ڈینور کا حیدر علی۔۔۔۔

68 برس کی عمر میں اگر بیماری جکڑ لے تو اس سے چھٹکارہ پانے کے لئے انسان کو بہت تنگ و دو کرنی پڑتی ہے علاج کے ساتھ ساتھ غذا کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے وہ بھی کئی دنوں سے گلے کی سوزش کی وجہ سے بخار میں مبتلا تھا

آج اس کی طبیعت کافی بہتر محسوس ہو رہی تھی۔ جسم میں جیسے قدرےطاقت آگئی ہو ورنہ تو جوڑ جوڑ میں دکھن تھی۔اسکابہت جی چاہا کہ باہر نکل کر چہل قدمی کی جائے ۔۔یوں بھی یہ اسکی ایک عادت ثانیہ ،ایک معمول تھا۔کام کاج تو کوئی خاص تھا ہی نہیں ، ۔۔اسے وہ وقت بری طرح یاد آتا تھا جب فرصت کے چند لمحات کو ترس جاتا تھا اور اب اسکا جی چاہتا ہے کاش کوئی مصروفیت ہوتی۔اسنے جوگرز پہنے ، ہلکی جیکٹ پہنی،فون جیب میں ڈالا،سر پر ہیٹ پہنا اور روانہ ہوا ۔۔چلتے چلتے وہ تمام وقت تلاوت کرتا رہتا یا پھر اپنے فون سے ائر پلگ لگا کر تلاوت سنتا ۔۔اللہ سے تعلق جوڑ کر اسے یک گونہ سکون اور اطمینان ہوتا۔۔

دور سے اسے اپنا پڑوسی سائمن جوزف اپنے دو خونخوار قسم کے کتوں سمیت آتا نظر آیا اس نے گرم جوشی سے ہاتھ ہلایا اور قریب آکر اسکی خیریت دریافت کی ۔۔حیدر نے اپنی بیماری کی کچھ تفصیلات اسے بتائیں۔۔ پہلے پہل جب وہ ملتا تو وہ اسکو ہیلو کہتا اور یہ ہائے کہہ دیتا۔۔یہاں پر ذرا غیر ملکی نظر آنیوالوں کو ہیلو کہا جاتا ہے ورنہ تو ہائے ،ہائے اور بائے بائے چلتا ہے ایک روز تو وہ سپینش زبان میں شروع ہوا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ اسے لاطینی سمجھتا ہے۔۔ لیکن جب ایک روز وہ شلوار قمیض پہنے نکلا تو اسنے قریب اآکر کہا " نمستے" وہ مسکرایا پھر ایک روز جب اسنے کہا " ہیپی دیوالی " تو اس سے برداشت نہیں ہوا اور اسنے سارا پول کھول دیا ۔۔ اب تو وہ اچھی طرح جان چکا تھا کہ وہ پاکستانی ہے اور مسلمان ہے۔۔ وہ اس سے اکثر پاکستان یا مسلمانوں کے بارے میں ذکر کرتااور وہاں کے حالات پر گفتگو کرتا ۔۔آئے دن خبروں میں ایک سے ایک اندوہناک قصےآرہے ہوتےاور وہ اسے یقین دلانے کی کوشش کرتا کہ ہم تو انتہائی مہذب اور امن پسند ہیں۔امن وامان ، چین اور سکون کے متلاشی ہیں حقیقت بھی یہی تھی اسی امن، سکون اور چین کی خاطر تو سات سمندرپار اس انجانے ملک میں آبسےتھے۔۔ملک تو خیر ایسا تھا کہ ہر کوئی بسنے کے خواب دیکھتا۔۔لیکن وہ تو کتنے انقلابات سے گزر کر یہاں تک پہنچا تھا۔۔
حیدرعلی جب امریکی ریاست کولوراڈو اسپرنگ کے دارلحکومت ڈینور پہنچا تھا تو محض ۲۵ برس کا جوان تھا اس نے بہت محنت سے اپنی تعلیم مکمل کی ساتھ ہی وہ مختلف جابز کرتا رہا تاکہ تعلیمی اخراجات پورے کر سکے ۳۰ سال کی عمر میں اس نے رابعہ نامی پاکستانی خاتون سے شادی کر لی
شادی کے ۲ سال بعد انکے یہاں جڑواں بیٹے پیدا ہوئے
حمزہ اور حارث

