عمران حکومت کے غدار!

PTI Govt Cleaning Ground for by Election.

PDM Meeting

اقتدار والوں کی اختلاف والوں کو زیر کرنے کی روش نئی نہیں ہے،مگر اس وارکو آزمانے کے ڈھنگ نئے نئے رہے ہیں۔ہاں مگر عمران حکومت تو اس ڈھنگ سے

اقتدار والوں کی اختلاف والوں کو زیر کرنے کی روش نئی نہیں ہے،مگر اس وارکو آزمانے کے ڈھنگ نئے نئے رہے ہیں۔ہاں مگر عمران حکومت تو اس ڈھنگ سے بھی مطلق نابلد ٹھہری۔ریاستی جبر کے سائے تلے بڑے بڑے ننگے فیصلے کئے جاتے رہے ہیں اور ان فیصلوں پر عملدرآمد کر گزرنے کی روایت بھی ماضی کا حصہ ہے ،مگر کسی جمہوری حکومت کے دور میں مخالفین پر غداری جیسے تلخ مقدمے قائم ہونے کے بعد ریاست کا لاتعلق ہوجانا پہلی بار دیکھا ہے اور یہ فقط اسی معاملے ہی میں نہیں،متعدد حکومتی فیصلوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ حکمران سبکیاں اٹھاتے ہیں مگر باور نہیں کرتے۔

اپوزیشن رہنمائوں پر بغاوت یا غداری کا مقدمہ درج کرانا وہ بھی ایک ایسے شخص کے ہاتھوں جس کا اپنا دامن داغ داغ ہوایک عام شہری کے لئے بھی باعث حیرت ہے،کجا تیز ترین ذرائع ابلاغ کی موجودگی میں جب ذراذرا سی خبر پل بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل جاتی ہو۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کس کی نیت میں فتور آیا اور اس نے ایک غلط کام کے لئے غلط آدمی کو چُنا،جس نے جہاں پنجاب حکومت کی نالائقی پر مہرتصدیق ثبت کی وہاں وفاق کی پشت میں بھی زہر آلود چھرا گھونپ دیا۔غداری کے اس مقدمہ سے ایک اور بات پر سے بھی پردہ اٹھا کہ ہماری پولیس کس قدر بے باک اور حقیقت ناآشنا ہے کہ مقدمہ درج کرتے وقت مدعی کی سماجی حیثیت اور مدعا علیہ کے قومی تشخص کا اندازہ بھی نہیں کر سکتی،جس سے ریاست کی بدنامی اور ایک اہم ادارے کی بے بضاعتی کے اسباب کھل جاتے ہیں۔وفاقی حکومت نے مقدمے سے لاتعلقی کا عندیہ تو دے دیا ،مگر مقدمہ درج کرانے اور کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی اس پر راوی چپ ہے۔اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے یا پھر حکومت اس غرور میں مبتلا ہے کہ ایسی ذلت و رسوائی یا خفت سے اس کا کچھ بگڑنے والا نہیں۔حکومتیں یا ریاستیں جب اس قسم کے زعم میں مبتلا ہو جاتی ہیں تو یہ ان کے زوال کی نشانی ہوتی ہے۔ایسا زوال اسباب پیدا کرنے والوں کے تاریخی نقوش بھی مٹا کے رکھ دیتا ہے ۔

