مفتی اعظم راجستھان اور راجستھان

راجستھان کی سنگلاخ زمین کو عشق رسول سے لالہ زار بنانے والی عبقر ی شخصیت کی داستان شوق

راجستھان کی سنگلاخ زمین کو عشق رسول سے لالہ زار بنانے والی عبقر ی شخصیت کی داستان شوق
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کسی زرخیز زمیں کے دامن کو لالہ زار بنانا اور اسے نوع بہ نوع گل بوٹوں سے آراستہ کر نا آسان ہو اکرتا ہے لیکن سنگ لاخ اور پتھریلی زمین کے سینے کوغنچہ و گل کا پیراہن عطا کرنے لیے کس قدر صبر آزمااورزہرہ گداز مراہل سے دوچار ہو نا پڑتا ہے اس کا اندازہ کچھ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کے سینے ودل میں وادی و کہسار کو چمن راج صحرا و بیا ں با کو گلزار بنا دینے کا سودا سمایا ہو ا ہو، یقینا مفتی اعظم راجستھان علامہ مفتی اشفاق احمد کا تعلق انہیں سرفروشوں کی جماعت سے ہے جو کانٹوں کی سیج کو غنچوں کا نکھار اور شب دیجور کو نکہت و نور کی بہار عطا کرنے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں۔ آپ کے نہاں خانہ ٔدل میں پروان چڑھنے والے اسی جذبہ صادق نے آپ کی زمام التفات کو نگار خانۂ وطن سے موڑ کر اس خط ہند کی طرف کر دیا جو بجا طور پرجزیرۃالعرب کے ریگستانی علا قوں میں بے آب و گیاہ میدانو ں کا عکا س ہے ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپ نے پتھروں کے بطن سے عشق رسول کے وہ گلہاے شاداب کھلائے اور ریگ زاروں کو وہ چمک و دمک عطا فرمائی جس سے آج سارے اسلامیان ہند کے قلوب روشن و منور اور وجود معطر و معتبر نظر آرہے ہیں ۔
چمن میں پھول کا کھلنا تو کوئی با ت نہیں
زہے وہ پھو ل جو گلشن بنائے صہرا کو

چنانچہ علوم عقلیہ کی تکمیل اور سند فراغت حاصل کر لینے کے بعد بعض اساتذہ کرام کی ایما پر آپ پہلی با ر ۱۹۴۵ء میں راجستھا ن کے شہر پالی مارواڑ شہر میں تشریف لے گئے، پالی صوبہ راجستھان کا ایک ترقی یا فتہ ضلع ہے، جو راجستھا ن کے مشہور شہر جودھ پو ر سے تقریبا ۷۰؍کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، یہا ں مسلما نو ں کی کثیر آبا دی ہے، جو معاشی اور اقتصادی اعتبا رسے خوشحال ہے، ایک صدی قبل اس شہر کے لوگو ں کے ذہن میں کفر و الحاد کی بڑی مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے، ایسے لوگ بہت کم تھے جو ان کے خونی پنجو ں سے محفوظ ہو ں، ایسے نازک حالات میں اعلاے کلمۃ الحق کے لئے حضرت صدالشریعہ مولانا امجد علی علیہ الرحمہ مصنف بہا ر شریعت پالی پہنچے اور ایک مختصر عرصہ ہی میں جہد و مسلسل اور اپنی بے پنا ہ صلا حیتو ں سے مخالفین اور منکرین کا قلع قمع کر دیا ۔۱۹۴۵ءمیں جب حضور مفتی اعظم راجستھان کی پا لی آمد ہو ئی تو آپ نے ایک مکتب کے مدرس اور مسجد کے امام کی حیثیت سے دینی خدمات کا آغاز فرمایا اور محض دوسال کی قلیل مدت میں آپ نے اہل پا لی کی ایسی تربیت فرمائی کی بے شما ر بد عقیدہ اور گمراہ افراد آپ کے دست اقدس پر شرف بیعت حا صل کر کے دامن اسلام سے پو ری طرح وابستہ ہو گئے اور ہزاروں فرزندان تو حید آپ کی نگا ہ فیض سے صوم صلاۃ کے پا بند اور شریعت اسلامیہ کے پیروکار بن گئے یہی وجہ ہے کہ آج ضلع پا لی ،راجستھا ن کا علما نو از اور علم دوست خط مانا جا تا ہے ۔