دونوں میاں بیوی نے اپنے دونوں بیٹوں کی تربیت بہت اچھی کی وقت پر لگا کہ اڑتا گیا کل تک جن بچوں کو گود کھلایا اب انکے بچوں کو گود کھلاتے کھلاتے وہ دونوں خوشی سے سرشار ہو جاتے اس دوران وہ پاکستان بھی جاتا رہا لیکن جب حیدر کے والدین نا رہے تو اسکا پاکستان جانا ختم ہی ہو گیا وہ اپنے دونوں بیٹوں اور انکے بچوں کے ساتھ باقاعدگی سےمختلف مواقع اور اجتماعات میں مسجد جاتا تو اپنے لوگوں سے ملنے کے مواقع میسر آتے۔یہاں کی مساجد ایک طرح سے کمیونٹی سنٹر ہوتے ہیں۔نماز ، عبادت ،تقاریر ملنا ملانا ،گپ شپ اور پھر مختلف تقریبات ،لذت کام و دہن کے مواقع ،عیدین اور دیگر مواقع پر مختلف بازار بھی لگ جاتے اور اپنی دیسی اشیاء خوب بکتیں ۔۔اگر یہ نہ ہو تو اپنے جیسے لوگوں کو دیکھنےاور ملنے کو آدمی بری طرح ترس جائے ۔۔مختلف رنگ و نسل کے مسلمان، آپس کی یگانگت، محبت اور الفت اسکو بہت تسکین دیتی اپنے دین اوراپنے لوگوں سے جڑ کر روحانی تقویت مل جاتی ۔بچوں کو بھی نیک اور پاکیزہ ماحول میسر تھا۔۔
پھر ۹/۱۱ کا سانحہ ہو گیا دنیا مسلمانوں کے لئیےتبدیل ہو گئی
حمزہ نیویارک سے آئے ہوئے ایک امریکی مہمان کے ساتھ مصروف تھا کہ اچانک وہ منحوس گھڑی آگئی ایک کالے نے لوٹ مار کی نیت سے گورے امریکی پر چاقو سے حملہ کیا حمزہ نے مہمان کو تو بچا لیا مگر پیٹ میں لگنے والے چاقو کا وار نا سہہ سکا اور جان کی بازی ہار گیا اس اندہوناک حادثہ کے باعث رابعہ بستر سے جا لگی اور ایک رات خالق حقیقی سے جا ملی
بوڑھے حیدر کی دنیا ویران ہو گئی کئی دنوں تک وہ بولایا بولایا سا پھرتا رہا
ایک طرف حالات مسلمان مخالف ہوتے جارہے تھے دوسری طرف اس کی ذاتی ذندگی کا محور اسکی رفیق حیات اور بیٹے کے بچھڑنے کا غم۔۔۔۔۔۔
دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو گئی مسلمانوں کے لئیےسب کچھ ویسا نہیں رہا جیسا ۹/۱۱ سے پہلے تھا
ہر شخص کے اندر مسلمان مخالف جذبات نے سر اٹھا نا شروع کردیا
یہاں رفتہ رفتہ جو مسلمان مخالف جذبات نے سر اٹھایا،حالات بدلنے شروع ہوئے تو کمزور قسم کے مسلمانوں نے مساجد سے دوری اختیار کرنی شروع کی وہی اسکے بچوں نے کیا
اب اس شہر میں اسکا کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ رکھنا بھی نہیں چاہتا تھا دوچار جاننے والوں سے فون اور ای میل کے ذریعے دعا سلام ہو جاتی تھی ۔
چہل قدمی کے بہانے کچھ حرکت ہو جاتی ۔ورزش کی ورزش ،تازہ ہوا اور موسم خوشگوار ہو تو یہ چہل قدمی کافی پر لطف ہوجاتی ۔۔دو چار لوگوں سے ہیلو ہائے بھی ہو جاتی کچھ لوگ چلتے پھرتے نظر آتے ورنہ یہاں کی بے کیف ،تنہااور گوشہ نشین زندگی سے وہ اکثر بیزار ہو جاتا ۔۔

زیادہ طبیعت اکتائی تو فون ملا لئے اپنے دور افتادہ بھائی بہنوں عزیزوں، دوستوں سے باتیں کرلیں ۔ورنہ کمپیوٹر پر ہی اسکی دنیاآباد تھی۔ یہ ایجاد اور اسکی سہولتیں اسکے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ سےکم نہیں تھی۔۔