ہر پل بدلتی ملکی صورت حال اس امر کا صاف پتہ دیتی ہے کہ اپوزیشن کی بڑھتی ہوئی پیش رفت اور حکومت کی خاموشی کسی بڑے حادثے کا پیش خٰیمہ بن سکتی ہے ،مگر اس کے نتائج ہر فریق کے حق میں بہتر دکھائی نہیں دیتے۔حزب اختلاف کی صف بندی جس نقصان پر تلی ہے،شائد وہ جان بوجھ کر اس سے بے اعتنائی برتے ہوئے ہے،کچھ ہاتھ نہ آنے کے امکانات مولانا جیسے دور اندیش اور دورِ حاضرکی سیاست کے مزاج شناس کی نظر سے بھلا کیسے اوجھل ہو سکتے ہیں ،مگر باہمی ہم آہنگی کے فقدان اور بےاعتمادی کی فضا میں حکومت مخالفت کا سفر آنکھیں موندے طے کرتے چلے جا رہے ہیں۔نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ بھی سیاسی تدبر و تفکر سے ماورا فقط مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد اور عسکری قیادت کے بغض عناد کے سواکچھ نہیں ۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف بار بار یہ اصرار کرتے ہیں کہ ’’ عمران حکومت کو لانے والے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں ‘‘ مگر خود اس جواب سے گریزاں ہیں کہ وہ بھی تو انہی کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار کے ایوان میں داخل ہوئے تھے،وہ ریشہ دوانیوں کی رتھ پر سوار ہوکر بینظیر بھٹو کے جمہوری سفر میں کانٹے بچھاتے رہے،ان کے عوامی رشتوں کے درمیان آہنی دیوار کھڑی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اس وقت شہید بی بی کے بیانیے کو کندھا دینے والوں میں مولانا بھی شامل تھے جو بیک وقت یہ رائے رکھنے کے باوجود کہ عورت کی حکمرانی جائز نہیں،ان ہی کے زیر سایہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر کام کرتے رہے اوراُسی دور کی اپنائی ہوئی روشن خیالی کی اساس پر آج مریم نواز کے شانہ بشانہ حکومت مخالف تحریک کی قیادت فرمارہے ہیں۔

یہ سارے تضادات ہیں جو ہمارے یہاں کی سیاسی انارکی کے پیچھے کارفرما رہے ہیں اور یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ آج جن باتوں پر اپوزیشن کے سینے پر بغاوت اور غداری کے تمغے سجائے جارہے ہیں،کل یہی باتیں مخالف سیاسی دھڑے کی قیادت کرتے ہوئے عمران خان بھی کرتے رہے ہیں،جن کے کلپس بھارتی میڈیا بار بار دکھا کر اپوزیشن کے موقف کی طرف داری کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے،جس کا ہر گز یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ کہ اپوزیشن بھارتی عزائم کی کامیابی کے لئے کام کررہی ہے اور اس پر غداری کا لیبل لگا کر قرار واقعی اسے جرم وار سمجھ لیا جائے۔یہ ایک سیاسی بددیانتی ہوگی جس پر حکومت عمل پیرا ہے،یہ حکومت کی خود اپنی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی عاقبت نااندیشانہ کوشش تو ہو سکتی ہے عقل مندانہ فعل کی دلیل نہیں۔اس لئے حکومت کو اپنے معاندانہ اور سوقیانہ رویئے پرسنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سرکار کلہاڑا لئے اپنے آپ کو خود لخت لخت کرنے کے درپے ہے۔اس طرح اپوزیشن کی قوت اور جدوجہد کو دوچند ہونے کا مزید موقع ملے گا،عوام اس کے موقف کے حق میں فیصلہ دینے کے لئے سڑکوں پر آنے کے لئے شائد مجبور ٹھہرے جو ابھی تک کسی ایسے احتجاجی مظاہرے یا جلسے جلوس کے لئے آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔

اپوزیشن کا بلوچستان سے حکومت مخالف تحریک کے باقاعدہ آغاز سے بھی یہی اجاگر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن یا پی پی پی کو پنجاب یاسندھ میں اپنی سیاسی قوت کے مضبوط ہونے کا کامل یقین نہیں ہے،وگرنہ کل تک وہی حکومت مخالف تحریک اپنے مقاصد کو پالینے میں کامیاب ہوئی ہے جس کا آغاز لاہور اور خاص طور پر ملتان سے ہوا جبکہ ابھی تک ان دونوں جمہوری قلعوں کے درودیوار میں خاموشی ہے۔
 

Muhammad Waqar khattak
About the Author: Muhammad Waqar khattak Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.