آ تجھ کو بتَاؤں تقدیر امَم کیَا ہے۔

آ تجھ کو بتَاؤں تقدیر امَم کیَا ہے۔شمشیر و سناں اوّل طَاؤس و رباب آخر (آخر نہیں بلکہ کبھی نہیں) آزادی کی آپ جو بھی تعریف کریں۔ مجھے نہیں معلوم مگر ایک بات میں جانتا ہوں کہ اسکے حاصل کرنے کے لئے بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ جان کی بازی لگا کر بھی اسے بچایا جا سکے تو یہ سودا سستا ہے۔ ہمیں کامیابی کے لئے دو ٹوک فیصلے کرنے پڑتے ہیں کنفیوژن ( تذبذب) ہمیں غلامی اور ذلّت کی موت دیتی ہے۔بڑی آسان مثال ہے۔ ٹریفک میں گاڑی چلانے والے جیسے ہی کنفیوژ ہوتے ہیں ،ذلّت کی موت کا سامنا ہوتا ہے۔ سیکڑوں گالیاں دیتے ہیں ۔کچھ کٹی پھٹی لاش پر ترس کھاتے ہیں بہت سے بھیڑ لگا لیتے ہیں کہ کوئی انکا پیارہ نہ ہو۔یہی کیفیت زندگی کے ساتھ ہر جگہ ہے۔

جو یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ زندہ رہنا ہے تو عزّت(آزادی) کے ساتھ ورنہ غلام بنانے والوں سے لڑ کر یا تو آزادی حاصل کرلیں گے۔یا جان دے دیں گے۔ وہ زندہ رہے تو کامیاب ۔مر گئے تو بھی کامیاب۔

آزادی کے لئے ساری زندگی شمشیرو سناں سے پیار کرنا پڑتا ہے۔اور طاؤس و رباب کا موقع کبھی آتا ہی نہیں ہے۔ اور جو اس فریب میں آ گیا وہ ذلت میں گر گیا۔

امن کی علمبرداری بھی ایک بڑا فریب ہے۔ جو بھی فسادی ہے امن کے نام پر فساد کرتا ہے۔

وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِىۡ الۡاَرۡضِۙ قَالُوۡٓا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ‏ ﴿۱۱﴾ اَلَا ٓ اِنَّهُمۡ هُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَلٰـكِنۡ لَّا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿۱۲﴾ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں، ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ﴿۱۱﴾ دیکھو یہ بلاشبہ مفسد ہیں، لیکن خبر نہیں رکھتے ﴿۱۲﴾ سورۃالبقرۃ۔

آپ سوچ رہے ہیں کہ تمہید بہت طویل ہو گئی ہے۔ نفس مضمون کیا ہے؟

ساری کہانی کی بنیاد یہ کرونا ہے۔ گوروں نے دنیا پہ قبضہ کیا جگہ جگہ اپنی کالونیاں بنایئں۔ حد سے زیادہ ظلم کیا۔ محکوم بنایا ہماری دولت لوٹ کر لے گئے۔ جب حکمرانی کے لئے نفری کم پڑ گئی تو غلا موں میں سے افسر شاہی تیّار کی اور اس پراکسی پر قوموں کو نقلی آزادی دی۔ مزید انکو اپنے اداروں کے ذریعہ پھر غلامی کا طوق پہنا دیا۔اس اقوام متّحدہ نے کبھی ان غریب اقوام کے لئے کچھ کیا؟ اور یہ غریب ہی انکی بڑی مارکیٹ ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن ۔انکی دوایئں اور ویکسین مارکیٹ کرنے کے لیئے ہمہ وقت مصروف کار رہتی ہے۔ہمیں کوئی اختیار نہیں کہ ہم ویکسین کو اپنی صوابدید پر رکھ سکیں۔ ہمارے ملک کو بھی اس ویکسین پر کسی تبصرے یا انکار کا کوئی حق نہیں ہے۔آپ کو معلوم ہی ہے کہ آ پ پولیو کی ویکسین پیئے بغیر ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ اور ویکسین کے چمتکار کا آپکو کچھ پتا نہیں۔ اور ہم نے کبھی فکر بھی نھیں کی کیونکہ مغرب پر ہمارا ایمان غیر متزلزل ہے۔

