داعش کی بھارت میں نئی صف بندی

ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے میڈیا میں انہی خبروں کو زیادہ جگہ مل پاتی ہے جو ملک کی اندرونی سیاست کے حوالہ سے ہوں ۔المیہ یہ ہے کہ ایسے موقع پر ان واقعات کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے جن کے ساتھ ملک کی سلامتی جڑی ہوئی ہو۔ فیٹف اس کی ایک بہترین مثال ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں رسہ کشی کی وجہ سے فیٹف پر ہونے والے معاملات میں اتفاق رائے نہیں کیا جا سکا حالانکہ یہ اپوزیشن کا مسئلہ تھا نہ ہی حکومت کا بلکہ اس کا تعلق ملک کی سلامتی سے ہے ۔ ایک طرف اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے ایک ہو چکی ہے بڑے بڑے جلسوں کا سلسلہ گوجرانوالہ سے شروع ہونے جارہا ہے اور نہ جانے اس کی تان کہاں جاکر ٹوٹے گی دوسری طرف حکومت مہنگائی ، بیروزگاری سمیت دیگر مسائل پر توجہ دینے کی بجائے اپوزیشن کے حربوں کا توڑ کرنے میں مصروف ہے ۔ میڈیا کی تمام تر توجہ کا مرکز بھی سیاسی محاذ آرائی ہی ہے ۔انہی دنوں ایک بڑی خبر امریکی جریدے فارن پالیسی کی زینت بنی جس میں تہلکہ خیز انکشافات نے پھر سے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی دہشت گردی تاریخی طور پر دنیا کی نظروں سے اوجھل رہی، ہندو ستان کی انتہا پسند پالیسی ایک تباہ کن خطرہ ہے، بھارتی دہشت گردی کا نوٹس نہ لیا تواس کے دور رس اثرات ہوں گے۔

جریدے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ داعش کے افغانستان میں اگست میں جیل پر حملے نے ابھرتے خطرے کو بڑھا وا دیا، مختلف ممالک میں دہشت گرد حملوں کی نئی لہر میں بھارتی سر پرستی نیا موڑ لے رہی ہے۔ داعش اور بھارتی گٹھ جوڑ نے 2019میں سری لنکا بم دھماکے، 2017میں ترکی میں کلب پرحملہ، نیویارک، اسٹاک ہوم حملے نے دنیا کو ششدر کر دیا، ان حملوں کی پلاننگ میں بھارتی کا ملوث ہونا پریشان کن ہے۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت کا دہشت گردی میں ملوث ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ بھارت کے پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردوں سے روابط اور سر پرستی کے ثبوت ہیں، اس سے پہلے بھی بھارت خطے میں دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ بھارت نے داعش کواستعمال کرکے انتہا پسندی اور دہشت گرد نظریات کوفروغ دینے کے لیے نوجوانوں کو استعمال کر رہا ہے جبکہ بھارتی دہشت گردوں کے شام کی لڑائی میں اور افغانستان میں داعش سے ملکرلڑنے کے ثبوت ہیں۔ 2016اتا ترک ائیرپورٹ پر حملہ، زیر زمین پیٹرز برگ پر حملے کے شواہد ہیں۔ بھارتی دہشت گردوں نے افغانستان، شام کو بیس بنا کر کارروائیوں میں حصہ لیا جبکہ کابل میں سکھ گردوارے پر حملے میں بھارتی دہشت گرد ملوث تھے۔ فارن پالیسی نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ داعش نے بھارت میں دہشتگرد گروپس کا باضابطہ اعلان بھی کیا تھا، داعش کا یہی گروپ کشمیر میں بھی ملوث ہے جبکہ اقوام متحدہ بھی کیرالہ، کرناٹکا میں دہشت گرد گروپس کا انکشاف کرچکا ہے۔ داعش نے کشمیر میں مرنے والے 3 ساتھیوں کا ذکر اپنے جریدے ال بنا میں کیا جبکہ ایک ہندو کا نائن الیون واقع کے خالد شیخ محمد سے روابط کے بھی انکشاف سامنے آیا۔رواں برس مارچ میں کابل کے گوردوارہ پر حملے کے بعد داعش کی جانب سے حملہ آورووں کی تصاویر جاری کی گئی تھیں ان میں ایک کا نام ابو خالد الہندی تھا جس کا تعلق بھارت کی ریاست کیرالہ سے بتایا گیا تھا۔ دوسری جانب بھارت کے اخبار انڈیا ٹوڈے نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اس کی تصدیق کی جس میں بھارتی انٹیلی جنس ذرائع سے بتایا گیا تھا کہ ابو خالد الہندی کا اصل نام محسن ہے ۔اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اگست 2015میں داعش کا ایک اور بھارتی کارکن ابو یوسف الہندی عرف شفیع جس کا تعلق کرناٹک سے تھا شام میں ایک خودکش حملہ کرتے ہوئے مارا گیا ۔یاد رہے کہ یہ انڈین مجاہدین کا پہلا رکن تھا جس کو امریکہ نے عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا ۔ رپورٹ کے مطابق مئی 2016میں 98 بھارتی افراد نے افغانستان جا کر داعش میں شمولیت کی تھی ۔2017میں لکھنومیں ہونے والے سیکورٹی اداروں کے آپریشن کے دوران داعش کے ارکن کی ہلاکت کی اطلاعات ملی تھیں ۔

