کاغذ کی ناﺅ

بھارت جنوبی ایشیا کا ایک بڑا طاقتور ملک ہے اور امریکہ کی سر پرستی میں ایک منی سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ امریکہ کو چین کے خلاف کسی ایسے ملک کی ضرورت ہے جو چین کو اپنی حدود میں رکھنے کے لئے اس کا ممدو معاون بنے۔ پاکستان بہت سی وجو ہات کی وجہ سے چین کے ساتھ ایسا سلوک کرنے سے قاصر ہے۔اس نے تو ۲۶۹۱ میں بھارت چین جنگ کے دنوں میں امریکہ کی درخواست کے باوجود مغربی سرحد وں سے اپنی فوجیں ہٹانے سے انکار کر دیا تھا جسکی اسے بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی تھی۔پاک چین دوستی کے لئے پاکستان نے بڑا بھاری خراج دیا ہوا ہے اور اس بات کا چینی قیادت کو علم ہے کہ جب بھارت اور امریکہ چین کو نقصان پہنچانے کے لئے یک جان دو قالب بنے ہوئے تھے تو پاکستان نے چین کے ساتھ حقِ وفا نبھایا تھا اور چین کو آزمائش کی اس گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑا تھا۔ چین نے بھی اپنے اس قرض کو ۵۶۹۱ کی جنگ میں اتارنے کی کوشش کی تھی اور پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا تھا۔ عالمی سیاست کی بے ر حم موجوں کے تھپیڑے سہتی ہوئی پاک چین دوستی قدم بقدم آگے بڑھتی رہی لیکن وقت کے بہت سے بے رحم حقائق نے اس سے وہ روائیتی جذبے اور جوش کو چھین لیا ہے جو کبھی اس کا طرہِ امتیاز ہوا کرتا تھا۔ بہت سے دیگر عالمی عوامل کے علاوہ امریکہ کی عالمی بساط پر گرفت بھی اس کا ایک مضبوط سبب ہے۔

بھارت نے شروع دن سے ہی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور بھارت اپنی اس سوچ کا اظہار پچھلے ۴۶ سالوں سے برملا کر رہا ہے ۔ بنگلہ دیش کا قیام بھی اسی کی ایک کڑی تھی تبھی تو بنگلہ دیش کے قیام پر بھارتی وزیرِ اعظم مسز اندرا گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ بنگلہ دیش کے قیام نے دو قومی نظریہ کو بحیرہ عرب میں غرق کر دیا ہے ۔ سچائی کی دنیا میں خواہشوں کا کو ئی وجود نہیں ہوتا کیونکہ سچائی ذاتی خواہشوں کی مرہونِ منت نہیں ہوتی اسکا اپنا وجود ہو تا ہے، چلن ہوتا ہے ،اسکی اپنی گزر گاہیں ہوتی ہیں اور یہ اپنی گزر گاہوں سے اپنے انداز میں گزرتی چلی جاتی ہے اس احساس سے بالا تر کہ کسی کی خواہشوں کے گھروندے سلامت رہتے ہیں یا چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ دو قومی نظریہ پر بھارتی وزیرِ اعظم کا بیان بھی ایسی ہی من پسند خواہشوں کا اظہار تھا۔ دو قومی نظریہ نہ بحیرہ عرب میں غرق ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسے مٹایا جا سکتا ہے کیونکہ جب تک پاکستان قائم و دائم ہے دو قومی نظریہ پوری توانائیوں کے ساتھ موجود رہے گا۔ بھارت جتنا بھی واویلا کرتا رہے دو قومی نظریہ ایک سچائی بن کر بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ایک مضبوط چٹان کی صورت میں قا ئم رہے گا۔ جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک جسطرح بھارت کے کاسہ لیس ہیں بھارت پاکستان سے بھی ا یسے ہی رویوں کی توقع رکھتا ہے جو کہ نا ممکن ہے اور یہی وہ موقف ہے جو بھارت کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ دو قومی نظریہ در اصل وہ جذبہ ہے جو پاکستانیوں کے رگ و پہ میں ایک طاقت کی طرح رواں دواں ہے اور اسی احساس کی طا قت سے وہ بھارتی جارحیت کو مختلف جنگوں میں شکست دیتے آئے ہیں۔

۵۶۹۱ کی جنگ ایسی جنگ تھی جس میں بھارت نے پاکستان پر ننگی جارحیت کا مظا ہرہ کر کے پاکستان کو ملیا میٹ کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی لیکن پاکستانی افواج نے جرات و بسالت کی ایسی انمٹ داستانیں رقم کیں جس نے پوری دنیا کو ورطہِ حیرت میں گم کر دیا تھا۔ پاکستان جنگی قوت کے اعتبار سے اپنے سے آٹھ گنا بڑی بھارتی قوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا لیکن اس کے باوجود پاک فوج کے جوانوں نے جس بے جگری سے جانیں لٹا کر ملکی سرحدوں کی حفاظت کی اس نے پاکستانی فوج کے وقار میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ بھارت کو علم نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے تو جذبوں کا ایک طوفان تھا جو پوری قوم کے دل و دماغ میں مو جزن ہوا اور اس نے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی شکل اختیار کر لی۔ جذبہِ شہادت سے لبریز پاک فوج کا ہر جوان بھارتی جارحیت کے سامنے ڈٹ گیا اور اسے شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ صدرِ پاکستان محمد ایوب خان کا یہ کہنا کہ اپنے ہونٹوں پر لا الہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑ ھو اور دشمن کی توپوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کر دو ایک پیغام تھا جس پر فوجی جوانوں نے ا پنی جانوں کے نذرانے دے کر عمل کیا۔ لاہور کا محاذ ہو، سیالکوٹ کا محاذ ہو ، چھمب جوڑیوں کا محاذ ہو، کھیم کرن کا محاذ ہو اور رن آف کچھ کا محاذ ہو پاکستانی فوج نے ہر جگہ دشمن کو نا کوں چنے چبوائے اور پاکستان کی سالمیت کو یقینی بنایا۔انکی اس بے مثال جرات اور بہادری پر وطن کی ماﺅں بہنوں اور بیٹیوں نے ان کی عظمتوں کے ترانے گائے اور ا نھیں بے پناہ احترام اور محبت سے نوازا۔۔
۔۔رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔۔اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمھارے کئے ہیں۔۔جاگ اٹھا ہے سارا وطن۔۔اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں۔۔اے پتر ہٹاں تے نئیں وِک دے۔۔

صرف جنگی ترانے ہی نہ تھے بلکہ شاعروں، گلو کاروں اور فن کاروں کے دل کی آواز تھی اور یہ آواز پوری قوم کے جذبوں کا اظہار تھی اور پاک فوج کی جراتوں کو سلام تھی ۔قوم کی یکجہتی دیکھنے والی تھی ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اس قوم کا ایک ایک فرد خیبر شکن ہے اور وطن کی بقا پر قربان ہو جانا اسکی پہلی اور آخری خواہش ہے۔ جذبوں کے اس بحرِ بے کنار نے بھارت کے اوسان خطا کر دئے کیونکہ اس سیسہ پلائی ہوئی دیوار کو شکست دینا بھارت کے بس میں نہیں تھا ۔ سیالکوٹ کے محاذ پر جسموں پر بم باندھ کر جس طرح ٹینکوں کی سب سے بڑی یلغار کو روکا گیا تھا اس نے بھارت کو سکتے کی نذر کر دیا تھا ۔ بھارتی تو شہر کی فتح کی آرزو لے کر گھر سے نکلے تھے لیکن یہاں پر جان فروشو ں نے ساری بساط ہی الٹ دی تھی۔۷۱ دنوں کی خون ریز جنگ کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پا یا اور بھارت نے سکھ کا سانس لیا کہ اسکی جان بخشی ہو گئی ہے کیونکہ پاک فوج کے جوان بھارتی فوج کے چھکے چھڑانے کے لئے بے تاب تھے اور شہادت کے اعزاز کی قوت سے اسے پسپا کرنے پر تلے ہو ئے تھے۔۔

