وہ مسائل جن کا سامنا ماؤں کو چھ مہینے بعد بچوں کو اسکول بھیجتے ہوئے کرنا پڑسکتا ہے

image
 
دنیا بھر کی تاریخ میں سال 2020 وہ واحد سال گردانا جا رہا ہے جس میں ایک طویل عرصے تک دنیا بھر میں تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے اور اس کے نتیجے میں نئی نسل کا تعلیمی سلسلہ منقطع رہا- اگرچہ کچھ لوگوں نے آن لائن درس و تدریس کا سہارہ لے کر اس رکے ہوۓ سلسلے کو جاری رکھنے کی کوشش کی مگر اسکول جو کہ نام ہی ڈسپلن کا ہوتا ہے اس کے بند ہونے کے سبب بچوں کی زندگی میں سے ڈسپلن کا خانہ بالکل خالی ہو گیا- مگر اب وزارت تعلیم کے مطابق 15 ستمبر سے سلسلہ وار تعلیمی اداروں کے کھولنے کا اعلان کیا جا رہا ہے جس نے ایک جانب تو بچوں کے ہاتھ پاؤں پھلا دیۓ ہیں وہیں والدین کے لیۓ بھی خطرے کا الارم بجا دیا ہے کیوں کہ گزشتہ کئی ماہ سے اسکولوں کے بند ہونے کے سبب بچوں کی زندگیاں آزادی اور بے فکری کا نمونہ بن گئی ہیں اور ان کو دوبارہ سے پٹری پر چڑھانا ایک دشوار امر لگ رہا ہے- اس سلسلے میں والدین کو جن مسائل کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وہ کچھ اس طرح سے ہیں-
 
1: صبح جلدی جگانا
لاک ڈآؤن کے سبب ہونے والی چھٹیوں میں مائیں اپنے آرام کے خیال سے اس بات پر سکون محسوس کرتی تھیں کہ ان کا بچہ صبح آرام سے اٹھے تاکہ تب تک وہ اپنے گھر کے کاموں سے فارغ ہو جائیں اس وجہ سے بچے دیر تک سونے کی عادت اپنا چکے ہیں- ایسے وقت میں صبح صبح بچے کو جگانا اور اسکول کے لیے تیار کرنا ایک دشوار کام ہو سکتا ہے- اس مشکل مرحلے کی تیاری کے لیے ماؤں کو منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور اسکول کھلنے سے ایک ہفتے قبل ہی سے بچوں کے سونے جاگنے کے اوقات کو درست کرنا ضروری ہے-
image
 
2: صبح ناشتہ کرنا
بچوں کی نیند پوری نہ ہونے کے سبب ان کو صبح اسکول جاتے ہوئے بھوک نہیں لگے گی اور ان کو زبردستی ناشتہ کروانے کی کوشش ماؤں کو ہلکان کر دے گی- اس کے ساتھ ساتھ ایس او پیز کے مطابق اسکول والے کینٹین بھی نہیں کھولیں گے اس لیے بچے کا بھوکے ہونے کا خیال ماؤں کی پریشانی کو بڑھا دے گا- اس کا بہترین حل یہ ہے کہ صبح کے ناشتے میں بچے کو جوس وغیرہ نکال کر دے دیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اچھا اور متوازن لنچ تیار کریں جو کہ اپنے بچے کو اسکول ساتھ لے جانے کے لیے دیں اس کے ساتھ بچے کو پانی کی بوتل بھی دیں تاکہ بچہ کی صحت کا خیال رکھا جا سکے-
image
 
3: ایس او پیز کی پابندی
کرونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے بچوں کو اسکول بند کر دیے گئے اور گھر والوں نے بھی انہیں گھر ہی میں رکھا- بیرونی دنیا سے بچوں کا رابطہ گزشتہ کچھ مہینوں سے نہ ہونے کے برابر رہا جس نے بچوں کی قوت مدافعت کو کافی کمزور کر دیا ہے اس وجہ سے اس بات کا امکان موجود ہے کہ بچے اگر اسکول جائیں تو موسمی بیماریوں کا بھی شکار ہو سکتے ہیں- اس وجہ سے والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کو کرونا وائرس کے حوالے سے تمام ایس او پیز سے مکمل طور پر آگاہ کریں اور انہیں ان کی پابندی کرنے کی عادت ڈالیں جن میں ماسک کا استعمال ، ہینڈ واش کرنا اور سینیٹائزر کا استعمال خاص طور پر اہم ہے ۔ اس کے علاوہ اسکول جانے سے قبل بچے کا ٹمپریچر لازمی چیک کریں اور اسکول سے واپسی پر بھی ان کی صفائی کا خصورصی اہتمام کریں اور انہیں اس بات کا عادی بنائیں-
image
 
4: ہوم ورک کرنا
چونکہ ایک طویل عرصے تک اسکول بند رہنے کے سبب بچوں کی تعلیم کا کافی حرج ہو چکا ہے اس لیے اسکول والے سلیبس کو مکمل کروانے کے لیے کافی تیز رفتاری کا مظاہرہ کریں گے- اس وجہ سے بچوں کے اوپر پڑھائی کے حوالےسے کافی دباؤ پڑنے کا امکان ہے جب کہ بچوں کے اندر ہوم ورک کرنے کی عادت تقریباً ختم ہو چکی ہے اس وجہ سے والدین کو اپنی دن بھر کی مصروفیت میں سے لازمی وقت نکال کر بچوں کو ہوم ورک کروانے کے لیے لے کر بیٹھنا پڑے گا اور دوبارہ سے بچوں کا ہوم ورک کرنے کا شیڈول بنانا ہوگا-
image
 
5: جلدی سلانا
بچوں کو دیر سے سونے اور دیر سے جاگنے کی عادت پختہ ہو چکی ہے اس عادت کو درست کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ انہیں جلدی سونے کی عادت ڈالی جائے- مگر یاد رکھیں کہ بچے اس وقت تک جلدی نہیں سوئيں گے جب تک گھر کے باقی افراد نہ سو جائيں اس لیے گھر میں ایسا ماحول بنائيں جس سے بچے جلدی سونے کے لیے لیٹ جائيں یعنی گھر کے بڑے خود بھی کوشش کریں کہ وہ جلدی سونے کے لیے لیٹ جائيں تاکہ بچے بھی سو سکیں اور صبح فریش ہو کر جلدی جاگ سکیں-
image
YOU MAY ALSO LIKE: