اور لوگ کشتیوں اور چھوٹے بہری جہازوں کے ذریعے سفر اور تجارت کیا کرتے تھے تجارت میں یہاں کے باسیوں کے کاروبارکا اہم ذریعہ پٹسن ہوا کرتی تھی اور یہ علاقہ دریا کی لہروں کی دوش پر آنے والے پانی سے سرسبز و شاداب ہوا کرتا تھا۔

کتاب ’’بدین ضلع کا مطالعہ‘‘ میں شایع ہونے والے اپنے مقالہ میں محقق محمد حسین کاشف لکھتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں سرزمین سندھ کو انتہائی اعلی مقام حاصل رہا ہے۔ سندھ میں آج بھی کئی شہر کھنڈرات کی شکل میں موجود ہیں جو وسیع تاریخی پس منظر رکھتے ہیں۔ ایسے آثار قدیمہ میں کچھ پر تحقیقی کام کیا گیا ہے کچھ پر تحقیقی کام کیا جارہا ہے جبکہ کئی ایسے تاریخی مقامات ہیں جن پر اب تک کسی بھی قسم کا تاریخی یا تحقیقی کام نہیں کیا گیا ہے۔ اگھم کوٹ یا اگھامانو بھی ایسے ہی تاریخی مقامات میں شامل ہے جن پر اب تک کسی بھی قسم کا تحقیقی کام نہیں کیا گیا۔ اگھم کوٹ ماضی میں اپنے محل و وقوع کے لحاظ سے انتہائی اہم مقام پر واقع تھااس اہم تاریخی شہر کی آبادی قدیم زمانے میں کتنی ہوگی اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ موجودہ وقت میں بھی ان کھنڈرات اور قبرستان کی اراضی تقریباً دوسو ایکڑ کے رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے اور یہ کھنڈرات آج بھی راجہ اگھم لوہانہ کے نام سے منسوب و مشہور ہیں۔

راجہ اگھم لوہانہ راہے گھرانہ کے حاکم راہے سہرس بن ساہمی کی حکومت میں سندھ کے لوہانہ آبادی والے علاقہ کے حاکم تھے ان کا دارالحکومت برہمن آباد تھا۔کتاب ’’تحفتہ الکرام‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں کہ اس شہر کا نام راجہ اگھم لوہانہ کے نام سے منسوب ہے لیکن یہ وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس شہر کی بنیاد راجہ اگھملوہانہ نے ہی رکھتی تھی یا یہ شہر ان کی حکمرانی سے بھی قبل کسی اور نام سے موجود تھا اور راجہ اگھم لوہانہ نے اس شہر کی تعمیر و توسیع میں اپنا کردار ادا کیا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مناسب مقام پر واقع ہونے کی وجہ سے راجہ اگھم لوہانہ نے سال میں کچھ ماہ یہاں قیام فرمایا ہو اسی وجہ سے اس شہر کا نام ان کے نام سے منسوب ہوگیاہو۔ اس شہر کے نام کی نسبت سے ہی اس شہر کے قدیمی ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اگھم کوٹ کے قدیمی ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قدیم ترین کتاب ’’چچ نامہ‘‘ جس کا 613 ء میں فارسی میں ترجمہ کیا گیا اس کتاب میں اگھم نام کے ایک راجہ کا تذکرہ بار بار ملتا ہے جو چچ (راجہ داہر کا باپ ) کے وقت برہمن آباد کا گورنر تھا کہا جاتا ہے کہ یہ شہر اسی نے آباد کیا اسی چچ نامہ میں لکھا ہے کہ جب راہے چچ سیوستان فتح کرچکے تو انہوں نے برہمن آباد کے حاکم راجہ اگھم لوہانہ کو اپنی اطاعت قبول کرنے کے لیے خط روانہ کیا۔راجہ اگھم لوہانہ نے ان کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کیا تو راہے چچ نے راجہ اگھم لوہانہ کی سلطنت پرحملہ کردیا یہ جنگ ایک سال تک جاری رہی جس میں راجہ اگھم لوہانہ کے لشکر کو شکست ہوئی اس شکست کے بعد راجہ اگھم لوہانہ نے اپنے آپ کو قلعہ بند کر لیااور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی۔باپ کی موت کے بعد راجہ اگھم لوہانہ کے بیٹے سربند ان کے جانشین مقرر ہوئے۔ راجہ سربند نے رائے چچ سے شکست تسلیم کرتے ہوئے قلعہ ان کے حوالے کیا اور ان کی اطاعت قبول کرلی۔

اگھم کوٹ یا اگھامانو شہر کن تاریخی وجوہات کی بنا پر زوال پذیر ہوا اس کا تاریخ میں ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا جس کو یقینی تصور کیا جاسکے عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ عظیم تاریخی شہر 1780 ء میں مدد خان پٹھان کے سندھ پر ہولناک حملے میں تباہ ہوا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ مدد خان پٹھان کا لشکر سندھ پر کسی بے رحم طوفان کی طرح وارد ہوا اور سندھ کے جون اور فتح آباد سے لے کر بدین اور ٹھٹھہ تک کی جملہ سرسبز وشاداب آبادیوں کو تباہ و برباد کرکے روند ڈالا۔مدد خان پٹھان کا لشکرسندھ پر آفت بن کر ٹوٹاانہوں نے لوگوں کے تن سے کپڑے اور پیروں سے جوتیاں بھی اتروالیں۔ اس حد تک لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کیا گیا کہ گھروں سے جملہ سامان تک لوٹ لیا گیا۔ اس لوٹ مار کا تذکرہ فریئر نامہ، سندھ پر حملوں کی تاریخ ، تاریخ سندھ، فتح نامہ، سلطنت کابل، لبِ تاریخ سندھ اور دیگر کتب کے مصنفین نے تفصیل سے کیا ہے ۔مدد خان پٹھان کے حملے میں سندھ کے لاتعداد شہر اجڑ کر تباہ و برباد ہوئے جن میں ٹھٹھہ ، بدین، نصر پور، بکیرا شریف اور دیگر شامل تھے جو دوبارہ آباد ہوگئے مگر اگھم کوٹ شہر پھر دوبارہ آباد نہ ہوسکا۔اگر تحقیقی کام کیا جائے تو مزید تاریخی حقائق سامنے آسکتے ہیں۔

اگھم کوٹ یا اگھامانو شہر کے آثارِ قدیمہ میں اس وقت کی کچھ بزرگ ہستیوں کی ابدی آرام گاہ بھی ہے جن میں مخدوم محمد اسمٰعیل سومرو اور دیگر بزرگ شامل ہیں ۔ اس تاریخی مقام پر ایک قبر پر فارسی زبان میں کنندہ ایک کتبہ بھی نصب ہے جس پر بی بی ماہم کا نام اور ان کی وفات کا سال 170 ہجری کنندہ ہے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بی بی کسی امام کی دختر ہیں اس نظریے کے تحت وہاں ایک مزار بھی تعمیر کروایا گیا ہے جہاں سندھ بھر سے ہزاروں زائرین حاضری کے لیے آتے ہیں۔ یہاں دو تین قدیم مساجد کے نشانات اور راجا اگھم لوہانہ کے محل کے آثار بھی موجود ہیں۔ مقبروں اور مٹی کے ٹیلوں کے درمیان سینکڑوں قبور مسمار ہوجانے کی وجہ سے ہر جانب انسانی لاشوں کی ہڈیوں اور ڈھانچوں کے انبار نظر آتے ہیں۔ جو دیکھنے والوں کے لیے باعثِ عبرت ہیں۔

اس وقت اگھم کوٹ کے آثارِ قدیمہ کی باقیات باقی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان قدیمی آثار کی تعمیر نو کرکے بہترین بنایا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں پوری دنیا کے لوگ اس قدیمی آثار سے روشناس ہونگے۔ حکومتِ سندھ اور بالخصوص محکمہ آثارِ قدیمہ اس حوالے سے کام کرسکتے ہیں





 

Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 7 Articles with 7621 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.