باعثِ حیف ہے کہ اسی فوج کے خلاف میاں محمد نواز شریف اور ان کی جماعت کے چند نا عاقبت اندیش راہنما آجکل الزا مات کی بوچھاڑ کر کے دشمن کے عزائم کی تکمیل کر رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کی آئینی حکومت کے خلاف شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا لیکن اس کے معنی ہرگز یہ نہیں کہ فوج کے پورے ادارے کو تنقید کا نشانہ بنا یا جائے۔ میاں محمد نواز شریف کو یاد ہو نا چائے کہ جنرل ضیا الحق نے ۵ جولائی ۷۷۹۱ کو ذوالفقار علی بھٹو کی آئینی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا تو میاں صاحب نے اسی ڈکٹیٹر کے زیرِ سایہ اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا اور جنرل ضیا الحق کی موت کے بعد اس کے مشن کو جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنا کر ان کی زندگی کا چرغ گل کیا گیا تھا ، پی پی پی کے جیالوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا تھا اور ان کی پیٹھوں کو کوڑوں کی بے رحم سزاﺅں سے لہو لہان کیا گیا تھا۔ ہزاروں جیالے جنرل ضیا الحق کی بربریت کا نشانہ بنے اور ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھا گیا اور اس ساری کاروائی میں میاں محمد نواز شریف جنرل ضیا الحق کے دستِ راست بن کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔پاکستان پیلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کو زندانوں کی بے رحم ساعتوں کے حوالے کیا گیا۔ اس نے نظر بندی کی صعوبتیں برداشت کیں ، مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کیا ،جلا وطنی کا زہر پیا اور اپنے عظیم باپ کی لاش وصول کی لیکن اس نے پھر بھی فوج کو بحثیتِ ادارہ کبھی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ جنرل ضیا الحق کو اس وقت بھی پی پی پی غاصب اور ڈکٹیٹر کے نام سے پکارتی تھی اور آج بھی اسکی سوچ یہی ہے کیونکہ جنرل ضیا الحق نے منتخب وزیرِ اعظم کو موت کی سزا دی تھی اور جمہوریت کا گلہ گھونٹا تھا لیکن آج تو یہ صورتِ حال نہیں ہے آج ملک میں جمہوریت کا دور دورہ ہے اور سب سے بڑے صوبے میں میاں صاحب کی اپنی حکومت ہے لہٰذا میاں صاحب کو فوج کو موردِ الزام ٹھہرانے سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ فوج کا ادارہ اپنی ساکھ برقرار رکھ سکے ،دنیا میں رسوائی سے بچ سکے، ازلی دشمن کو للکارنے کی تب و تاب قائم رکھ سکے اور عوام کے دلوں میں اسکی محبت کم نہ ہو سکے۔

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ جنرل ضیا الحق اور ایجنسیوں کی پیداوار سیاسی قیادت فوجی جُنتا کو جمہوریت کا درس دینے کا قصد کر رہی ہے تو آپ غلطی پر ہیں ۔میاں برادراں کو جمہوریت سے جتنی رغبت ہے وہ سب کے علم میں ہے کیونکہ اب بھی جرنیلوں سے رات کے اندھیروں میں چھپ چھپ کے ملاقاتیں ہوتی ہیں اور وعدے وعید کئے جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ میاں صاحب کے مشیروں نے میاں صاحب کے کان میں یہ بھنک ڈال دی ہے کہ پاکستانی فوج اور اسٹیبلشمنٹ اگلے انتخابات کے لئے عمران خان اور چند دوسری جماعتوں کا ا تحاد تشکیل دے کر ان کے خلاف ایک سازش کا منصوبہ بنا رہی ہے۔بس یہ سننا تھا کہ میاں صاحب غصے میں آپے سے باہر ہو گئے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ بس فوج کو بے سرو پا سنا دیں۔ انھیں شائد اس بات کا ادراک نہیں رہا کہ یہ وہی فوج ہے جس کے جوانوں نے سوات میں اپنی جانوں کے نذرانے دے کر پاکستان کی سالمیت اور یک جہتی کو قائم کیا ہے۔ ماﺅں کے کیسے کیسے جگر گوشے دھشت گردی کی اس جنگ میں اپنی جوانیاں لٹا چکے ہیں ۔ سبز ہلالی پرچم فوج کے جوانوں کے اس لہو کی طاقت سے پھریرے لیتا ہے جسے وطن کی عظمت اور سالمیت کی خاطر میرے وطن کے جوانوں نے بہا یا ہے اور میاں صاحب اقتدار کے کھیل میں ان کے لہو کی خوشبو کو فراموش کر رہے ہیں۔ میاں صاحب آپ سیا ست کریں اقتدار کی جنگ بھی لڑیں لیکن ان معصوم شہدا کے لہو کا تو کچھ پاس کریں جن کی بدولت میرے وطن کی آزادی اور سالمیت قائم ہے۔

