سوچنے کا مقام

اس سے بڑھ کر بد قسمتی کیا ہو گی کہ آج ملک کے وہ ہزاروں معزز اساتذہ جن کے ہاتھوں میں اس ملک و قوم کا مستقبل ہے اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکلنے کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔ یہ ہمارے لئے ایک گھونٹ پانی میں ڈوب کر مر نے کا مقام نہیں تو اور کیا ہے ۔۔؟ واقعی ہمیں ایک گھونٹ پانی میں ڈوب کر مرنا چاہیے کہ جن قابل احترام اساتذہ کی محنت اور محبت کے سہارے ہم نے معاشرے میں چلنا سیکھا۔۔ جن لوگوں نے تاریک راہوں میں ہمیں علم کی روشنی سے راستہ دکھایا۔ آج تو وہ اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں اور ہم تماشا دیکھتے رہیں۔ اس وقت ملک کے اندر ہزاروں اساتذہ کرام اپنے حقوق کے لئے سراپا احتجاج ہیں ۔ان ہزاروں اساتذہ میں کئی ایک ایسے خوش قسمت بھی ہوں گے جنہوں نے وقت کے حکمرانوں مطلب ایم پی ایز۔۔۔ ایم این ایز۔۔۔وزیروں۔۔۔مشیروں۔۔۔وزرائے اعلیٰ اور صدر و وزیراعظم کو بھی پڑھا سکھا کر اس مقام تک پہنچانے میں اہم کردا ادا کیا ہوگا۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ موجودہ ممبران اسمبلی ۔۔۔۔وزیروں مشیروں اور صدر و وزیراعظم نے کسی سے پڑھا نہ ہو۔ یہ آج جو اپنے آپ کو کوئی ایم پی اے ۔۔۔ایم این اے یا صد وزیراعظم کہتے ہیں کسی وقت یہ بھی تو کسی غریب استاد کے شاگرد رہے ہوں گے مگر کیا انہیں آج استاد کے ادب و احترام کا ذرہ بھی احساس و خیال نہیں ۔۔۔۔۔؟حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ میں نے جس سے ایک لفظ بھی پڑھا وہ میرا استاد ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ استاد شاگرد کا روحانی باپ ہوتا ہے مگر کیا آج ہم ان اقوال پر عمل پیرا ہیں ۔۔۔۔؟ نہیں ہرگز نہیں ۔ ہم نے استاد و شاگرد کے مقدس رشتے کو ختم کر دیا ہے ۔ آج ہمارے دلوں میں اساتذہ کی قدر و محبت کا ذرہ بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم تعلیمی ترقی سے کوسوں دور اور تعلیم نہ ہونے کے باعث در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔ سرکاری اداروں کی طرف انگلیاں تو ہم سب اٹھا رہے ہیں۔ ۔اساتذہ سے گلے اور شکوے تو بے شمار ہیں پر اساتذہ کو درپیش مسائل بارے نہ ہم سوچ رہے ہیں اور نہ ہی حکمرانوں نے اس بارے میں کبھی سوچنے کی زحمت گوارہ کی۔ ایک استاد کن مسائل سے گزر کر سکول پہنچتا ہے کیا اس بارے میں کبھی ایک دن بھی ہم نے سوچا ۔۔۔؟ استاد بھی ایک عام انسان ہی ہوتا ہے اس کے بھی بیوی بچے۔۔۔ماں باپ اور بہن بھائی ہوتے ہیں جتنی ضروریات ہمارے ساتھ ہیں اتنے ہی کسی استاد کے ساتھ بھی ۔مگر افسوس کہ تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی غیر حاضریوں پر تو ہمہ وقت ہماری نظر رہتی ہے۔ ہم ہر وقت اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کس دن ماسٹر جی غیر حاضری کریں گے تا کہ ہم ان کی شکایت کسی ایم پی اے یا کسی تعلیمی افسر کو لگائیں مگر استاد کے مسائل بارے کبھی ہم نے نہ تو کسی ایم پی اے سے کوئی بات کی اور نہ ہی محکمہ تعلیم کے کسی افسر سے ۔میں آج جب اپنے زمانہ طالب علمی کے کسی دن یا وقت کو یاد کرتا ہوں تو مجھے اپنے اساتذہ کے کردار و اخلاق اور محنت پر رشک آتا ہے۔ ہمارا ہائی سکول جوز جو گاﺅں کے کنارے واقع تھا جس کا آج کل نام ونشان نہیں اس کے اکثر اساتذہ سکول سے چالیس پچاس کلو میٹر دور رہتے تھے پھر اس وقت ٹرانسپورٹ کا بھی کوئی خاص انتظام نہیں تھا مگر اس کے باوجود وہ اساتذہ صبح سویرے طلباء سے پہلے سکول پہنچ جاتے تھے۔ جس ملک میں ایسے اساتذہ ہوں وہ ملک تعلیمی میدان میں کسی بھی ترقی یافتہ ملک کو مات دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے مگر جب ہمارے جیسے بے رحم لوگ اور ظالم حکمران سیاہ و سفید کے مالک بن کر ایسے محنتی وقابل اساتذہ کو فاقہ کشی اور غربت کی بے رحم موجوں کے حوالے کر دیں تو پھر آپ خود اندازہ لگائیں ہم تعلیمی میدان میں کیسے ترقی کر سکتے ہیں ۔ اگر کسی اور ملک میں بھی اساتذہ کے ساتھ اسی طرح سلوک روا رکھا جائے جیسے ہم نے خصوصی مشغلہ بنایا ہوا ہے تو یقین کریں اگر وہ ملک امریکہ ۔۔برطانیہ بھی ہو تو بھی وہاں تعلیم کی یہی حالت ہوگی جو اس بد قسمت ملک میں ہے ۔ گھر کا سربراہ ٹھیک ہو تو گھر ٹھیک رہتا ہے جب سربراہ طرح طرح کے مسائل میں پھنس کر دیگر امور میں الجھ جاتا ہے تو پھر ہنستا بستا گھر بھی قبرستان بن جاتا ہے ۔سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اساتذہ کرام کا ٹھیک ہونا ضروری ہے مگر یہ اساتذہ اس وقت ٹھیک ہوں گے جب ان کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔ اگر کسی استاد کو دنیاوی مسائل سے فرصت نہیں تو ایسے میں وہ تعلیمی ادارے کی حالت پر کس طرح توجہ دے گا۔ اس لئے محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ اساتذہ کی حاضری کو مانیٹرنگ کرنے سے قبل اساتذہ کے مسائل کے حل کی طرف بھی توجہ دیں کیونکہ جب تک اساتذہ کے مسائل حل نہیں کئے جاتے اس وقت تک تعلیم معیار کے مطابق نہیں ہوگی ۔ تعلیمی انقلاب اور شرح خواندگی میں اضافے کیلئے سرکاری تعلیمی اداروں کو فعال بنانا یقیناً ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ان اداروں کو چلانے کے لئے ایسے اساتذہ کی بھی اشد ضرورت ہے جو ٹینشن فری ہوں جبکہ موجودہ حالات میں ایسا نہیں اور اسی وجہ سے ملک کے ہزاروں اساتذہ اپنے حقوق کے لئے آج سراپا احتجاج ہیں اس لئے حکومت کو اس طرف توجہ دینا چاہیے تا کہ تعلیمی ترقی کا خواب پورا ہو سکے ۔
Umar Khan Jozvi
About the Author: Umar Khan Jozvi Read More Articles by Umar Khan Jozvi: 37 Articles with 39033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.