پالی کے دوسال قیا م کے دوران آپ کے علمی اورادبی قابلیت اور آپ کی پا کیزہ شخصیت کا چرچا راجستھا ن کے دور دراز علاقوں تک پہنچ چکا تھا ،اور آپ کا علم رعب راجستھا نی مسلما نو ں کے قلب و ذہن پر چھا چکا تھا ،آپ کے علم وفضل سے متاثر ہو کر ۱۹۴۸ءمیں دارالعلوم اسحاقیہ جودھ پو ر کے اراکین اور منتظمین نے آپ کو دارالعلو م کی قیادت کے لیے مدعو کیا ،دارالعلو م اسحاقیہ کے اربا ب حل و عقد کے پیہم اصرار سے مجبور ہو کر آپ کوجودھ پو ر جانا پڑا، جو دھ پو ر راجستھا ن کاایک مشہور مرکزی شہر ہے، ایک تخمینے کے مطا بق یہا ں کی کل آبادی بارہ لاکھ ہے جس میں دو لاکھ کے قریب مسلمان ہیں ،۱۵۱۵ء میں اسے راؤ جودھا نامی راجہ نے بسایا ،اس وقت یہا ں کے حالات نہ گفتہ بہ تھے، ہندؤ وں اور مسلما نو ں کے درمیا ن صرف نام کا فرق تھا ،سبھی ایک دوسرےکے تہواروں اور رسم و رواج میں شریک ہو تے تھے، سیکڑوں ناروارسم وراوج یہا ں کے مسلمانوں میں رائج ہو چکے تھے ،اسلامی احکام سے ناواقفیت کے سبب یہا ں کے مسلما ن ہندوانہ تہذیب وتمدن میں ڈھل چکے تھے ،۱۹۰۰ءمیں ایک مرد درویش اور عالم ربا نی حضرت علامہ شاہ اسحٰق نقش بندی یہا ں جلوہ افروز ہو ئے اور اسی شہر کو اپنی دعوت و تبلیغ کا مرکز بنایا، راجستھان میں اشاعت علم اور یہا ں کے تعصب زدہ ماحول کو خش گوار بنا نے کے لیے آپ نے ۱۹۱۴ء میں مدرسہ اسحاقیہ کی بنیا د رکھی ،اور اس کے ساتھ ہی آپ نے مدرسہ اسحاقیہ کے پلیٹ فارم سے اشاعت علم اور دعوت وتبلیغ کا کام نہایت تیز رفتاری کے ساتھ شروع فرما دیا اور اپنی بے پنا ہ جد و جہد خدا داد صلاحیتو ں سے راجستھا ن کی مسموم فضا کو خوشگوار بنا دیا،مدرسہ اسحا قیہ آج بھی راجستھا ن جا چشمہ و فضل وکمال اور خزینہ علم ومعرفت کی حیثیت سے معروف ہے ۔
حضور مفتی اعظم راجستھا ن ۱۹۴۸ءمیں مدرسہ اسحاقیہ کی مسند صدارت پر جلوہ افروز ہو ئے ،یہ وہ زمانہ تھا جب مدرسہ اسحاقیہ پستی اور خستہ حالی کا شکا ر تھا ،تعلیمی معیا ر بھی کا فی متاثر ہوگیا تھا ،عربی درجات ختم ہو چکے تھے، صرف پرائمری کا صوبہ باقی رہ گیا تھا، اس کے باوجود مفتی اعظم راجستھا ن نے برضا و رغبت مدرسے کی قیادت سنبھا ل لی اور مجاہدانہ شان سے دارالعلوم اسحاقیہ کی تعلیمی مشن کو لے کرآگے بڑٖھے اور تن تنہا عربی وفارسی درجات کی تعلیم شروع فرما دی ،ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ آپ کے علم وفضل کا شہراسن کر ملک کے اطراف سے طلبہ ذوق در ذوق راجستھا ن پہنچنے لگے، آپ نے اپنی شبانہ روز کی جاں فشانیو ں کی فطری صلاحیتو ں سے مدرسے کا تعلیمی معیا ر اس قدر بلند فر ما دیا ،کہ حضور مفتی اعظم ہند ایک موقع پر راجستھا ن تشریف لے گئے تو مدرسہ کے تعلیمی معیار اور آپ کی محنت و مشقت سے متا ثر ہو کر فرمایا:
’’مولانا اس ادارے کا مستقبل بڑا تا بنا ک ہے، آپ کو یہا ں سے جانے کی اجازت نہیں ،یہ میرے جملے نہیں بلکہ صد رالافاضل کے ہیں‘‘