حمزہ کے اس دنیا سے جانے کے بعد وہ ریزہ ریزہ، ہو چکا تھا ساراشیرازہ منتشر ہوکر کرچی کرچی ہوچکا تھا۔ وہ اللہ سے ہر وقت یہی دعا کرتا کہ وہ اسے اپنے بچے سے جلد ملا دے ۔۔ اسے یقین تھا کہ اسکا بچہ شہید ہے جس نے اپنے نا شکرےمہمان پر اپنی جان وار دی تھی اسکا مال اور اسکی جان بچائی۔۔اس شہر میں تو یہ قتل و غار گری اور لوٹ مار روز کا معمول تھا پولیس تفتیش کرتی اورپھر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج ہو جاتا۔۔ ۔۔پھر وہ دعا کرتا یا اللہ مجھے بھی شہادت کی موت عطا کردے تاکہ میں بھی اپنے بچے کے پاس اسکی جنتوں میں چلا جاوآں ۔۔ پہلے جوان بیٹےکی المناک موت اور پھر بیوی کی اچانک موت کا صدمہ اٹھانا اس کے لئیے بہت مشکل تھا
اللہ تعالی سےوہ ہمہ وقت اب مزید آزمائشوں سے پناہ مانگتا یہ اللہ ہی کی ذات تھی جس نے اسکو حالات سے نبرد آ زما ہونے کی ہمت اور حوصلہ دے رکھا تھا ۔زندگی کے دھارے میں بہتے بہتےاور حالات سے لڑتے لڑتےوہ جیسےپھر سے جی اٹھا بڑھاپے کو شکست دیکر وہ ۔ اپنے سارے معاملات اللہ کے سپرد کردئیے ہر سانس کے ساتھ اللہ تعالی کا شکر گزاررہتا تھا۔۔
کبھی تو اسے محسوس ہوتا کہ ایک خوفزدگی کا ماحول ہے۔جابجا حجاب پہننے والی خواتین کو پریشان کیا گیا۔نیویارک میں ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کو گولی مار دی گئی ۔مساجد پر حملے ہونے لگے کہیں پر سوآر کا سر پھینک دیتے ایک آدھ جگہ آگ لگانے کی کوشش کی گئی توڑ پھوڑ ہوئی، سب سے بڑھ کر میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ہروقت بحث مباحثے ۔۔ کہا جاتا تھا کہ مساجد جانیوالوں پر نظر رکھی جارہی ہے انکا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار اور ابلاغ عامہ مسلمانوں کے متعلق ہر وقت زہر اگلتے
اس بات کا اسے بہت دکھ اور صدمہ تھا
داعش کی بہیمانہ کارروائیوں کی خبریں دہلانے والی تھی مشرق وسطے تو مدتوں سے خونریزی کا میدان کارزار بنا ہواتھا۔۔ عالمی طاقتوں نے امن عالم کے نام پر اسے اپنا اآکھاڑہ بنا رکھا تھا لاکھوں مسلمان ، مخالف مسلمانوں کے ہاتھوں،جنگوں اور بمباریوں سےہلاک ہوئےعراق اور شام کی قتل و غارتگری اور ہلاکت خیزی نے افغانستان، کشمیر ، پاکستان ، برما ، فلپائن اور وہاں کی خونریزیوں کو بھی کہیں پیچھے چھوڑ دیا ۔ ۔۔ القاعدہ کے بعد یا داعش کا ہوا اور فتنہ پوری دنیا کو دہلائے جا رہاتھا ۔۔ پیرس میں ۱۵۰ بےگناہوں کا خون بہایا گیا پوری دنیا لرز اٹھی اور داعش کی سر کوبی کیلئے متحد ہوگئی۔۔فرانس ، امریکہ ، روس اور بر طانیہ کی فضائی افواج کی بمباری سے بے شمار بے گناہ مارے جارہے تھے ۔۔
پیرس کی ہلاکتوں کے بعد سائمن جوزف کچھ اکھڑا اکھڑا ساتھا،"ہم ان لوگوں کو پناہ دیتےہیں اور پھر یہ ہمارے ہی ملکوں میں ہم لوگوں کو مارتےہیں اب پیرس کی ہلاکتوں کا کیا جواز ہے۔۔دہشت ہے دہشت، ان دہشت گردوں کو ہر قیمت پر روکنا ہوگا "
"میں بے حد افسردہ ہوں۔کاش کہ ایسا نہ ہوا ہوتامجرموں سے سختی سے نپٹنا چاہئے "وہ بس اتنا ہی بولا ۔ وہ تھک جاتا تو ایک بنچ پر بیٹھ جاتا وہ ادھر ادھر ٹہل ٹہل کر باتیں کرتا رہتا۔۔ دونوں ہی اسوقت غصے اور افسوس میں تھے۔۔
حفاظتی اداروں نے تھینکس گیونگ پر حملوں سےمتنبہ کیا تھاشکرہےکہ خیریت رہی ۔بلیک فرائڈے کی وہی رونقیں ، خریداریاں اور بھیڑبھاڑ۔۔
