پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حالیہ کارکردگی کا ایک جائزہ

پاکستانی کرکٹ ٹیم نے جس کے تین بہترین کھلاڑی محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے عالمی کرکٹ کپ میں شرکت نہ کر سکے ۔پھر بھی کرکٹ کے حالیہ عالمی کپ مقابلوں میں سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی مگر بدقسمتی اور افسوس ناک کارکردگی کی وجہ سے اُسے ایک بار پھر روایتی حریف بھارت سے عالمی کپ کے میچ میں جو کہ سیمی فائنل مقابلہ تھا میں شکست کا سامنا کر پڑا۔جس کی وجہ سے 1992والی تاریخ دہرانے کا موقعہ گنوا دیا گیا ۔چند کھلاڑیوں کے دباﺅ میں آجانے اور اپنے ہاتھوں سے کیچ چھوڑنے کی وجہ سے جیتا ہوا میچ بھارت کی جھولی میں ڈال دیا گیا ۔جس کا پورے ملک میں ماتم کیا گیا کہ ہمارے پروفیشنل کھلاڑیوں کو نہ تو اپنی عزت کا خیال تھا اور نہ ہی ملک کی رسوائی کی فکر تھی کہ بھرپور مقابلہ کر کے ہارا جاتا ۔ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے مگر اس کا بھی سلیقہ ہوتا ہے نامور کھلاڑیوں نے ناآموز کھلاڑیوں کی مانند کارکردگی دکھائی جس کو کسی طور بھی سراہا نہیں جا سکتا ہے ۔سچن ٹنڈولکر جیسے لیجنڈ کرکٹر کو مواقعے فراہم کرنا ، بیٹسمینوں کے غیر ذمہ دارانہ شاٹس اور بروقت پاور پلے کا نہ لینا جیت کی لگن کا فقدان ہونا شکست کی بنیادی وجہ تھی۔اس بات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں کی گراؤنڈ فیلڈنگ بہترین ٹیموں جیسی نہیں ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ باقی تمام ٹیمیں اس چیز کی جانب زیاد ہ توجہ مرکوز کر تی ہیں مگر ہمارے کھلاڑیوں اور بورڈ کے پاس اس میں بہتری کی بجائے اختلافات پر زور زیادہ دیا جاتا ہے۔

ابھی دورہ ویسٹ انڈیز میں ون ڈے سیریز میں 3-2میں کامیابی کے باوجود کوچ اور کپتان کے اختلافات ہونے کی وجہ سے کرکٹ بورڈ نے شاہد خان آفرید ی کو میڈیا میں بیان دینے کی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی سزا کپتانی چھین لینے سے دی ہے حالانکہ بطور کپتان انہوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ون ڈے سیریز میں کیا ہے مگر پھر بھی سچ بولنے کی سزا دی گئی ہے ؟جس سے پتا چلتا ہے اندورنی طور پر کیا کیا کہانیاں رونما ہوچکی ہوتی ہیں تب جا کر اسطرح کے فیصلے سامنے آتے ہیں؟اب مصباح الحق کو کپتانی سونپ دی ہے جس کی ماضی میں ٹیم میں شمولیت پر بھی اعتراضات کئے جاتے رہے ہیں او ر اب وہ بورڈ کے سربراہ کا چہیتا بن گیا ہے اگر چہ اسکی کارکردگی فی الحال باقی کھلاڑیوں سے عمدہ ہے تو سب گناہ معاف ہو چکے ہیں؟مگر ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں 40رنز سے شکست بہت سے شہبات کو جنم دے رہی ہے اور کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی پر سلیکشن کمیٹی کے انتخاب کردہ کرکٹرز پر انگلیاں اُٹھائی جارہی ہیں؟ حالانکہ انکے کافی تجربہ کار کرکٹرز اس وقت ٹیم میں شامل نہیں ہیں اور ہم گئے گزرے بولرز کے ہاتھوں آؤٹ ہو کر انکو ورلڈ کلاس حیثیت دینے کی کوششوں میں مگن ہیں؟خالد لطیف اور حسن رضا جیسے باصلاحیت کھلاڑیوں پر سفارشی کرکٹرز کو موقعہ دیا جا رہا ہے جس سے ہماری کرکٹ تباہ ہوتی جا رہی ہے ؟عاصم کمال اور فواد عالم جیسے کرکٹرز مواقعے ملنے کی تلاش میں ہیں اور کرکٹ بورڈ نوجوان کرکٹرز کو تلاش کرنے کے چکروں میں ہے اور محمد یوسف کو ذاتی اختلافات کی بناء پر شامل نہیں کیا جا رہا ہے۔

بہت سی کمزوریوں کے باوجود پاکستانی کرکٹ ٹیم نے حالیہ ورلڈکپ سیمی فائنل اور حالیہ دور ہ میں ون ڈے میچوں میں ویسٹ انڈیز کے خلاف میچوں میں جس کارکردگی کا مظاہرہ کھلاڑیوں نے کیا ہے وہ کافی حد تک تعریف کے قابل ہے ۔ شاہد آفرید ی ،اسد شفیق ، عمر اکمل، محمد حفیظ، عبدالرحمن اور وہاب ریاض نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہر ہ کیا ہے۔ بالخصوص روایتی حریف بھار ت کے خلاف سیمی فائنل میں وہاب ریاض نے عمدہ بولنگ کارکردگی دکھا کر اپنی ٹیم میں جگہ پکی کر لی ہے ۔ حالانکہ ایک وقت میں اس کی ٹیم میں شمولیت پر کافی کچھ کہا گیا تھا اس نے عمدہ کارکردگی سے ناقدین کے منہ بند کر دیئے ہیں۔ جبکہ عبدالرزق کی صلاحیتوں سے پوری طرح فائدہ حاصل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اس کی کارکردگی معیار سے قدرے کم تھی۔ شعیب اختر کی عالمی کپ کے بعد ریٹائرمنٹ نے اسکے چاہنے والوں کو کسی قدر افسردہ کر دیا ہے۔ مگر فاسٹ بولر نے اپنی اُس فارم کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی اس سے توقع کی جا رہی تھی جس کی وجہ سے نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کے بعد اس کو ٹیم سے باہر جانا پڑا ۔ ٹیم کی شکست کے بعد فاسٹ بولر نے تمام تر کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کر دیا جو کہ ایک اچھا فیصلہ ہے کیونکہ نوجوان بولرز کی عمدہ کارکردگی کے بعد اس کی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں بنتی تھی۔بولنگ کے شعبے میں شاہد آفریدی ، عبدالرحمن ،محمد حفیظ، سعید اجمل اور عمرگل نے بولنگ کے شعبے میں عمدہ کارکردگی دکھا کر اپنی کلاس ظاہر کردی۔شاہد آفریدی نے یاد گار کارکردگی کا مظاہرہ بطور کپتان اور بولر دکھا کر سب کے دل ایک پھر جیت لیے اور ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر ظہیر خان کے ساتھ حصہ دار بن گئے۔اگرچہ وہ بطور بیٹسمین کامیاب نہ رہ پائے مگر یہ کسر تباہ کن بولنگ کے ذریعے پوری کر دی۔ یونس خان اور مصباح الحق نے تسلی بخش کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کلاس کے کھلاڑی ہیں اس معیار سے قدرے دور رہے۔ بالخصوص بھارت کے خلاف سیمی فائنل میچ میں مصباح الحق نے افسوس ناک بیٹنگ کا مظاہرہ کر کے بہت سے لوگوں کے دلوں میں شکوک وشہبات ڈال دیئے ۔