وفاقی اُردو یو نیورسٹی میں عبدالحق کیمپس کا مقام

وفاقی اُردو یو نیورسٹی برائے سائنس ،آرٹس اور ٹیکنالوجی کے تین کیمپس ہیں جس میں عبدالحق کیمپس تا ریخی اور علمی لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے کیو نکہ بابائے اُردومولوی عبدالحق کی تدفین اس کیمپس میں ہی ہوئی ہے اور جب وہ حیات تھے تو اس وقت اس کیمپس کو اردو کالج کا درجہ حاصل تھا حالانکہ انکے زندگی میں اس کالج کو جا معہ کی خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

2002ءمیں اُردو کالج کو وفاقی اُردو یو نیو رسٹی برائے فنون،سائنس اور ٹیکنالوجی کا درجہ دیا گیا۔جس میں ٹیکنالوجی کے لئے مخصوص کیمپس وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہے جبکہ سائنس اور فنون کے لئے کراچی میں علیحدہ علیحدہ کیمپس ہیں۔ان دونوں میں سے عبدالحق کیمپس فنون کے لئے خا ص ہے۔ جس میں فنو ن(آرٹس) کے مضا مین پڑھائے جا تے ہیں۔ اس نسبت سے یہ کیمپس حکو متی توجہ کا حقیقی مستحق قرار دیا جا سکتا ہے کیو نکہ نہ صرف مولوی عبدالحق سے اس کا ناطہ ہے بلکہ آل انڈیا کانگریس کے صدر کرم چند موہن داس گاندھی(مہاتما گاندھی) جس کمرے میں بیٹھتے تھے آج بھی یہاں اسی حالت میں موجود ہے لیکن صد افسوس کہ نہ حکومت اس کیمپس کو تاریخی و علمی ورثہ سمجھتی ہے نہ اس یو نیورسٹی کے کرم فرما۔

مسلسل سو تیلی ماں جیسا سلوک روا رکھنے کی وجہ سے یہا ں کے طلبہ میں احساسِ محرومی واحساسِ کمتری بڑھتی جا رہی ہے۔یہ ایک الگ موضوعِ بحث ہے کہ چند شفیق اور ایمانداراساتذہ کی محنت کے بدولت ابنِ انشاء طلبہ بھی یہاں سے علم حاصل کیا۔ابنِ انشاء جس دور میں عبدالحق کیمپس میں پڑھ رہے تھے اُس وقت یہ کالج تھا نہ کہ یو نیورسٹی۔آج بھی کئی ابنِ انشاء پیدا ہو سکتے ہیں اگر اس یونیورسٹی کے کرم فرما عبدالحق کیمپس پر نظرِکرم فرمائے۔

تینوں کیمپس میں سب سے چھوٹا کیپس عبدالحق کیمپس ہے جس میں 16مضامین میں اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے مگر مذکورہ نوازش پرور اور خوابِ خرگوش میں مست حکمراں کی غفلت اس انتہا پر ہے کہ کیمپس موہنجودڑو کے کھنڈرات کا نظارہ پیش کر رہا ہے جبکہ طلبہ بسا اوقات لائبریری ، کمپیوٹر لیب اور سیمنار ہال میں کلاس لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔پینے کے پانی تک نہیں اگر طلبہ شکایت کریں تو اساتذہ بے چارے خود پریشان ہوجاتے ہیں کہ اس بار طلبہ کو کونسی ٹوپی دی جائے کیونکہ اوپر سے انہیں مختلف قسم کی ٹوپیاں دی جاتی ہے۔

