کلین اینڈ گرین پاکستان۔۔۔؟

 مقابلے میں پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے بیس شہروں نے حصہ لیا۔ مقصود یہ جانچنا تھا کہ کون سا شہر سب سے زیادہ صاف ہے، اور کس نے ملک کو سرسبز بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اشاریے بھی دیئے گئے تھے اور ’’تھرڈ پارٹی‘‘ سے حقائق کی تصدیق بھی کروائی گئی تھی۔ سندھ اور بلوچستان کو اس دوڑ میں کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ یہ الگ اور اہم سوال ہے۔ تاہم ازالہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ آئندہ ہونے والے مقابلوں میں دیگر صوبوں کے بہت سے شہروں کو بھی موقع دیا جائے ۔ تاہم جن شہروں نے مقابلے میں اپنی کارکردگی کے جھنڈے گاڑے وہ نتیجہ کم از کم ملکی سطح پر حیران کن ضرور ہے، اوّل یہ کہ پہلی تینوں پوزیشنز پنجاب کے حصے میں آئیں، دوم یہ کہ پنجاب کے بھی ایک انتہائی شمالی شہر نے پوزیشن لی اور ایک انتہائی جنوبی شہر نے۔ صفائی میں بہاول پور پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور مجموعی طور پر معرکہ اٹک نے سر کر لیا۔ شاید اس لئے کہ صحرائے چولستان کے کنارے پر آباد بہاول پور میں سبزہ کی کمی رہ گئی، یا ممکن ہے کہ شہر کو ’’گرین‘‘ کرنے کے ذمہ دار محکموں کی کارکردگی میں کوئی کوتاہی رہ گئی ہو۔

صفائی کے عمل کو آسان مت جانیے، جان جوکھوں کا کام ہے۔ کروڑوں کے وسائل درکار ہوتے ہیں، ہزاروں لوگ بروئے کار آتے ہیں، سارا دن سڑکوں پر جھاڑو پِھرتے ہیں، کچرے کے لئے جابجا ڈرم رکھے جاتے ہیں، ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کی گاڑیاں دن بھر سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں، تب جا کر کچھ ماحول بنتا ہے۔ مگر دوسری طرف یار لوگ اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ کب گاڑی کچرا اٹھا کر جائے، کب کوڑا سڑک پر پھینکا جائے۔ شاپر میں ڈال کر گھر سے باہر رکھنے کا رواج بھی اپنے ہاں نہیں، ہاں البتہ دوسرے کے گھر کے سامنے کوڑا پھینکنے کا چلن عام ہے۔ بہاول پور ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کے سربراہ نعیم چوہدری کا کہنا ہے کہ’’ اگر لوگ کچرا باہر پھینکنے کا وقت مقرر کر لیں(تاکہ گاڑی مقررہ وقت تک وہاں جا سکے) اور اپنے کچرے کو شاپر یا کسی ٹین وغیرہ میں ڈال کر گھر سے باہر رکھ دیں تو ہمارا آدھا مسئلہ حل ہو سکتا ہے‘‘۔مگر کیا کیجئے کہ لوگ دونوں میں سے کوئی بات ماننے کے لئے تیار نہیں۔ صفائی کے ضمن میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وسائل کہاں سے حاصل کئے جائیں؟ حکومت فنڈز دیتی تھی، اب یہ فنڈز ’قرض‘ کا روپ دھار چکے ہیں، اور یہ قرض آخر کار کمپنی نے ہی ادا کرنا ہے، جبکہ کمپنی وسائل سے تہی دامن ہے۔ اگر لوگوں سے کسی قسم کے ٹیکس کی بات کی جاتی ہے تو لوگ البتہ اس بات پر مُصّر ہیں کہ کچرا اٹھانا حکومت کا کام ہے اسے ہی کرنا چاہیے۔ تاہم عوام کچرا پھیلانا اور باہر گرانا اپنا فرضِ اولین تصور کرتے ہیں۔