وہیں یونس خان نے بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا حالانکہ دونوں تجربہ کار کچھ بہتر کر تے تو میچ جیتا جا سکتا ہے۔اسد شفیق نے بھی ہربھجن سنگھ کے سامنے اپنی ناتجربہ کاری کا اظہار کیا۔جبکہ گزشتہ میچوں میں اچھے سکور کر چکا تھا مگر پریشر کا شکار ہو کر جلد آؤٹ ہو گیا۔اور جہاں تک بات کامران اکمل کی ہے تو لگتا ہے کہ اس کی بعض ٹیم ممبران سے کچھ گڑبڑ چل رہی ہے یا وہ اندورنی طور پر اپنی ناقص کارکردگی کے حوالے سے خلفشار کا شکار ہے جس کی وجہ سے وہ ماضی جیسی عمدہ کارکردگی کا مظاہر ہ نہیں کر رہا ہے۔جس کی بدترین کارکردگی سے ٹیم کو شکست کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ حالیہ دورہ ویسٹ انڈیز میں اسکی جگہ محمد سلمان کو موقعہ دیا گیا ہے مگر وہ واجبی سی کارکردگی کا مظاہرہ کر پایا ہے۔ کامران اکمل کو ہمیشہ کے لئے ٹیم سے باہر کرنے کی بات قطعی غلط ہے کیونکہ وہ کافی تجربہ کار اور باصلاحیت کھلاڑی ہے ضرورت صرف اس کے اعتماد کو بحال کرنے کی ہے کسی بھی کھلاڑی پر بُرے دن آسکتے ہیں مگر اس کا مطلب کھلاڑیوں کے کیرئیر ختم کرنا ضروری نہیں ہوتا ہے ۔بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے بہت دفعہ کچھ عرصہ کی عالمی کرکٹ سے دوری سے کھلاڑی پہلے سے زیادہ خطرناک بن کر سامنے آسکتے ہیں۔کامران اکمل کو چاہیے کہ وہ اپنی بھرپور توجہ اپنی ذاتی کارکردگی کی جانب مبذول کرے اور تنقید کرنے والوں کو اپنی عمدہ کارکردگی کے مظاہر ہ سے چپ کرائے ناکہ مزید ذہنی پریشانی مول لے کر اپنی رہی سہی ساکھ کو بھی داﺅ پر لگا دے۔کرکٹ بورڈ کو بھی اس سلسلے میں کامران اکمل سے تعاون کر نا چاہیے اور دیگر سینئر کھلاڑیوں سے بھی کہ جب وہ ریٹائرمنٹ کے لئے تیار ہوں تو بہترین انداز سے رخصت کیا جائے ۔کارکردگی کو کسی طور بھی عمر کے ساتھ موازنہ نہیں کرنا چاہیے صرف اور صرف عمدہ کارکردگی ہی ٹیم میں شمولیت کا سبب ہونی چاہیے۔

کھلاڑیوں اور بورڈ کو آئندہ کے لئے ابھی سے حکمت عملی طے کرنی ہوگی ۔عالمی کپ مقابلوں اور دورہ ویسٹ انڈیز میں ہونے والی کوتاہیوں سے چھٹکارہ پانا ہوگا ۔سینئر کھلاڑیوں محمد یوسف ، یونس خان اور مصباح الحق کے ساتھ نوجوان کھلاڑیوں کو موقعہ دیا جانا چاہیے تاکہ اگلے عالمی کپ تک بہترین ٹیم تیار ہو سکے۔سینئر کھلاڑی جب تک کھیلنے کے متمنی ہوں انکو مواقعے فراہم کرنا چاہیے ناکہ انا کا مسئلہ بنانا چاہیے انکے ہونے سے نوجوان کھلاڑیوں بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملے گا۔کھلاڑی اگلے عالمی کپ کو جیتنے کا سوچیں اور اپنے ملک کا نام روشن اور عوام کو خوشی فراہم کریں ۔عوام اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ ہے اور رہے گی ۔کیونکہ ملک وقوم کا نام بلند انہی کی وجہ سے ہوا ہے اور ہوتا رہے گا۔(انشاءاللہ)
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 482129 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More