اسے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہوگا کہ یہ تاریخی وعلمی مرکز (عبدالحق کیمپس) اگر بابائے اُردو روڈ سے دیکھا جائے تو ایک مکمل political complex لگتا ہے ۔رنگ برنگی سیاسی جھنڈے، بڑے بڑے تصاویر، منشوروں کی چارٹ اور سیا سی نعرے دیواروں پر لکھے ہوئے نظر آتے ہیں۔طلبہ کے گریبانوں میں یو نیورسٹی شناخت نامے کے بجائے مختلف سیاسی پارٹیوں کے طلبہ تنظیوں کے کارڈ لٹکتے نظر آتے ہیں گویا یہاں کے طا لب علم طالب علم کم اور سیاسی کارکن زیادہ لگتا ہے۔ اسکے باوجود متعلقہ پارٹیاں برسراقتدار آتی رہتی ہے لیکن انہوں نے کبھی بھی اس جامعہ کے مسائل پر توجہ نہیں دیا اگر کسی پارٹی کے رہنما نے اس کیمپس کا دورہ کیا بھی ہے تو صرف اس لئے کہ وہ طلبہ سے ملنے نہیں آئے بلکہ اپنے کارکنوں سے ملنے آیا ہے انہیں اپنے خطاب سے نوازا ،طلبہ کے پرجوش نعرے اور مداح سرائی سے لطف اندوز ہوا ہوگا کبھی غلطی سے بھی اس غرض سے نہیں آیا ہوگا کہ یہاں کے طلبہ کو کِن مشکلات کا سامنا ہے،اساتذہ کے کیا مسائل ہیں اور یہ حل کرنا بھی چاہیے یا نہیں اسطرح کا مردِ مومن آج تک اس کیمپس کے احاطے میں نمودار نہیں ہوا۔

ان تمام تر مشکلات کے باوجود چند اساتذہ اور طلبہ کی جہدِ مسلسل میں مصروفِ عمل ہیں تا کہ یہ کیمپس اپنے تاریخی ورثے کے بدولت پورے ملک میں نمایاں ہو سکے۔اس ضمن میں صوبے اور ملک کے مختلف جا معات کے دورے کرنا،انکے پروگراموں ،سیمنار میں شرکت کرنا،کھیلوں اور غیر نصابی سرگرمیوں میں شرکت کرنا،یہ سلسلہ صرف چند اساتذہ کی سنجیدگی کے باعث چل رہاہے لیکن حکومت اور خاص طور وفاقی حکومت اس پر کان نہیں دھرتا۔شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقے کے بچے یہاں نہیں ولائتی جامعات میں انگریزی زبان میں انگریزوں کے فلسفے سیکھ رہے ہوتا کہ بعدِازاں انہیں حکمرانی کرتے وقت انگریزی بولنے اور انگریزی احکامات کی بجا آوری میں مشکلات کا سامنا نہ ہو۔خود تو ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے کام چلالیتے ہیں۔

حکامِ بالا یہ بھول چکا ہے کہ پاکستان کا قومی زبان انگریزی ہے یا اُردو؟ اور قومی زبان کے فروغ کے لئے اس ملکِ خداد میں کوئی جامعہ موجود ہے بھی کہ نہیں۔اس سلسلے میں ہماری حکومت صُمًّ بُکمً عُمیً۔۔۔۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس ملک کی نظریاتی وجود،قومی احیاء اور قو می یکجہتی میں پنہاں ہوتی ہے مگر ہمارے ملک میں شاید ابھی یہ طے نہ ہوسکا کہ اس ملک میں اس قسم کی باتوں کا کوئی فائدہ ہے بھی۔ ملک کے ہر کونے میں رابطے کی زبان جس پاکستانی متفق ہے کہ علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں اُردو بولی اور سمجھی جاتی ہے اور کوئی بھی فلسفہِ علم اپنی مادری زبان یا قومی زبان میں پڑھنے سے سمجھا جا سکتا ہے لہذا اس مقصد کے لئے اُردو کالج کو ترقی دیتے ہو ئے اُردو یونیورسٹی بنائی گئی ۔یہ جامعہ بابائے کا دیرینہ خواب تھا لیکن آ ج اگر بابا حیات ہو تے تو شاید اُردو کو قو می زبان کہنے والوں کا منہ توڑتے کیونکہ پاکستان میں تو قومی زبان آزادی کے بعد آقاؤں کی زبان اپنائی گئی اور اُردو کو قومی زبان قرار دینا محض زبانی جمع خرچ ثابت ہوا۔