اسی طرح ویکسین کی خاطر کرونا کا مسئلہ کھڑا کیا گیا۔ کرونا کے اس فساد کی آڑ میں کس قدر افراد کو جان سے مار دیا گیا۔ کرونا کی خاطر جنرل او پی ڈی بند کر دی گئی اور ٹی بی، کینسر،ایچ آئی وی(ایڈ) ذیابیطس وغیرہ کے مریضوں کی مثَال دوں گا۔ کہ ان سب کی ہلاکتیں دوائیں نہ ملنے کی وجہ سے ہویئں۔ ان سب کو کرونا میں شمار کر دیا۔ اس کے ذریعہ اپنے مضمو م عزائم کے لئے طرز معاشرت بدلنے پر لگ گئے۔ اور ہمارے ادارے بھی عقل سے پیدل ہو گئے۔ اور دشمنوں کے بتائے ایس او پیزکو ایمان کا حصّہ سمجھنے لگے۔سائنس تو مغرب کی لونڈی ہے یہ جو بھی کہ دیں گے وہ ہی سائنس ہے۔ آکسیجن کی کمی تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔ آج کی اندھیر سائنس میں ماسک لگا کر آکسیجن چوسنا بہت ضروری ہے حالانکہ اس سے قوّت مدافعت کم ہو جا تی ہے۔ اسی طرح ایسا لباس جس کی وجہ سے جسم کی آکسیجن میں کمی ہو وہ بھی بہت نقصاندہ ہوتا ہے۔سوشل ڈسٹنسینگ کسی بھی شخص کی نفسیات کو صدمہ پہنچا سکتی ہے۔ اس طرح کی ایس او پیز کے سپورٹ میں ان کے پاس کوئی تحقیق نہیں ہے۔ مگر فساد فی الارض کے لیئے بہت ضروری ہے۔

بھارت میں کوئی تعؑجّب نہیں کہ مودی کی کرونا پرستی نے لا کھوں غریب مار دئے۔ہمارے ملک مِیں بہت عِرصِہ جمَہوریت کی پرستش کی گئی حَالانکہ علّامَہ اقبال نے کہا بھی تھا۔

جَمہوریت ایک طَرز حُکومت ہے جِس مِیں بَندوں کو گنَا کرتے ہیں تولا نِہیں کرتے

ادھر پاکستان کو کیا کہیں ۔ بھارت کی اسمبلی میں جاہل اور جرائم پیشہ افراد ہیں۔ ایک چائے والے کی کیا ہمّت جو گورے کی مرضی کے خلاف کچھ کر دے۔

بغیر سوچے سمجھے لاک ڈاؤن کر دیا غریب مزدوروں کو گھر جانے کا وقت بھی نہ دیا ۔اتنا بڑا ملک۔ چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کی طرف روزی کی تلاش میں ہزاروں آنے والے۔سو کلو میٹر سے چودہ سو کلو میٹر تک کا فاصلہ طے کرکے آئے تھے۔ مگر وہ ٹرینوں سے آئے تھے۔ اب اس بے غیرت بے رحم حکومت نے ٹرانسپورٹ بھی بند کردی۔اب غریبوں کے لئے کوئی سر چھپانے کی جگہ بھی نہ رہی۔ کھانے اور پانی کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ یہ لوگ ا ب گھروں اور گاؤں کو واپس گئے تو راستوں پر لاشوں میں تبدیل ہوتے رہے۔ آپ اندازہ کیجئے کہ اکیلا آدمی تیرہ سو کلو میٹر تک کتنا کھانا لے کر چل سکتا ہے جبکہ یہ بیچارے تو پورے خاندان سے تھے عورتیں بھی اور معصوم بچّے بھی تھے کیسی کربُ بلا سے واسطہ تھا۔ایک نامہ نگار ،برکھا دت

سڑک پر انسے بات کر رہی تھیں کسی کا مہینے بھر چلنے کا راستہ تھا کوئی کہہ رہا تھا تین مہِینے تک چلَتے رہے تو شائد کہ پہنچ جَایئں سَڑک پر کسی ٹرانسپورٹ کا نام و نشان نہ تھا۔ برکھا اس صورتحال سے بس رونے والی تھی۔

دلّی میں نظام الدین تبلیغی مرکز ہے وہاں ہزاروں مسلمان پھنس گئے تھے۔ مندروں میں یاتری بڑی تعداد میں پھنسے ہوئے تھے۔ ایک افرا تفری کا عالم ہو گیا۔ مگر اس چائے والے مودی کو شرم آئی نہ انسانوں پر رحم آیا۔ دلّی نظام الدین والوں نےکہاں کہاں درخواستیں نہیں دیں کہ کرفیو پاس بنا دو یہ مصیبت زدہ لوگ اپنے گھر پہنچ جایئں۔ مگر کسی کمبخت کے کان پر جوں نہ رینگی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ہندوؤں نے کرونا پھیلانے کا الزام مسلمانوں پر لگا یا۔ اس پر مار پیٹ مسلمانوں کا قتل کردینا عام ہو گیا۔

پاکستان میں بھی چند منحوس مغرب کے ٹکڑوں پر پلنے والوں نے چاہا کہ اموات بے شمار ہوں۔اور جھوٹے اعداد و شمار دیتے رہے۔ یہاں بھی او پی ڈی بند کردی تھی اور نہ جانے کتنے افراد اپنی جان سے گئے۔ مجھے نہیں اندازہ کے پاکستان میں بھی کرونا اموات کے بڑھانے پر پیسے دیئے گئے۔مگر یہ میڈیا والے کس کی خوش آمد میں بڑھا چڑھاکر اموات کی کمنٹری کر رہے تھے۔ ہم نے کسی گھر سے کرونا میں کوئی موت نہیں دیکھی۔ ہاں ہسپتالوں سےاس طرح کی ویڈیو وائرل ہوئی کہ مریض کو کرونا نہیں تھا اور اس بحث و تمحیث میں ایک مشہور ڈاکٹر کی موت ہو گئی۔