بلاشبہہ آپ کا یہ تعلیمی مشن راجستھا ن کی تاریخ کا روشن باب ہے جس نے اس صحراائی اور ریگستا نی خطہ کو علم وعرفان کی آماج گا ہ بنا دیا ،اور ہندوستان کا یہ دور افتادہ خطہ اسلام و سنیت کی خوشبو ے دل نواز سے مہک اٹھا ۔حضور مفتی اعظم راجستھا ن آج بھی راجستھا ن کے اس مرکزی ادارے کو اپنی تعلیمی ،تبلیغی ،دعوتی خدمات اور اپنے فیوض برکا ت سے بہرہ ور فرما رہے ہیں اور ہزارو ں تشنگانے علم وفن آپ کے بحر علم و فن سے سیراب ہو رہے ہیں۔ حضور مفتی اعظم راجستھان نے راجستھانی مسلمانوں کی ہر طرح سے تربیت فرمائی ،اور ان کے ایما ن و عقیدے کی حفاظت اور ان کے اندرتعلیمی بیداری پیدا کرنے لیے ہمیشہ فکر مند اور کوشاںرہے،راجستھان میں بسنے والے بھولے بھالے مسلما نو ں کی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے مکاتب ،مساجد کی بنیا د رکھی، جن کے ذریعہ صوبہ راجستھا ن میں اسلام و سنیت کی نشرو اشاعت کا کام نظم و ضبط کے ساتھ انجام پارہاہے۔ مولانا شاہد علی مصبا حی لکھتے ہیں :
’’اتنا مسلم ہے کہ رجستھا ن میں سیکڑوں اداروں اور مکاتب کا قیام حضور مفتی اعظم کی ذات بابرکا ت کی رہین منت ہے ،راجستھا ن کے اکثر ادارے آپ ہی کی سرپرستی میں گامزن ہیں ۔ [مفتی اعظم راجستھا ن: ص00 ]

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آ ج مسلم خواتین کی اکثریت عموم اسلامیہ سے بے گا نہ ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں خواتین کے تعلیمی اداروں کا وجو نہ ہونے کے برابر ہے، جس کے سبب ہم چاہتے ہو ئے اپنی بچیو ں کو دینی تعلیم کے زیور سے آرآستہ نہیں کر سکتے ،حضور مفتی اعظم راجستھا ن ایک جلیل القدر عالم ہو نے کے ساتھ نباض قوم و ملت بھی ہیں، آپ نے وقت کی اس اہم ضرورت کا احساس کیا اور راجستھا ن کی سرزمین پر راجستھا ن کی عفت مآب شہزادیان کی اسلام کی تعلیم وتربیت کے لیے ۱۹۹۷ءمیں مدرسہ فاطمۃ الزہرہ کے نام سے ایک عظیم الشان ادارہ قائم فرمایا ،یہ ادارہ اب تک ہزارو ں شہزادیان کو اسلام زیور تعلیم سے آراستہ کر چکا ہے اور آج بھی سیکڑوں طالبات اس چمنستان علم وحکمت میں اکتساب علم وفضل کر رہی ہیں ۔

آ پ نےراجستھا ن کے جن اداروں کی سرپرستی فرمائی ان میں ایک متحرک اور فعل ادارہ سنی تبلیغی جماعت بھی ہے،اس ادارے کے بانی پاسبان ملت حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ ہیں، مگر اس کی سرپرستی و قیادت روز اول ہی سے حضور مفتی اعظم راجستھا ن فرمارہے ہیں ،آپ کی مخلصانہ قیادت میں اس ادارے نے بے شمار گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ،اس وقت اس ادارے کے تحت پورے راجستھا ن میں تقریبا دوسو مدارس چل رہے ہیں، جن کے بعض اساتذہ کی نصف اور بعض کی پوری تنخواہ اسی ادارے کے ذمے ہے ،اس کے علاوہ قومی جماعت خانہ ،بیت المال ،صوفیہ ہاسٹل اور راجستھان کے مختلف علاقوں میں اسلامی کیسٹ لائبریری کا قیام بھی آپ کا اعلیٰ کا رنامہ اور راجستھان کی تاریخ کا روشن باب ہے ۔