جولائی 2020کواقوام متحدہ کی دہشت گردی سے متعلق ایک رپورٹ میں خبردارکیا گیا ہے کہ بھارتی ریاستوں کیرالہ اور کرناٹک میں داعش کے دہشت گردوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔اقوام متحدہ نے دہشت گردی سے متعلق ایک رپورٹ میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی ریاستوں کیرالہ اور کرناٹک میں داعش کے دہشت گردوں کی بڑی تعداد موجود ہے، داعش اور القاعدہ وغیرہ سے متعلق تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ برصغیر افغانستان کے نیمروز، ہلمند اور قندھار صوبوں سے کام کرتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس گروپ کے بنگلا دیش، بھارت اور میانمار میں ڈیڑھ سے 200 کے قریب ممبران ہیں جب کہ دہشت گرد تنظیم اے کیو آئی ایس کا موجودہ رہنما اسامہ محمود اپنے سابق رہنما کی موت کا بدلہ لینے کے لئے خطے میں انتقامی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

گزشتہ ماہ کے آخر ی ہفتہ میں بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی جس میں انکشاف کیا گیا کہ دنیا بھر میں بھارت سے دہشتگرد تنظیم داعش کو ایک ارب ڈالر بھجوائے گئے۔ امیریکن ٹریژری کے ادارے فائنینشل کرائمز اینفورسمینٹ نیٹ ورک نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ 2011 سے 2017 کے درمیان 44 بھارتی بینکوں سے کی گئی دو ہزار سے زائد ٹرانزیکشنز کے ذریعے داعش اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو ایک بلین ڈالر سے زائد رقم بھجوائی گئی۔ 2018 سے اب تک کتنی رقم بھجوائی گئی، ابھی اس کا ریکارڈ سامنے آنا باقی ہے۔ اس ٹیرر فائنینسنگ میں بھارت کے نجی بینک ہی نہیں، سرکاری بینکس بھی ملوث ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری بینکوں میں پنجاب نیشنل بینک (290 ٹرانزیکشنز)، سٹیٹ بینک آف انڈیا (102 ٹرانزیکشنز)، بینک آف بروڈا (93 ٹرانزیکشنز)، یونین بینک آف انڈیا (99 ٹرانزیکشنز) اور کنارا بینک (190 ٹرانزیکشنز) کے ساتھ سر فہرست ہیں جبکہ پرائیویٹ بینکوں میں ایچ ڈی ایف سی بینک (253 ٹرانزیکشنز)، آئی سی آئی سی آئی بینک (57 ٹرانزیکشنز)، کوٹک مہندرا بینک (268 ٹرانزیکشنز)، ایکسس بینک (41 ٹرانزیکشنز) اور انڈس انڈ بینک (117 ٹرانزیکشنز) کے ساتھ نمایاں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان رقوم منتقلی کے لیے ان بینکس کی لوکل شاخوں کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور یو اے ای جیسے ممالک کی شاخیں بھی استعمال کی گئی ہیں جس سے یہ اندازہ کرنا قطعاً مشکل نہیں کہ بھارتی ایجنسیاں کیسے آپریٹ کر رہی ہیں خصوصاً برطانیہ اور یو اے ای سے ہونے والی ٹرانزیکشنز کا پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہونا کسی طور بعید از قیاس نہیں۔ ان ترسیلات زر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان میں نہ تو ذرائع آمدن کا ذکر ہے اور نہ ہی یہ وضاحت کہ رقم کس مقصد کے لیے بھجوائی گئی۔ بہت سی ٹرانزیکشنز میں دیے گئے نام اور پتے بھی کوئی وجود نہیں رکھتے۔ امریکی ادارے کی جانب سے تحقیقات کے لیے بھجوائی جانے والی ای میلز کا کم از کم دس بھارتی بینکوں نے جواب دینا بھی گوارہ نہیں کیا جبکہ اکثر بینکوں نے ''کلائنٹ کی راز داری'' کے اصول کے تحت معلومات دینے سے معذرت کر لی۔ اس کے بعد ''فائنینشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک'' نے سفارش کی ہے کہ یہ معاملہ ''ایف اے ٹی ایف'' اور ''اینٹی منی لانڈرنگ ٹاسک فورس'' میں زیر بحثلایاجانا چاہیے تاکہ بھارتی بینکنگ قوانین میں تبدیلی لائی جا سکے۔اس رپورٹ سے ایک اور پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے کہ بی جے پی اور کانگریس دونوں کے اداور حکومت میں یہ روش برقرار رہی کیونکہ یہ رپورٹ 2011 سے شروع ہوتی ہے جببی جے پی نہیں بلکہ کانگریس برسر اقتدار میں تھی۔

جوں جوں افغانستان میں طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات کے نتیجہ میں بیرونی اثر کم ہوتا جا رہا ہے اور طالبان مضبوط ہوتے جارہے ہیں داعش کا رخ بھی بھارت کی جانب ہوتا جارہاہے جس کا آغاز وہ2014سے کر چکے تھے ۔ طالبان بڑے واضح انداز میں کہہ چکے ہیں کہ داعش کے لیے افغانستان میں کوئی جگہ نہیں ہے اور اس کے ساتھ نبٹنا طالبان کے لیے بہت آسان ہے۔

ان حالات میں بھارت داعش کا نیا ٹھکانہ ہو سکتا ہے ۔جس کا نقصان جہاں بھارت سمیت دیگر دنیا کو ہو گا وہاں پاکستان کو بھی مختلف اقدامات کرنے ہوں گے ۔ اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف حکومت و اپوزشن کو سوچنا چاہیے کہ ملکی سلامتی کے امور کو ہمیشہ ترجیح دینا ہوگی اور اس طرح کے خطرات کا مل جل کر ہی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کو جنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے اس خطرے سے دنیا کو آگاہ ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے خلاف اقدامات کرنے کے لیے بھی مشترکہ فورس کے قیام کی تجویز دینی چاہیے اور دنیا پر واضح کردینا چاہیے کہ کس طرح مودی سرکارکی انتہا پسند پالیسیاں خطے میں تباہی کو دعوت دے رہی ہیں۔
 
Asif Khursheed
About the Author: Asif Khursheed Read More Articles by Asif Khursheed: 97 Articles with 64685 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.