اُردو یونیورسٹی کی قیام کا مقصد
وفاقی اُردو یونیورسٹی کا قیام صدراتی فرمان(ordinance cxix) مجریہ13نومبر 2002ءکے تحت کو معرض وجود میں آیا تھا۔وفاقی اُردو یونیورسٹی برائے فنون سائنس اور ٹیکنالو جی نہ صرف ایک تحقیقی ،تعلیمی وتاریخی ادارہ ہے بلکہ قوم کی عزت وآبرو کی نشانی بھی ہے کیونکہ اسے یہ ثابت ہو تا ہے ہم اپنی قو می زبان سے کتنا محبت رکھتے ہے ہم علم وفن کے کتنے دلدادہ ہے اس لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس یو نیورسٹی کا قیام 2002ءسے پہلے ہونا چاہیئے تھا۔بہرحال اس جامعہ کے قیام کے لئے محبانِ وطن اور محبانِ اردو کے55سال کے مسلسل گزارشوں پر جب گلے سوکھ گئے تو اربابِ اختیار نے اُردو کالج کو اُردو یونیورسٹی کے درجے پر فائیز کیا لیکن صرف نام کی حد تک جامعہ نہ کہ عملی طور پر۔

دنیا کے کسی بھی ملک میں قومی زبان کے لئے جتنے بھی ادارے قائم کئے جاتے ہیں اسے ترقی دینے کے لئے بھر پور کوشش کی جاتی ہے تاکہ قوم میں یکجہتی ویگانگت پیدا ہو سکے لیکن صاحبِ اختیار لوگوں نے اُردو کا حق قومی زبان کے طور پر ادا نہیں کیا۔دنیا میں وہ اقوام سربلند ہو تی ہے جنکے یہاں علم وفن، فکر وآگہی کے دریچے کھولے ہوئے ہو۔ اور اسکی بڑی بڑی مثالیں تاریخ میں موجود ہے اہل یونان، اہل مصر وغیرہ جو اس بات کی غمازی کرتے ہے کہ اہل یونان جب تک علم کے دلدادہ تھے یا اسلامی ریاست کا وہ زمانہ جس میں مسلمان علم وفن کے گرویدہ تھے اس لئے وہ ترقی کرتے گئے۔ اس لئے تاریخ میں سنہرے حروف سے زندہ وتابندہ ہے ۔

موجودہ دور میں اہل مغرب نے جب علوم وفنون کے دروازے پر دستک دی تو دورِ ظلمت کا خاتمہ کر دیا اور جب اہل مشرق نے ان حقائق سے رو گردانی کی اس لئے علم کی روشنی سمٹتی گئی اندھرے بڑھتے گئے اور ایک طویل شبِ جہالت چھا گیا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے تو وفاقی اُردو یونیورسٹی تو قا ئم ہو گئی مگر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا ہم ان مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو سکے ہیں جس مقصد کے لئے یہ یونیورسٹی بنائی گئی تھی؟ کیا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا جو بابائے اُردو نے دیکھا تھا؟ قومی زبان کے فروغ کے لئے قائم درسگاہ کو وہ مقام عطا کیا گیا جو وقت اور حالات کا تقاضا ہے؟ میں سمجھتا ہوں نہیں بالکل نہیں! ہر گز نہیں

زندہ قو میں اپنے وجود اور اسکے استحکام پر فخر کرتی ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ قو می اسمبلی میں قو می زبان استعمال کر نے پر شرم محسوس کر تے ہے جبکہ اُنکی زبان جسکے ہم غلام تھے میں بات کرنے پر فخر محسو س کر تے ہے۔ قو می زبان کا فروغ، قومی نظریہ کا تحفظ، قومی تخیل کی آبیا ری قو می ثقافت جیسے اولین تر جیحات کو ترجیح دینے والا تو دور کی بات ہے کوئی نام لیوا موجود نہیں ۔اس لحاظ سے وفاقی اُردو یونیورسٹی محض ایک شوشہ تو چھوڑا گیا لیکن پرسانِ کوئی نہیں اور لا پرواہی کا نتیجہ یہ نکلا پاکستانی قوم میں تعصب کی جڑیں مضبوط ہونے لگے علاقائیت کو خطرناک حد تک تقویت ملتی گئی اور پاکستانیت کو نقصان ہوتا رہا اور آج یہی صورتحال پورے قوم پر مسلط نظر آتا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وفاقی اُردویونیورسٹی کے مزید شاخیں پورے ملک میں قائم ہو تے اور وہی مقصد جسکے خاطر یہ وجود میں آئی تھی آج پورا ہوتا ہوا دکھائی دیتا لیکن اس غفلت کے حالتِ زار پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
Arshad Khan
About the Author: Arshad Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.