ہر جگہ کرسمس کی بتیوں کی چکا چوند تھی اسکے محلے کے تقریباً سارے ہی مکان کرسمس لائٹوں سے سج گئے۔ایک انکا گھر ان معدودے چند گھروں میں تھا جس پر بتیاں نہیں تھیں ۔
کولوروڈو اسپرنگ میں خاندانی منصوبہ بندی کے دفتر پر فائرنگ ہوئی ۔۔ تین لوگ ہلاک ہوئے ۔۔ چھ گھنٹے مقابلے کے بعد حملہ آور پکڑا کیا اس نے اللہ کا بے حد شکر ادا کیا کہ اسکا مسلمانوں اور داعش اور القاعدہ وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں نکلا ۔۔امریکہ میں جو چاہےمن پسند گن، بندوق ، پستول خرید سکتا ہے ۔۔ اسلئے اسلحہ کے شائقین کی عیاشی ہے لیکن ساتھ ہی یہاں ہر ایک کے پاس بندوقیں آئے روز کی قتل و غارتگری کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔۔
سائمن جوزف سے اسکے بارے میں باتیں ہوئیں "بندوق ،گن اسلحے پر پابندی ہونی چاہئےاگر یہ کھلا اسلحہ نہ ہو تو آئے دن کی یہ فائرنگ اور قتل وغارتگری قابو میں آجائیگی۔امریکہ میں آئے دن اسکولوں ،کالجوں یونیورسٹیوں اور مختلف جگہوں پرفائرنگ ہوجاتی اور کئی ہلاکتیں ہو جاتیں۔
"۔وہ مسکرا کر کہنے لگا ،" مجھے تو گنز بہت پسند ہیں اور میں اس تجویز کی سختی سے مخالفت کرونگا۔ ہمیں اپنی حفاظت کیلئے گنز کی ضرورت ہے" وہ اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔۔
وہ گھوم پھر کر واپس آیا تو ٹی وی پر سی این این لگایا ۔ سان برنارڈینو میں ذہنی معذورین کے سینٹر پر فائرنگ سے 14 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو چکےتھے۔۔تین حملہ آور فائرنگ کرکے فرار ہوچکے تھے ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ہر چینل پر یہی خبر شد ومد کے ساتھ تھی ۔وہ بھونچکا رہ گئیا یا اللہ خیر۔کسی مسلمان کی حرکت نہ ہو" اسنے اپنے دوست کی خیریت پوچھنے کے لئےفون کیا جو وہاں قریب ہی رہتا تھا۔۔وہ بھی ٹی وی سے جڑ ا پریشان بیٹھپہنچا تھا۔۔ دو سال پہلے وہ اسکےپاس گئپہنچا تھا اور دونوں جب ٹرین میٹرولنک پر لاس اینجلس جاتاں تو سان برنارڈینو کا اسٹیشن فورا ہی اآٓجاتا۔۔شام کے ہوتے ہوتے دو قاتلوں کے نام منظر عام پر اآئے ۔۔یہ پاکستانی نسل کا شادی شدہ جوڑاتھا۔۔مبینہ قاتل سید فاروق اسی ادارے میں کام کرتا تھا۔۔خبروں کے مطابق وہ وہاں ہونیوالی کرسمس پارٹی میں موجودتھا، اسکی ایک ساتھی کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی گھرآیااپنی بیوی تاشفین ملک کو لیا، چھ ماہ کی بیٹی کو ماں کے پاس چھوڑا یہ کہہ کر کہ ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں ۔جنگجوآں والے کپڑے پہنے اتنے سارے لوگوں کو ہلاک اور زخمی کر کے بھاگ آ ئے چار گھنٹے کے بعد پولیس نے انکو بے دردی سے قتل کردیا۔۔چشم دید گواہوں کے مطابق دونوں کے ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے تھے۔ عورت تاشفین ملک باپردہ عورت تھی لیکن اسوقت وہ مختصر لباس میں تھی۔ میڈیا، پولیس اور ایف بی اآئی مجرموں کو کیفر کردار کو پہنچانے پر مطمئن تھی ۔