کمپنی کے پاس فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے حالات ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں، آخر کب تک قرضوں وغیرہ کے ذریعے کام چلایا جاسکتا ہے؟ دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ قوم کو صفائی کے بارے میں بھر پور آگاہی دینے کے باوجود بھی اگر لوگوں کی کان پر جوں نہ رینگے تو آخر قانون حرکت میں آتا ہے، اور حکومت کی رِٹ قائم کرنے کے لئے ادارے میدان میں آتے ہیں، مگر بے بسی ملاحظہ فرمائیے کہ کمپنی کے ہاتھ یہاں بھی خالی ہی ہیں،کہ بے وقت اور بار بار کچرا سرِ بازار پھینکنے پر بھی ویسٹ منیجمنٹ کمپنی صرف درخواست ہی کر سکتی ہے، آگے عوام کی مرضی درخواست کو شرفِ قبولیت بخشیں یا فوری ’انصاف‘ کرتے ہوئے موقع پر ہی رد کر دیں۔

اس بات پر افسوس کرنے کا حق بھی ہمیں ملنا چاہیے کہ خیبر پختونخواہ کا کوئی بھی شہر کوئی قابلِ ذکر پوزیشن کیوں حاصل نہیں کر سکا۔ قدرتی طور پر درختوں اور سبزہ کی وہاں کمی نہیں، ایبٹ آباد جیسے شہر وہاں موجود ہیں، تقریباًآٹھ سال سے وہاں باذوق اور سیاحت کے فروغ کے دعویداروں کی حکومت ہے، اربوں درخت لگانے کا ذکر بھی ہے، ترقیاتی کاموں کے چرچے بھی ہیں، مگر ’’ کلین اینڈ گرین پاکستان‘‘ میں پوزیشن ہے تو صحرائی شہر بہاول پور کی، جو قابلِ تحسین و ستائش ہے۔ ہونا تو یہ بھی چاہیے تھا کہ نمایاں پوزیشن لینے والے شہروں کو اپنی پوزیشن کو مزید بہتر کرنے کے لئے خصوصی فنڈز دیئے جاتے، ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ،وہ بھی اور انہیں دیکھ کر دوسرے شہر بھی اس مہم میں مزید بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، مگر وزیراعظم کے ہاتھوں سے متعلقہ ڈپٹی کمشنروں کو ایک ایک شیلڈ دے کر روانہ کر دیا گیا۔ اگر شیلڈوں میں سے کوئی تابکاری شعائیں نکل کر صفائی کے نظام کو بہتر کر سکیں پھر تو ٹھیک ہے، ورنہ یہ’ صاحب‘ کے دفتر میں موجود اَن گِنت شیلڈوں میں ایک اور شیلڈ کا اضافہ ہی ہو گا۔ اگر حکومتوں نے صفائی میں نام پیدا کرنے والے اداروں کو تنہا اور بے آسرا چھوڑ دیا تو یہی شہر کراچی کی طرح کچرے میں نام پیدا کرنے لگیں گے، ابھی سنبھلنے کا وقت ہے۔

آئیے ذر ا اِس بات پر بھی غور کریں، ہم حُبّ رسولﷺ کا کِس قَدر دَم بھرتے ہیں، کہ ایسا کئے بغیر ہمارا ایمان ہی تکمیل اور قبولیت کی منزل کو نہیں پہنچتا۔ مگرہم سنتِ نبویﷺ پر عمل سے تہی دامن ہیں، محبت کا تقاضا تو احکامات کی تعمیل ہے۔ آپﷺ نے تو صفائی کو نصف ایمان فرمایا ہے، آدھا ایمان صفائی ہے، باقی سب کچھ آدھا ایمان ہے۔ آئیے تہیہ کریں کہ ہم اپنے آپ اور ارد گرد ماحول کو صاف رکھ کر ایمان کی تکمیل کریں۔ ہمارا یہ اقدام صفائی کی کمپنیوں سے تعاون بھی ہوگا اور ایمان کی تکمیل کا ذریعہ بھی۔ دوسری طرف حکومتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ کمپنیوں کو وسائل اور اختیارات دیں۔ ’’کلین اینڈ گرین پاکستان‘‘ کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے یہ اقدامات از حد ضروری ہیں، یہ نہ ہو کہ مایوسی بڑھتی جائے اور ہم سب اپنے ہی پھینکے ہوئے کچرے تلے دب کر رہ جائیں۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 431918 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.