صوبۂ راجستھا ن میں اشاعت علم کے ساتھ ساتھ آپ نے راجستھانی مسلما نو ں کے عقائدوں وایمان کے تحفظ کا بھی پورا خیا ل فرمایا ،راجستھا ن چوں کہ دینی تعلیم کے لحاظ سے نہایت پسما ند ہ اور پچھڑا ہوصوبہ تھا ،مسلمانوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو بنیادی عقائد سے بھی واقف نہیں تھے ،گمراہ اور با طل فرقوں نے اپنے غلط افکا ر و نظریا ت کی اشاعت کے لیے اس سر زمین کو نہایت ہموار اور موزوں سمجھا اور اس خطے کو اپنی تو جہ کا خاص مرکز بنا لیا ،ہندوستان کے مختلف علاقوں سے دینی تبلیغی دستے یہا ں پہنچنے لگے اور اپنے با طل عقائد و نظریا ت کی تبلیغ بڑی تیز رفتار ی کے ساتھ شروع کر دی، جس کی وجہ سے راجستھان کی سادہ لوح عوام ان کے دام مکرو فریب میں پھنسنے لگی ،اس سلسلے کو دراز ہوتا دیکھ کر حضور مفتی اعظم راجستھا ن کی دینی حمیت اور راجستھان مسلمانوں سے بے لوث محبت نے جوش مارا اور آپ نے اس جانب خصوصی توجہ فرمائی اور اپنی تحریروتقریر کے ذریعہ راجستھا نی مسلمانو ں کو حقیقت حال سے آگا ہ فرمایا ۔راجستھا نی مسلمانوں کی عقائد کی اصلاح کے لیے آپ نے ملک کے مقتدر علما ے کرام کو بھی مدعو کیا جنہوں نے اپنی پو ری نورانی بیانات اور روحانی فیوض و برکا ت سے ہزاروں فرزندان توحید کو ضلالت و گمراہی کے دل دل میں پھنسنے سے بچالیا ،ان قدسی صفات علما میں حضور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا بریلوی ،حضور محدث اعظم ہند علامہ سید محمد میاں کچھوچھوی ،علامہ شاہ ابو الحسنین آل مصطفیٰ برکاتی قادری مارہروی ،مجاہد دوران حضرت مظفر حسین کچھوچھوی ،اور رئیس القلم علامہ ارشد القادری جیسی جلیل القدر شخصیات بھی شامل ہیں ۔

راجستھان کے تعلق سے حضور مفتی اعظم راجستھا ن کا مطمح نظر یہ رہا کہ ہندوستان کے نقشے میں راجستھا ن ایک ایسا صوبہ ہوجہا ں کا ہر مسلما ن اسلام کی بنیا د ی تعلیمات سے آراستہ اور اسلامی احکا م و قوانین پر پوری طرح کا ربند ہو ،اس صالح مقصد کے حصو ل کے لیے آپ نے پوری زندگی راجستھانی مسلمانوں کی اصلا ح و تربیت کے لیے وقف کر دی اور علما و حفاظ کا ایک ایساگروہ تیا ر فرمایا جو راجستھا ن کے اطراف میں پھیل کر فرزندان تو حید کی اصلا ح اور ان کی تربیت کافریضہ بڑے خلوص کے ساتھ انجام دے رہا ہے، جس کے اثرات واضح طور پر راجستھا نی مسلمانوں میں محسوس کیے جا سکتے ہیں ،حضور مفتی اعظم راجستھان کا یہ عظیم الشان کارنامہ راجستھان کی آنے والی نسلیں کبھی فراموش نہیں کر سکیں گی اور آپ کا نام راجستھان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا ۔
٭٭
 

محمد ساجدرضا مصباحی
About the Author: محمد ساجدرضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجدرضا مصباحی: 56 Articles with 94783 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.