شروع میں تو کہا گیا کہ کسی گروہ سے تعلق نہیں ہے لیکن بعد میں ریڈیکالئزیشن کی گردان ان کا سب سے بڑا جرم ٹہری ۔۔اسلام پر عمل پیرا ہونا دہشت گردی پر اکساتا ہے ۔۔وہ بری طرح لرز گیا تمام مسلمان ہی دہشت زدہ رہ گئے۔ میڈیا پر تو ایک طوفان ایک ہنگامہ مچا ہوا تھا مسلمان اور پاکستانی اس جوڑے کے کردہ یا نا کردہ گناہ پر شرمسار اور نادم تھے۔۔یقین کرنی کو تو جی نہیں چاہ رہاتھالیکن شواہدیہی تھے کہ وہ دونوں قاتل تھے۔انکا ماضی حال کھنگالا جارہاتھا ۔۔فاروق نے اپنی پسند کی باپردہ لڑکی سے ایک آن لائن ویب سائٹ کے ذریعے رشتہ کیا ۔۔نکاح مسجد الحرام مکہ معظمہ میں ہواتھا۔ایک اچھے مسلمان کے لئے تو یہ سب باعث سعادت تھا۔۔لیکن کیا وہ دونوں واقعی قاتل اور مجرم تھے؟۔متضاد خبروں نے اسکا ذہن بے حد پریشان کردیا۔ہر وقت کی خبریں اور تبصرے ذہنی اذیت اور کوفت کا باعث تھے اس پر سیاسی لیڈروں کے زہر آلود پیغامات
ان حالات کی وجہ سے وہ بہت دلبرداشتہ اور غمزدہ تھا۔
آج موسم ابرآلود تھا شام کو بارش کی پیشن گوئ بھی تھی اس نےسوچا کچھ چہل قدمی کر آوں شاید سائمن جوزف سے ملاقات ہوجائے ۔اسے یہ سوچ کر کچھ گھبراہٹ سی ہوئی " اللہ جانے وہ کیا محسوس کررہا ہوگا ؟ ایک مرتبہ تو اسنے اتنا بھی کہا کہ یہ سارے مذہب ہی فساد کی جڑ ہیں "لیکن پھر وہ اسلام میں دلچسپی بھی لینے لگا تھا۔۔انکی بس یہی چلتے پھرتے ملاقات اور گپ شپ ہوتی وہ اپنے کتوں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتاتھا۔۔
بیوی سے طلاق ہوچکی تھی ایک بیٹا تھا وہ دوسرے شہر میں رہتا تھا۔
تھا اسی ادھیڑ بن میں وہ باہر نکلا فون پر تلاوت لگا کر ایرپلگ لگالئے۔۔ایک عجیب سا سناٹا چھایا ہوا
اچانک دور سے سائمن جوزف اپنے ٹرک میں آتا ہوا دکھائی دیا اسکے پاس ایک ہیوی ڈیوٹی پک اپ تھا جسے یہاں ٹرک کہتے ہیں ۔اسنے اسے ہاتھ ہلایا لیکن وہ جیسے نظر انداز کرکے گزر کیا۔۔" چلو کوئی بات نہیں جلدی میں ہوگا" اسنے جیسے اپنے آپکو تسلی دی۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ سائمن گھوم پھر کر چکر لگا رہا ہے
جیسے ڈرائیونگ سیکھنے والے کیا کرتے ہیں اب وہ پارک کے قریب پہنچ چکا تھا ۔وہاں بھی ہو کا عالم تھا اتنے میں سائمن جوزف نےاسکے قریب آکر گاڑی آہستہ کی ،کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا جیسے وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہو۔۔ " یو بلڈی ٹیررسٹ مسلم "اس نے جواب دینے کے لئے منہ کھولاہی تھا ۔۔تڑ تڑ تڑ تڑ گولیوں کی بوچھاڑ، وہ چکرا کر گر پڑا۔۔خون کے فوارے جاری تھے اسکی شہادت کی دعا قبول ہوچکی تھی ۔۔ اسکا فون دور گر پڑا ۔۔
اور تم انہیں مردہ مت کہو جو اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہ زندہ ہیں اور اللہ کے ہاں رزق پا رہے ہیں البقرہ کی آیات کی تلاوت جاری تھی۔

 

Syed Mujtaba Daoodi
About the Author: Syed Mujtaba Daoodi Read More Articles by Syed Mujtaba Daoodi: 41 Articles with 56349 views "I write to discover what I know.".. View More