کوشش یہ بھی تھی کہ لوگ بھوک سے مر جایئں۔ غریب طبقہ بے روزگاری کی وجہ سے بھوک سے مرجاتا مگر اللہ ان پاکستانیوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے جنہوں نے رنگ ،نسل، مذہب،فرقے سے بالاتر ہو کر جس قدر ممکن ہوا کھانا پہنچایا۔ کراچی نہ جانے کسی کے انتقام کی زد میں تھا کہ یہاں لاک ڈاؤن ایسا لگانا چاہتے تھے کہ ایک دن میں سیکڑوں اموات ہو جاتیں۔ مگر اللہ کا کرم رہا کہ کراچی کی تنظیموں نے انتھک محنت کر کے کامیابی حاصل کی۔

اگر کوئی اس موضوع پر تھقیق کرے تو معلوم ہوگا کہ کرونا کے پھیلنے کے بارے میں جھوٹ بولا گیا۔ اداروں نے بھوکوں کو ایسے ہاتھ سے کھلایا کہ کھانے والے کے پیٹ کو بھی پتا نہ چلا۔ ماشاء اللہ جبھی تو دنیا میں پاکستانیوں کے ٹیلینٹ کی دھوم مچی ہوئی ہے۔

اموات کی کامنٹری کرتے ہوئے یہ کبھی نہیں بتایا کہ گذشتہ سال اسی مہینے میں شرح اموات کیا تھی۔

مضمون کی ابتداء میں ایک شعر لکھا تھا ۔ شمشیر و سناں اوّل۔۔۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ شمشیر و سناں کے اوّل نہ ہونے پر یہی ہوتا ہے جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ فساد روکنا سب سے زیادہ ضروری ہے اللہ فرماتا ہے کہ الفتنہ اشدّو من القتل ۔فتنہ قتل سے زیادہ شدید ہوتا ہے۔ سکھّوں کے ہاں تلوار نما ایک ہتھیار ہوتا ہے وہ اسکو کرپان کہتے ہیں۔ کیوں کہ ظالم کے ظلم سے نجات دلانے کے لئے اسکو استعمال کرتے ہیں تو معصوم پر یہ کرپا(مہربانی) ہی تو ہے۔

تقدیر اُمَم کافروں کی اطاعت سے نہیں لکھی جاتی۔ہماری نام نہا د آزادی کفر کی مرہون منت ہے۔ ورنہ کسی ملک پرجب امریکہ پابندیاں لگاتا ہے تو ہماری مجال ہے کہ ہم اس کے خلاف اس ملک سے اپنے رشتے قائم رکھ سکیں۔ اللہ ہمیں آزمائش میں نہ ڈالے کل جب ٹرمپ چائنا پر پابندیاں لگائے گا تو ہم کہاں کھڑے ہونگے۔

یہ کرونا بنی نوع انسان کے لئے ایک بہت بڑا فساد ہے ۔ اورخصوصی طور پر مسلمانوں کے لئے۔پوری دنیا میں اسکے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اور ہم دنیا سے بےخبر اسی بلگیٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارے میڈیا میں ایسے لوگ ہیں جو نعوذبااللہ پاکستا ن کو برباد دیکھنا چاہتے ہیں ۔ دنیا لاک ڈاؤن کے فریب سے باہر آ گئی ہے۔

ہم اسی فکر میں ہیں کہ ایس او پیز پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ میں اپنے حکمرانوں سے دست بستہ عرض کروں گا۔ کہ سب سے پہلے یہ تو دیکھاؤ کہ پاکستان حقیقی طور پر ایک آزاد مملکت ہے۔

اگر خدا نخواستہ پاکستان مینڈیٹری ویکسین کی زد میں آگیا تو پھر آزاد مملکت کا دعویٰ غلط۔اور اب بھی ہم اس کی زد میں ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ واقعہ میں تذکرہ کیا ہے کہ (افسوس) بائیں ہاتھ والے کیا (ہی عذاب میں) ہیں ﴿۴۱﴾ (یعنی دوزخ کی) لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی میں ﴿۴۲﴾ اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں ﴿۴۳﴾ (جو) نہ ٹھنڈا (ہے) نہ خوشنما ﴿۴۴

بایئں ہاتھ والوں کے ساتھ جو ہو گا اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے۔سائنس کی ساری اکڑ لمحے بھر میں نکل جائے گی۔ ایک مرتبہ کوئی قوم غلامی اختیار کرلے تو آزادی کا شعور بیدار ہونے میں صدیاں لگ جا تی ہیں۔

اللہ رب العزّت نےشرک کو ناقابلِ معافی گناہ بتایا ہے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟اور اس (وقت) مسلمان (تعجب سے) کہیں گے کہ کیا یہ وہی ہیں جو خدا کی سخت سخت قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ان کےعمل اکارت گئے اور وہ خسارے میں پڑ گئے ﴿۵۳﴾سورۃ مائدۃ
 

Syed Haseen Abbas Madani
About the Author: Syed Haseen Abbas Madani Read More Articles by Syed Haseen Abbas Madani: 58 Articles with 45086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.