ابھی تو کل کی بات ہے بھارت میں بمبئی دھماکے ہوئے تھے جس میں تاج ہوٹل نذرِ آتش ہوا۔ اس واردات کا یک کردار اجمل قصاب تھا جو آج بھی بھارتی قید میں ہے لیکن وہا ں پر تو سیکورٹی سے غفلت برتنے پرنہ تو کسی کا کورٹ مارشل نہیں ہوا اور نہ ہی کسی نے استعفے دیا ۔ یہی حال نائن الیون کے واقعے کا تھا جس میں ہزاروں لوگ لقمہِ اجل بنے تھے اور جس کی وجہ سے امریکہ نے افغانستان پر چڑھا ئی کی تھی اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی ۔ امریکی پارلیمنٹ نے اتنے بڑے واقعہ پر بھی ذ مہ داری کسی ایک فریق پر ڈال کر دوسرے فریق کو بری الذمہ نہیں کیا تھا بلکہ سارے حکومتی اہل کار سر جوڑ کر بیٹھے بہترین حکمتِ عملی ترتیب دی اور ٹریڈ سنٹر پر حملہ آوروں کے خلاف ایک مشرکہ لائحہ عمل طے ہوا اور اس پر عملدر آمد ہوا ۔ ۲ مئی کا واقعہ اسی مشترکہ حکمتِ عملی کا شاخسانہ ہے ۔ ہمارے لئے ۲ مئی قومی المیہ ہے کہ یہ واقعہ پاکستان میں ہوا اور ہماری حکومت کو اس پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔۲ مئی کے واقعہ پر صرف فوج کو نشانے پر رکھنا انتہائی غیر مناسب طرزِ عمل ہے جو ایک نئے سا نحے کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور ہماری سلامتی پر ایسا گہرا وار ہو سکتا ہے جس کا مداوا بڑی مشکل سے ہو سکے گا۔ فوج پر پہلے ہی بہت سے اندرونی اور بیرونی ہاتھ تنقید کر رہے ہیں جو فوج کے مورال کو متا ثر کر سکتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں دانشمندی کا مظاہرہ کریں اور کسی خاص ادارے کو اپنی سیاسی محرومیوں اور سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے نشانہ بنا نے کی بجا ئے قومی یک جہتی کے جذبات بیدار کریں کہ یہی ایک راستہ ہے جس میں پاکستان کی بقا ہے۔۔

فوج پر تنقید کرنے سے قبل ہمیں یہ نہیں بھولنا چائیے کہ ہمارے پڑوس میں ایک ایسا ملک بستا ہے جس کا نام بھارت ہے اور جس کی پاکستان سے ازلی دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بھارت کسی ایسے موقع کی تلاش میں ہے جب ہم اندر سے کمزور ہو جائیں، ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ شروع کر د یں اور باہم دست و گریباں ہو جائیں تاکہ اسے ہمیں زیر کرنے میں آسانی ہو جائے۔ مشرقی پاکستان میں بھی تو یہی ہوا تھا کہ ہم بحثیتِ قوم اپنی ایکتا کھو چکے تھے اور فوج پر مشرقی پاکستانیوں کا اعتماد متزلزل ہو گیا تھا۔ کیا میاں صاحب فوج کو موردِ الزام ٹھہرا کر اسی راہ کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں اور اس ملک کا شیرازہ بکھیرنا چاہتے ہیں۔ مجھے میاں صاحب کی حب ا لوطنی پر رتی برابر بھی شک نہیں ہے۔ ان کی ذات میں وطن سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہو ئی ہے لیکن جب غلط راہ کا انتخاب کر لیا جاتا ہے تو پھر وقت کا جبر اپنے فیصلے خود سنا تا ہے اس وقت کسی کا درد، کسی کا جنون ،کسی کا شعور ،کسی کی حب الوطنی اور کسی کی محبت کچھ کام نہیں آتی بلکہ ریاست کا غذ کی ایسی ناﺅ بن جاتی ہے جو طوفانی تھپیڑوں کے ر حم و کرم پر ہو تی ہے اور جس کی قسمت کا فیصلہ صرف طوفانی لہریں ہی کیا کرتی ہیں اور لوگ ساحل پر کھڑے چپ چاپ اپنی بے بسی کا منظر دیکھتے رہ جاتے ہیں جیسا منظر ہم نے ۸۱ دسمبر ۱۷۹۱ کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں دیکھا تھا۔۔۔
قا فلے میں آج میرِ کارواں کوئی نہیں۔۔۔یہ زمیں ایسی ہے جس پر آسماں کوئی نہیں
دشمنوں کی بے رخی کا تذکرہ کیسے کروں۔۔۔دوستوں کی بزم میں بھی مہرباں کوئی نہیں
(ڈاکٹر مقصود جعفری)
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 448928 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.